◼ *توہینِ رسالت اور بچوں کی جانب سے انتقام*:◼
🌀 امام "زمحشری" نے اپنی کتاب " ربیع الابرار" میں بحرین کے بچوں کا یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ:"بچے ایک بار صوالجہ (ڈنڈا اورگیند کےساتھ کھیلا جاتا ہے) کھیلنے کے لیےنکلے، کھیل کے دوران گیند جا کر نصرانیوں کے ایک پادری کو لگی، اس نے گیند قبضے میں لے لی اور بچوں کو واپس کرنے سے انکار کر دیا، بچوں نے باربار اس سے گیند واپس کرنے کا مطالبہ کیا؛ مگر اس نے نہیں انکار کیا، تب ایک بچے نے کہا: " محمد ﷺ کی خاطر ہماری گیند ہمیں واپس کردو! اس پر بھی پادری نے انکار کیا اور نبی ﷺ کی شان میں گستاخانہ گفتگو کی!! یہ سنتے ہی سارے بچےاپنے ڈنڈوں کے ساتھ پادری پر حملہ آور ہوئے اوراس قدر مارا کہ وہ پادری مرگیا۔
یہ عمر بن الخطاب کی خلافت کا زمانہ تھا اور اس کا ذکر عمر رضی اللہ عنہ سے کیا گیا تو اس قدر خوش ہوئے کہ کسی بڑی سے بڑی فتح پر بھی اتنے خوش نہیں ہوئے تھے نہ کبھی کسی بڑی سے بڑی غنیمت پر اتنے خوش ہوئے تھے۔ فرمایا : "اب اسلام غالب آچکا ہے کہ چھوٹے بچے بھی توہین رسالت کا بدلہ لے سکتے ہیں اور اپنے نبیﷺ کی مدد کرسکتے ہیں"۔
اس واقعہ کا حوالہ درکار ھے!
••• *باسمه تعالی*•••
*الجواب وبه التوفیق:*
دنیا کے کسی بھی خطے کسی بھی گوشے میں بسنے والے مسلمان خواہ وہ کسی بھی مسلک و جماعت سے تعلق رکہتے ہوں؛ لیکن جب بات گستاخی رسول ﷺ كي ہو تو سب ایک قوم ایک ملت بن کر اس گستاخی کی سزا اور اسکے سد باب کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں؛ کیونکہ مسلمان خواہ کیسا بھی ہو لیکن اسکا دل حب نبویﷺ سے ضرور سرشار رہتا ھے وہ بحیثیت ایک محمدی و امتی ہونے کے اس بات کو قطعی برداشت نہیں کرسکتا کہ نبی آخر الزماں ﷺ کی شان اقدس میں کوئی تنقیصی جملہ کہا جائے اور یہ بات قابل مدح بہی ھے؛ کیونکہ آپ ﷺ کی ذات مبارکہ رب کے بعد سب سے اعلی وبالا ھے, اس کے متعلق ہم فقہی رو سے فقط اتنا عرض کرینگے کہ: جو شخص کافر ہو یا مسلم، سید الاولین والآخرین، شفیع المذنبین، رحمۃ للعالمین، حضرت محمد مصطفٰی، احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہنسی اُڑاتا ہے، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وزندگی کے کسی گوشے کے بارے میں استِہزائیہ انداز اختِیار کرتا ہے، یا آپ کی توہین وتنقیص کرتا ہے، یا آپ کی شان میں گستاخی کرتا ہے، یا آپ کو گالی بَکتا ہے، یا آپ کی طرف بُری باتوں کو منسوب کرتا ہے، یا آپ کی ازواجِ مطہرات اور امہات المؤمنین - رضی اللہ عنہن- کے حق میں نازیبا باتیں کرتا ہے، یا حضراتِ صحابۂ کرام - رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین- کی شان میں نامناسب ونا درست الفاظ استِعمال کرتا ہے، … ایسا آدمی سراسر کافر، مرتد، زندیق وملحد ہے، اگر ایسا شخص کسی مسلم ملک میں یہ حرکت کرتا ہے، تو اس کو کیفرِ کردار تک پہنچانا (قتل کرنا)مسلم حکومت پر واجب ہے۔
تاہم یہ اجرائے سزا و نفاذِ تعزیر حکومت کی ذمہ داری ھوگی ہر کس و ناکس کو یہ اختیار نہیں ہوگا کہ وہ اپنے طور سے اس گستاخ کو اسکے انجام تک پہونچائے ؛ البتہ اتنا ضرور ھے کہ اگر حکومت وقت اس کی گستاخی کے ثبوت مل جانے کے بعد بہی سزا و تعزیر میں سستی و چشم پوشی کرتی ھے تو اہل اسلام پر امن طریقے سے اپنا احتجاج درج کراسکتے ہیں.
غرضیکہ جس واقعے کی بابت آپ نے دریافت کیا ھے اس میں چند مسلم بچوں نے ایک گستاخ رسول ﷺکو عشق مصطفوی کے جذبات سے سرشار ہوکر اسکو قتل کردیا ؛ گو کہ شرعا یہ اختیار ان بچوں کو نہیں تہا لیکن احناف کے یہاں مسئلہ شرعیہ یہ ھے: کہ اگر یہ گستاخی کسی مسلم سے سرزد ہو اور اس کا پختہ ثبوت بہی ہو تو ایسا مسلم شخص مرتد ھے اور واجب القتل ھے اور اگر وہ غیر مسلم ہو تو حاکم وقت اپنی صوابدید سے اس کو جو سزا دینا چاہے دے سکتا ھے لیکن جمہور فقہاء کا مذہب یہ ھے کہ کہ گستاخ خواہ کوئی ہو اسکی سزا قتل ہی ھے ,یہی وجہ ھے کہ ملک خداداد پاکستان میں جو قانون گستاخ کے قتل کا ھے وہ بالکل بجا ھے؛ کیونکہ حکم الحاکم رافع للخلاف ہوا کرتا ھے.
ہاں حکومت کے علاوہ کوئی عام آدمی اس گستاخ کو قتل کردیتا ھے تو اس کو قصاصا قتل نہیں کیا جایئگا؛ لیکن اسکا یہ عمل عدم جواز پر محمول کیا جایئگا اور اللہ سے امید رکہی جایئگی کہ اسکے ساتھ عفو و غفران کا معاملہ ہو.
🔅 اب ہم اس واقعہ کے حوالے کی جانب رجوع کرتے ہیں : یہ واقعہ علامة" زمخشری"__467-538ھ__ رح نے اپنی کتاب " ربیع الابرار فی نصوص الاخبار" میں ذکر کیا ھے۔
*اس واقعہ کی عربی عبارت*:
🔰 خرج غلمان من أهل البحرين يلعبون بالصوالجة، وأسقف البحرين قاعد، فصكت الكرة صدره فأخذها، فجعلوا يطلبون إليه في ردها، فأبى، فقال غلام منهم: أسألك بحق محمد لما رددتها علينا، فشتم رسول الله، فأقبلوا عليه بصوالجهم وما زالوا يخبطونه حتى مات.
فرفع ذلك إلى عمر رضي الله عنه، فوالله ما فرح بفتح ولا غنيمة من غنائم المسلمين كفرحه بقتل أولئك الغلمان السقف، وقال: الآن عز الإسلام، إن غلمة صغارا سمعوا شتم نبيهم فغضبوا له وانتصروا. ثم اهدر دم الأسقف.
المصدر: ربيع الابرار في نصوص الاخبار
المؤلف: محمود بن عمر الزمخشري،
الصفحة: 30
المجلد: 5
الناشر: مؤسسة الاعلمي، بيروت، لبنان.
( *فائدة*)
1⃣ کوئی بات اگر حدیث نہ ہو اور وہ شرعی نقطہ نظر سے کسی نص سے متصادم نہ ہو تو اسکو حدیث کا عنوان دئیے بغیر بیان کیا جاسکتا ھے, حکایات میں سند کی تفتیش (جبکہ اس میں کوئی الزام یا خرابی نہ ہو )بے جا غلو ھے؛ حکمت کی باتیں جہاں بہی ملیں ان کو لے لو, محدثین نے خود حکایات کے باب میں سند کے متعلق نرم پہلو اختیار کیا ھے۔
2⃣کیونکہ سند کی اہمیت خاص طور پر وہاں ھے جہاں امر شرعی بیان کیا جارہا ہو۔سند مل جائے تو عمدہ بات ھے ورنہ چشم پوشی کی جائے۔
1⃣قال الصغانی: اذا علم ان حدیثا متروک او موضوع, فلیروہ ولکن لا یقول علیہ: قال رسولﷲ صلیﷲ علیہ وسلم۔
ترجمہ: اگر کسی روایت کے متعلق معلوم ہو کہ وہ متروک یا منگھڑت ھے لیکن وہ نص شرعی سے متصادم نہ ہو تو اسکو حدیث کا عنوان دئیے بغیر بیان کرنا درست ہوگا۔
تذکرة الموضوعات،
صفحة: 8.
مؤلف:العلامة محمد طاہر الفتني الهندی.
مطبع:ادارةالطباعةالمنيرية.مصر
2⃣ واما اخبار الصالحین وحکایات الزاھدین والمتعبدین ومواعظ البلغاء وحکم الادباء, فالاسانید زینة لها.وليست شرطا لتاديتها.
*ترجمہ* جہاں تک نیک لوگوں کے واقعات, اللہ والوں عبادت گزاروں کی حکایات, مقریرین کے وعظ, ادباء کی نصیحتوں کی بات ھے, تو ان کی سند کی محض خوبصورتی اور زینت ہوگی اسکے بیان و نشر کرنے کے لیے شرط قرار نہیں دیجایئگی۔
نوادر الحديث
الصفحة: 41
المؤلف: الشيخ يونس الجونفوري.
الناشر:ادارة إفادات أشرفية دوبگه هردوئي روڈ لكناؤ .
__________
والله تعاليٰ أعلم
✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار الصديقي*
23/12/2018
🌀 امام "زمحشری" نے اپنی کتاب " ربیع الابرار" میں بحرین کے بچوں کا یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ:"بچے ایک بار صوالجہ (ڈنڈا اورگیند کےساتھ کھیلا جاتا ہے) کھیلنے کے لیےنکلے، کھیل کے دوران گیند جا کر نصرانیوں کے ایک پادری کو لگی، اس نے گیند قبضے میں لے لی اور بچوں کو واپس کرنے سے انکار کر دیا، بچوں نے باربار اس سے گیند واپس کرنے کا مطالبہ کیا؛ مگر اس نے نہیں انکار کیا، تب ایک بچے نے کہا: " محمد ﷺ کی خاطر ہماری گیند ہمیں واپس کردو! اس پر بھی پادری نے انکار کیا اور نبی ﷺ کی شان میں گستاخانہ گفتگو کی!! یہ سنتے ہی سارے بچےاپنے ڈنڈوں کے ساتھ پادری پر حملہ آور ہوئے اوراس قدر مارا کہ وہ پادری مرگیا۔
یہ عمر بن الخطاب کی خلافت کا زمانہ تھا اور اس کا ذکر عمر رضی اللہ عنہ سے کیا گیا تو اس قدر خوش ہوئے کہ کسی بڑی سے بڑی فتح پر بھی اتنے خوش نہیں ہوئے تھے نہ کبھی کسی بڑی سے بڑی غنیمت پر اتنے خوش ہوئے تھے۔ فرمایا : "اب اسلام غالب آچکا ہے کہ چھوٹے بچے بھی توہین رسالت کا بدلہ لے سکتے ہیں اور اپنے نبیﷺ کی مدد کرسکتے ہیں"۔
اس واقعہ کا حوالہ درکار ھے!
••• *باسمه تعالی*•••
*الجواب وبه التوفیق:*
دنیا کے کسی بھی خطے کسی بھی گوشے میں بسنے والے مسلمان خواہ وہ کسی بھی مسلک و جماعت سے تعلق رکہتے ہوں؛ لیکن جب بات گستاخی رسول ﷺ كي ہو تو سب ایک قوم ایک ملت بن کر اس گستاخی کی سزا اور اسکے سد باب کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں؛ کیونکہ مسلمان خواہ کیسا بھی ہو لیکن اسکا دل حب نبویﷺ سے ضرور سرشار رہتا ھے وہ بحیثیت ایک محمدی و امتی ہونے کے اس بات کو قطعی برداشت نہیں کرسکتا کہ نبی آخر الزماں ﷺ کی شان اقدس میں کوئی تنقیصی جملہ کہا جائے اور یہ بات قابل مدح بہی ھے؛ کیونکہ آپ ﷺ کی ذات مبارکہ رب کے بعد سب سے اعلی وبالا ھے, اس کے متعلق ہم فقہی رو سے فقط اتنا عرض کرینگے کہ: جو شخص کافر ہو یا مسلم، سید الاولین والآخرین، شفیع المذنبین، رحمۃ للعالمین، حضرت محمد مصطفٰی، احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہنسی اُڑاتا ہے، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وزندگی کے کسی گوشے کے بارے میں استِہزائیہ انداز اختِیار کرتا ہے، یا آپ کی توہین وتنقیص کرتا ہے، یا آپ کی شان میں گستاخی کرتا ہے، یا آپ کو گالی بَکتا ہے، یا آپ کی طرف بُری باتوں کو منسوب کرتا ہے، یا آپ کی ازواجِ مطہرات اور امہات المؤمنین - رضی اللہ عنہن- کے حق میں نازیبا باتیں کرتا ہے، یا حضراتِ صحابۂ کرام - رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین- کی شان میں نامناسب ونا درست الفاظ استِعمال کرتا ہے، … ایسا آدمی سراسر کافر، مرتد، زندیق وملحد ہے، اگر ایسا شخص کسی مسلم ملک میں یہ حرکت کرتا ہے، تو اس کو کیفرِ کردار تک پہنچانا (قتل کرنا)مسلم حکومت پر واجب ہے۔
تاہم یہ اجرائے سزا و نفاذِ تعزیر حکومت کی ذمہ داری ھوگی ہر کس و ناکس کو یہ اختیار نہیں ہوگا کہ وہ اپنے طور سے اس گستاخ کو اسکے انجام تک پہونچائے ؛ البتہ اتنا ضرور ھے کہ اگر حکومت وقت اس کی گستاخی کے ثبوت مل جانے کے بعد بہی سزا و تعزیر میں سستی و چشم پوشی کرتی ھے تو اہل اسلام پر امن طریقے سے اپنا احتجاج درج کراسکتے ہیں.
غرضیکہ جس واقعے کی بابت آپ نے دریافت کیا ھے اس میں چند مسلم بچوں نے ایک گستاخ رسول ﷺکو عشق مصطفوی کے جذبات سے سرشار ہوکر اسکو قتل کردیا ؛ گو کہ شرعا یہ اختیار ان بچوں کو نہیں تہا لیکن احناف کے یہاں مسئلہ شرعیہ یہ ھے: کہ اگر یہ گستاخی کسی مسلم سے سرزد ہو اور اس کا پختہ ثبوت بہی ہو تو ایسا مسلم شخص مرتد ھے اور واجب القتل ھے اور اگر وہ غیر مسلم ہو تو حاکم وقت اپنی صوابدید سے اس کو جو سزا دینا چاہے دے سکتا ھے لیکن جمہور فقہاء کا مذہب یہ ھے کہ کہ گستاخ خواہ کوئی ہو اسکی سزا قتل ہی ھے ,یہی وجہ ھے کہ ملک خداداد پاکستان میں جو قانون گستاخ کے قتل کا ھے وہ بالکل بجا ھے؛ کیونکہ حکم الحاکم رافع للخلاف ہوا کرتا ھے.
ہاں حکومت کے علاوہ کوئی عام آدمی اس گستاخ کو قتل کردیتا ھے تو اس کو قصاصا قتل نہیں کیا جایئگا؛ لیکن اسکا یہ عمل عدم جواز پر محمول کیا جایئگا اور اللہ سے امید رکہی جایئگی کہ اسکے ساتھ عفو و غفران کا معاملہ ہو.
🔅 اب ہم اس واقعہ کے حوالے کی جانب رجوع کرتے ہیں : یہ واقعہ علامة" زمخشری"__467-538ھ__ رح نے اپنی کتاب " ربیع الابرار فی نصوص الاخبار" میں ذکر کیا ھے۔
*اس واقعہ کی عربی عبارت*:
🔰 خرج غلمان من أهل البحرين يلعبون بالصوالجة، وأسقف البحرين قاعد، فصكت الكرة صدره فأخذها، فجعلوا يطلبون إليه في ردها، فأبى، فقال غلام منهم: أسألك بحق محمد لما رددتها علينا، فشتم رسول الله، فأقبلوا عليه بصوالجهم وما زالوا يخبطونه حتى مات.
فرفع ذلك إلى عمر رضي الله عنه، فوالله ما فرح بفتح ولا غنيمة من غنائم المسلمين كفرحه بقتل أولئك الغلمان السقف، وقال: الآن عز الإسلام، إن غلمة صغارا سمعوا شتم نبيهم فغضبوا له وانتصروا. ثم اهدر دم الأسقف.
المصدر: ربيع الابرار في نصوص الاخبار
المؤلف: محمود بن عمر الزمخشري،
الصفحة: 30
المجلد: 5
الناشر: مؤسسة الاعلمي، بيروت، لبنان.
( *فائدة*)
1⃣ کوئی بات اگر حدیث نہ ہو اور وہ شرعی نقطہ نظر سے کسی نص سے متصادم نہ ہو تو اسکو حدیث کا عنوان دئیے بغیر بیان کیا جاسکتا ھے, حکایات میں سند کی تفتیش (جبکہ اس میں کوئی الزام یا خرابی نہ ہو )بے جا غلو ھے؛ حکمت کی باتیں جہاں بہی ملیں ان کو لے لو, محدثین نے خود حکایات کے باب میں سند کے متعلق نرم پہلو اختیار کیا ھے۔
2⃣کیونکہ سند کی اہمیت خاص طور پر وہاں ھے جہاں امر شرعی بیان کیا جارہا ہو۔سند مل جائے تو عمدہ بات ھے ورنہ چشم پوشی کی جائے۔
1⃣قال الصغانی: اذا علم ان حدیثا متروک او موضوع, فلیروہ ولکن لا یقول علیہ: قال رسولﷲ صلیﷲ علیہ وسلم۔
ترجمہ: اگر کسی روایت کے متعلق معلوم ہو کہ وہ متروک یا منگھڑت ھے لیکن وہ نص شرعی سے متصادم نہ ہو تو اسکو حدیث کا عنوان دئیے بغیر بیان کرنا درست ہوگا۔
تذکرة الموضوعات،
صفحة: 8.
مؤلف:العلامة محمد طاہر الفتني الهندی.
مطبع:ادارةالطباعةالمنيرية.مصر
2⃣ واما اخبار الصالحین وحکایات الزاھدین والمتعبدین ومواعظ البلغاء وحکم الادباء, فالاسانید زینة لها.وليست شرطا لتاديتها.
*ترجمہ* جہاں تک نیک لوگوں کے واقعات, اللہ والوں عبادت گزاروں کی حکایات, مقریرین کے وعظ, ادباء کی نصیحتوں کی بات ھے, تو ان کی سند کی محض خوبصورتی اور زینت ہوگی اسکے بیان و نشر کرنے کے لیے شرط قرار نہیں دیجایئگی۔
نوادر الحديث
الصفحة: 41
المؤلف: الشيخ يونس الجونفوري.
الناشر:ادارة إفادات أشرفية دوبگه هردوئي روڈ لكناؤ .
__________
والله تعاليٰ أعلم
✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار الصديقي*
23/12/2018