Tuesday, September 24, 2019

ابودجانہ اور کھجور

*ابو دجانہ اور کھجور*▪

ابودجانہ رضى اللہ عنہ كى ہر روز كوشش ہوتى كہ وہ نماز فجر رسول اللہﷺ كے پيچھے ادا كريں، ليكن نماز كے فورى بعد يا نماز كے ختم ہونے سے پہلے ہى  مسجد سے نكل جاتے، رسول اللہﷺ كى نظريں ابودجانہ كا پيچھا كرتيں ، جب ابودجانہ كا يہى معمول رہا تو ايك دن رسول اللہﷺ نے ابودجانہ كو روك كر پوچھا :

’’ابودجانہ! كيا تمہيں اللہ سے كوئى حاجت نہيں ہے؟
ابودجانہ گويا ہوئے: كيوں نہيں اے اللہ كے رسول، ميں تو لمحہ بھر بھى اللہ سے مستغنى نہيں ہوسكتا۔۔۔
رسول اللہﷺ فرمانے لگے، تب پھر آپ ہمارے ساتھ نماز ختم ہونے كا انتظار كيوں نہيں كرتے، اور اللہ سے اپنى حاجات كے ليے دعا كيوں نہيں كرتے۔۔۔

ابودجانہ  كہنے لگے اے اللہ كے رسول! در اصل اس كا سبب يہ ہے كہ ميرے پڑوس میں ايك يہودى رہتا ہے، جس كے كھجور كے درخت كى شاخيں ميرے گھر كے صحن ميں لٹكتى ہيں، اور جب  رات كو ہوا چلتى ہے تو اس كى كھجوريں ہمارے گھر ميں گرتى ہيں، ميں مسجد سے اس ليے جلدى نكلتا ہوں تاكہ ان گرى ہوئى كھجوروں كو اپنے خالى پيٹ بچوں كے جاگنے سے پہلے پہلے چُن كر اس يہودى كو لوٹا دوں، مبادا وہ بچے بھوك كى شدت كى وجہ سے ان كھجوروں كو كھا نہ ليں۔۔۔

پھر ابودجانہ قسم اٹھا كر كہنے لگے اے اللہ كے رسول! ايك دن ميں نے اپنے بيٹے كو ديكھا جو اس گرى ہوئى كجھور  كو چبا رہا تھا، اس سے پہلے كہ وہ اسے نگل پاتا ميں نے اپنى انگلى اس كے حلق ميں ڈال كر كھجور باہر نكال دى۔ ۔۔
اللہ كے رسول! جب ميرا بيٹا رونے لگا تو ميں نے كہا اے ميرے بچے مجھے حياء آتى ہے كہ كل قيامت كے دن ميں اللہ كے سامنے بطور چور كھڑا ہوں۔۔۔

سيدنا ابوبكر رضى اللہ عنہ پاس كھڑے يہ سارا ماجرا سن رہے تھے، جذبہ ايمانى اور اخوت اسلامى نے جوش مارا تو سيدھے اس يہودى كے پاس گئے اور اس سے كھجور كا پورا درخت خريد كر ابودجانہ اور اس كے بچوں كو ہديہ كر ديا۔۔۔
پھر كيوں نہ اللہ سبحانہ وتعالىٰ ان مقدس ہستيوں كے بارے يہ سند جارى كرے:
﴿رَّضِىَ اللّـٰهُ عَنْـهُـمْ وَرَضُوْا عَنْهُ﴾
"اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ  الله سے راضی ہوئے-"

چند دنوں بعد جب يہودى كو اس سارے ماجرے كا پتہ چلا تو اس نے اپنے تمام اہل خانہ كو جمع كيا، اور رسول اللہﷺ كے پاس جا كر مسلمان ہونے كا اعلان كر ديا۔۔۔  الحمدللہ على نعمة الإسلام

عزيز دوستو !
ابودجانہ رض تو اس بات سے ڈر گيا تھا كہ اس كى اولاد ايك يہودى كے درخت سے كھجور كھانے سے كہيں  چور نہ بن جائے۔۔۔۔
 اللہ المستعان
(بحوالہ: الطبقات الكبرى لإبن سعد)

  کیا یہ واقعہ مستند ھے؟!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
__*باسمہ تعالی*__
*الجواب وبہ التوفیق*

 مذکورہ واقعہ "طبقات ابن سعد " میں -جہاں حضرت ابودجانہ کا ذکر ہے- مذکور ہی نہیں۔

المصدر: طبقات ابن سعد
المؤلف: محمد بن سعد
المجلد:3.
الصفحہ: 515.
الرقم: 273
الطبع: مکتبہ الخانجی قاھرہ,

💠  *واقعہ کا ماخذ*

 یہ واقعہ امام عبد الرحمن صفوری شافعی نے اپنی کتاب " نزہت المجالس" میں حکایت اور محض کہانی کی حیثیت سے بلا کسی سند کے ذکر کیا ھے۔

▪ *واقعہ کی عبارت*


" كان في زمن النبي صلى الله عليه وسلم رجل يقال له أبو دجانة، فإذا صلى الصبح خرج من المسجد سريعا، ولم يحضر الدعاء، فسأله النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال: جاري له نخلة يسقط رطبها في داري ليلا من الهواء، فأسبق أولادي قبل أن يستيقظوا، فأطرحه في داره، فقال النبي صلى الله عليه وسلم لصاحبها: ( بعني نخلتك بعشر نخلات في الجنة، عروقها من ذهب أحمر، وزبرجد أخضر، وأغصانها من اللؤلؤ الأبيض ) فقال: لا أبيع حاضرا بغائب، فقال أبو بكر: قد اشتريتها منه بعشر نخلات في مكان كذا، ففرح المنافق ووهب النخلة التي في داره لأبي دجانة، وقال لزوجته: قد بعت هذه النخلة لأبي بكر بعشر نخلات في مكان كذا، وهي داري، فلا ندفع لصاحبها إلا القليل، فلما نام تلك الليلة وأصبح، وجد النخلة قد تحولت من داره إلى دار أبي دجانة ".

(ترجمہ)

  حضور اکرم کے زمانے میں حضرت ابودجانہ فجر کی نماز پڑھ کر جلدی سے مسجد سے چلے جاتے اور دعا میں حاضری نہیں دیتے تہے ایک دن حضور نے اس کی وجہ معلوم کی تو ابودجانہ نے عرض کیا: کہ حضرت معاملہ یہ ھے کہ میرے( منافق) پڑوسی کا ایک کہجور کا درخت ہے جس پر کہجوریں لدی ہیں رات کو ہوا چلنے سے کچھ کہجوریں جھڑ کر میرے گھر میں آگرتی ہیں تو میں اپنے بچوں کی بیداری سے قبل جاکر ان کہجوروں کو اٹھاکر پڑوسی کی طرف ڈال دیتا ہوں , تو حضور نے اس درخت والے سے کہا: تم مجہے اپنا درخت جنت کے دس درختوں کے بدلے بیچ دو! جنکے تنے سرخ سونے اور سبز زمرد کے ہونگے جبکہ ان کی شاخیں سفید موتیوں کی ہونگی۔ تو مالک درخت پڑوسی نے کہا: مجہے یہ درخت فروخت نہیں کرنا ھے  اور میں اس درخت کو جو ابہی موجود ھے ان درختوں کے بدلے کیسے بیچ سکتا ہوں جو غائب ہیں ؟( یعنی جنت میں ہیں) حضرت ابوبکر کو علم ہوا تو انہوں نے کہا: یارسولﷲ! میں اس درخت کو جنت کے ان دس درختوں کے بدلے خریدتا ہوں,  چنانچہ وہ منافق مالک درخت راضی ہوگیا, اور اپنی بیوی سے کہنے لگا: کہ میں نے درخت ابوبکر کو فروخت کردیا ھے جبکہ وہ درخت میری ہی زمین میں لگا ہوا ھے میں اسکے پھلوں کا معمولی حصہ ہی ان کو دونگا۔ ( بقیہ جعل سازی کرکے خود رکھونگا) چنانچہ اس رات جب وہ سویا اور صبح سوکر اٹھا تو دیکہا کہ وہ درخت رات میں اسکے گھر سے نکل کر حضرت ابودجانہ کے گھر جاکر زمین میں لگ گیا۔

المصدر: نزهة المجالس
المؤلف: عبد الرحمن الصفوري
المجلد: 1
الصفحة:238
الطبع:  المكتب الثقافي، قاهرة

___ الحاصل___

 مذکورہ واقعہ امام صفوری شافعی نے منافق کے متعلق ذکر کیا ھے نہ کہ یہودی کے متعلق, نیز واقعہ کو حکایت کے نام سے بیان کیا ھے حدیث کے عنوان سے نہیں؛ اور واقعہ میں کچھ فرق بہی ھے لہذا اس کو حدیث کا نام ہرگز نہ دیا جائے فقط ایک کہانی کی حیثیت دی جائے۔

وﷲ تعالی اعلم
کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

No comments:

Post a Comment