• *جب حضورؐ بہی رو پڑے*•
ایک واقعہ بہت مشہور ھے ہمیں اسکی تحقیق درکار ھے:
ایک صحابی رسول ایک دن حضور کے سامنے بڑے ہی مغموم بیٹھے تھے, تو آپ نے دریافت کیا : کہ ہوا اتنے غمگین کیوں ہو؟ تو ان صحابی نے کہا: یارسول خدا! میرا غم اس وجہ سے ھے کہ زمانہ جاہلیت میں اسلام لانے سے قبل مجھ سے بہت بڑا گناہ سرزد ہوا ھے اور مجہے خدا کا خوف دامن گیر ہے کہ میری اس گناہ کی وجہ سے مغفرت روک دی جائے, خواہ میں اسلام لاچکا ہوں!! حضور نے کہا: مجہے اپنا گناہ بتاؤ تو سہی! تو انہوں نے اپنا واقعہ سنایا: میرا شمار ان لوگوں میں سے ھے جو اپنی لڑکیوں کو زندہ در گور کیا کرتے تہے ؛ چنانچہ میرے گھر بہی خدا نے ایک چاند سی بیٹی عطا کی تہی میری اہلیہ نے مجھ سے خوب منت سماجت کی کہ میں اس بیٹی کو نہ ماروں اور زندہ رہنے دوں! چنانچہ میں نے اہلیہ کی بات مان لی اور میری بیٹی جوان ہوگئ اور وہ انتہائی حسین و جمیل تہی چنانچہ اسکے رشتے آنے لگے اور مجھ میں جاہلی حمیت جاگ گئ مجہے کسی کو داماد بنانا اور اپنی بیٹی دیکر خود کو کسی کے سامنے کمزور بنانا منظور نہ ہوا , میرے دل نے گوارا نہ کیا کہ میں اسکی شادی کراؤں اور نہ ہی یہ گوارا ہوا کہ اسکو یونہی کنوارا رہنے دوں! ایک دن میں اپنی بیوی سے بولا: کہ میں اپنے فلاں رشتے دار کے ہاں جارہا ہوں تم لڑکی کو بہی میرے ساتھ روانہ کردو! بیوی کو بہت خوشی ہوئی کہ اسکا شوہر اپنی بیٹی کو سفر میں لیجانا چاہتا ھے, تو اس نے بیٹی کو خوب آراستہ کیا خوب تیار کیا اور اسکو نیا جوڑا پہنایا , زیورات پہنائے ؛ لیکن اس نے روانگی سے قبل مجھ سے خوب عہد و قرار لیا کہ میں وعدہ خلافی نہ کروں یعنی بیٹی کو کوئی زک نہ پہونچاؤں! الغرض! میں اسکو لیکر نکلا اور راستے میں ایک کنواں پڑتا تہا میں اسکو وہاں لے گیا میں نے کنویں میں جہانکا میری لڑکی میرا ارادہ بہانپ گئ کہ میں اسکو کنویں میں ڈالنا چاہتا ہوں وہ مجھے لپٹ گئ اور رو رو کر خوب دہائی دینے لگی : بابا جان! تم یہ کیا کر رھے ہو؟ مجہے رحم آگیا اور میں کنویں میں دیکھنے لگا مجھ پر پھر وہی جاہلیت والی غیرت سوار ہوگئ لڑکی دوبارہ مجہے چپٹ کر رو رو کر کہنے لگی : بابا جان! میں امی جان کی امانت ہوں مجہے یوں ضائع مت کرو! میں تہا کہ کبہی کنویں کو دیکہتا اور کبہی گڑگڑاتی ہوئی اپنی لخت جگر کو دیکہتا مجہے اسکی حالت اور بے کسی پر رحم بہی آرہا تہا ؛ لیکن میرے رحم کے مقابلہ میں مجھ پر شیطان غالب آگیا اور میں نے اس بیچاری کو اٹھا کر کنویں میں اوندھے منہ ڈال دیا, کنویں سے اسکی چیخیں مجہے سنائی دیتی رہیں ابا جان! ابا جان! مجہے یوں نہ زندگی سے محروم کرو! لیکن مجھ پر اسکی کسی بات کا کوئی اثر نہ ہوا میں اسکے موت کی آغوش میں جانے تک وہیں ٹہرا رہا یہاں تک کہ مر چکی تہی پھر میں وہاں سے لوٹ آیا ۔یہ واقعہ سن کر نبی کریم بہی رو پڑے اور جو صحابہ سن رہے تھے سب رو پڑے , حضور نے فرمایا: اگر میں زمانۂ جاہلیت کے کیے ہوئے کسی جرم کی سزا دینے کا مجاز ہوتا تو تمکو اس جرم کی سزا ضرور دیتا۔
•• *باسمہ تعالی* ••
*الجواب وبہ التوفیق:*
یہ واقعہ متعدد کتب تفسیر میں مذکور ہے؛ لیکن سند وہاں بہی مذکور نہیں ھے۔چنانچہ اس واقعہ کو حتمی نہیں مانا جاسکتا ھے۔
🔘 *تفسیر قرطبی میں*
روي أن رجلا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم كان لا يزال مغتما بين يدي رسول الله
صلى عليه وسلم: (مالك تكون محزونا) ؟ فقال: يا رسول الله، إن أذنبت ذنبا في الجاهلية فأخاف ألا يغفره الله لي وإن أسلمت ! فقال له: (أخبرني عن ذنبك).
فقال: يا رسول الله، إن كنتُ، من الذين يقتلون بناتهم، فولدت لي بنت فتشفعت إلى امرأتي أن أتركها فتركتها حتى كبرت وأدركت، وصارت من أجمل النساء فخطبوها، فدخلتني الحمية ولم يحتمل قلبي أن أزوجها أو أتركها في البيت بغير زوج، فقلت للمرأة: إني أريد أن أذهب إلقبيلة كذا وكذا في زيارة أقربائي فابعثيها معي، فسرت بذلك وزينتها بالثياب والحلي، وأخذت علي المواثيق بألا أخونها، فذهبت بها إلى رأس بئر فنظرت في البئر ففطنت الجارية أني أريد أن ألقيها في البئر، فالتزمتني وجعلت تبكي وتقول: يا أبت ! إيش تريد أن تفعل بي ! فرحمتها، ثم نظرت في البئر فدخلت علي الحمية، ثم التزمتني وجعلت تقول: يا أبت لا تضيع أمانة أمي، فجعلت مرة أنظر في البئر ومرة أنظر إليها فأرحمها، حتى غلبني الشيطان فأخذتها وألقيتها في البئر منكوسة، وهي تنادي في البئر: يا أبت، قتلتني.
فمكثت هناك حتى انقطع صوتها فرجعت.
فبكى رسول الله صلى الله عليه وسلم وأصحابه وقال: (لو أمرت أن أعاقب أحدا بما فعل في الجاهلية لعاقبتك).
٭ المصدر : تفسير قرطبي
٭ المفسر : أبو عبد الله القرطبيؒ
٭ المجلد: 9
٭ الصفحة: 49
٭ الطبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.
💠 *تفسیر سمر قندی میں*
یہ واقعہ «امام ابواللیث سمرقندیؒ» نے اپنی مشہور تفسیر " بحر العلوم "میں بلا سند ذکر کیا ھے:
• المصدر: بؔحر العلوم
• المفسر: أبو الليث السمرقنديؒ
• المجلد: 1
• الصفحة: 516
• الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
والله تعالي أعلم
✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*
۲۱ جنوری: ۲۰۲۰ء
ایک واقعہ بہت مشہور ھے ہمیں اسکی تحقیق درکار ھے:
ایک صحابی رسول ایک دن حضور کے سامنے بڑے ہی مغموم بیٹھے تھے, تو آپ نے دریافت کیا : کہ ہوا اتنے غمگین کیوں ہو؟ تو ان صحابی نے کہا: یارسول خدا! میرا غم اس وجہ سے ھے کہ زمانہ جاہلیت میں اسلام لانے سے قبل مجھ سے بہت بڑا گناہ سرزد ہوا ھے اور مجہے خدا کا خوف دامن گیر ہے کہ میری اس گناہ کی وجہ سے مغفرت روک دی جائے, خواہ میں اسلام لاچکا ہوں!! حضور نے کہا: مجہے اپنا گناہ بتاؤ تو سہی! تو انہوں نے اپنا واقعہ سنایا: میرا شمار ان لوگوں میں سے ھے جو اپنی لڑکیوں کو زندہ در گور کیا کرتے تہے ؛ چنانچہ میرے گھر بہی خدا نے ایک چاند سی بیٹی عطا کی تہی میری اہلیہ نے مجھ سے خوب منت سماجت کی کہ میں اس بیٹی کو نہ ماروں اور زندہ رہنے دوں! چنانچہ میں نے اہلیہ کی بات مان لی اور میری بیٹی جوان ہوگئ اور وہ انتہائی حسین و جمیل تہی چنانچہ اسکے رشتے آنے لگے اور مجھ میں جاہلی حمیت جاگ گئ مجہے کسی کو داماد بنانا اور اپنی بیٹی دیکر خود کو کسی کے سامنے کمزور بنانا منظور نہ ہوا , میرے دل نے گوارا نہ کیا کہ میں اسکی شادی کراؤں اور نہ ہی یہ گوارا ہوا کہ اسکو یونہی کنوارا رہنے دوں! ایک دن میں اپنی بیوی سے بولا: کہ میں اپنے فلاں رشتے دار کے ہاں جارہا ہوں تم لڑکی کو بہی میرے ساتھ روانہ کردو! بیوی کو بہت خوشی ہوئی کہ اسکا شوہر اپنی بیٹی کو سفر میں لیجانا چاہتا ھے, تو اس نے بیٹی کو خوب آراستہ کیا خوب تیار کیا اور اسکو نیا جوڑا پہنایا , زیورات پہنائے ؛ لیکن اس نے روانگی سے قبل مجھ سے خوب عہد و قرار لیا کہ میں وعدہ خلافی نہ کروں یعنی بیٹی کو کوئی زک نہ پہونچاؤں! الغرض! میں اسکو لیکر نکلا اور راستے میں ایک کنواں پڑتا تہا میں اسکو وہاں لے گیا میں نے کنویں میں جہانکا میری لڑکی میرا ارادہ بہانپ گئ کہ میں اسکو کنویں میں ڈالنا چاہتا ہوں وہ مجھے لپٹ گئ اور رو رو کر خوب دہائی دینے لگی : بابا جان! تم یہ کیا کر رھے ہو؟ مجہے رحم آگیا اور میں کنویں میں دیکھنے لگا مجھ پر پھر وہی جاہلیت والی غیرت سوار ہوگئ لڑکی دوبارہ مجہے چپٹ کر رو رو کر کہنے لگی : بابا جان! میں امی جان کی امانت ہوں مجہے یوں ضائع مت کرو! میں تہا کہ کبہی کنویں کو دیکہتا اور کبہی گڑگڑاتی ہوئی اپنی لخت جگر کو دیکہتا مجہے اسکی حالت اور بے کسی پر رحم بہی آرہا تہا ؛ لیکن میرے رحم کے مقابلہ میں مجھ پر شیطان غالب آگیا اور میں نے اس بیچاری کو اٹھا کر کنویں میں اوندھے منہ ڈال دیا, کنویں سے اسکی چیخیں مجہے سنائی دیتی رہیں ابا جان! ابا جان! مجہے یوں نہ زندگی سے محروم کرو! لیکن مجھ پر اسکی کسی بات کا کوئی اثر نہ ہوا میں اسکے موت کی آغوش میں جانے تک وہیں ٹہرا رہا یہاں تک کہ مر چکی تہی پھر میں وہاں سے لوٹ آیا ۔یہ واقعہ سن کر نبی کریم بہی رو پڑے اور جو صحابہ سن رہے تھے سب رو پڑے , حضور نے فرمایا: اگر میں زمانۂ جاہلیت کے کیے ہوئے کسی جرم کی سزا دینے کا مجاز ہوتا تو تمکو اس جرم کی سزا ضرور دیتا۔
•• *باسمہ تعالی* ••
*الجواب وبہ التوفیق:*
یہ واقعہ متعدد کتب تفسیر میں مذکور ہے؛ لیکن سند وہاں بہی مذکور نہیں ھے۔چنانچہ اس واقعہ کو حتمی نہیں مانا جاسکتا ھے۔
🔘 *تفسیر قرطبی میں*
روي أن رجلا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم كان لا يزال مغتما بين يدي رسول الله
صلى عليه وسلم: (مالك تكون محزونا) ؟ فقال: يا رسول الله، إن أذنبت ذنبا في الجاهلية فأخاف ألا يغفره الله لي وإن أسلمت ! فقال له: (أخبرني عن ذنبك).
فقال: يا رسول الله، إن كنتُ، من الذين يقتلون بناتهم، فولدت لي بنت فتشفعت إلى امرأتي أن أتركها فتركتها حتى كبرت وأدركت، وصارت من أجمل النساء فخطبوها، فدخلتني الحمية ولم يحتمل قلبي أن أزوجها أو أتركها في البيت بغير زوج، فقلت للمرأة: إني أريد أن أذهب إلقبيلة كذا وكذا في زيارة أقربائي فابعثيها معي، فسرت بذلك وزينتها بالثياب والحلي، وأخذت علي المواثيق بألا أخونها، فذهبت بها إلى رأس بئر فنظرت في البئر ففطنت الجارية أني أريد أن ألقيها في البئر، فالتزمتني وجعلت تبكي وتقول: يا أبت ! إيش تريد أن تفعل بي ! فرحمتها، ثم نظرت في البئر فدخلت علي الحمية، ثم التزمتني وجعلت تقول: يا أبت لا تضيع أمانة أمي، فجعلت مرة أنظر في البئر ومرة أنظر إليها فأرحمها، حتى غلبني الشيطان فأخذتها وألقيتها في البئر منكوسة، وهي تنادي في البئر: يا أبت، قتلتني.
فمكثت هناك حتى انقطع صوتها فرجعت.
فبكى رسول الله صلى الله عليه وسلم وأصحابه وقال: (لو أمرت أن أعاقب أحدا بما فعل في الجاهلية لعاقبتك).
٭ المصدر : تفسير قرطبي
٭ المفسر : أبو عبد الله القرطبيؒ
٭ المجلد: 9
٭ الصفحة: 49
٭ الطبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.
💠 *تفسیر سمر قندی میں*
یہ واقعہ «امام ابواللیث سمرقندیؒ» نے اپنی مشہور تفسیر " بحر العلوم "میں بلا سند ذکر کیا ھے:
• المصدر: بؔحر العلوم
• المفسر: أبو الليث السمرقنديؒ
• المجلد: 1
• الصفحة: 516
• الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
والله تعالي أعلم
✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*
۲۱ جنوری: ۲۰۲۰ء
No comments:
Post a Comment