Wednesday, November 15, 2017

◼ستر ہزار پردوں کا فاصلہ◼

◼ستر ہزار پردوں کا فاصلہ◼

واٹس ایپ اور فیس بک پر ایک بات بہت مشہور ھے اسکی کیا حقیقت ھے؟
   ⬅ کہ ایک بار حضرت موسی نے ﷲ سے پوچھا: کہ جتنا میں آپ سے قریب ہوں " آپ سے بات کرسکتا ہوں اتنا کوئی اور بہی آپ کے قریب ھے؟
  ﷲ نے فرمایا: کہ اے موسی! آخری زمانے میں ایک امت آئیگی - وہ امت محمدیہ ہوگی- اور اس امت کو ایک ماہ ایسا ملیگا جس میں وہ سوکھے ہونٹوں, پیاسی زبان, سوکھی ہوئی آنکھیں, اور بہوکے پیٹ کے ساتھ جب افطار کرنے بیٹھے گی , تب میں ان کے بہت قریب رہونگا, 
 موسی! تمہارے اور میرے بیچ میں ستر ہزار پردوں کا فاصلہ ھے؛ لیکن افطار کے وقت اُس امت اور میرے درمیان ایک بھی پردے کا فاصلہ نہیں ھوگا۔

  اور وہ جو دعایئں مانگے گیں, اسے قبول کرنا میری ذمہ داری رہیگی۔
اگر میرے بندوں کو معلوم ہوتا کہ رمضان کیا ھے, تو وہ سب تمنا کرتے کہ کاش پورا سال رمضان ہی ہو!!
➖➖➖➖➖➖➖

••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:*

  یہ روایت دو باتوں پر مشتمل ھے:
1⃣ حضرت موسی ع اور ﷲ تعالی کے درمیان ستر ہزار حجابات کا حائل ہونا اور امت محمدیہ و خدا تعالی کے درمیان بوقت افطار ایک بہی پردے کا نہ ہونا,

2⃣ افطار کے وقت مانگی جانیوالی دعا کا قبول ہونا۔

➗➗➗➗➗➗➗

⚫ پہلی بات کی تحقیق:

  یہ بات ہمارے عقیدے کے لحاظ سے قطعا درست نہیں ھوسکتی؛ کیونکہ اس میں ایک عظیم القدر , جلیل الشان رسول و پیغمبر کی تقصیر لازم آرھی ھے؛ کیونکہ امتی خواہ کسی بھی امت کا ہو؛ لیکن وہ انبیاء سے مراتب اور درجات میں نہیں بڑھ سکتا ھے۔اگر ایسا ممکن ہوتا تو حضرت ابوبکر صدیق رض سے زیادہ اس رتبے کا مستحق کوئی نھیں تہا؛ لیکن وہ پھر افضل البشر بعد الانبیاء ( انبیاء کے بعد افضل ترین بشر) ہیں۔ 
تو ایک عام امتی روزہ رکھ کر حضرت موسی ع سے کس طرح بڑھ سکتا ھے؟
لہذا اب یہی کہا جائیگا کہ اس بات کا بیان کرنا یا نشر کرنا کسی بھی صورت جائز نہیں۔

  ◾مذکورہ روایت کا ماخذ: 

  یہ روایت بلا سند مشہور مؤرخ و ادیب " عبد الرحمن بن عبد السلام الصفوری الشافعی رح نے اپنی کتاب•• « نزهة المجالس و منتخب النفائس »•• میں  رمضان کی فضیلت اور اس ماہ میں اعمال صالحہ کی ترغیب کے تحت ذکر کی ھے. 


🔵 نزهة المجالس كي اصل عبارت:

◀" أن موسى عليه الصلاة والسلام قال : يا رب ! لقد شرفتني بالتكلم معك بلا ترجمان , فهل أعطيت هذا الشرف لغيري ؟ فيقول الله سبحانه وتعالى : يا موسى ! سوف أرسل أمة من الأمم - والتي هي أمة محمد صلى الله عليه وسلم - وهم ذو شفاه وألسن جافة , وأجسام نحيلة هزيلة ، وسوف يدعونني فيكونوا أقرب إلي منك . يا موسى ! بينما أنت تتكلم معي ، هناك 70000 حجاب بيني وبينك , لكن عند وقت الإفطار سوف لن يكون هناك أي حجاب بيني وبين أمة محمد صلى الله عليه وسلم "
يا موسي طوبي لمن اعطش كبده واجاع بطنه في رمضان. 

وقال كعب الاحبار: اوحي الله الي موسي اني كتبت علي نفسي ان ارد دعوة صائم رمضان. 

(نزهة المجالس/1.ص:165)


2⃣ مذکورہ بات کا دوسرا جزء:

🔷  *روزے دار کی دعا کا افطار کے وقت قبول ہونا*

  یہ بات صحیح حدیث سے ثابت ھے: کہ روزے دار کی دعا بوقت افطار قبول کی جاتی ھے, رد نہیں کیجاتی ھے۔

 عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ( ثَلَاثٌ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُمْ، الإِمَامُ العَادِلُ، *وَالصَّائِمُ حِينَ يُفْطِر*ُ، وَدَعْوَةُ المَظْلُومِ يَرْفَعُهَا فَوْقَ الغَمَامِ، وَتُفَتَّحُ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَيَقُولُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: وَعِزَّتِي لَأَنْصُرَنَّكِ وَلَوْ بَعْدَ حِينٍ ) 

 حضرت ابوہریرہ رض سے (ایک طویل حدیث) میں مروی ھے: کہ تین لوگوں کی دعا رد نہیں کیجاتی,
 1) انصاف پرور بادشاہ کی, 
2) روزے دار کی جب وہ افطار کرے,
 3) مظلوم کی دعا جب وہ اللہ سے گہار لگائے تو اسکی دعا بادلوں سے اوپر  جاتی ھے, جسکی وجہ سے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں, اور ﷲ تبارک و تعالی قسم کہاکر اسکی مدد اور فریاد رسی کا وعدہ کرتے ہیں.

المصدر: جامع الترمذی
المحدث: ابوعیسی الترمذی
الراوی: ابوہریرة
المجلد: 4
الصفحة: 672
رقم الحدیث: 2526
خلاصةحکم المحدث: صحیح
مکان الطبع: شرکة و مطبعة مصطفی البابی الحلبی , مصر.

والله تعالي اعلم

✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار صديقي*

No comments:

Post a Comment