Wednesday, September 11, 2019

زینب کا مرثیہ

▪ *شہیدِ کربلا پر زینب کا مرثیہ*▪


   ایک مرثیہ منسوب بطرف " حضرت زینب بنت فاطمہ " مشہور ھے:

کہ ابومخنف سے روایت ہے کہ حضرت حسینؓ بن علیؓ شہید کربلا کی ہمشیرہ زینب بنت فاطمہ جب اپنے بھائی حضرت حسینؓ کی لاش کے پاس سے گزریں تو انہوں نے چیخ و پکار کر یہ مرثیہ پڑھا:
 ہائے محمد!! ہائے محمد!! تم پر آسمان کے فرشتوں کی درود نازل ہو, یہاں حسینؓ چٹیل میدان میں پڑے ہیں, خون میں لت پت ہیں, اعضاء بکھرے پڑے ہیں, ہائے محمد!! آپ کی بیٹیوں کو قید کرلیا گیا ہے, اور اولاد کو تہہ تیغ کردیا گیا ہے, جن پر گرد و غبار اڑ رہا ھے ,

راوی کہتا ھے: اس مرثیہ نے بخدا ہر دوست و دشمن کو رلاکر رکھدیا۔
کیا واقعتا حضرت زینب نے مذکورہ مرثیہ پڑھا تہا؟

 ___*باسمہ تعالی*___
*الجواب وبہ التوفیق:*

  ماہ محرم کی آمد ہوتے ہی واقعہ کربلا کے متعلق بہت کچھ بیان و نشر ہوتا ہے؛ لیکن اس میں بہت سی باتیں من گھڑت, یا غیر مستند, بہت کمزور بہی ہوتی ہیں کہ جنکو معتبر نہیں مانا جاسکتا ھے , انہیں کمزور اور غیر مستند باتوں میں سے سوال میں معلوم کردہ  مرثیہ منسوب بطرف " حضرت زینب بنت فاطمہ" بہی ہے , جسکی نسبت نواسیٔ رسول کی جانب کرنا درست نہیں ۔

♦ *مرثیہ کا ماخذ*

 اس مرثیہ کا ماخذ تاریخ طبری ہے:

من رواية *أبي مخنف*، قال: حدثني أبو زهير العبسي، عن قرة بن قيس التميمي، قال: نظرت إلى تلك النسوة لما مررن بحسين وأهله وولده صِحْنَ ولطمن وجوههن، قال: فاعترضتهن على فرس، فما رأيت منظراً من نسوة قط كان أحسن من منظر رأيته منهم ذلك اليوم، قال: فما نسيت من الأشياء لا أنس قول زينب ابنة فاطمة حين مرت بأخيها الحسين صريعاً وهي تقول: يا محمداه يا محمداه صلى عليك ملائكة السماء، هذا الحسين بالعراء مرمل بالدماء، مقطع الأعضاء، يا محمداه وبناتك سبايا، وذريتك مقتلة، تسفي عليها الصبا، قال: فأبكت والله كل عدو وصديق.

المصدر: تاریخ الطبری
المؤلف : ابن جریر الطبری
المجلد: 5
الصفحہ: 456
الطبع: دار المعارف , مصر۔


🔰  *روایت کا درجہ*

یہ روایت بلحاظ سند کم از کم بہت زیادہ کمزور و ضعیف ھے تاآنکہ نقاد حدیث حضرات کی تفصیلات کی روشنی میں تو اسکو بیان کرنا بہی درست نہیں؛ کیونکہ اسکی سند میں ایک راوی " ابو مخنف لوط بن یحی " ہیں ۔ جو ایک شیعہ راوی و مؤرخ  ہیں جنکو روایت میں ناقابل اعتماد کہا گیا ہے۔

 🔘 *ابو مخنف*

لوط بن يحي أبو مخنف اخباري تالف لايوثق به، تركه أبوحاتم وغيره، وقال الدارقطني: ضعيف، وقال ابن معين: ليس بثقة، وقال مرة: ليس بشئ، وقال ابن عدي: شيعي محترق صاحب أخبارهم.

المصدر: ميزان الاعتدال
المؤلف: الذهبي
المجلد: 3
 الصفحة: 419
الطبع: دار المعرفة، بيروت، لبنان.



وﷲ تعالی اعلم
کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

No comments:

Post a Comment