▪ *حضرت عکاشہ کا نبی سے بدلہ*▪
السلام علیکم ورحمتﷲ!
ایک واقعہ کثرت سے فیس بک, واٹس ایپ پر نشر ہورہا ھے :
کہ نبى کریم صلى الله عليه وسلم کی وفات کا وقت جب آیا اس وقت آپ صلى الله عليه وسلم کو شدید بخار تھا
آپ نے حضرتِ بلال رضی الله تعالى عنه کو حکم دیا کہ مدینه میں اعلان کردو کہ جس کسی کا حق مجھ پر ہو وہ مسجدِ نبوی میں آکر اپنا حق لے لے_
مدینہ کے لوگوں نے یہ اعلان سُنا تو آنکھوں میں آنسو آگئے اور مدینہ میں کہرام مچ گیا، سارے لوگ مسجدِ نبوی میں جمع ہوگئے صحابه کرام رضوان الله کی آنکھوں میں آنسوں تھے دل بے چین وبے قرار تھا_
پھر نبى کریم صلى الله عليه وسلم تشریف لائے آپ کو اس قدر تیز بخار تھا کہ آپ کا چہره مبارک سرخ ہوا جارہا تھا_
نبى کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا اے میرے ساتھیو! تمھارا اگر کوئی حق مجھ پر باقی ہو تو وہ مجھ سے آج ہی لے لو میں نہیں چاہتا کہ میں اپنے رب سے قیامت میں اس حال میں ملوں کہ کسی شخص کا حق مجھ پر باقی ہو یہ سن کر صحابه کرام رضوان الله کا دل تڑپ اُٹھا مسجدِ نبوی میں آنسوؤں کا ایک سیلاب بہہ پڑا، صحابه رو رہے تھے لیکن زبان خاموش تھی کہ اب ہمارے آقا ہمارا ساتھ چھوڑ کر جارہے ہیں_
اپنے اصحاب کی یہ حالت دیکھ کر فرمایا کہ "اے لوگوں ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے"میں جس مقصد کے تحت اس دنیا میں آیا تھا وہ پورا ہوگیا ہم لوگ کل قیامت میں ملیں گے۔ایک صحابی کھڑے ہوئے روایتوں میں ان کا نام عُکاشہ آتا ہے عرض کیا یا رسول الله میرا حق آپ پر باقی ہے آپ جب جنگِ اُحد کے لئے تشریف لے جارہے تھے تو آپ کا کوڑا میری پیٹھ پر لگ گیا تھا میں اسکا بدلہ چاہتا ہوں_یہ سن کر حضرت عمر رضی الله تعالى عنه کھڑے ہوگئے اور کہا کیا تم نبى کریم صلى الله عليه وسلم سے بدلہ لوگے؟ کیا تم دیکھتے نہیں کہ آپ صلى الله عليه وسلم بیمار ہیں_اگر بدلہ لینا ہی چاہتے ہو تو مجھے کوڑا مار لو لیکن نبى کریم صلى الله عليه وسلم سے بدله نہ لو,یہ سن کر آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا "اے عمر اسے بدله لینے دو اسکا حق ہے اگر میں نے اسکا حق ادا نہ کیا تو الله کی بارگاہ میں کیا منہ دکھاؤنگا اسلئے مجھے اسکا حق ادا کرنے دو_آپ نے کوڑا منگوایا اور حضرت عُکاشہ کو دیا اور کہا کہ تم مجھے کوڑا مار کر اپنا بدله لے لو_حضرات صحابہ كرام رضوان الله یہ منظر دیکھ کر بے تحاشہ رو رہے تھے حضرت عُکاشہ نے کہا کہ اے الله کے رسول ! میری ننگی پیٹھ پر آپکا کوڑا لگا تھا یہ سن کر نبى کریم صلى الله عليه وسلم نے اپنا کُرتہ مبارک اُتار دیا اور کہا لو تم میری پیٹھ پر کوڑا مار لو، حضرتِ عُکاشہ نے جب اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کی پیٹھ مبارک کو دیکھا تو کوڑا چھوڑ کر جلدی سے آپ صلى الله عليه وسلم کی پیٹھ مبارک کو چُوم لیا اور کہا یا رسول الله
"فَداکَ أبِی واُمی"
میری کیا مجال کہ میں آپ کو کوڑا ماروں میں تو یہ چاہتا تھا کہ آپکی مبارک پیٹھ پر لگی مہر نبوّت کو چوم کر جنّت کا حقدار بن جاؤں_
یہ سن کر آپ صلى الله عليه وسلم مسکرائے اور فرمایا تم نے جنّت واجب کرلی_
(الرحیق المختوم صفحہ : 628)
اس واقعہ کی کیا حقیقت ھے از راہ کرم جواب سے نوازیں!
••• *باسمه تعالی*•••
*الجواب وبه التوفیق:*
یہ واقعہ متعدد کتب میں مذکور ھے ؛ لیکن ہم صرف دو کتابوں کے حوالے سے اسکی تحقیق کرینگے:
1⃣ یہ واقعہ " مجمع الزوائد" میں ایک طویل روایت کا حصہ ھے؛ لیکن اس کی سند اس قابل نہیں ھے کہ اس کو عوام یا خواص میں بیان کیا جاسکے؛ کیونکہ اسکی سند میں ایک راوی" عبد المنعم بن ادریس " پر وضع حدیث یعنی حدیث گھڑنے اور جھوٹ بولنے کا الزام ھے ۔ عبارت کی طوالت کے پیش نظر ہم مجمع الزوائد کی روایت کے ذکر سے عمدا اعراض کر رھے ہیں؛ تاہم عبارت کا مکمل حوالہ درج ھے:
المصدر: مجمع الزوائد
المجلد: 8
الصفحة: 429
الرقم: 14253
درجة الرواية: فيه عبد المنعم بن إدريس، وهو كذاب، وضاع.
الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت،لبنان
2⃣ علامہ ”ابن الجوزی“ نے بہی اپنی شہرۂ آفاق كتاب — موضوعات ابن الجوزي— میں اسکو ذکر فرمانے کے بعد اس کو من گھڑت قراردیا ھے :
المصدر: موضوعات ابن الجوزی
المجلد: 1
الصفحة: 295
خلاصة: موضوع
الناشر: المکتبة السلفیة, المدینة المنورة.
🛑 ( *نوٹ*) :
اس طرح کا ایک واقعہ کتب حدیث میں معتبر سند کے ساتھ مذکور ھے؛ لیکن اس میں وفات کے وقت کی بات مذکور نہیں ھے اور نہ ہی وہ واقعہ حضرت عُکّاشہ کی طرف منسوب ھے ؛ بلکہ وہ واقعہ حضرت *اُسید بن حُضیر* کا ھے کہ وہ ایک مرتبہ کچھ ہنسی مذاق کی بات کر رھے تھے اور اپنے کچھ احباب کو ہنسا رھے تھے، چناچہ نبی پاک علیہ السلام نے ان کے جسم پر چھوٹی سی لکڑی چبھودی , تو حضرت اسید نے عرض کیا: کہ اے رسول خدا! مجھے تو بدلہ لینا ھے, حضور نے فرمایا : لے لو! تو حضرت اسید نے کہا: کہ جہاں آپ نے لکڑی چبھوئ ھے اس جگہ میرے جسم پر کپڑا نہ تہا اور آپ کے جسم اطہر پر کپڑا ھے تو حضور نے اپنا کرتہ اوپر کرلیا .. تو حضرت اسید نے آپ کو باہوں میں نرمی سے جکڑ لیا اور آپ کے پہلو کابوسہ لینا شروع کردیا اور یوں کہتے رھے میرا ارادہ بدلہ کا نہیں تہا ؛ بلکہ یہ تہا۔
یہ واقعہ امام ابوداود نے سنن ابوداود میں ذکر فرمایا ھے:
🔰حدثنا عمرو بن عون أخبرنا خالد عن حصين عن عبد الرحمن بن أبي ليلى عن أسيد بن حضير رجل من الأنصار قال بينما هو يحدث القوم وكان فيه مزاح بينا يضحكهم فطعنه النبي صلى الله عليه وسلم في خاصرته بعود فقال أصبرني فقال اصطبر قال إن عليك قميصا وليس علي قميص فرفع النبي صلى الله عليه وسلم عن قميصه فاحتضنه وجعل يقبل كشحه قال إنما أردت هذا يا رسول الله.
المصدر: سنن ابي داود
المجلد: 2
الصفحة: 368
الرقم: 5224
الناشر: مكتبه رحمانية، لاهور،
❇سوال میں- الرحیق المختوم- کی جانب جو اس واقعہ کی نسبت کی گئی ھے وہ غلط ھے؛ کیونکہ الرحیق المختوم میں فقط اتنا مذکور ھے : *"کہ پھر آپ نے اپنے آپ کو قصاص کے لیے پیش کیا اور فرمایا: کہ میں نے کسی کی پیٹھ پر کوڑا مارا ہو تو یہ میری پیٹھ حاضر ھے, وہ بدلہ لے لے , میں نے کسی کی بے آبروئی کی ہو تو یہ میری آبرو حاضر ھے وہ بدلہ لے لے*".
کتاب: الرحیق المختوم(اردو)
مؤلف: صفی الرحمان مبارکپوری
صفحہ: 625
طبع: مکتبہ سلفیہ شیش محل روڈ لاھور , پاکستان۔
<< *خلاصۂ کلام*>>
اس واقعہ کو حضور کی وفات کے موقعہ اور حضرت عکاشہ کی جانب منسوب کرکے نہ بیان کیا جائے ؛ بلکہ یہ واقعہ ابوداود کے حوالے سے جتنا ہم نے بیان کیا ھے اتنا ہی حضرت اسید بن حضیر سے منسوب کرکے بیان کیا جاسکتا ھے۔
واللہ تعالی اعلم
✍🏻 ...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*
8 اپریل/2019ء
السلام علیکم ورحمتﷲ!
ایک واقعہ کثرت سے فیس بک, واٹس ایپ پر نشر ہورہا ھے :
کہ نبى کریم صلى الله عليه وسلم کی وفات کا وقت جب آیا اس وقت آپ صلى الله عليه وسلم کو شدید بخار تھا
آپ نے حضرتِ بلال رضی الله تعالى عنه کو حکم دیا کہ مدینه میں اعلان کردو کہ جس کسی کا حق مجھ پر ہو وہ مسجدِ نبوی میں آکر اپنا حق لے لے_
مدینہ کے لوگوں نے یہ اعلان سُنا تو آنکھوں میں آنسو آگئے اور مدینہ میں کہرام مچ گیا، سارے لوگ مسجدِ نبوی میں جمع ہوگئے صحابه کرام رضوان الله کی آنکھوں میں آنسوں تھے دل بے چین وبے قرار تھا_
پھر نبى کریم صلى الله عليه وسلم تشریف لائے آپ کو اس قدر تیز بخار تھا کہ آپ کا چہره مبارک سرخ ہوا جارہا تھا_
نبى کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا اے میرے ساتھیو! تمھارا اگر کوئی حق مجھ پر باقی ہو تو وہ مجھ سے آج ہی لے لو میں نہیں چاہتا کہ میں اپنے رب سے قیامت میں اس حال میں ملوں کہ کسی شخص کا حق مجھ پر باقی ہو یہ سن کر صحابه کرام رضوان الله کا دل تڑپ اُٹھا مسجدِ نبوی میں آنسوؤں کا ایک سیلاب بہہ پڑا، صحابه رو رہے تھے لیکن زبان خاموش تھی کہ اب ہمارے آقا ہمارا ساتھ چھوڑ کر جارہے ہیں_
اپنے اصحاب کی یہ حالت دیکھ کر فرمایا کہ "اے لوگوں ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے"میں جس مقصد کے تحت اس دنیا میں آیا تھا وہ پورا ہوگیا ہم لوگ کل قیامت میں ملیں گے۔ایک صحابی کھڑے ہوئے روایتوں میں ان کا نام عُکاشہ آتا ہے عرض کیا یا رسول الله میرا حق آپ پر باقی ہے آپ جب جنگِ اُحد کے لئے تشریف لے جارہے تھے تو آپ کا کوڑا میری پیٹھ پر لگ گیا تھا میں اسکا بدلہ چاہتا ہوں_یہ سن کر حضرت عمر رضی الله تعالى عنه کھڑے ہوگئے اور کہا کیا تم نبى کریم صلى الله عليه وسلم سے بدلہ لوگے؟ کیا تم دیکھتے نہیں کہ آپ صلى الله عليه وسلم بیمار ہیں_اگر بدلہ لینا ہی چاہتے ہو تو مجھے کوڑا مار لو لیکن نبى کریم صلى الله عليه وسلم سے بدله نہ لو,یہ سن کر آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا "اے عمر اسے بدله لینے دو اسکا حق ہے اگر میں نے اسکا حق ادا نہ کیا تو الله کی بارگاہ میں کیا منہ دکھاؤنگا اسلئے مجھے اسکا حق ادا کرنے دو_آپ نے کوڑا منگوایا اور حضرت عُکاشہ کو دیا اور کہا کہ تم مجھے کوڑا مار کر اپنا بدله لے لو_حضرات صحابہ كرام رضوان الله یہ منظر دیکھ کر بے تحاشہ رو رہے تھے حضرت عُکاشہ نے کہا کہ اے الله کے رسول ! میری ننگی پیٹھ پر آپکا کوڑا لگا تھا یہ سن کر نبى کریم صلى الله عليه وسلم نے اپنا کُرتہ مبارک اُتار دیا اور کہا لو تم میری پیٹھ پر کوڑا مار لو، حضرتِ عُکاشہ نے جب اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کی پیٹھ مبارک کو دیکھا تو کوڑا چھوڑ کر جلدی سے آپ صلى الله عليه وسلم کی پیٹھ مبارک کو چُوم لیا اور کہا یا رسول الله
"فَداکَ أبِی واُمی"
میری کیا مجال کہ میں آپ کو کوڑا ماروں میں تو یہ چاہتا تھا کہ آپکی مبارک پیٹھ پر لگی مہر نبوّت کو چوم کر جنّت کا حقدار بن جاؤں_
یہ سن کر آپ صلى الله عليه وسلم مسکرائے اور فرمایا تم نے جنّت واجب کرلی_
(الرحیق المختوم صفحہ : 628)
اس واقعہ کی کیا حقیقت ھے از راہ کرم جواب سے نوازیں!
••• *باسمه تعالی*•••
*الجواب وبه التوفیق:*
یہ واقعہ متعدد کتب میں مذکور ھے ؛ لیکن ہم صرف دو کتابوں کے حوالے سے اسکی تحقیق کرینگے:
1⃣ یہ واقعہ " مجمع الزوائد" میں ایک طویل روایت کا حصہ ھے؛ لیکن اس کی سند اس قابل نہیں ھے کہ اس کو عوام یا خواص میں بیان کیا جاسکے؛ کیونکہ اسکی سند میں ایک راوی" عبد المنعم بن ادریس " پر وضع حدیث یعنی حدیث گھڑنے اور جھوٹ بولنے کا الزام ھے ۔ عبارت کی طوالت کے پیش نظر ہم مجمع الزوائد کی روایت کے ذکر سے عمدا اعراض کر رھے ہیں؛ تاہم عبارت کا مکمل حوالہ درج ھے:
المصدر: مجمع الزوائد
المجلد: 8
الصفحة: 429
الرقم: 14253
درجة الرواية: فيه عبد المنعم بن إدريس، وهو كذاب، وضاع.
الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت،لبنان
2⃣ علامہ ”ابن الجوزی“ نے بہی اپنی شہرۂ آفاق كتاب — موضوعات ابن الجوزي— میں اسکو ذکر فرمانے کے بعد اس کو من گھڑت قراردیا ھے :
المصدر: موضوعات ابن الجوزی
المجلد: 1
الصفحة: 295
خلاصة: موضوع
الناشر: المکتبة السلفیة, المدینة المنورة.
🛑 ( *نوٹ*) :
اس طرح کا ایک واقعہ کتب حدیث میں معتبر سند کے ساتھ مذکور ھے؛ لیکن اس میں وفات کے وقت کی بات مذکور نہیں ھے اور نہ ہی وہ واقعہ حضرت عُکّاشہ کی طرف منسوب ھے ؛ بلکہ وہ واقعہ حضرت *اُسید بن حُضیر* کا ھے کہ وہ ایک مرتبہ کچھ ہنسی مذاق کی بات کر رھے تھے اور اپنے کچھ احباب کو ہنسا رھے تھے، چناچہ نبی پاک علیہ السلام نے ان کے جسم پر چھوٹی سی لکڑی چبھودی , تو حضرت اسید نے عرض کیا: کہ اے رسول خدا! مجھے تو بدلہ لینا ھے, حضور نے فرمایا : لے لو! تو حضرت اسید نے کہا: کہ جہاں آپ نے لکڑی چبھوئ ھے اس جگہ میرے جسم پر کپڑا نہ تہا اور آپ کے جسم اطہر پر کپڑا ھے تو حضور نے اپنا کرتہ اوپر کرلیا .. تو حضرت اسید نے آپ کو باہوں میں نرمی سے جکڑ لیا اور آپ کے پہلو کابوسہ لینا شروع کردیا اور یوں کہتے رھے میرا ارادہ بدلہ کا نہیں تہا ؛ بلکہ یہ تہا۔
یہ واقعہ امام ابوداود نے سنن ابوداود میں ذکر فرمایا ھے:
🔰حدثنا عمرو بن عون أخبرنا خالد عن حصين عن عبد الرحمن بن أبي ليلى عن أسيد بن حضير رجل من الأنصار قال بينما هو يحدث القوم وكان فيه مزاح بينا يضحكهم فطعنه النبي صلى الله عليه وسلم في خاصرته بعود فقال أصبرني فقال اصطبر قال إن عليك قميصا وليس علي قميص فرفع النبي صلى الله عليه وسلم عن قميصه فاحتضنه وجعل يقبل كشحه قال إنما أردت هذا يا رسول الله.
المصدر: سنن ابي داود
المجلد: 2
الصفحة: 368
الرقم: 5224
الناشر: مكتبه رحمانية، لاهور،
❇سوال میں- الرحیق المختوم- کی جانب جو اس واقعہ کی نسبت کی گئی ھے وہ غلط ھے؛ کیونکہ الرحیق المختوم میں فقط اتنا مذکور ھے : *"کہ پھر آپ نے اپنے آپ کو قصاص کے لیے پیش کیا اور فرمایا: کہ میں نے کسی کی پیٹھ پر کوڑا مارا ہو تو یہ میری پیٹھ حاضر ھے, وہ بدلہ لے لے , میں نے کسی کی بے آبروئی کی ہو تو یہ میری آبرو حاضر ھے وہ بدلہ لے لے*".
کتاب: الرحیق المختوم(اردو)
مؤلف: صفی الرحمان مبارکپوری
صفحہ: 625
طبع: مکتبہ سلفیہ شیش محل روڈ لاھور , پاکستان۔
<< *خلاصۂ کلام*>>
اس واقعہ کو حضور کی وفات کے موقعہ اور حضرت عکاشہ کی جانب منسوب کرکے نہ بیان کیا جائے ؛ بلکہ یہ واقعہ ابوداود کے حوالے سے جتنا ہم نے بیان کیا ھے اتنا ہی حضرت اسید بن حضیر سے منسوب کرکے بیان کیا جاسکتا ھے۔
واللہ تعالی اعلم
✍🏻 ...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*
8 اپریل/2019ء
No comments:
Post a Comment