*تہمت کی سزا:*
غسل کے دوران مدینہ کی ایک عورت نے مردہ عورت کی ران پر ہاتھ رکھتے ہوئے یہ الفاظ کہے کہ اس عورت کے فلاں مرد کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے.
بس یہ بات کہنا تھا کہ اللہ تعالی نے اپنی ڈھیل دی ہوئی رسی کھینچ دی اس عورت کا انتقال مدینہ کی ایک بستی میں ہوا تھا اور غسل کے دوران جوں ہی غسل دینے والی عورت نے مندرجہ بالا الفاظ کہے تو اس کا ہاتھ میت کی ران کے ساتھ چپک گیا۔ چپکنے کی قوت اس قدر تھی کہ وہ عورت اپنا ہاتھ کھینچتی تو میت گھسیٹتی تھی مگر ہاتھ نہ چھوٹتا تھا۔
جنازے کا وقت قریب آ رہا تھا اس کا ہاتھ میت کے ساتھ چپک چکا تھا اور بے حد کوشش کے باوجود جدا نہیں ہو رہا تھا، تمام عورتوں نے اس کے ہاتھ کو پکڑ کر کھینچا، مروڑا، غرض جو ممکن تھا کیا مگر سب بے سود رہا!دن گزرا ، رات ہوئی، دوسرا دن گزرا، پھر رات ہوئی سب ویسا ہی تھا، میت سے بدبو آنے لگی اور اس کے پاس ٹھہرنا ،بیٹھنا مشکل ہو گیا!
مولوی صاحبان، قاری صاحبان اور تمام اسلامی طبقے سے مشاورت کے بعد طے ہوا کہ غسال عورت کا ہاتھ کاٹ کر جدا کیا جائےاور میت کو اس کے ہاتھ سمیت دفنا دیا جائے۔ مگر اس فیصلے کو غسال عورت اور اس کے خاندان نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ ہم اپنے خاندان کی عورت کو معذور نہیں کر سکتے لہذا ہمیں یہ فیصلہ قبول نہیں!
دوسری صورت یہ بتائی گئی کہ میت کے جسم کا وہ حصہ کاٹ دیا جائے اور ہاتھ کو آزاد کر کے میت دفنا دی جائے، مگر بے سود. اس بار میت کے خاندان نے اعتراض اٹھایا کہ ہم اپنی میت کی یہ توہین کرنے سے بہر حال قاصر ہیں.اس دور میں امام مالک قاضی تھے. بات امام مالک تک پہنچائی گئی کہ اس کیس کا فیصلہ کیا جائے! امام مالک اس گھر پہنچے اور صورت حال بھانپ کر غسال عورت سے سوال کیا "اے عورت! کیا تم نے غسل کے دوران اس میت کے بارے میں کوئی بات کہی؟"
غسال عورت نے سارا قصہ امام مالک کو سنایا اور بتایا کہ اس نے غسل کے دوران باقی عورتوں کو کہا کہ اس عورت کے فلاں مرد کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے.
امام مالک نے سوال کیا "کیا تمھارے پاس اس الزام کو ثابت کرنے کےلیے گواہ موجود ہیں" عورت نے جواب دیا کہ اس کے پاس گواہ موجود نہیں. امام مالک نے پھر پوچھا "کیا اس عورت نے اپنی زندگی میں تم سے اس بات کا تذکرہ کیا؟" جواب آیا "نہیں"
امام مالک نے فوری حکم صادر کیا کہ اس غسال عورت نے چونکہ میت پر تہمت لگائی ہے لہذا اس کو حد مقررہ کے مطابق 80 کوڑے لگائے جائیں!
حکم کی تعمیل کی گئی اور 70 بھی نہیں 75 بھی نہیں 79 بھی نہیں پورے 80 کوڑے مارنے کے بعد اس عورت کا ہاتھ میت سے الگ ہوا.
آج ہم تہمت لگاتے وقت ذرا بھی نہیں سوچتے.
••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*
یہ واقعہ متعدد کتب میں ھے؛ لیکن یہ قابل بیان نہیں ھے؛ کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی " یعقوب بن اسحاق عسقلانی" ہیں جن کو کذاب لکہا گیا ھے:
💠 *یعقوب بن اسحاق*💠
يعقوب بن اسحاق العسقلاني، كذاب...
وقد وجدت له حكاية تشبه ان تكون من وضعه، قرأت بخط الحافظ قطب الدين الحلبي ما نصه : وسيدي أبي عبد الرحمن بن عمر بن محمد بن سعيد وجدت بخط عمي بكر بن محمد بن سعيد بن يعقوب بن إسحاق بن حجر العسقلاني إملاء قال : ثنا إبراهيم بن عقبة ، حدثني المسيب بن عبد الكريم الخثعمي ، حدثتني أمة العزيز امرأة أيوب بن صالح صاحب مالك قالت : غسلنا امرأة بالمدينة فضربت امرأة يدها على عجيزتها فقالت : " ما علمتك إلا زانية أو مأبونة " . فالتزقت يدها بعجيزتها ، فأخبروا مالكا ، فقال : " هذه المرأة تطلب حدّها ، فاجتمع الناس ، فأمر مالك أن تُضرب الحدّ فضربت تسعة وسبعين سوطا ، ولم تنتزع اليد ، فلما ضربت تمام الثمانين انتزعت اليد ، وصلي على المرأة ودفنت.
٭ المصدر: لسان الميزان
٭ المحدث: ابن حجر العسقلاني
٭ المجلد: 8
٭ الصفحة: 525
٭ الرقم: 8631
٭ الطبع: دار البشائر الإسلامية، بيروت، لبنان.
••• *خلاصه كلام* •••
یہ واقعہ بیان نہ کیا جائے, اسکی سند اس قابل نہیں ھے۔
وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
۳ ستمبر: ۲۰۲۰ء
No comments:
Post a Comment