••• *فضائلِ اعمال میں حضورؐ کا ایک غیر محرم عورت کو چھونے کا واقعہ* •••
ایک واقعہ شؔیخ زکریا کاندھلویؒ نے فضائل اعمال میں درود شریف کے فضائل کے تحت ذکر فرمایا ہے, جس پر غیر مقلدین, اور بریلوی حضرات کو اعتراض ھے واقعہ یہ ہے: حافظ ابو نعیم حضرت سفیان ثوری سے نقل کرتے ہیں کہ میں ایک دفعہ باہر جارہا تہا میں نے ایک جوان کو دیکہا کہ جب وہ قدم اٹھاتا ھے یا رکہتا ھے تو یوں کہتا ھے " اللہم صل علی محمد وعلی آل محمد " میں نے اس سے پوچھا کیا کسی علمی دلیل سے تیرا یہ عمل ھے؟( یا محض اپنی رائے سے) اس نے پوچھا تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں سفیان ثوری, اس نے کہا: کیا عراق والے سفیان ثوری ؟ میں نے کہا: ہاں! کہنے لگا : تجہے ﷲ کی معرفت حاصل ہے؟ میں نے کہا : ہاں ھے! اس نے پوچھا : کس طرح معرفت حاصل ھے؟ میں نے کہا: رات سے دن نکالتا ھے دن سے رات نکالتا ھے , ماں کے پیٹ میں بچے کی صورت پیدا کرتا ھے, اس نے کہا: کہ کچھ نہیں پہچانا میں نے کہا: پھر تو کس طرح پہچانتا ھے؟ اس نے کہا: کسی کام کا پختہ ارادہ کرتا ہوں اس کو فسخ کرنا پڑتا ھے اور کسی کام کے کرنے کی ٹھان لیتا ہوں ؛ مگر نہیں کرسکتا ؛ اس سے میں نے پہچان لیا کہ کوئی دوسری ہستی ہے جو میرے کاموں کو انجام دیتا ھے , میں نے پوچھا : یہ تیرا درود کیا چیز ھے؟ اس نے کہا: میں اپنی ماں کیساتھ حج کو گیا تہا میری ماں وہیں رہ گئی( یعنی مرگئ) اس کا منہ کالا ہوگیا اور اسکا پیٹ پھول گیا جس سے مجہے یہ اندازہ ہوا کہ کوئی بہت بڑا سخت گناہ ہوا ہے اس سے, میں نے ﷲ جل شانہ کی طرف دعا کیلیے ہاتھ اٹھائے تو میں نے دیکہا کہ " تہامہ" (حجاز) سے ایک بڑا ابر آیا, اس سے ایک آدمی ظاہر ہوا اس نے اپنا مبارک ہاتھ میری ماں کے منہ پر پھیرا جس سے وہ بالکل روشن ہوگیا, اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا تو ورم بالکل جاتا رہا میں نے ان سے عرض کیا: کہ آپ کون ہیں؟ کہ میری اور میری ماں کی مصیبت کو دور کیا! انہوں نے فرمایا: میں تیرا نبی محمد (ﷺ) ہوں, میں نے عرض کیا: مجھے کوئی وصیت کیجئے تو حضور (ﷺ) نے فرمایا: کہ جب کوئی قدم رکھا کرے یا اٹھایا کرے تو " اللہم صل علی محمد و علی آل محمد " پڑھا کر۔
( نزہت المجالس)
اس واقعے کا ثبوت اور اس پر وارد ہونیوالے اعتراض کا جواب مطلوب ھے!!!
••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*
یہ واقعہ حضرت شؔیخؒ نے ۩فضائل اعمال۩ میں ؞فضائلِ درود؞ کے تحت ذکر کیا ھے اور ساتھ ہی ساتھ " نزہت المجالس " کا حوالہ بہی لکہا ھے :
• نام کتاب : فضائلِ أعمال
• نام مؤلف: الشيخ زكريا الكاندهلويؒ
• جلد: 1
• صفحة: 754
• واقعه نمبر: 46
• طبع: ادارۂ دينيات، نزد: مهاراشٹر كالج، ممبئ سينٹرل، ممبئ.
🔘 نیز یہ اعتراض حضرت شؔیخ یا فضائل اعمال کتاب پر کرنا بالکل بیجا اور غیر محل ہے؛ کیونکہ حضرت شیؔخ نے اس واقعہ کو از خود نہیں لکہا ھے؛ بلکہ ٭نزہة المجالس٭ کا حوالہ دیا ھے؛ لہذا یہ اعتراض نزہت المجالس کے مصنف "امام عبد الرحمن صفوری شافعی" پر کرنا چاہئے اور ان پر ہی کیوں ؛ بلکہ ٭حلية الاؤلیاء٭ کے مصنف «حؔافظ ابونعیم اصفہانی» پر بہی کیا جانا چاہئے مزید «ابن بشکوال» پر بہی کرنا چاہئے اور ان کے ساتھ ساتھ «عؔلامہ سخاوی» پر بہی کرنا چاہئے کیونکہ ؞شیخ زکریا؞ سے پہلے ان حضرات نے یہ واقعہ اپنی کتب میں بیان کیا ھے ؛ لہذا فقط حضرت شیخ یا ان کی تالیف کو مطعون کرنا محض بغض و عناد اور ذاتی عداوت ہے۔
☪ *القول البديع ميں*☪
وروى أبو نعيم وابن بشكوال عن سفيان الثوري أيضا قال : بينما أنا حاج إذ دخل علي شاب لا يرفع قدما ولا يضع أخرى إلا وهو يقول : اللهم صل على محمد وعلى آل محمد فقلت له : أبعلم تقول هذا ؟ قال : نعم ، ثم قال : من أنت ؟ قلت : سفيان الثوري ، قال : العراقي ؟ قلت : نعم ، قال : هل عرفت الله ؟ قلت : نعم ، قال : بم عرفته ؟ قلت : بأنه يولج الليل في النهار ويولج النهار في الليل ويصور الولد في الرحم ، قال : يا سفيان ما عرفت الله حق معرفته ، قلت : كيف تعرفه أنت ؟ قال : بفسخ العزائم والهمم ونقض العزيمة ، هممت همتي وعزمت ، فنقض عزمي ، فعرفت أن لي ربا يدبرني ، قال : قلت : فما صلاتك على النبي صلى الله عليه وسلم ؟ قال : كنت حاجا ومعي والدتي ، فسئلتني أن أدخلها البيت ، ففعلت فوقعت وتورم بطنها واسود وجهها ، قال : فجلست عندها وأنا حزين ، فرفعت يدي نحو السماء ، فقلت : يا رب هكذا تفعل من دخل بيتك ، فإذا بغمامة قد ارتفعت من قبل تهامة وإذا رجل عليه ثياب بيض فدخل البيت وأمر يده على وجهها فابيض ، وأمر يده على بطنها فابيض فسكن المرض ثم مضى ليخرج فتعلقت بثوبه فقلت : من أنت الذي فرجت عني ؟ قال : أنا نبيك محمد صلى الله عليه وسلم ، قلت : يا رسول الله!فأوصني ، قال : لا ترفع قدما ولا تضع أخرى إلا وأنت تصلي على محمد وعلى آل محمد صلى الله عليه وسلم .
٭ نام كتاب: القول البديع
٭ نام محدث:السخاويؒ
٭ صفحة: 446
٭ طبع: مؤسسة الريان، السعودية
💎 *القربة الي رب العلمين ميں*
وبإسناده عن أحمد بن جودي حدثنا ابوبكر محمدبن الحسن المنقري المعروف بالنقاش، حدثنا محمد بن شاذان المطوعي بنيسابور، حدثنا جعفر بن محمد، حدثنا شاكر، حدثنا أبونعيم حدثنا سفيان الثوري قال: الخ
٭ المصدر: القربة الي رب العلمين
٭ المؤلف: ابن بشكوالؒ
٭ الصفحة: 95
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
🔰 *نزهة المجالس ميں*🔰
٭ نام كتاب: نزهة المجالس
٭ نام مؤلف: الصفوري الشافعيؒ
٭ الصفحة: 175
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
🔹 *روایت کا درجہ* 🔹
اؔبن بشکوالؒ کی ذکر کردہ سند میں ایک راوی -احمد بن جوری- ہیں جو روایت حدیث میں کافی کمزور ہیں :
احمد بن محمد بن جوري العكبري عن خيثمة بحديث موضوع، قال الخطيب: في حديثه مناكير، حدثنا عنه أبونعيم الحافظ ... وكان الغالب علي رواياته الغرائب والمناكير.
٭ المصدر: لسان الميزان
٭ المحدث: ابن حجر العسقلانيؒ
٭ المجلد: 1
٭ الصفحة: 593
٭ الرقم: 738
٭ الطبع: دار البشائر الاسلامية، بيروت، لبنان.
▫ یہی بات مذکورہ راوی کے متعلق «حافظ ذھبی» نے بہی کہی ہے:
* نام کتاب: ميزان الاعتدال
* نام محدث: الحافظ الذهبيؒ
* جلد: 1
* الصفحة: 278
* الرقم: 536
* الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
⚠ *فائدہ*
جب یہ روایت انتہائی ضعیف ھے تو شؔیخ نے اپنی کتاب فضائل اعمال میں ذکر کیوں کی ہے؟
(جواب) یہ اس لیے کہ ہم نے بڑے بڑے ائمہ جرح و تعدیل اور نقاد حدیث کو دیکہا کہ جب وہ رجال کی تحقیق کرنے کے موڈ میں ہوتے ہیں تو ان کا انداز تحقیق اور لب و لہجہ اور ہوتا ھے اور جب اخلاق و آداب فضائل یا ترغیب و ترہیب کے موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں تو اتنا نرم پہلو اختیار کرتے ہیں کہ موضوع روایت تک کو بطور استدلال پیش کرڈالتے ہیں اور معلوم نہیں ہوتا کہ یہ وہی ابن جوزی , منذری, نووی, ذھبی, ابن حجر , ابن تیمیہ, اور ابن قیم ہیں جن پر فن نقد و روایت بجا طور پر ناز ھے اور مجموعی طور پر ان اساطین علم حدیث کا طرز عمل صاف غمازی کرتا ھے کہ ترغیب و ترہیب وغیرہ کے باب میں چشم پوشی زیادہ ہے جسکو آج کے مدعیان علم و تحقیق نہ جانے کس مصلحت سے نظر انداز کر رہے ہیں۔؟
% نام کتاب: فضائل اعمال پر اعتراض ايك اصولي جائزه
% نام مؤلف: مولانا عبد الله معروفي مد ظلہ
% صفحة: 46
% طبع: ديوبندـ
📚 *آمدم بر سر مطلب*📚
کیا واقعتا ہمارے نبی کریمؑ نے واقعہ میں مذکور شخص کی والدہ (جو کہ حضورؑ کے حق میں غیر محرم تہیں) کو چھوا تہا؟
( جواب)
اگر واقعے کی عبارت میں غور کیا جائے تومعلوم ہوگا کہ اس میں لفظ " مس یا مسح" یعنی ٹچ کرنا یا چھونا بالکل مذکور نہیں؛ بلکہ لفظ " امرار " مذکور ھے جو "مرَّ " مشہور عربی ثلاثی مجرد کے فعل سے بنا ھے جسکے معنی ایک یہ بہی ہیں: *پار ہونا , پھلانگنا* اور ثلاثی مزید فیہ بے ہمزہ وصل کا پہلا باب ھے اور اسکا ترجمہ ہے: *گزارنا* یعنی جگہ کو ٹچ یا چھوئے بغیر *پار کرجانا , گزروادینا*
دیکھئے! (القاموس الجدید (عربی سے اردو) صفحہ: 655. طبع: کتب خانہ حسینیہ, دیوبند)
▪ لہذا اب واقعہ میں حضورؑ کے ہاتھ پھیرنے کا مطلب ہوا کہ آپ نے عورت کو ٹچ کیے اور چھوئے بغیر ہی اوپر اوپر سے اپنا دست مبارک پھیرادیا اسکے جسم و کپڑے کو ذرا ہاتھ نہ لگایا یہی جواب وکیل احناف مولانا مفتی رب نواز مدظلہ العالی نے _فضائل اعمال کا عادلانہ دفاع_ نامی کتاب میں دیا ھے:
÷ نام کتاب: فضائل اعمال کا عادلانہ دفاع
÷ نام مؤلف: مفتی رب نواز
÷ صفحہ:177
÷ طبع: جامعہ حنفیہ, امداد ٹاؤن, شیخوپورہ روڈ , فیصل آباد, پاکستان۔
_*خلاصۂ کلام*_
مذکورہ روایت کو ہم بحیثیت سند کمزور ضرور کہہ سکتے ہیں؛ لیکن حضور پاکؑ کا کسی غیر محرم کو چھونا ہاتھ لگانا روایت میں مذکور ہی نہیں ؛ لہذا فریقِ مخالف کا اعتراض کوئی معنی نہیں رکہتا ھے, اور جو حضرات اعتراض کا تکلف کر بیٹھے ہیں وہ یا تو کم علمی و جہالت ھے یا فقط حضرت شیخؒ سے بغض و عناد ۔
وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
11مارچ ء 2020
ایک واقعہ شؔیخ زکریا کاندھلویؒ نے فضائل اعمال میں درود شریف کے فضائل کے تحت ذکر فرمایا ہے, جس پر غیر مقلدین, اور بریلوی حضرات کو اعتراض ھے واقعہ یہ ہے: حافظ ابو نعیم حضرت سفیان ثوری سے نقل کرتے ہیں کہ میں ایک دفعہ باہر جارہا تہا میں نے ایک جوان کو دیکہا کہ جب وہ قدم اٹھاتا ھے یا رکہتا ھے تو یوں کہتا ھے " اللہم صل علی محمد وعلی آل محمد " میں نے اس سے پوچھا کیا کسی علمی دلیل سے تیرا یہ عمل ھے؟( یا محض اپنی رائے سے) اس نے پوچھا تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں سفیان ثوری, اس نے کہا: کیا عراق والے سفیان ثوری ؟ میں نے کہا: ہاں! کہنے لگا : تجہے ﷲ کی معرفت حاصل ہے؟ میں نے کہا : ہاں ھے! اس نے پوچھا : کس طرح معرفت حاصل ھے؟ میں نے کہا: رات سے دن نکالتا ھے دن سے رات نکالتا ھے , ماں کے پیٹ میں بچے کی صورت پیدا کرتا ھے, اس نے کہا: کہ کچھ نہیں پہچانا میں نے کہا: پھر تو کس طرح پہچانتا ھے؟ اس نے کہا: کسی کام کا پختہ ارادہ کرتا ہوں اس کو فسخ کرنا پڑتا ھے اور کسی کام کے کرنے کی ٹھان لیتا ہوں ؛ مگر نہیں کرسکتا ؛ اس سے میں نے پہچان لیا کہ کوئی دوسری ہستی ہے جو میرے کاموں کو انجام دیتا ھے , میں نے پوچھا : یہ تیرا درود کیا چیز ھے؟ اس نے کہا: میں اپنی ماں کیساتھ حج کو گیا تہا میری ماں وہیں رہ گئی( یعنی مرگئ) اس کا منہ کالا ہوگیا اور اسکا پیٹ پھول گیا جس سے مجہے یہ اندازہ ہوا کہ کوئی بہت بڑا سخت گناہ ہوا ہے اس سے, میں نے ﷲ جل شانہ کی طرف دعا کیلیے ہاتھ اٹھائے تو میں نے دیکہا کہ " تہامہ" (حجاز) سے ایک بڑا ابر آیا, اس سے ایک آدمی ظاہر ہوا اس نے اپنا مبارک ہاتھ میری ماں کے منہ پر پھیرا جس سے وہ بالکل روشن ہوگیا, اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا تو ورم بالکل جاتا رہا میں نے ان سے عرض کیا: کہ آپ کون ہیں؟ کہ میری اور میری ماں کی مصیبت کو دور کیا! انہوں نے فرمایا: میں تیرا نبی محمد (ﷺ) ہوں, میں نے عرض کیا: مجھے کوئی وصیت کیجئے تو حضور (ﷺ) نے فرمایا: کہ جب کوئی قدم رکھا کرے یا اٹھایا کرے تو " اللہم صل علی محمد و علی آل محمد " پڑھا کر۔
( نزہت المجالس)
اس واقعے کا ثبوت اور اس پر وارد ہونیوالے اعتراض کا جواب مطلوب ھے!!!
••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*
یہ واقعہ حضرت شؔیخؒ نے ۩فضائل اعمال۩ میں ؞فضائلِ درود؞ کے تحت ذکر کیا ھے اور ساتھ ہی ساتھ " نزہت المجالس " کا حوالہ بہی لکہا ھے :
• نام کتاب : فضائلِ أعمال
• نام مؤلف: الشيخ زكريا الكاندهلويؒ
• جلد: 1
• صفحة: 754
• واقعه نمبر: 46
• طبع: ادارۂ دينيات، نزد: مهاراشٹر كالج، ممبئ سينٹرل، ممبئ.
🔘 نیز یہ اعتراض حضرت شؔیخ یا فضائل اعمال کتاب پر کرنا بالکل بیجا اور غیر محل ہے؛ کیونکہ حضرت شیؔخ نے اس واقعہ کو از خود نہیں لکہا ھے؛ بلکہ ٭نزہة المجالس٭ کا حوالہ دیا ھے؛ لہذا یہ اعتراض نزہت المجالس کے مصنف "امام عبد الرحمن صفوری شافعی" پر کرنا چاہئے اور ان پر ہی کیوں ؛ بلکہ ٭حلية الاؤلیاء٭ کے مصنف «حؔافظ ابونعیم اصفہانی» پر بہی کیا جانا چاہئے مزید «ابن بشکوال» پر بہی کرنا چاہئے اور ان کے ساتھ ساتھ «عؔلامہ سخاوی» پر بہی کرنا چاہئے کیونکہ ؞شیخ زکریا؞ سے پہلے ان حضرات نے یہ واقعہ اپنی کتب میں بیان کیا ھے ؛ لہذا فقط حضرت شیخ یا ان کی تالیف کو مطعون کرنا محض بغض و عناد اور ذاتی عداوت ہے۔
☪ *القول البديع ميں*☪
وروى أبو نعيم وابن بشكوال عن سفيان الثوري أيضا قال : بينما أنا حاج إذ دخل علي شاب لا يرفع قدما ولا يضع أخرى إلا وهو يقول : اللهم صل على محمد وعلى آل محمد فقلت له : أبعلم تقول هذا ؟ قال : نعم ، ثم قال : من أنت ؟ قلت : سفيان الثوري ، قال : العراقي ؟ قلت : نعم ، قال : هل عرفت الله ؟ قلت : نعم ، قال : بم عرفته ؟ قلت : بأنه يولج الليل في النهار ويولج النهار في الليل ويصور الولد في الرحم ، قال : يا سفيان ما عرفت الله حق معرفته ، قلت : كيف تعرفه أنت ؟ قال : بفسخ العزائم والهمم ونقض العزيمة ، هممت همتي وعزمت ، فنقض عزمي ، فعرفت أن لي ربا يدبرني ، قال : قلت : فما صلاتك على النبي صلى الله عليه وسلم ؟ قال : كنت حاجا ومعي والدتي ، فسئلتني أن أدخلها البيت ، ففعلت فوقعت وتورم بطنها واسود وجهها ، قال : فجلست عندها وأنا حزين ، فرفعت يدي نحو السماء ، فقلت : يا رب هكذا تفعل من دخل بيتك ، فإذا بغمامة قد ارتفعت من قبل تهامة وإذا رجل عليه ثياب بيض فدخل البيت وأمر يده على وجهها فابيض ، وأمر يده على بطنها فابيض فسكن المرض ثم مضى ليخرج فتعلقت بثوبه فقلت : من أنت الذي فرجت عني ؟ قال : أنا نبيك محمد صلى الله عليه وسلم ، قلت : يا رسول الله!فأوصني ، قال : لا ترفع قدما ولا تضع أخرى إلا وأنت تصلي على محمد وعلى آل محمد صلى الله عليه وسلم .
٭ نام كتاب: القول البديع
٭ نام محدث:السخاويؒ
٭ صفحة: 446
٭ طبع: مؤسسة الريان، السعودية
💎 *القربة الي رب العلمين ميں*
وبإسناده عن أحمد بن جودي حدثنا ابوبكر محمدبن الحسن المنقري المعروف بالنقاش، حدثنا محمد بن شاذان المطوعي بنيسابور، حدثنا جعفر بن محمد، حدثنا شاكر، حدثنا أبونعيم حدثنا سفيان الثوري قال: الخ
٭ المصدر: القربة الي رب العلمين
٭ المؤلف: ابن بشكوالؒ
٭ الصفحة: 95
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
🔰 *نزهة المجالس ميں*🔰
٭ نام كتاب: نزهة المجالس
٭ نام مؤلف: الصفوري الشافعيؒ
٭ الصفحة: 175
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
🔹 *روایت کا درجہ* 🔹
اؔبن بشکوالؒ کی ذکر کردہ سند میں ایک راوی -احمد بن جوری- ہیں جو روایت حدیث میں کافی کمزور ہیں :
احمد بن محمد بن جوري العكبري عن خيثمة بحديث موضوع، قال الخطيب: في حديثه مناكير، حدثنا عنه أبونعيم الحافظ ... وكان الغالب علي رواياته الغرائب والمناكير.
٭ المصدر: لسان الميزان
٭ المحدث: ابن حجر العسقلانيؒ
٭ المجلد: 1
٭ الصفحة: 593
٭ الرقم: 738
٭ الطبع: دار البشائر الاسلامية، بيروت، لبنان.
▫ یہی بات مذکورہ راوی کے متعلق «حافظ ذھبی» نے بہی کہی ہے:
* نام کتاب: ميزان الاعتدال
* نام محدث: الحافظ الذهبيؒ
* جلد: 1
* الصفحة: 278
* الرقم: 536
* الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
⚠ *فائدہ*
جب یہ روایت انتہائی ضعیف ھے تو شؔیخ نے اپنی کتاب فضائل اعمال میں ذکر کیوں کی ہے؟
(جواب) یہ اس لیے کہ ہم نے بڑے بڑے ائمہ جرح و تعدیل اور نقاد حدیث کو دیکہا کہ جب وہ رجال کی تحقیق کرنے کے موڈ میں ہوتے ہیں تو ان کا انداز تحقیق اور لب و لہجہ اور ہوتا ھے اور جب اخلاق و آداب فضائل یا ترغیب و ترہیب کے موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں تو اتنا نرم پہلو اختیار کرتے ہیں کہ موضوع روایت تک کو بطور استدلال پیش کرڈالتے ہیں اور معلوم نہیں ہوتا کہ یہ وہی ابن جوزی , منذری, نووی, ذھبی, ابن حجر , ابن تیمیہ, اور ابن قیم ہیں جن پر فن نقد و روایت بجا طور پر ناز ھے اور مجموعی طور پر ان اساطین علم حدیث کا طرز عمل صاف غمازی کرتا ھے کہ ترغیب و ترہیب وغیرہ کے باب میں چشم پوشی زیادہ ہے جسکو آج کے مدعیان علم و تحقیق نہ جانے کس مصلحت سے نظر انداز کر رہے ہیں۔؟
% نام کتاب: فضائل اعمال پر اعتراض ايك اصولي جائزه
% نام مؤلف: مولانا عبد الله معروفي مد ظلہ
% صفحة: 46
% طبع: ديوبندـ
📚 *آمدم بر سر مطلب*📚
کیا واقعتا ہمارے نبی کریمؑ نے واقعہ میں مذکور شخص کی والدہ (جو کہ حضورؑ کے حق میں غیر محرم تہیں) کو چھوا تہا؟
( جواب)
اگر واقعے کی عبارت میں غور کیا جائے تومعلوم ہوگا کہ اس میں لفظ " مس یا مسح" یعنی ٹچ کرنا یا چھونا بالکل مذکور نہیں؛ بلکہ لفظ " امرار " مذکور ھے جو "مرَّ " مشہور عربی ثلاثی مجرد کے فعل سے بنا ھے جسکے معنی ایک یہ بہی ہیں: *پار ہونا , پھلانگنا* اور ثلاثی مزید فیہ بے ہمزہ وصل کا پہلا باب ھے اور اسکا ترجمہ ہے: *گزارنا* یعنی جگہ کو ٹچ یا چھوئے بغیر *پار کرجانا , گزروادینا*
دیکھئے! (القاموس الجدید (عربی سے اردو) صفحہ: 655. طبع: کتب خانہ حسینیہ, دیوبند)
▪ لہذا اب واقعہ میں حضورؑ کے ہاتھ پھیرنے کا مطلب ہوا کہ آپ نے عورت کو ٹچ کیے اور چھوئے بغیر ہی اوپر اوپر سے اپنا دست مبارک پھیرادیا اسکے جسم و کپڑے کو ذرا ہاتھ نہ لگایا یہی جواب وکیل احناف مولانا مفتی رب نواز مدظلہ العالی نے _فضائل اعمال کا عادلانہ دفاع_ نامی کتاب میں دیا ھے:
÷ نام کتاب: فضائل اعمال کا عادلانہ دفاع
÷ نام مؤلف: مفتی رب نواز
÷ صفحہ:177
÷ طبع: جامعہ حنفیہ, امداد ٹاؤن, شیخوپورہ روڈ , فیصل آباد, پاکستان۔
_*خلاصۂ کلام*_
مذکورہ روایت کو ہم بحیثیت سند کمزور ضرور کہہ سکتے ہیں؛ لیکن حضور پاکؑ کا کسی غیر محرم کو چھونا ہاتھ لگانا روایت میں مذکور ہی نہیں ؛ لہذا فریقِ مخالف کا اعتراض کوئی معنی نہیں رکہتا ھے, اور جو حضرات اعتراض کا تکلف کر بیٹھے ہیں وہ یا تو کم علمی و جہالت ھے یا فقط حضرت شیخؒ سے بغض و عناد ۔
وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
11مارچ ء 2020
No comments:
Post a Comment