▪ *جبرئیلؑ فروخت کنندہ اور میکائیلؑ خریدار*▪
حضرت علیؓ کا ایک واقعہ بہت مشہور ہے: کہ حضرت علی اور ان کی اہلیہ سیدہ فاطمہ اور حضرات حسنین (رضوان ﷲ علیہم اجمعین) کو ایک بار تین دن کے فاقے کا سامنا ہوا, حضرت فاطمہؓ کی اوڑھنے والی ایک شال تہی وہ انہوں نے حضرت علیؓ کو دیدی ؛ تاکہ اسکو فروخت کریں اور اسکی قیمت سے کہانے کی کچھ اشیاء خرید لایئں, حضرت علیؓ وہ شال لیکر 6 درہم میں بیچ آئے, ابہی وہ ان 6 دراہم سے کہانے کا سامان خریدنے جاہی رھے تھے کہ ان کو کچھ غرباء و فقراء ملے, جنکی حالت دیکھ کر حضرت علی کو بہت دکھ ہوا تو انہوں نے وہ 6 دراہم ان فقیروں کو بطور صدقہ عطا فرمادیئے, اور خالی ہاتھ گھر کی جانب لوٹنے لگے, کہ حضرت جبرئیلؑ انسانی شکل میں ایک اونٹنی لیے نمودار ہوئے اور کہا: ابو الحسن! کیا یہ اونٹنی خریدوگے؟ حضرت علی نے کہا: میرے پاس پیسے نہیں ہیں , تو بیچنے والے شخص( جبرئیل) نے کہا: ادھار ہی خرید لو, اور حضرت علی نے اس اونٹنی کو 100 درہموں کے عوض ادھار خرید لیا, اور لیکر چلدیئے, تبہی حضرت میکائیلؑ ( انسانی شکل میں) نمودار ہوئے اور اونٹنی خریدنے کی بات کہی, حضرت علی نے کہا: میں نے یہ 100 دراہم میں خریدی ھے تو اس خریدار ( حضرت میکائیل) نے کہا: میں اسکو 160 دراہم میں خریدتا ہوں.. معاملہ ہوگیا اور حضرت علی کو 160 دراہم مل گئے۔ تبہی کچھ دور جاکر حضرت جبرئیل ( فروخت کنندہ) مل گئے اور اپنے 100 درہم طلب کیے ۔حضرت علی نے انکو 100 درہم اونٹنی کی قیمت دیدی, اور 60 دراہم کا نفع لیکر گھر واپس آئے. حضرت سیدۂ فاطمہ زھراء نے معلوم کیا : یہ 60 دراہم کیسے حاصل ہوئے ؟
تب حضرت علی نے پورا قصہ سنایا اور فرمایا: میں نے شال کی قیمت 6 دراہم غرباء کو صدقہ کیے تو ﷲ نے اسکا عوض 60 دراہم کی شکل میں 10 گنا بڑھاکر عطا کیا, پھر حضورؐ کو اس واقعہ کا علم ہوا تو حضورؐ نے فرمایا: بیچنے والے حضرت جبرئیلؑ تہے اور خریدار حضرت میکائیلؑ تہے۔
اس واقعہ کی کیا حیثیت ہے؟
اسکا حوالہ و تحقیق مطلوب ہے!!!
✧✧ *باسمه تعالي*✧✧
★ *الجواب وبه التوفيق*★
یہ واقعہ کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے ؛ بلکہ اسکو "امام عبد الرحمان صفوری شافعیؒ " نے اپنی کتاب « نزهة المجالس ومنتخب النفائس » میں بطور ایک حکایت کے ذکر کیا ہے, لہذا اسکو حدیث نہیں کہا جاسکتا ہے, اور حضرت جبرئیل و میکائیل کے متعلق خبر دینا بہی وحی کے ذریعہ حاصل ہوگا چنانچہ اس میں جس خریدار و فروخت کنندہ کو جبرئیل و میکائیل بتایا گیا ہے وہ بہی بلا کسی حوالہ و سند کے معتبر نہیں۔
🔰 _*واقعہ کا ذکر*_
نام کتاب: نزهة المجالس
نام مؤلف:عبد الرحمان الؔصفوري
جلد:2
صفحہ:5
طبع:المكتب الثقافي، للنشر والتوزيع، قاهرة، مصر.
⚠ *_نوٹ_*
کتاب " نزهة المجالس" کو علماء نے معتبر نہیں مانا ہے؛ لہذا اس میں مذکور بالخصوص احادیث کی ضرور تحقیق کرلینی چاہئے.
وﷲ تعالی اعلم
✍🏻... کتبہ: *_محمد عدنان وقار صؔدیقی_*
حضرت علیؓ کا ایک واقعہ بہت مشہور ہے: کہ حضرت علی اور ان کی اہلیہ سیدہ فاطمہ اور حضرات حسنین (رضوان ﷲ علیہم اجمعین) کو ایک بار تین دن کے فاقے کا سامنا ہوا, حضرت فاطمہؓ کی اوڑھنے والی ایک شال تہی وہ انہوں نے حضرت علیؓ کو دیدی ؛ تاکہ اسکو فروخت کریں اور اسکی قیمت سے کہانے کی کچھ اشیاء خرید لایئں, حضرت علیؓ وہ شال لیکر 6 درہم میں بیچ آئے, ابہی وہ ان 6 دراہم سے کہانے کا سامان خریدنے جاہی رھے تھے کہ ان کو کچھ غرباء و فقراء ملے, جنکی حالت دیکھ کر حضرت علی کو بہت دکھ ہوا تو انہوں نے وہ 6 دراہم ان فقیروں کو بطور صدقہ عطا فرمادیئے, اور خالی ہاتھ گھر کی جانب لوٹنے لگے, کہ حضرت جبرئیلؑ انسانی شکل میں ایک اونٹنی لیے نمودار ہوئے اور کہا: ابو الحسن! کیا یہ اونٹنی خریدوگے؟ حضرت علی نے کہا: میرے پاس پیسے نہیں ہیں , تو بیچنے والے شخص( جبرئیل) نے کہا: ادھار ہی خرید لو, اور حضرت علی نے اس اونٹنی کو 100 درہموں کے عوض ادھار خرید لیا, اور لیکر چلدیئے, تبہی حضرت میکائیلؑ ( انسانی شکل میں) نمودار ہوئے اور اونٹنی خریدنے کی بات کہی, حضرت علی نے کہا: میں نے یہ 100 دراہم میں خریدی ھے تو اس خریدار ( حضرت میکائیل) نے کہا: میں اسکو 160 دراہم میں خریدتا ہوں.. معاملہ ہوگیا اور حضرت علی کو 160 دراہم مل گئے۔ تبہی کچھ دور جاکر حضرت جبرئیل ( فروخت کنندہ) مل گئے اور اپنے 100 درہم طلب کیے ۔حضرت علی نے انکو 100 درہم اونٹنی کی قیمت دیدی, اور 60 دراہم کا نفع لیکر گھر واپس آئے. حضرت سیدۂ فاطمہ زھراء نے معلوم کیا : یہ 60 دراہم کیسے حاصل ہوئے ؟
تب حضرت علی نے پورا قصہ سنایا اور فرمایا: میں نے شال کی قیمت 6 دراہم غرباء کو صدقہ کیے تو ﷲ نے اسکا عوض 60 دراہم کی شکل میں 10 گنا بڑھاکر عطا کیا, پھر حضورؐ کو اس واقعہ کا علم ہوا تو حضورؐ نے فرمایا: بیچنے والے حضرت جبرئیلؑ تہے اور خریدار حضرت میکائیلؑ تہے۔
اس واقعہ کی کیا حیثیت ہے؟
اسکا حوالہ و تحقیق مطلوب ہے!!!
✧✧ *باسمه تعالي*✧✧
★ *الجواب وبه التوفيق*★
یہ واقعہ کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے ؛ بلکہ اسکو "امام عبد الرحمان صفوری شافعیؒ " نے اپنی کتاب « نزهة المجالس ومنتخب النفائس » میں بطور ایک حکایت کے ذکر کیا ہے, لہذا اسکو حدیث نہیں کہا جاسکتا ہے, اور حضرت جبرئیل و میکائیل کے متعلق خبر دینا بہی وحی کے ذریعہ حاصل ہوگا چنانچہ اس میں جس خریدار و فروخت کنندہ کو جبرئیل و میکائیل بتایا گیا ہے وہ بہی بلا کسی حوالہ و سند کے معتبر نہیں۔
🔰 _*واقعہ کا ذکر*_
نام کتاب: نزهة المجالس
نام مؤلف:عبد الرحمان الؔصفوري
جلد:2
صفحہ:5
طبع:المكتب الثقافي، للنشر والتوزيع، قاهرة، مصر.
⚠ *_نوٹ_*
کتاب " نزهة المجالس" کو علماء نے معتبر نہیں مانا ہے؛ لہذا اس میں مذکور بالخصوص احادیث کی ضرور تحقیق کرلینی چاہئے.
وﷲ تعالی اعلم
✍🏻... کتبہ: *_محمد عدنان وقار صؔدیقی_*
No comments:
Post a Comment