*_خود اپنے منکروں کی بہی وہ کرتا ھے پرورش_*
محترم مفتی صاحب! حالیہ دنوں میں ایک مشہور اہل السنت والجماعت کے داعی واعظ خطیب کا بیان سن رہا تہا جس میں انہوں نے ﷲ تعالی کا اپنے گنہگار بندوں سے بہی محبت اور رحمت کا ذکر کرتے ہوئے دو واقعات بیان کیے مجہے ان کی تصدیق مطلوب ھے:
1) ہندوستان میں ایک بت کا پجاری رہا کرتا تہا وہ اپنے بت سے اپنی حاجت روائی و مدد کی دعا کیا کرتا تہا ایک دن اس کو کوئی اہم حاجت در پیش ہوئی تو اس نے اپنی عادت کے موافق بت کو پکارا : یا صنم صنم لیکن بت کی جانب سے کوئی جواب بدستور نہیں آیا اچانک اسکے منہ سے نکلا : یا صمد! تو اس پجاری کو فضا میں آواز سنائی دی لبیک میرے بندے مانگ جو تو چاہتا ھے چنانچہ وہ بت کا پجاری توحیدی بن گیا اور اسلام لے آیا تو فرشتوں نے خدا تعالی سے عرض کیا: یہ بت پرست زمانوں سے اپنے بت کو پکارتا رہا لیکن بت نے اسکی کبہی فریاد رسی نہ کی ؛ لیکن اس نے آپ کو تو ایک بار ہی پکارا اور آپ نے فورا اسکی التجاء و دعا کو قبول فرمالیا؟ خدا تعالی نے کہا: اے فرشتوں! جب اس نے بت سے دعا کی تو قبول نہ ہوئی لیکن جب اس نے صمد کو پکارا تو پھر بہی اگر دعا مقبول نہ کیجاتی تو ایک صنم اور صمد یعنی بت اور خدا میں کیا فرق رہتا۔
2) دوسرا واقعہ یہ بیان کیا :
حضرت سیدنا ابراہیمؑ کو مہمان نوازی کا بہت شوق تہا وہ کبہی تنہاء کہانا نہ تناول فرماتے تھے جب کہانا لگا دیا جاتا تو وہ کسی نہ کسی کو دسترخوان پر ضرور دعوت دیتے تھے ایک روز انکو ایک شخص ملا, تو جب وہ کہانے بیٹھا تو حضرت ابراہیمؑ نے اس سے کہا: بسمﷲ پڑھو! وہ شخص کہنے لگا : میں تو ﷲ کو جانتا تک نہیں تو حضرت ایراہیمؑ نے اسکو دسترخوان سے اٹھادیا , جب وہ شخص بنا کہائے چلا گیا تو حضرت جبرئیلؑ آئے اور خدا کا پیغام سنایا: کہ اس بندے کوخدا تعالی کفر کے باوجود رزق دیتا رہا اور ابراہیم تم نے اس کیساتھ بخل کا معاملہ کیا ۔بس ابراہیمؑ فورا باہر گئے اور اس شخص کو واپس بلانے لگے , وہ نہیں آرہا تہا تو ابراہیمؑ نے اسکو سارا واقعہ کہہ سنایا, تو وہ شخص کہنے لگا : میرا رب بڑا کریم ھے اور اس نے اسلام قبول کرلیا اور حضرت ابراہیم کی دعوت بحالت اسلام تناول کی۔
••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:*
پہلا واقعہ صنم کے پجاری کے متعلق سوال میں ذکر کیا گیا ھے اسکو «عؔلامہ صفوری شافعیؒ» نے محض ایک حکایت و کہانی کی حیثیت سے لکہا ھے اسکو حدیث کا عنوان نہیں دیا گیا ھے؛ لہذا جب حدیث کا نام ہی نہیں دیا گیا ھے تو سند کی جستجو و تفتیش میں پڑنا بے جاغلو ھے ۔اللہ کی رحمت وسیع تر ھے۔
🌷كان ببلاد الهند شيخ كبير يعبد صنما دهرا طويلا ثم حصل له أمر مهم فاستغاث به فلم يغثه فقال يا أيها الصنم ارحم ضعفي فقد عبدتك دهرا طويلا فلم يجبه فانقطع عن ذلك رجاؤه منه ونظر إليه بعين الرحمة فخطر على قلبه أن يدعو الصمد فرمق بطرفه نحو السماء وقد وقع في الخجل وقال يا صمد فسمع صوتا من الهواء يقول لبيك يا عبد اطلب ما تريد فأقر الله بالوحدانية فقالت الملائكة ربنا دعا صنمه دهرا فلم يجبه ودعاك مرة واحدة فأجبته فقال يا ملائكتي إذا دعا الصنم فلم يجبه ودعا الصمد فلم يجبه فأي فرق بين الصنم والصمد ".
•نام کتاب: نزهة المجالس
•نام مؤلف: عبد الرحمن الصفوريؒ
•جلد: 1
•صفحة: 28
•درجة: حكاية
•طبع: المكتب الثقافي للنشر والتوزيع، قاهرة، مصر.
2⃣ *حضرت ابراہیمؑ کا واقعہ*
سیدنا حضرت ابراہیمؑ کے متعلق جو واقعہ مہمان نوازی کے متعلق ذکر کیا گیا ھے اسکو [تفسیر قرطبی] اور "احکام القرآن" وغیرہ میں بطور اسرائیلی روایت کے مفسرین نے نقل کیا ھے۔
🔘 *قرطبی میں*
وجاء في بعض الإسرائيليات قصة فيها عبرة، كان إبراهيم عليه السلام لا يأكل وحده، فإذا حضر طعامه أرسل يطلب من يأكل معه، فلقي يوماً رجلاً، فلما جلس معه على الطعام.
قال له إبراهيم: سم الله، قال له الرجل: لا أدري ما الله، قال له: اخرج عن طعامي، فلما خرج الرجل نزل إليه جبريل، فقال له: يقول الله -عز وجل-: إنه يرزقه على كفره مدى عمره، وأنت بخلت عليه بلقمة، فخرج إبراهيم مسرعاً فرده، فقال: ارجع، فقال: لا أرجع، تخرجني ثم تردني لغير معنى، قال: فأخبره بالأمر، فقال: هذا رب كريم آمنت، ودخل، وسمى الله، وأكل مؤمنًا.
• المصدر: تفسير قؔرطبي
•مؤلف: ابوعبد الله القرطبيۃ
• مجلد: 11
•صفحة: 167
• درجة: اسرائيلية
• طبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.
💎 *أحكام القرآن ميں*
احکام القرآن میں بھی ابن العربی نے انہیں الفاظ میں مذکورہ واقعہ بیان فرمایا ھے:
٭ نام كتاب: أحكام القرآن
٭ نام مفسر: ابوبکر ابن العربیؒ
٭ جلد: 3
٭ صفحة: 20
٭ طبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
__ *الحاصل*__
پہلا واقعہ بطور حکایت ہے اس کو حدیث یا کسی صحابیؓ کا قول کہہ کر بیان نہ کیا جائے۔ ایک واقعہ و حکایت کا عنوان دیا جاسکتا ھے
دوسرا واقعہ از قبیل اسرائیلیات ھے؛ لیکن یہ ان روایات اسرائیلیہ میں سے ھے جو نہ بالکل تصدیق شدہ ہیں اور بالکل تکذیب شدہ؛ بلکہ ان کے متعلق موقف یہ ھے کہ سکوت اختیار کیا جائے تصدیق و تردید نہ کیجائے۔البتہ اسکا بیان کرنا جائز ھے لیکن ایسی روایات پر کسی دینی مسئلہ کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی ھے, نیز ایسی باتوں کے بیان میں کچھ فائدہ بہی نہیں ھے ۔
(مستفاد:)
نام کتاب: علوم القرآن
نام مصنف: مفتی محمد تقی عؔثمانی
صفحہ: 346
طبع: مکتبہ دار العلوم کراچی۔
وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ : *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
۹ دسمبر ء ۲۰۱۹
محترم مفتی صاحب! حالیہ دنوں میں ایک مشہور اہل السنت والجماعت کے داعی واعظ خطیب کا بیان سن رہا تہا جس میں انہوں نے ﷲ تعالی کا اپنے گنہگار بندوں سے بہی محبت اور رحمت کا ذکر کرتے ہوئے دو واقعات بیان کیے مجہے ان کی تصدیق مطلوب ھے:
1) ہندوستان میں ایک بت کا پجاری رہا کرتا تہا وہ اپنے بت سے اپنی حاجت روائی و مدد کی دعا کیا کرتا تہا ایک دن اس کو کوئی اہم حاجت در پیش ہوئی تو اس نے اپنی عادت کے موافق بت کو پکارا : یا صنم صنم لیکن بت کی جانب سے کوئی جواب بدستور نہیں آیا اچانک اسکے منہ سے نکلا : یا صمد! تو اس پجاری کو فضا میں آواز سنائی دی لبیک میرے بندے مانگ جو تو چاہتا ھے چنانچہ وہ بت کا پجاری توحیدی بن گیا اور اسلام لے آیا تو فرشتوں نے خدا تعالی سے عرض کیا: یہ بت پرست زمانوں سے اپنے بت کو پکارتا رہا لیکن بت نے اسکی کبہی فریاد رسی نہ کی ؛ لیکن اس نے آپ کو تو ایک بار ہی پکارا اور آپ نے فورا اسکی التجاء و دعا کو قبول فرمالیا؟ خدا تعالی نے کہا: اے فرشتوں! جب اس نے بت سے دعا کی تو قبول نہ ہوئی لیکن جب اس نے صمد کو پکارا تو پھر بہی اگر دعا مقبول نہ کیجاتی تو ایک صنم اور صمد یعنی بت اور خدا میں کیا فرق رہتا۔
2) دوسرا واقعہ یہ بیان کیا :
حضرت سیدنا ابراہیمؑ کو مہمان نوازی کا بہت شوق تہا وہ کبہی تنہاء کہانا نہ تناول فرماتے تھے جب کہانا لگا دیا جاتا تو وہ کسی نہ کسی کو دسترخوان پر ضرور دعوت دیتے تھے ایک روز انکو ایک شخص ملا, تو جب وہ کہانے بیٹھا تو حضرت ابراہیمؑ نے اس سے کہا: بسمﷲ پڑھو! وہ شخص کہنے لگا : میں تو ﷲ کو جانتا تک نہیں تو حضرت ایراہیمؑ نے اسکو دسترخوان سے اٹھادیا , جب وہ شخص بنا کہائے چلا گیا تو حضرت جبرئیلؑ آئے اور خدا کا پیغام سنایا: کہ اس بندے کوخدا تعالی کفر کے باوجود رزق دیتا رہا اور ابراہیم تم نے اس کیساتھ بخل کا معاملہ کیا ۔بس ابراہیمؑ فورا باہر گئے اور اس شخص کو واپس بلانے لگے , وہ نہیں آرہا تہا تو ابراہیمؑ نے اسکو سارا واقعہ کہہ سنایا, تو وہ شخص کہنے لگا : میرا رب بڑا کریم ھے اور اس نے اسلام قبول کرلیا اور حضرت ابراہیم کی دعوت بحالت اسلام تناول کی۔
••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:*
پہلا واقعہ صنم کے پجاری کے متعلق سوال میں ذکر کیا گیا ھے اسکو «عؔلامہ صفوری شافعیؒ» نے محض ایک حکایت و کہانی کی حیثیت سے لکہا ھے اسکو حدیث کا عنوان نہیں دیا گیا ھے؛ لہذا جب حدیث کا نام ہی نہیں دیا گیا ھے تو سند کی جستجو و تفتیش میں پڑنا بے جاغلو ھے ۔اللہ کی رحمت وسیع تر ھے۔
🌷كان ببلاد الهند شيخ كبير يعبد صنما دهرا طويلا ثم حصل له أمر مهم فاستغاث به فلم يغثه فقال يا أيها الصنم ارحم ضعفي فقد عبدتك دهرا طويلا فلم يجبه فانقطع عن ذلك رجاؤه منه ونظر إليه بعين الرحمة فخطر على قلبه أن يدعو الصمد فرمق بطرفه نحو السماء وقد وقع في الخجل وقال يا صمد فسمع صوتا من الهواء يقول لبيك يا عبد اطلب ما تريد فأقر الله بالوحدانية فقالت الملائكة ربنا دعا صنمه دهرا فلم يجبه ودعاك مرة واحدة فأجبته فقال يا ملائكتي إذا دعا الصنم فلم يجبه ودعا الصمد فلم يجبه فأي فرق بين الصنم والصمد ".
•نام کتاب: نزهة المجالس
•نام مؤلف: عبد الرحمن الصفوريؒ
•جلد: 1
•صفحة: 28
•درجة: حكاية
•طبع: المكتب الثقافي للنشر والتوزيع، قاهرة، مصر.
2⃣ *حضرت ابراہیمؑ کا واقعہ*
سیدنا حضرت ابراہیمؑ کے متعلق جو واقعہ مہمان نوازی کے متعلق ذکر کیا گیا ھے اسکو [تفسیر قرطبی] اور "احکام القرآن" وغیرہ میں بطور اسرائیلی روایت کے مفسرین نے نقل کیا ھے۔
🔘 *قرطبی میں*
وجاء في بعض الإسرائيليات قصة فيها عبرة، كان إبراهيم عليه السلام لا يأكل وحده، فإذا حضر طعامه أرسل يطلب من يأكل معه، فلقي يوماً رجلاً، فلما جلس معه على الطعام.
قال له إبراهيم: سم الله، قال له الرجل: لا أدري ما الله، قال له: اخرج عن طعامي، فلما خرج الرجل نزل إليه جبريل، فقال له: يقول الله -عز وجل-: إنه يرزقه على كفره مدى عمره، وأنت بخلت عليه بلقمة، فخرج إبراهيم مسرعاً فرده، فقال: ارجع، فقال: لا أرجع، تخرجني ثم تردني لغير معنى، قال: فأخبره بالأمر، فقال: هذا رب كريم آمنت، ودخل، وسمى الله، وأكل مؤمنًا.
• المصدر: تفسير قؔرطبي
•مؤلف: ابوعبد الله القرطبيۃ
• مجلد: 11
•صفحة: 167
• درجة: اسرائيلية
• طبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.
💎 *أحكام القرآن ميں*
احکام القرآن میں بھی ابن العربی نے انہیں الفاظ میں مذکورہ واقعہ بیان فرمایا ھے:
٭ نام كتاب: أحكام القرآن
٭ نام مفسر: ابوبکر ابن العربیؒ
٭ جلد: 3
٭ صفحة: 20
٭ طبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
__ *الحاصل*__
پہلا واقعہ بطور حکایت ہے اس کو حدیث یا کسی صحابیؓ کا قول کہہ کر بیان نہ کیا جائے۔ ایک واقعہ و حکایت کا عنوان دیا جاسکتا ھے
دوسرا واقعہ از قبیل اسرائیلیات ھے؛ لیکن یہ ان روایات اسرائیلیہ میں سے ھے جو نہ بالکل تصدیق شدہ ہیں اور بالکل تکذیب شدہ؛ بلکہ ان کے متعلق موقف یہ ھے کہ سکوت اختیار کیا جائے تصدیق و تردید نہ کیجائے۔البتہ اسکا بیان کرنا جائز ھے لیکن ایسی روایات پر کسی دینی مسئلہ کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی ھے, نیز ایسی باتوں کے بیان میں کچھ فائدہ بہی نہیں ھے ۔
(مستفاد:)
نام کتاب: علوم القرآن
نام مصنف: مفتی محمد تقی عؔثمانی
صفحہ: 346
طبع: مکتبہ دار العلوم کراچی۔
وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ : *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
۹ دسمبر ء ۲۰۱۹
No comments:
Post a Comment