Wednesday, July 29, 2020

قربانی اور سلف صالحین

▪️ *قربانی اور سلف صالحین*▪️

قربانی کے واجب و سنت ہونے کے متعلق ایک پوسٹ فیس بک اور واٹس ایپ پر نشر ہورہی ھے جس میں ایک شعیب نامی انجان بندہ چند۔کتب فقہیہ و حدیثیہ کے حوالے سے یہ باور کرارہا ھے کہ قربانی کی کوئی اہمیت نہیں وہ نہ واجب ھے نہ ضروری ھے ؛ بلکہ زیادہ سے زیادہ سنت ہوسکتی ھے اس سے یہ بہی لگتا ھے کہ سنت کی موصوف کی نظر میں کوئی وقعت نہیں ھے۔ وہ پوسٹ درج ذیل ھے: آپ سے اسکا جواب مطلوب ھے!!!!

شعیب محمد صاحب کی وال سے......ان کی تحریر مکمل حوالوں سے عبارت ہے.....اہلِ علم سے درخواست ہے کہ اگر آپ کوہی جواب دینا چاہتے ہیں تو مکمل حوالہ جات سے مزین دلیل دیجیے........لیجیے پڑھیے تحریر...........!
قربانی اور سلف صالحین
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1) سیدنا ابو سریحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر دونوں میرے پڑوسی تھے اور دونوں قربانی نہیں کرتے تھے۔

(معرفۃ السنن والآثار للبیہقی: 198/7 حدیث 5633 و سندہ حسن، و حسنہ للنووی فی المجموع شرح المہذب: 383/8، و قال ابن کثیر فی مسند الفاروق: 332/1 "و ھٰذا اسنادہ صحیح)

امام نووی نے کہا: حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے صحیح ثابت ہے کہ وہ اس ڈر سے قربانی نہ کرتے تھے کہ لوگ اسے واجب نہ سمجھ لیں۔
(المجموع شرح المہذب: 383/8)

2) حضرت عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "میں نے ارادہ کیا کہ قربانی چھوڑدوں، حالانکہ میں تم سب سے زیادہ استطاعت والا ہوں، کہ کہیں لوگ قربانی کو واجب نہ سمجھنے لگیں۔"
 (مصنف عبدالرزاق، کتاب المناسک، رقم 8148)

3) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قربانی کوئی شے نہیں یا کہ واجب نہیں۔ تم میں سے جو کوئی قربانی کرنا چاہے کر لے اور جو چاہے نہ کرے۔"
(مصنف عبدالرزاق، کتاب المناسک، رقم 8137)

 4) مشہور تابعی فقیہ حضرت سعید بن مسیب نے فرمایا: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی تھی، اگر تم اسے ترک کر دیتے ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔"
(مصنف عبدالرزاق، کتاب المناسک، رقم 8135)

 5) حضرت علقمہ فرماتے: "میں قربانی نہ کروں، یہ میرے نزدیک اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں اسے خود پر لازم سمجھوں۔"
(مصنف عبدالرزاق، کتاب المناسک، رقم 8147)

6) حضرت سوید بن غفلہ روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے سنا کہ مَیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتا کہ اگر مَیں کوئی مرغ قربان کروں یا اس کی قیمت کسی یتیم اور مسافر پر خرچ کروں، یہ میرے نزدیک اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں اس کی قربانی کروں۔
(مصنف عبدالرزاق، کتاب المناسک، رقم 8156)

نوٹ: راوی کو یقین نہیں کہ آخری کہی گئی بات بھی حضرت بلال کے قول کا حصہ ہے یا حضرت سوید کا اپنا بیان ہے۔ دونوں صورتوں میں یہ ایک صحابی یا تابعی کا مئوقف بنتا ہے، جو روایت ہوا ہے۔

مشہور فقیہ و شارح سنن ترمذی علامہ ابن عربی نے تو یہاں تک کہہ رکھا ہے کہ "قربانی کی فضیلت میں کوئی حدیث صحیح نہیں ہے۔" (عارضۃ الاحوذی)

اس پر ماضی قریب کے مشہور عالم و شارح علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری نے یہی قول نقل کرنے کے بعد فرمایا: "بات ایسے ہی ہے، جیسے علامہ ابن عربی نے کہی ہے۔" (تحفۃ الاحوذی، ج2 ص353)

••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*

  احناف کا مذہب کتب فقہیہ میں یہ لکہا ھے: کہ قربانی واجب ھے اور اسکے وجوب کی کچھ شرطیں ہیں جنکا یہاں ذکر کرنے کا موقع بہی نہیں ھے: جبکہ تین بقیہ امام قربانی کو سنت کے لفظ سے تعبیر کردیتے ہیں اور ایسی سنت ھے جسکا ترک جائز نہیں ھے یعنی یہ اختلاف محض لفظی ھے؛ کیونکہ واجب ایک فقہی اصطلاح ہے جسکا درجہ فرض اور سنت مؤکدہ کے درمیان ھے یہ اصطلاح احناف نے تجویز کی ھے جبکہ ائمہ ثلاثہ کے یہاں واجب کا خانہ نہیں ھے وہ ان احکام کو جو دلائل سے واجب ہیں ادھر ادھر کردیتے ہیں بعض کو فرض اور بعض کو سنت کا نام دیدیتے ہیں مثلا: صدقہ فطرہ کو وہ فرض کہتے ہیں اس لیے کہ حدیث میں فرض کا لفظ ھے اور وتر عیدین و قربانی کو سنت کہتے ہیں؛ کیونکہ ان کے متعلق احادیث میں فرض کا لفظ نہیں آیا پس قربانی کو واجب کہو یا سنت کہو کرنی تو ضروری ھے یہ اختلاف محض لفظی ھے حقیقت وجوب کے تو سب قائل ہیں :

• نام کتاب: قربانی محض سنت نہیں واجب ھے
• مؤلف: مولانا ندیم انصاری
• صفحہ: 26
• طبع: الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن انڈیا۔

🔖 *سوالیہ پوسٹ کی روایات*🔖

1) عن ابي سريحة: رايت ابابكر و عمر ومايضحيان .

( مصنف عبد الرزاق، جلد: 4،حديث: 8139)

{ جواب }
 حضرت ابو سریحہ نے جو شیخین کے متعلق فرمایا: کہ وہ قربانی نہیں کرتے تھے اسکے متعلق شیخ ظفر تہانوی نے لکہا: کہ اسکا مطلب ھے: کہ وہ اپنی جانب سے تو واجبی قربانی کیا کرتے تھے اور ابن سریحہ کی بات واجبی قربانی کے متعلق ھے ہی نہیں بلکہ اسکا مطلب ھے: کہ وہ دونوں حضرات اپنے اہل خانہ کی جانب سے قربانی نہیں کرتے تھے؛ (وسعت مالی نہ پاتے ہوں)

÷ المصدر: اعلاء السنن
÷ المؤلف: الشیخ ظفر العثمانی
÷ المجلد: 17
÷ الصفحہ: 215
÷ الطبع : مکتبہ اشرفیہ, دیوبند

2)  حضرت عقبہ بن عمرو والی روایت کہ میں قربانی کے چھوڑنے کا ارادہ رکہتا ہوں جبکہ میں تم میں صاحب وسعت ہوں؛ کبہی لوگ واجب نہ سمجھ لیں.

[ مصنف عبد الرزاق, جلد:4, صفحہ: 383. حدیث: 8148.)

( جواب )

شیخ ظفر تہانوی نے اسکا جواب لکہا ھے: کہ اس طرح کی روایات واجبی قربانی سے متعلق بالکل نہیں ہیں ؛ بلکہ یا تو اہل و عیال کی جانب سے قربانی کی بات ھے یا حج کے دوران قربانی کی بات ھے یا سفر میں عید قربان آگئ ھوگی اس لیے انہوں نے ایسا فرمایا۔

* اعلاء السنن
* جلد:17
* صفحہ: 215
* طبع: مکتبہ اشرفیہ, دیوبند


3) ابن عمر کا یہ کہنا واجب نہیں یعنی فرض نہیں ھے

( مصنف عبد الرزاق,جلد:4, صفحہ: 381. حدیث:8137)

( ابن عمر نے لیس بواجب کہہ کر فرض کی نفی کی ھے یعنی قربانی فرض نہیں ھے کہ ہر کوئی کرے اور یہ حج یا سفر پر ہی محمول ھے اسی لیے ابن عمر نے اختیار دیا ھے کہ جسکا جی چاہے کرے اور جسکا نہ چاہے نہ کرے؛کیونکہ ترمذی میں ابن عمر نے قربانی کو عمومی حالات میں موسیرین کیلیے واجب کہا ہے:


 -  أنَّ رجلًا سألَ ابنَ عمرَ عن الأضحيةِ أواجبةٌ هي فقال ضحَّى رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ والمسلِمونَ فأعادها عليهِ فقال أتعقِلُ ضحَّى رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ والمسلِمونَ.

 المصدر:  سنن الترمذي
 الصفحة: 169
 الرقم:  1506
 خلاصة :  حسن صحيح
الطبع: دار الغرب الاسلامي، بيروت، لبنان.

《 تشريح》

حضرت جبلہ بن سحیم فرماتے ہیں: ایک شخص نے ابن عمر سے سوال کیا: کیا قربانی واجب ھے؟ تو حضرت ابن عمر نے جواب دیا: نبی کریم اور سارے مسلمانوں نے قربانی کی ھے اس نے دوبارہ معلوم کیا: کہ یہ واجب ھے یا نہیں؟ حضرت نے فرمایا: تجھے عقل ھے؟ حضور نے اور سارے مسلمانوں نے قربانی کی ھے مطلب یہ تہا کہ تم اس بحث میں مت پڑو کہ اصطلاحا قربانی واجب ھے سنت ھے یا فرض ۔ حضرت ابن عمر نے واجب ہونیکی علامت بتادی کہ اگر واجب کہہ دوں تو تم واجب اور فرض میں فرق نہیں کرسکوگے ؛بلکہ فرض سمجھ لوگے ؛ بس اسلیے کہا کہ حضور نے اور سارے اہل اسلام نے قربانی کی ھے گویا حضرت نے واجب ہی کہدیا ۔

% درس ترمذی
% الشیخ تقی عثمانی
% جلد: 2
% صفحہ: 160
% طبع: کتب خانہ نعیمیہ, دیوبند

4) تابعی سعید بن مسیب کی روایت کہ حضور نے قربانی کی لیکن اگر تو نہ کرے تو تجھ پر حرج نہیں ۔

( مصنف عبد الرزاق, جلد:4, ص: 380)

[ جواب ]

 سعید بن مسیب نے ایک شخص سے یہ بات کہی تہی کسی مجمع سے وہ مخاطب نہ تھے اب وہ شخص غریب رہا ہوگا اسی لیے اسکو فرمایا : دیکہو نبی کریم نے تو ہمیشہ قربانی کی ھے ؛ لیکن تمہاری مالی حالت ایسی نہیں کہ تم پر قربانی واجب ہو لہذا اگر تم نہیں کروگے تو تم پر حرج نہیں ھے۔

کیونکہ سعید بن مسیب ایک امر واجبی کو ایسے ہلکے میں نہیں بتاسکتے ہیں کیونکہ صاحب وسعت شخص کیلیے قربانی نہ کرنے پر تو وعید وارد ھے:


 عن ابي هريرة: من كانَ لَه سَعةٌ ولم يضحِّ فلا يقربنَّ مصلَّانا.


(ترجمہ)

وسعت مالی کے ہوتے ہوئے کوئی قربانی نہیں کرتا تو وہ مسلمانوں کی عیدگاہ میں بھی نہ آئے۔

  کس قدر ناراضگی کا اظہار زبان نبوت سے صادر ہوا کہ ایسے شخص کو جو واجب کا تارک ہو مسلمانوں کے پاس پھٹکنے کی ضرورت نہیں ۔اتنی سخت وعید ترک سنت پر نہیں؛ بلکہ ترک واجب پر ہوتی ھے۔

 (ابن ماجه، حديث: 3123، طبع: دار الفكر، بيروت، لبنان.)

5) حضرت علقمہ کی روایت کہ میرا قربانی نہ کرنا بتارہا ھے کہ یہ مجھ پر واجب نہیں ھے.

( مصنف عبد الرزاق, جلد: 4,حدیث: 8147)

( جواب)  حضرت علقمہ پر قربانی واجب نہ رہی ہوگی یا وہ بحالت سفر ہونگے اس لیے یہ ارشاد فرمایا۔ کیونکہ صحابہ فقط حاجی یا مسافر کو ہی قربانی چھوڑنے کی رخصت دیتے تھے ورنہ مالدار ہو مقیم ہو تو سب قربانی کرتے تھے جیساکہ اوپر ابن عمر کی روایت گزرگئ ھے۔

(مستفاد: اعلاء السنن, جلد:17. صفحہ: 215, طبع: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)

6) سوید بن غفلہ کی روایت کہ سیدنا بلال حبشی نے مرغی کی قربانی یااسکی قیمت کو غرباء میں صدقہ کرنے کو قربانی سے بہتر جانا ۔ یہ تو خود ظاہر ھے: کہ سیدنا بلال حبشی مالدار نہ تھے تو یہ واجبی قربانی کی نفی بالکل نہیں ؛ بلکہ نفلی قربانی پر انہوں نے اسکو ترجیح دی اور یہ جائز ھے۔

7) ابن عربی کا جو مقولہ محترم مبارکپوری نے نقل فرمایا ھے: اسکا مطلب یہ تو بالکل نہیں ھے کہ اس موضوع پر کوئی صحیح سند نہیں ھے تو یہ بالکل فضول کام ھے ؛ بلکہ خود مبارکپوری روایت کو حسن درجہ کی مانتے ہیں ۔


تنبيه :

قال ابن العربي في شرح الترمذي : ليس في فضل الأضحية حديث صحيح انتهى . قلت : الأمر كما قال ابن العربي . وأما حديث الباب فالظاهر أنه حسن وليس بصحيح۔
 والله تعالى أعلم .

• تحفة الاحوذي
• عبد الرحمن مباركپوري
• جلد: 5
• صفحة: 56
• طبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

💠 وجوب والی روایات💠

شیخ ظفر تہانوی نے اس بارے میں بہت عمدہ بحث لکہی ھے وہاں روایات جمع کی ہیں اور ان پر جو اعتراضات وارد ہوئے ہیں ان کا شافی جواب دیا ھے۔

( اعلاء السنن, جلد:17,ص:221, طبع: مکتبہ اشرفیہ دیوبند۔)

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*
29جولائی,2020

No comments:

Post a Comment