*گھر میں سلام کی تحقیق*
مجہے ایک روایت معلوم کرنا ھے ایک واعظ نے بیان کیا: کہ حضور نے کسی صحابی سے فرمایا: تم جب گھر میں جاؤ تو کچھ دیر باہر قیام کرو! اور جب داخل ہوؤ تو سلام کرو, اور مجھے بھی سلام کرو, پھر سورہ اخلاص پڑھو, اس صحابی نے اسکا تجربہ کیا تو اسکے آس پڑوس میں بھی خوشحالی آگئی۔
کیا یہ بات درست ھے؟
*الجواب وبہ التوفیق:*
حضرت سہل بن سعد رضی ﷲ عنہ کی روایت کہ جب گھر میں جاؤ تو سلام کرو! اگر وہاں کوئی ہو .
اور اگر نہ ہو, تو مجھے سلام کرو, اور سورہ اخلاص پڑھو, اس شخص نے ایسا ہی کیا جسکانتیجہ یہ ہوا کہ اس شخص کے ساتھ ساتھ اسکے پڑوسی بھی خوش عیش ہوگئے۔
یہ روایت ضعیف سند کے ساتھ مروی ھے۔
روایت کے الفاظ:
🌀 جاء رجلٌ إلى النَّبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فشكا إليه الفقرَ وضيقَ العيشِ أو المعاشِ ، فقال له رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : إذا دخلتَ منزلَك فسلِّمْ إن كان فيه أحدٌ أو لم يكنْ فيه أحدٌ ، ثمَّ سلِّم عليَّ واقرأْ { قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ } مرَّةً واحدةً . ففعل الرَّجلُ فأدرَّ اللهُ عليه الرِّزقَ حتَّى أفاض على جيرانِه وقراباتِه.
الراوي: سهل بن سعد الساعدي
المحدث: السخاوي
المصدر: القول البديع
الصفحة: 273
الناشر : مؤسس الريان، المدينة المنورة،
خلاصة حكم المحدث: إسناده ضعيف.
♻ نیز اس میں جو حضور کو سلام کرنے کاذکر ھے یہ متعین نہیں یعنی دوسری جگہ الفاظ یہ ہیں کہ اگر گھر میں کوئی موجود نہ ہو تو داخل ہونے والا خود کو سلام کرے۔ یعنی حضور کو سلام کرنے کا ذکر نھیں ھے۔
💠 عن سهل بن سعد الساعديّ قال: شكا رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الفقر وضيق المعيشة، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا دخلتَ البيت فسلِّمْ إن كان فيه أحد، وإن لم يكن فيه أحد فسلم عليّ، واقرأ: قُلْ هُوَ الله أَحَدٌ مرة واحدة ـ ففعل الرجل فأدرّ الله عليه الرزق، حتى أفاض على جيرانه ـ
قال محقق الكتاب: أورده الرازي في تفسيره وفيه: *وإن لم يكن فيه أحد فسلم على نفسك بدل .... فسلم علي*َ، ولم نقف عليه في مصادر التخريج، وهذا هو اللفظ الثاني وهو: فسلم على نفسك.....
المصدر: تفسير الجامع لاحكام القرآن — القرطبي—
المجلد: 22
الصفحة: 566
الناشر: مؤسس الرسالة، بيروت، لبنان.
☪ معلوم ہوا کہ حضور کو سلام کرنے کی اصل بقول امام رازی غیر معلوم ھے۔ یعنی اسکی اصل نہیں ھے۔ اور سخاوی رح کی روایت کردہ بات کو دیگر محدثین کرام نے بہت ھی زیادہ کمزور بتایا ھے ۔اسلئے اسکو بیان کرنے سے بچنا چاھئے۔
*فائدہ:* اگر سخاوی کی نقل کردہ روایت کو دیکہا جائے تب بہی اس سے حضور کے حاضر ناظر ہونے کا ثبوت نہیں ہوگا؛ کیونکہ حضور کو سلام پیش کرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ھے کہ حضور گھر میں موجود ہیں ؛ بلکہ حضور کو اگر سلام پیش کیا جاتا ھے تو ﷲ کے کچھ فرشتے ہیں جو سلام لیکر حضور کی خدمت عالیہ میں پہونچتے ہیں اور سلام پیش فرماتے ہیں۔ بس معلوم ہوا کہ ایک مخصوص طبقہ اس کمزور روایت سے جو اپنا غلط نظریہ ثابت کرتا ھے وہ بیجا ھے شرعا اسکا کوئی ثبوت نہیں۔
💠 عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( إن لله ملائكة سياحين في الأرض يبلغوني من أمتي السلام )
ترجمة: ﷲ کے کچھ فرشتے ہیں جو دنیا میں گھوم پھرتے ہیں, ان کی ذمہ داری یہ ھے کہ جب کوئی امتی حضور کو سلام پیش کرتا ھے تو یہ فرشتے اسکا سلام جناب نبی کریم کی خدمت اقدس میں پہونچادیتے ہیں۔ یہ حدیث بلحاظ سند صحیح ھے۔
( سنن النسائی . ص: 151, حدیث:1282.ط: بیت الافکار الدولی الریاض,)
⏺ اور اس سے ملتی جلتی ایک روایت اور ھے کہ اگر تم مسجد میں داخل ہوؤ اور وہاں کوئی نہ ہو تو پڑھو: *السلام علی رسولﷲ* اور گھر میں داخل ہوؤ اور وہاں کوئی نہ ہو تو پڑھو *السلام علینا وعلی عبادہ الصالحین*
اس روایت کے بارے میں علامہ سخاوی رح فرماتے ہیں کہ مجھے اسکی اصل نہیں مل سکی۔
( القول البدیع /صفحة: 413.ط: مؤسس الريان، المدينة المنورة، السعودية. )
البتہ اتنا ضرور ھے کہ اگر کسی گھر میں داخل ہوں تو دخول کے وقت سلام کیا جائے
اب یہ گھر تین طرح کا ہوسکتا ھے :
1) وہاں کوئی مسلم موجود ھے تو "السلام عليكم ورحمة الله وبركاته" کہے۔
2) اور اگر وہاں کوئی بھی نہ ہو تو "السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين "، کہے,
3) اور اگر وہ گھر ایسا ہو کہ وہاں کوئی مسلم نہیں ھے؛ بلکہ غیر مسلم ھے تو"السلام على من اتبع الهدى ،" کہے یا "السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين "
کہے۔
اسکا ثبوت امام بخاری کی "الادب المفرد" نامی کتاب میں ھے۔
🔰 عن ابن عمر رضي الله عنهما قال : إذا دخل البيت غير المسكون فليقل : السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين .
قال الحافظ في الفتح: سنده حسن.
( الادب المفرد, ص: 407,حدیث: 1055,ط:مكتبة الدليل، السعودية.)
والله تعالى اعلم
كتبه: *محمد عدنان وقار صديقي*
مجہے ایک روایت معلوم کرنا ھے ایک واعظ نے بیان کیا: کہ حضور نے کسی صحابی سے فرمایا: تم جب گھر میں جاؤ تو کچھ دیر باہر قیام کرو! اور جب داخل ہوؤ تو سلام کرو, اور مجھے بھی سلام کرو, پھر سورہ اخلاص پڑھو, اس صحابی نے اسکا تجربہ کیا تو اسکے آس پڑوس میں بھی خوشحالی آگئی۔
کیا یہ بات درست ھے؟
*الجواب وبہ التوفیق:*
حضرت سہل بن سعد رضی ﷲ عنہ کی روایت کہ جب گھر میں جاؤ تو سلام کرو! اگر وہاں کوئی ہو .
اور اگر نہ ہو, تو مجھے سلام کرو, اور سورہ اخلاص پڑھو, اس شخص نے ایسا ہی کیا جسکانتیجہ یہ ہوا کہ اس شخص کے ساتھ ساتھ اسکے پڑوسی بھی خوش عیش ہوگئے۔
یہ روایت ضعیف سند کے ساتھ مروی ھے۔
روایت کے الفاظ:
🌀 جاء رجلٌ إلى النَّبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فشكا إليه الفقرَ وضيقَ العيشِ أو المعاشِ ، فقال له رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : إذا دخلتَ منزلَك فسلِّمْ إن كان فيه أحدٌ أو لم يكنْ فيه أحدٌ ، ثمَّ سلِّم عليَّ واقرأْ { قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ } مرَّةً واحدةً . ففعل الرَّجلُ فأدرَّ اللهُ عليه الرِّزقَ حتَّى أفاض على جيرانِه وقراباتِه.
الراوي: سهل بن سعد الساعدي
المحدث: السخاوي
المصدر: القول البديع
الصفحة: 273
الناشر : مؤسس الريان، المدينة المنورة،
خلاصة حكم المحدث: إسناده ضعيف.
♻ نیز اس میں جو حضور کو سلام کرنے کاذکر ھے یہ متعین نہیں یعنی دوسری جگہ الفاظ یہ ہیں کہ اگر گھر میں کوئی موجود نہ ہو تو داخل ہونے والا خود کو سلام کرے۔ یعنی حضور کو سلام کرنے کا ذکر نھیں ھے۔
💠 عن سهل بن سعد الساعديّ قال: شكا رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الفقر وضيق المعيشة، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا دخلتَ البيت فسلِّمْ إن كان فيه أحد، وإن لم يكن فيه أحد فسلم عليّ، واقرأ: قُلْ هُوَ الله أَحَدٌ مرة واحدة ـ ففعل الرجل فأدرّ الله عليه الرزق، حتى أفاض على جيرانه ـ
قال محقق الكتاب: أورده الرازي في تفسيره وفيه: *وإن لم يكن فيه أحد فسلم على نفسك بدل .... فسلم علي*َ، ولم نقف عليه في مصادر التخريج، وهذا هو اللفظ الثاني وهو: فسلم على نفسك.....
المصدر: تفسير الجامع لاحكام القرآن — القرطبي—
المجلد: 22
الصفحة: 566
الناشر: مؤسس الرسالة، بيروت، لبنان.
☪ معلوم ہوا کہ حضور کو سلام کرنے کی اصل بقول امام رازی غیر معلوم ھے۔ یعنی اسکی اصل نہیں ھے۔ اور سخاوی رح کی روایت کردہ بات کو دیگر محدثین کرام نے بہت ھی زیادہ کمزور بتایا ھے ۔اسلئے اسکو بیان کرنے سے بچنا چاھئے۔
*فائدہ:* اگر سخاوی کی نقل کردہ روایت کو دیکہا جائے تب بہی اس سے حضور کے حاضر ناظر ہونے کا ثبوت نہیں ہوگا؛ کیونکہ حضور کو سلام پیش کرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ھے کہ حضور گھر میں موجود ہیں ؛ بلکہ حضور کو اگر سلام پیش کیا جاتا ھے تو ﷲ کے کچھ فرشتے ہیں جو سلام لیکر حضور کی خدمت عالیہ میں پہونچتے ہیں اور سلام پیش فرماتے ہیں۔ بس معلوم ہوا کہ ایک مخصوص طبقہ اس کمزور روایت سے جو اپنا غلط نظریہ ثابت کرتا ھے وہ بیجا ھے شرعا اسکا کوئی ثبوت نہیں۔
💠 عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( إن لله ملائكة سياحين في الأرض يبلغوني من أمتي السلام )
ترجمة: ﷲ کے کچھ فرشتے ہیں جو دنیا میں گھوم پھرتے ہیں, ان کی ذمہ داری یہ ھے کہ جب کوئی امتی حضور کو سلام پیش کرتا ھے تو یہ فرشتے اسکا سلام جناب نبی کریم کی خدمت اقدس میں پہونچادیتے ہیں۔ یہ حدیث بلحاظ سند صحیح ھے۔
( سنن النسائی . ص: 151, حدیث:1282.ط: بیت الافکار الدولی الریاض,)
⏺ اور اس سے ملتی جلتی ایک روایت اور ھے کہ اگر تم مسجد میں داخل ہوؤ اور وہاں کوئی نہ ہو تو پڑھو: *السلام علی رسولﷲ* اور گھر میں داخل ہوؤ اور وہاں کوئی نہ ہو تو پڑھو *السلام علینا وعلی عبادہ الصالحین*
اس روایت کے بارے میں علامہ سخاوی رح فرماتے ہیں کہ مجھے اسکی اصل نہیں مل سکی۔
( القول البدیع /صفحة: 413.ط: مؤسس الريان، المدينة المنورة، السعودية. )
البتہ اتنا ضرور ھے کہ اگر کسی گھر میں داخل ہوں تو دخول کے وقت سلام کیا جائے
اب یہ گھر تین طرح کا ہوسکتا ھے :
1) وہاں کوئی مسلم موجود ھے تو "السلام عليكم ورحمة الله وبركاته" کہے۔
2) اور اگر وہاں کوئی بھی نہ ہو تو "السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين "، کہے,
3) اور اگر وہ گھر ایسا ہو کہ وہاں کوئی مسلم نہیں ھے؛ بلکہ غیر مسلم ھے تو"السلام على من اتبع الهدى ،" کہے یا "السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين "
کہے۔
اسکا ثبوت امام بخاری کی "الادب المفرد" نامی کتاب میں ھے۔
🔰 عن ابن عمر رضي الله عنهما قال : إذا دخل البيت غير المسكون فليقل : السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين .
قال الحافظ في الفتح: سنده حسن.
( الادب المفرد, ص: 407,حدیث: 1055,ط:مكتبة الدليل، السعودية.)
والله تعالى اعلم
كتبه: *محمد عدنان وقار صديقي*