Monday, December 9, 2019

حضرت رکانہ کی نبی کریم سے کشتی

•• *حضرت رُکانہؓ سے نبی کریمؐ کی کُشتی*••

قبیلہ بنو ہاشم میں رکانہ نامی ایک مشرک شخص تھا۔ یہ بڑا ہی زبردست ، دلیر اور نامی گرامی پہلوان تھا ، اس کا ریکارڈ تھا کہ اسے کبھی کسی نے نہیں گرایا تھا۔یہ پہلوان اضم نام کے ایک جنگل میں رہتا تھا جہاں یہ بکریاں چراتا تھا اور بڑا ہی مالدار تھا۔ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے اس کی طرف جا نکلے۔ رکانہ نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو آپ کے پاس آکر کہنے لگا۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، تو وہی ہے جو ہمارے (خدائوں) لات و عزیٰ کی توہین اور تحقیر کرتا ہے اور اپنے ایک خدا کی بڑائی بیان کرتا ہے؟ اگر میرا تجھ سے تعلق رحمی نہ ہوتا تو آج میں تجھے مار ڈالتا۔اور کہنے لگا کہ میرے ساتھ کشتی کر، تو اپنے خدا کو پکار۔ میں اپنے خدائوں لات و عزیٰ کو پکارتا ہوں۔ دیکھیں تمہارے خدا میں کتنی طاقت ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ رکانہ اگر کشتی ہی کرنا ہے تو چل میں تیار ہوں۔ رکانہ یہ جواب سن کر پہلے تو بڑا حیران ہوا اور پھر بڑے تکبر کے ساتھ مقابلے میں کھڑ ا ہوگیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی ہی جھپٹ میں سے گرا لیا اور اس کے سینے پر بیٹھ گئے، رکانہ عمر میں پہلی مرتبہ گر کر بڑا شرمندہ ہوا اور حیران بھی ‘ اور بولا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے سینے سے اٹھ کھڑے ہو۔ میرے خدائوں لات و عزیٰ نے میری طرف دھیان نہیں دیا ، ایک بار اور موقع دو اور آئو دوسری مرتبہ کشتی لڑیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رکانہ سے سینے پر سے اٹھ گئے اور دوبارہ کشتی کے لئے رکانہ پہلوان بھی اٹھا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری مرتبہ بھی رکانہ کو پل بھر میں گرا لیا ، رکانہ نے کہا، اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! معلوم ہوتا ہے آج میرے خدا مجھ سے ناراض ہیں اور تمہار خدا تمہاری مدد کررہا ہے۔ خیر ایک مرتبہ اور آؤ، اس مرتبہ میرے خدا لات و عزیٰ میرے مدد ضرور کریں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے مرتبہ بھی کشتی کے لئے منظور کرلیا۔ اور تیسرے مرتبہ بھی اسے پچھاڑ دیا۔

اب تو رکانہ پہلوان بڑا ہی شرمندہ ہوا اور کہنے لگا۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! میری ان بکریوں میں سے جتنی چاہو بکریاں لے لو ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ رکانہ مجھے تمہارے مال کی ضرورت نہیں ، ہاں اگر تم مسلمان ہوجا تو جہنم کی آگ سے بچ جاؤگے۔ رکانہ نے جواب دیا۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !میں مسلمان تو ہوجائوں مگر میرا نفس جھجہکتا ہے کہ مدینہ اور گرد نواح کے لوگ کیا کہیں گے کہ اتنے بڑے پہلوان نے شکست کھائی اور مسلمان ہوگیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، تو تیرا مال تجھ ہی کو مبارک ہو۔ یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے آئے۔
حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق ؓ نے عرض کیا۔ کیا آپ نے رکانہ کو پچھاڑا؟ وہ تو ایسا پہلوان تھا کہ آج تک اسے کسی نے گرا ہی نہیں تھا۔ حضور نے کہا: میں نے رب سے دعا کی اس نے میری مدد کی۔

اس واقعے کی تحقیق مطلوب ھے !!!

••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:*

  اس واقعہ کے دو جزء ہیں:

1) حضورؑ کا حضرت رکانہؓ سے کشتی کرنا اور انکو پچھاڑنا۔

2) حضرت رکانہؓ کا قبول اسلام۔

1⃣ *پہلا جزء*
 یہ بات درست ھے کہ حضور اکرمؑ کا حضرت رکانہؓ سے مقابلہ ہوا ھے اور حضورؑ نے ان کو پچھاڑا بہی تہا جیساکہ سوال میں ذکر کردہ واقعہ سے معلوم ہوا ھے۔اور اس واقعہ کا ذکر متعدد کتب سیرت و تاریخ بشمول کتب حدیث میں ھے۔سنن اؔبوداود و سنن ترؔمذی میں بہت ہی مختصرا اس واقعہ کی جانب اشارہ مذکور ھے۔

▪ *سنن ابوداود میں*

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ الثَّقَفِىُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ الْعَسْقَلاَنِىُّ عَنْ أَبِى جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِىِّ بْنِ رُكَانَةَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رُكَانَةَ صَارَعَ النَّبِي صلى الله عليه وسلم فَصَرَعَهُ النَّبِي صلى الله عليه وسلم، ملخصااهـ.

٭ سنن ابوداود
٭ مجلد: 6
٭ صفحة: 177
٭ رقم: 4078
٭ درجة: ضعيف
٭ طبع :دار الرسالة العالمية، دمشق.

🔹 *ترمذي ميں*

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قال حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ عن أَبي الْحَسَنِ الْعَسْقَلاَنِىُّ عَنْ أَبِى جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ رُكَانَةَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رُكَانَةَ صَارَعَ النَّبِي صلى الله عليه وسلم فَصَرَعَهُ النَّبِي صلى الله عليه وسلم، ملخصااهـ هذا حديث غريب، وإسناده ليس بالقائم، لا نعرف أبا الحسن العسقلاني، ولا ابن ركانة.

 ➕ امام ترمذیؒ نے اس روایت کی سند کو کمزور قرار دیا ھے۔


٭ سنن ترمذي
٭ المجلد:3
٭ الصفحة: 380
٭ الرقم: 1784
٭ الدرجة: ضعيف
٭ الطبع: دار الغرب الاسلامی بیروت لبنان۔

 🔰 *مراسیل ابوداود میں*

 یہ واقعہ کچھ مفصلا امام ابوداودؒ نے مرسلا بسند صحیح اپنی کتاب" مراسیل ابوداود" میں حضرت سعید
بن جبیرؒ سے روایت فرمایا ھے:

• نام کتاب: مراسیل ابوداود
• مصنف: امام ابوداودؒ
• راوی: سعید بن جبیرؒ
• صفحہ: 235
• رقم: 308
• درجہ: مرسل,
• طبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.

⚠  مراسیل ابوداود کی سند صحیح ھے ؛ لیکن وہ مرسل ھے پھر بھی اس کو بیان اس لیے کیا جاسکتا ھے کہ اس واقعہ کی ایک سند اور بہی ھے جو موصولا ھے گو کہ رتبہ میں ضعیف ھے۔

__ *سند موصول*__

اخرج الخطيب في الموتلف من طريق احمد بن عتاب العسكري، حدثنا حفص بن عمر، حدثنا حماد بن سلمة، عن عمرو بن دينار، عن سعيد بن جبير،عن ابن عباس: الخـ  ملخصا.

٭ الاصابة في تميز الصحابةؓ
٭ المؤلف: ابن حجر العسقلانيؒ
٭ الصفحة: 3071
٭ الرقم:9279
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

__ *دلائل النبوة میں*__

  امام بیہقیؒ نے بہی "دلائل النبوہ" میں اس واقعہ کا ذکر سند موصول کیساتھ کیا ھے جسکی سند حضرت ابو امامہؓ تک پہونچتی ھے۔ گو کہ یہ سند بہی ضعیف ھے اس میں ایک راوی "ابو عبد الملک علی بن یزید الشامی" ہیں جو روایت میں قوی نہیں ہیں. اور خود امام بیہقیؒ نے اس واقعہ کے متعلق رقم فرمایا ھے: کہ ان مراسیل کی اصل موصول روایات میں موجود ھے۔

دیکھئے!

 + نام کتاب: دلائل النبوۃ
 + نام محدث: ابو بکر البیہقیؒ
 + جلد: 6
 + صفحہ: 252/251
 +طبع: دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔


💠 *المسارعة الي المصارعة ميں*

عؔلامه سيوطيؒ كي كتاب "المسارعة الي المصارعة " میں اس واقعہ کی تفصیلات مذکور ہیں اور انہوں نے پانچ روایات مفصلا وہاں ذکر کی ہیں اور اس کتاب کی تخریج و تحقیق کرنیوالے محقق" مشہود حسن سلمان" نے بہی وہی بات کہی ھے جو امام بیہقیؒ نے کہی ھے کہ یہ واقعہ بے اصل بالکل نہیں ھے ۔

< نام کتاب: المسارعة الي المصارعة
< نام مؤلف: جلال الدين سيوطيؒ
< نام محقق: مشهود حسن سلمان
< صفحہ: 72/59
< طبع: مكتبة السوادي للتوزيع، السعودية.


⭕ *الفروسية ميں*

اس واقعہ کا ذکر "ابن القیمؒ " نے بہی اپنی کتاب" الفروسیة المحمدية" میں کیا ھے:

= نام کتاب: الفروسیة المحمدية
=نام مؤلف: ابن القیم الجوزيةؒ
= صفحة: 10
= طبع: دار عالم الفوائد، مكة.

☪ *البداية والنهاية ميں*

عؔلامہ ابن کثیرؒ نے اپنی مشہور کتاب" البدایہ والنہایہ" میں اس واقعہ کو نہایت مفصل انداز میں ذکر کیا ھے اور اسکی سند موصول کی جانب بہی اشارہ فرمایا ھے,

( نام کتاب: البداية والنهاية
(نام مصنف: حافظ ابن كثيرؒ
(جلد: 4
(صفحہ: 255
( طبع: مركز البحوث والدراسات العربية، والاسلامية، دار الهجرة.

🌷 _*أنساب الاشراف میں*_

"انساب الاشراف" میں بھی " بلاذریؒ" نے اس کی موصولا ذکر کیا ھے:

* نام کتاب: أنساب الأشراف
* نام مؤلف: أحمد البلاذريؒ
* جلد: 1
* صفحة: 175
* طبع: دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت، لبنان.


2⃣ *واقعہ کا دوسرا جزء حضرت رکانہؓ کا اسلام*

 اس میں دو رائے ہیں: بقول بعض «حضرت رکانہ» کشتی میں ہارجانے کے بعد مشرف باسلام ہوئے , اور بقول بعض وہ اس وقت تو اسلام نہیں لائے ؛ البتہ "فتح مکہ" کے موقعہ پر وہ اسلام لانیوالوں میں سے ہوئے۔


▪ ہم اؔبن اثیرؒ کے حوالہ سے یہ یہاں فقط اتنا ذکر کرتے ہیں کہ حضرت رکانہؓ فتح مکہ کے موقعہ پر قبول اسلام کرنے والوں میں سے ہیں.


هذا ركانة هو الذي صارع النبي، فصرعه النبي، مرتين أو ثلاثا، وكان من أشد قريش، وهو من مسلمة الفتح. ملخصاـ الخ.

٭ المصدر: أسد الغابة
٭ المؤلف: ابن أثير
٭ الصفحة: 400
٭ الرقم: 1208
٭ الطبع: دار ابن حزم، بيروت، لبنان.


وﷲ تعالی اعلم
✍🏻... کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*
٩دسمبر ؁ء ۲۰۱۹

No comments:

Post a Comment