Tuesday, March 17, 2020

شداد کی جنت

▪ *شداد کی جنت* ▪

کہا جاتا ھے : کہ شداد نے زمین پر ایک جنت بنوائی تہی؛ لیکن جب وہ اس جنت کا دورہ کرنے گیا تو بقضائے الہی اسکو موت آگئ اور وہ اپنی جنت میں داخل بھی نہ ہوسکا۔اور اسکے متعلق ایک کہاوت شعری بہی مشہور ھے:
؎ روح شداد کی جب نکالی گئ, سیر باغِ ارم کی وہ کر نہ سکا, ہاتھ ملتا گیا اور یہ کہتا گیا, ایسی جنت کا کوئی بھروسہ نہیں۔

اسکی کیا حقیقت ھے؟

÷÷÷ *باسمہ تعالی* ÷÷÷
*الجواب وبہ التوفیق:*

"شداد" کی جنت کے متعلق جو مشہور ھے وہ چند تفاسیر کی کتب سے لوگوں میں زباں زد ہوا ھے؛ جبکہ حقیقت حال یہ ھے کہ شداد نے ایسی کوئی جنت نہیں بنوائی تہی۔

🔹 *تفسیر قرطبی میں* 🔹

امام قرطبی نے غیر یقینی طریقہ سے شداد کی جنت کا ذکر کیا ھے:

وَرُوِيَ أَنَّهُ كَانَ لِعَادٍ ابْنَانِ: شَدَّادٌ وَشَدِيدٌ، فَمَلَكَا وَقَهَرَا، ثُمَّ مَاتَ شَدِيدٌ، وَخَلَصَ الْأَمْرُ لِشَدَّادٍ فَمَلَكَ الدُّنْيَا، وَدَانَتْ لَهُ مُلُوكُهَا، فَسَمِعَ بِذِكْرِ الْجَنَّةِ، فَقَالَ: أَبْنِي مِثْلَهَا. فَبَنَى إِرَمَ في بعض صحاري عدن، في ثلاثمائة سَنَةٍ، وَكَانَ عُمُرُهُ تِسْعَمِائَةِ سَنَةٍ. وَهِيَ مَدِينَةٌ عَظِيمَةٌ، قُصُورُهَا مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، وَأَسَاطِينُهَا مِنَ الزَّبَرْجَدِ وَالْيَاقُوتِ، وَفِيهَا أَصْنَافُ الْأَشْجَارِ وَالْأَنْهَارِ الْمُطَّرِدَةِ.
 وَلَمَّا تَمَّ بِنَاؤُهَا سَارَ إِلَيْهَا بِأَهْلِ مَمْلَكَتِهِ، فَلَمَّا كَانَ مِنْهَا عَلَى مَسِيرَةِ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، بَعَثَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ صَيْحَةً مِنَ السَّمَاءِ فَهَلَكُوا.

(ترجمہ:)

ایک روایت بیان کی جاتی ھے: کہ عاد کے دو بیٹے تہے شداد اور شدید, دونوں بادشاہ ہوئے اور بڑے جابر بادشاہ ہوئے پھر شدید مرگیا, اور شداد کو حکومت مل گئ, وہ پوری دنیا کا بادشاہ بنا, تمام چھوٹے بادشاہ اسکے باجگزار اور ماتحت ہوگئے, اس نے جنت کا ذکر سنا تو کہنے لگا: اسکے مثل میں بہی بنواؤںگا, چنانچہ عدن کے صحراؤں میں تین سو سال کی مدت میں ارم نامی جنت بنوائی گئ اور شداد نے 900 سال عمر پائی, اور جنت کی کیفیت یہ تہی کہ وہ ایک بڑا شہر تہا اسکے محلات سونے چاندی کے تہے, اسکے ستون زبرجد اور یاقوت کے تھے, اس میں مختلف اقسام کے درخت اور بہتی نہریں تہیں, جب وہ جنت نما شہر بن کر تیار ہوگیا, تو شداد عمائدین مملکت کیساتھ اسکے دورے پر نکلا, ابہی باغ ارم پہونچنے میں ایک دن و رات کی مسافت باقی تہی کہ ﷲ تعالی نے ان پر ایک آسمانی چیخ بہیجی جس سے وہ سب ہلاک ہوگئے۔

* نام کتاب: تفسیر قرطبی
* جلد: 22
* صفحة: 268
* طبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.

🗯️ *تفسیر ابن کثیر میں* 🗯️

تفسیر ابن کثیر میں «علامہ ابن کثیر» نے اس کا رد فرمایا ھے: کہ یہ سب بے اصل باتیں ہیں:

 ۩وَإِنَّمَا نَبَّهْتُ عَلَى ذَلِكَ لِئَلَّا يُغْتَرَّ بِكَثِيرٍ مِمَّا ذَكَرَهُ جَمَاعَةٌ مِنَ الْمُفَسِّرِينَ عِنْدَ هَذِهِ الْآيَةِ، مِنْ ذِكْرِ مَدِينَةٍ يُقَالُ لَهَا: ﴿إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ﴾ مَبْنِيَّةٍ بِلَبِنِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، قُصُورُهَا وَدَوْرُهَا وَبَسَاتِينُهَا، وَإِنَّ حَصْبَاءَهَا لَآلِئٌ وَجَوَاهِرُ، وَتُرَابُهَا بَنَادِقُ الْمِسْكِ، وَأَنْهَارُهَا سَارِحَةٌ، وَثِمَارُهَا سَاقِطَةٌ، وَدُورُهَا لَا أَنِيسَ بِهَا، وَسُورُهَا وَأَبْوَابُهَا تَصْفَرُّ، لَيْسَ بِهَا دَاعٍ وَلَا مُجِيبٍ. وَأَنَّهَا تَنْتَقِلُ فَتَارَةٌ تَكُونُ بِأَرْضِ الشَّامِ، وَتَارَةٌ بِالْيَمَنِ، وَتَارَةٌ بِالْعِرَاقِ، وَتَارَةٌ بِغَيْرِ ذَلِكَ مِنَ الْبِلَادِ -فَإِنَّ هَذَا كُلَّهُ مِنْ خُرَافَاتِ الْإِسْرَائِيلِيِّينَ، مِنْ وَضْعِ بَعْضِ زَنَادِقَتِهِمْ، لِيَخْتَبِرُوا بِذَلِكَ عُقُولَ الْجَهَلَةِ مِنَ النَّاسِ أَنْ تُصَدِّقَهُمْ فِي جَمِيعِ ذَلِكَ.

( ترجمہ )

میں نے یہاں یہ بات اس لیے بیان کی ہے؛ تاکہ جن مفسرین نے یہاں جنت ارم کی بات کی ھے اس سے کسی کو دھوکہ نہ ہو
کہ یہ ایک شہر کا نام ہے جس کی ایک اینٹ سونے کی ہے دوسری چاندی کی اس کے مکانات، باغات وغیرہ سب چاندی سونے کے ہیں کنکر لولو اور جواہر ہیں، مٹی مشک ہے نہریں بہہ رہی ہیں، پھل تیار ہیں، کوئی رہنے سہنے والا نہیں ہے، در و دیوار خالی ہیں، کوئی ہاں ہوں کرنے والا بھی نہیں، یہ شہر جگہ بدلتا رہتا ہے کبھی شام میں، کبھی یمن میں، کبھی عراق میں، کبھی کہیں، کبھی کہیں، وغیرہ یہ سب خرافات بنو اسرائیل کی ہیں ان کے بددینوں نے یہ خود ساختہ روایت تیار کی ہے تاکہ جاہل لوگ ان کی تصدیق کریں باتیں بنائیں۔

• نام كتاب: تفسير ابن كثير
• مفسر: ابن كثيرؒ
• جلد: 14
• صفحة: 344
• طبع: مؤسسة قرطبة، جيزة، مصر.

___ *خلاصۂ کلام* ___

شؔداد کی جنت کے متعلق جو باتیں مشہور ہیں ان کا ثبوت نہیں ھے؛ لہذا ان کے بیان و نشر سے اجتناب کیا جائے۔

وﷲ تعالی اعلم
✍...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

17 مارچ، ؁ء 2020

No comments:

Post a Comment