Monday, November 19, 2018

کتا توہین رسالت برداشت نہ کرسکا

*کُتّا بھی توہین رسالت برداشت نہ کر سکا*

 ایک واقعہ کثرت سے حالیہ دنوں توہین رسالت کے متعلق سوشل میڈیا پر نشر ہورہا ھے جس میں ایک کتے کا عجیب و غریب عمل ( مرتکب اہانت کے قتل) کا ذکر ھے , مجہے اس واقعہ کی تحقیق مطلوب ھے, واقعہ یہ ھے:

شارح بخاری حضرت امام حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ  نے ایک کتے کا ذکر کیا ہے, جس نے رسول اللہ ﷺ کے دشمن کو کاٹ کھایا.

"ایک دن عیسائیوں کے بڑے پادریوں کی ایک جماعت منگولوں کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے روانہ ہوئی. جو ایک منگول شہزادے کی عیسائیت قبول کرنے پر منعقد کی گئی تھی، اس تقریب میں ایک عیسائی مبلغ نے رسول اللہ ﷺ کو گالی بکی، قریب ہی ایک شکاری کتا بندھا ہوا تھا. جو اس کی طرف سے گالی بکنے پر چھلانگیں مارنے لگا. اور زوردار جھٹکا دے کر رسی نکالی. اور اس بدبخت  پر ٹوٹ پڑا. اور اس کو کاٹ لیا. لوگوں نے آگے بڑھ کر اس کتے کو قابو کیا. اور پیچھے ہٹا یا، تقریب میں موجود بعض لوگوں نے کہا کہ یہ محمد (ﷺ) کے خلاف تمہاری گفتگو کی وجہ سے ہوا ہے، اس گستاخ  نے کہا. بالکل نہیں،
بلکہ یہ خودار کتا ہے. جب اس نے بات چیت کے دوران مجھے دیکھا کہ میں بار بار ہاتھ اٹھا رہا ہوں. اس نے سمجھا کہ میں اس کو مارنے کے لیے ہاتھ اٹھا رہاہوں. تو اس نے مجھ پر حملہ کر دیا، یہ کہہ کر اس بد بخت نے ہمارے محبوب ﷺ کو پھر گالی بکی. اس بار کتے نے رسی کاٹ دی.  اور سیدھا اس ملعون  پرچھلانگ لگا کر اس کی منحوس گردن کو دبوچ لیا. اور وہ فورا ہلاک ہو گیا،
اس کو دیکھ کر 40000 (چالیس ہزار) منگولوں نے اسلام قبول کیا"

(الدرر الکامنہ 3/ 203)

اور امام الذھبی نے اس قصے کو صحیح اسناد کے ساتھ " معجم الشیوخ "صفحہ 387 پر نقل کیا ہے ، اس واقعے کے عینی شاہد جمال الدین نے کہا ہے کہ

" اللہ کی قسم کتے نے میری آنکھوں کے سامنے اس ملعون گستاخ کوکاٹا اور اس کی گردن کو دبوچا جس سے وہ ہلاک ہو گیا"

➖➖➖➖➖
••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:*

توہین رسالت ایک عظیم ترین جرم ھے, جسکی تفصیل کتب احادیث و فقہ میں مذکور ھے,

آپ نے جس واقعہ کے متعلق معلوم کیا ھے وہ واقعہ سوال میں ذکر کردہ دونوں کتابوں میں مروی ھے.. اور واقعہ کے راوی "زین علی بن مرزوق" ثقہ اور بھروسے مند ہیں؛ لہذا اس واقعے کو نشر و بیان کرنا درست ھے۔

💠 *معجم الشیوخ کی عبارت*

عَلِيُّ بْنُ مَرْزُوقِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ الثِّقَةُ الْعَالِمُ زَيْنُ الدِّينِ أَبُو الْحَسَنِ الرَّبْعِيُّ السَّلامِيُّ الْمَوْصِلِيُّ التَّاجِرُ
وُلِدَ سَنَةَ خَمْسِينَ وَسِتِّ مِائَةٍ.

وَرَكِبَ الْبِحَارَ لِلتِّجَارَةِ وَرَأَى الْعَجَائِبَ، وَكَانَ ذَا رَأْيٍ، وَعَقْلٍ، وَشَجَاعَةٍ، وَدِيَانَةٍ، وَعَاشَ سَبْعِينَ سَنَةً.

حَدَّثَنَا الزَّيْنُ عَلِيُّ بْنُ مَرْزُوقٍ، بِحَضْرَةِ شَيْخِنَا تَقِيِّ الدِّينِ الْمِنْصَاتِيِّ، سَمِعْتُ الشَّيْخَ جَمَالَ الدِّينِ إِبْرَاهِيمَ بْنَ مُحَمَّدٍ الطَّيْبِيَّ ابْنَ الْوَاصِلِيِّ يَقُولُ فِي مَلإٍ مِنَ النَّاسِ: حَضَرْتُ عِنْدَ سونجق خزندار هُولاكُو وَأَبَغَا، وَكَانَ مِمَّنْ تَنَصَّرَ مِنَ الْمَغُولِ، وَذَلِكَ فِي دَوْلَةِ أَبَغَا فِي أَوَّلِهَا، وَكُنَّا فِي مُخَيَّمِهِ، وَعِنْدَهُ جَمَاعَةٌ مِنْ أُمَرَاءِ الْمَغُولِ، وَجَمَاعَةٌ مِنْ كِبَارِ النَّصَارَى فِي يَوْمِ ثَلْجٍ، فَقَالَ نَصْرَانِيٌّ كَبِيرٌ لَعِينٌ: أَيُّ شَيْءٍ كَانَ مُحَمَّدٌ؟ يَعْنِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ رَاعِيًا، وَقَامَ فِي نَاسٍ عَرَبٍ جِيَاعٍ فَبَقِيَ يُعْطِيهِمُ الْمَالَ وَيَزْهَدُ فِيهِ فَيَرْبُطُهُمْ، وَأَخَذَ يُبَالِغُ فِي تَنَقُّصِ الرَّسُولِ، وَهُنَاكَ كَلْبُ صَيْدٍ عَزِيزٌ عَلَى سونجق فِي سِلْسِلَةِ ذَهَبٍ فَنَهَضَ الْكَلْبُ، وَقَلَعَ السِّلْسِلَةَ وَوَثَبَ عَلَى ذَاكَ النَّصْرَانِيِّ فَخَمَشَهُ وَأَدْمَاهُ، فَقَامُوا إِلَيْهِ فَقَامُوا إِلَيْهِ، وَكَفُّوهُ عَنْهُ وَسَلْسَلُوهُ، فَقَالَ بَعْضُ الْحَاضِرِينَ: هَذَا لِكَلامِكَ فِي مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَتَظُنُّونَ أَنَّ هَذَا مِنْ أَجْلِ كَلامِي فِي مُحَمَّدٍ؟ لا، وَلَكِنَّ هَذَا كَلْبٌ عَزِيزُ النَّفْسِ رَآنِي أُشِيرُ بِيَدِي فَظَنَّ أَنِّي أُرِيدُ ضَرْبَهُ فَوَثَبَ، ثُمَّ أَخَذَ أَيْضًا يَتَنَقَّصُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَزِيدُ فِي ذَلِكَ فَوَثَبَ إِلَيْهِ الْكَلْبُ، ثَانِيًا وَقَطَعَ السِّلْسِلَةَ وَافْتَرَسَهُ، وَاللَّهِ الْعَظِيمِ، وَأَنَا أَنْظُرُ ثُمَّ عَضَّ عَلَى زَرْدَمَتِهِ فَاقْتَلَعَهَا فَمَاتَ الْمَلْعُونُ.
وأسلم بسب هذه الواقعة العظيمة من المغل نحو من أربعين ألفا، واشتهرت الواقعة.

⬛ المصدر: معجم الشيوخ
      المؤلف: العلامة ذهبي
      الصفحة:387
 
      الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت لبنان.
      درجة: راويه ثقة،


🔰المصدر:  الدرر الكامنة
     المؤلف: ابن حجر العسقلاني
     المجلد: 3
     الصفحة:128
     الناشر: دائرة المعارف العثمانية  حيدر آباد، انديا.


والله تعالي أعلم
✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار الصديقي*