▪️ *انگوٹھوں میں رگِ محبت ھے؟*▪️
مفتی صاحب! میں نے کسی صاحب سے مصافحہ کیا تو انہوں نے کہا : محترم! مصافحہ کرتے وقت انگوٹھوں کی رگ کو بہی دبایا کرو؛ اس میں محبت کی ایک رگ ھے اسکے دبانے سے محبت بڑھتی ھے۔
کیا واقعتا ان صاحب کا یہ فرمانا محقق اور ثابت ھے؟»
از راہ کرم تسلی بخش جواب دیکر مشکور ہوں!!
••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*
مصافحے کی بہت سی سنن و آداب ہیں؛ ان کو یہاں ذکر کرنے کا موقع نہیں ھے, اگر جاننے کی خواہش دامن گیر ہو تو " اسلام کا نظامِ سلام و مصافحہ " نامی کتاب کا مطالعہ فرمایئں!
• نام کتاب: اسلام کا نظام سلام و مصافحہ
• نام مؤلف: مفتی تبریز عالم قاسمی
• طبع: جامعہ اسلامیہ دار العلوم حیدرآباد,
🔰 *آمدم بر سرِ مطلب* 🔰
سوال میں جو بات معلوم کی گئ ھے کہ مصافحہ کرتے ہوئے انگوٹھے کی رگ دبادیں؛ تاکہ محبت میں اضافہ ہو اس کے متعلق مفتی طارق امیر خان صاحب نے لکہا ھے: انگوٹھوں میں رگِ محبت ھے یہ حدیث من گھڑت ھے, مزید لکہا ھے: کہ رد المحتار میں بحوالہ قہستانی مصافحہ کرتے وقت انگوٹھوں کو پکڑنا سنت نقل کیا گیا ھے کہ حدیث میں ھے: انگوٹھوں میں رگ محبت ھے اسکو دبانا محبت کو ابہارتا ھے:
🔖 *ردالمحتار کی عبارت*🔖
قوله:( وتمامه الخ) ونصه: وهي إلصاق صفحة الكف بالكف وإقبال الوجه بالوجه فأخذ الأصابع ليس بمصافحة خلافا للروافض، والسنة أن تكون بكلتا يديه، وبغير حائل من ثوب أو غيره وعند اللقاء بعد السلام وأن يأخذ الإبهام، فإن فيه عرقا ينبت المحبة، كذا جاء في الحديث ذكره القهستاني وغيره اھ.
{ترجمة:}
مصافحہ یہ ھے: کہ ہتہیلی کو ہتہیلی سے ملایا جائے, اور چہرہ چہرے کے سامنے ہو, محض انگلیوں کا پکڑ لینا مصافحہ نہیں کہلاتا یہ رافضیوں کا عمل ھے, اور سنت یہ ھے کہ مصافحہ دونوں ہاتہوں سے ہو, ہاتہوں میں دستانے وغیرہ ہوں تو اتارکر مصافحہ ہو, سلام پہلے ہو اور ملاقات کے وقت مصافحہ ہو, اور انگوٹھوں کو پکڑا جائے کیونکہ ان میں ایک رگ محبت ھے جسکو دبانے سے محبت ابہرتی ھے جیساکہ حدیث میں ھے۔
• الرد المحتار (الؔشامي)
• المؤلف: العلامة ابن عابدينؒ
• المجلد: 9
• الصفحة: 548
• الطبع: دار عالم الكتب، الرياض، السعودية.
☢️ *خلاصۂ کلام*☢️
مصافحہ کے دوران انگوٹھوں کا پکڑنا یا اسکی رگ کا دبانا ثابت نہیں ؛ «مفتی طارق امیر خان صاحب» کی تحقیق کے مطابق روایت ہذا کی سند و و تذکرہ کتب حدیث میں نہ مل سکا۔
• نام كتاب: من گھڑت روایات پر تعاقب
• نام مؤلف: مفتی طؔارق امیر خان صاحب
• صفحة: 135/134
• روايت نمبر: 45/44
• طبع: مكتبه عمر فاروقؓ، شاه فيصلؒ كالوني، كراچي، پاكستان.
واللّٰه تعالي أعلم
✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*
28 جولائي: ء2020
مفتی صاحب! میں نے کسی صاحب سے مصافحہ کیا تو انہوں نے کہا : محترم! مصافحہ کرتے وقت انگوٹھوں کی رگ کو بہی دبایا کرو؛ اس میں محبت کی ایک رگ ھے اسکے دبانے سے محبت بڑھتی ھے۔
کیا واقعتا ان صاحب کا یہ فرمانا محقق اور ثابت ھے؟»
از راہ کرم تسلی بخش جواب دیکر مشکور ہوں!!
••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*
مصافحے کی بہت سی سنن و آداب ہیں؛ ان کو یہاں ذکر کرنے کا موقع نہیں ھے, اگر جاننے کی خواہش دامن گیر ہو تو " اسلام کا نظامِ سلام و مصافحہ " نامی کتاب کا مطالعہ فرمایئں!
• نام کتاب: اسلام کا نظام سلام و مصافحہ
• نام مؤلف: مفتی تبریز عالم قاسمی
• طبع: جامعہ اسلامیہ دار العلوم حیدرآباد,
🔰 *آمدم بر سرِ مطلب* 🔰
سوال میں جو بات معلوم کی گئ ھے کہ مصافحہ کرتے ہوئے انگوٹھے کی رگ دبادیں؛ تاکہ محبت میں اضافہ ہو اس کے متعلق مفتی طارق امیر خان صاحب نے لکہا ھے: انگوٹھوں میں رگِ محبت ھے یہ حدیث من گھڑت ھے, مزید لکہا ھے: کہ رد المحتار میں بحوالہ قہستانی مصافحہ کرتے وقت انگوٹھوں کو پکڑنا سنت نقل کیا گیا ھے کہ حدیث میں ھے: انگوٹھوں میں رگ محبت ھے اسکو دبانا محبت کو ابہارتا ھے:
🔖 *ردالمحتار کی عبارت*🔖
قوله:( وتمامه الخ) ونصه: وهي إلصاق صفحة الكف بالكف وإقبال الوجه بالوجه فأخذ الأصابع ليس بمصافحة خلافا للروافض، والسنة أن تكون بكلتا يديه، وبغير حائل من ثوب أو غيره وعند اللقاء بعد السلام وأن يأخذ الإبهام، فإن فيه عرقا ينبت المحبة، كذا جاء في الحديث ذكره القهستاني وغيره اھ.
{ترجمة:}
مصافحہ یہ ھے: کہ ہتہیلی کو ہتہیلی سے ملایا جائے, اور چہرہ چہرے کے سامنے ہو, محض انگلیوں کا پکڑ لینا مصافحہ نہیں کہلاتا یہ رافضیوں کا عمل ھے, اور سنت یہ ھے کہ مصافحہ دونوں ہاتہوں سے ہو, ہاتہوں میں دستانے وغیرہ ہوں تو اتارکر مصافحہ ہو, سلام پہلے ہو اور ملاقات کے وقت مصافحہ ہو, اور انگوٹھوں کو پکڑا جائے کیونکہ ان میں ایک رگ محبت ھے جسکو دبانے سے محبت ابہرتی ھے جیساکہ حدیث میں ھے۔
• الرد المحتار (الؔشامي)
• المؤلف: العلامة ابن عابدينؒ
• المجلد: 9
• الصفحة: 548
• الطبع: دار عالم الكتب، الرياض، السعودية.
☢️ *خلاصۂ کلام*☢️
مصافحہ کے دوران انگوٹھوں کا پکڑنا یا اسکی رگ کا دبانا ثابت نہیں ؛ «مفتی طارق امیر خان صاحب» کی تحقیق کے مطابق روایت ہذا کی سند و و تذکرہ کتب حدیث میں نہ مل سکا۔
• نام كتاب: من گھڑت روایات پر تعاقب
• نام مؤلف: مفتی طؔارق امیر خان صاحب
• صفحة: 135/134
• روايت نمبر: 45/44
• طبع: مكتبه عمر فاروقؓ، شاه فيصلؒ كالوني، كراچي، پاكستان.
واللّٰه تعالي أعلم
✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*
28 جولائي: ء2020
No comments:
Post a Comment