••• *قبر کو بوسہ دینا* •••
قبر کو بوسہ دینے کے متعلق ایک روایت گردش میں ھے: ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ رسول اللہ علیہ السلام میں نے آستانِ جنت چومنے کی قسم کھائی تھی حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ماں کے پاوں اور باپ کی پیشانی چومے مروی ہے کہ اس نے عرض کیاکہ اگر میرے ماں باپ نہ ہوں تو فرمایا ان دونوں کی قبروں کو بوسہ دے عرض کیا کہ اگر قبریں معلوم نہ وہں تو فرمایا دو خط کھینچ اور نیت کر کہ ایک ان میں سے ماں کی قبر ہے اور دوسری باپ کی ، ان دونوں کو بوسہ دے تیری قسم اتر جائے گی۔۔
اس روایت کا حوالہ اور قبر بوسی کے مسئلہ کی تحقیق مطلوب ھے!!!!
••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*
اولا ہم قبر بوسی کے عدم جواز کے متعلق فقہی عبارات پیش کرینگے:
🔷 *فتاوی قاسمیہ جلد :3, صفحہ: 143. طبع: مکتبہ اشرفیہ, دیوبند*🔷
*قبر کو بوسہ دینا*
سوال ]٦٥٤[:کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں :کہ کیا قبر کا بوسہ شرک ہے ؟
المستفتی: محمد رضوان الحق ، عمری کلاں، مرادآباد
*باسمہ سبحانہ تعالیٰ*
*الجواب وباللّٰہ التوفیق:*
اگر عبادت اور تعظیم کے طریقہ سے بوسہ دیتاہے تو موجب کفر اور شرک ہے اور اگر جوش محبت میں بوسہ دیتاہے تو شرک وکفر نہیں ہے؛ بلکہ گناہ کبیرہ ہے اس سے احتراز لازم ہے ۔
وکذا مایفعلونہ من تقبیل الأرض بین یدی العلماء والعظماء فحرام والفاعل والراضی بہ آثمان لانہ یشبہ عبادۃ الوثن وہل یکفر؟ إن علیٰ وجہ العبادۃ والتعظیم کفر وإن علیٰ وجہ التحیۃ لا: وصار آثما مرتکبا لکبیرۃ الخ۔
(الدر المختار ،کتاب الخطر والإباحۃ ، باب الاستبراء کراچی۶/۳۸۳، زکریا۹/۵۵۰، تبیین الحقائق ،کتاب الکراہیۃ ، فصل فی الإستبراء وغیرہ ،کوئٹہ۶/۲۵، زکریا ۷/۵۶)
وفی الجامع الصغیر تقبیل الأرض بین یدی العظیم حرام الخ۔
(الفتاویٰ الہندیہ ، قدیم ۵/۳۶۹، جدید ۵/۴۲۵، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ ۱۳/۱۳۱)
فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اللہ عنہ
۲۵؍ذی الحجہ۱۴۱۱ھ
(الف فتویٰ نمبر۲۷/۲۴۹۶).
🔰 *امداد الفتاوی جدید, جلد:11. صفحہ: 455. طبع: اشرفیہ دیوبند*🔰
( *قبر کو بوسہ دینے سے متعلق شبہ کا جواب* )
سوال (۳۲۵۵) : قدیم ۵/۳۱۳-:
ایک مسئلہ کے متعلق شبہ ہے اس کی تحقیق سے سرفراز فرماویں ۔ وہ یہ ہے کہ آنحضور نے نشر الطیب میں جواز توسل کے مقام پر روایت نقل فرمائی ہے کہ قبر شریف بھی بوجہ ملابس ہونے کے مورد رحمت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ملا بست بھی سبب ورودِ رحمت ہے جس طرح ملبوسات یعنی کپڑا وغیرہ اولیاء اللہ کا بوجہ ملابستہ قابل تقبیل ہے اور اس کا چومنا اور آنکھ سے لگانا جائز اسی طرح مزارات اولیا اللہ بھی بوجہ ملابستہ اس کا بھی چومنا آنکھ سے لگانا جائز ہونا چاہئے حالانکہ ہمارے فقہاء علیہم الرحمۃ قبور کے بوسہ وغیرہ کو حرام فرماتے ہیں خواہ قبر کسی بزرگ کی ہو یا والدین کی اور بظاہر بوجہ ملابست بوسہ وغیرہ جائز ہونا چاہئے جیسا کہ کپڑے کا بوسہ، تحقیق اس میں کیا ہے اور ماخذ حرمت حضرات فقہاء علیہم الرحمۃ کی کونسی حدیث ہے۔ مدّلل تحریر فر ما کر عزت بخشیں ۔
*الجواب:*
یہ ضرور نہیں کہ تمام ملابسات سب احکام میں متساوی ہوں ۔ تقبیل ثوب میں کوئی دلیل نہی کی نہیں ۔ اس لئے اباحت اصلیہ پر ہے بخلاف قبور کے کہ اس کی تقبیل پر دلیل نہی موجود ہے فافترقا۔ اور وہ دلیل نہی ہم مقلدوں کے لئے تو فقہاء کا فتویٰ ہے اور فقہاء کی دلیل تفتیش کرنے کا ہم کو حق حاصل نہیں مگر تبرّعاًکہا جاتا ہے کہ وہ دلیل مشابہت ہے نصاریٰ کی۔ کما قالہ الغزالی (۱) اور احتمال ہے افضاء الی العبادۃ کا چنانچہ قبور کو سجدہ وغیرہ کیا جاتا ہے حتیٰ کہ اگر ثوب میں کہیں ایسا احتمال ہو تو وہاں بھی یہی حکم ہوگا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کا شجرۂ حدیبیہ کو قطع کرادینا اس کی دلیل ہے(٢)۔
۱۹ ربیع الاول ۱۳۳۱ ھ (تتمہ ثانیہ ص ۲۰)
_______________
(١) والمستحب في زیارۃ القبور أن یقف مستدبر القبلۃ مستقبلا بوجہہ المیت و أن یسلم ولایمسح القبر ولایمسہ ولایقبلہ فإن ذٰلک من عادۃ النصاریٰ۔
(إحیاء علوم الدین للعلامۃ غزالي، ربح المنجیات، کتاب المراقبۃ والمحاسبۃ، المقام الأول من المربطۃ: المشارطۃ، دار المعرفۃ بیروت ۴/۴۹۱)
قال أبو موسیٰ الحافظ الأصبہاني: قال الفقہاء الخراسانیون: لایمسح القبر ولایقبلہ ولایمسہ فإن کل ذٰلک من عادۃ النصاریٰ، قال: وما ذکروہ صحیح، وقال الزعفراني: لایستلم القبر بیدہ ولایقبلہ، قال: وعلی ہذا مضت السنۃ ومایفعلہ العوام الآن من البدع المنکرۃ شرعا۔
(البنایۃ، کتاب الصلاۃ، قبیل باب التشہد، مکتبہ أشرفیہ دیوبند ۳/۲۶۱- ۲۶۲)
قال الحافظ أبو موسیٰ الأصفہاني: قال الفقہاء المتبحرون الخراسانیون: ولایمسح القبر بیدہ ولایقبلہ ولایمسہ فإن ذٰلک عادۃ النصاریٰقال: وما ذکروہ صحیح … وقال الشیخ ابن تیمیہ: اتفق السلف والأئمۃ علی أن من سلم علی النبي صلی اللہ علیہ وسلم أو غیرہ من الأنبیاء والصالحین فإنہ لایتمسح بالقبر ولایقبلہ بل اتفقوا أنہ لایستلم ولایقبل إلا الحجر الأسود والرکن الیماني، یستلم ولایقبل علی الصحیح۔
(الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ ۴۳/۳۱۲، ہندیۃ، کتاب الکراہیۃ، الباب السادس عشر في زیارۃ القبور وقرأۃ القرآن في المقابر قدیم زکریا ۵/۳۵۱، جدید زکریا ۵/۴۰۵)
(٢) أخبرنا عبد الوہاب بن عطاء أخبرنا عبد اللہ بن عون عن نافع قال: کان الناس یأتون الشجرۃ التي یقال لہا شجرۃ الرضوان فیصلون عندہا، قال: فبلغ ذٰلک عمر بن الخطاب فأوعدہم فیہا و أمر بہا فقطعت۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، غزوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الحدیبیۃ، دار الکتاب العلمیۃ بیروت ۲/۷۶، دار الفکر بیروت ۱/۴۱۶)
عن نافع قال: بلغ عمر بن الخطاب أن ناسا یأتون الشجرۃ التي بویع تحتہا، قال: فأمر بہا فقطعت۔
(المصنف لابن أبي شیبۃ، الصلاۃ، في الصلاۃ عند قبر النبي صلی اللہ علیہ وسلم وإتیانہ، مؤسسۃ علوم القرآن ۵/۱۷۹، رقم: ۷۶۲۷)
ثم وجدت عند ابن سعد بإسناد صحیح عن نافع أن عمر بلغہ أن قوما یأتون الشجرۃ فیصلون عندہا فتوعدہم ثم أمر بقطعہا فقطعت۔
(فتح الباري، کتاب المغازي، باب غزوۃ الحدیبۃ، مکتبہ أشرفیہ دیوبند ۷/۵۶۹، تحت رقم الحدیث: ۴۱۶۵)
✳️ *فتاوی عالمگیری میں*✳️
فتاوی عالمگیری ( ہندیہ) میں ھے: کہ قبر کو بوسہ نہ دے؛
ولا یمسح القبر ولا یقبلہ فإن ذلک من عادة النصاری ولا بأس بتقبیل قبر والدیہ کذا في الغرائب۔
* المصدر : فتاوی عالمگیری
* المجلد: 5
* الصفحہ: 405
* الطبع: دار الفکر, بیروت, لبنان.
⚠️ *فتاوی ہندیہ کی عبارت پر اعتراض*
فتاوی ہندیہ کی عبارت جو اوپر گزری اس میں لکہا ھے: کہ "ولا باس بتقبیل قبر والدیہ". کہ والدین کی قبر کو چوما جاسکتا ھے ؟
اسکا جواب " فتاوی رشیدیہ " میں موجود ھے:
*قبر کو بوسہ دینا*
سوال: بوسہ لینا قبر کا جائز ہے یا حرام؟
(جواب:)
بوسہ لینا قبر کا حرام ہے؛ فی المدارج و بوسہ دادن قبر راوسجدہ کردن آنر اور سر نہادن حرام و ممنوع ست و دربوسیدن قبر والدین روایت فقہی نقل میکنذ و صحیح آنست کہ لایجوز انتہی و ادنی لا یجوز گناہ صغیرہ است و اصرار برآن کبیرہ است ہکذافی شرح عین العلم۔
( ترجمہ)
بوسہ لینا قبر کا حرام ہے، مدارج میں ہے: اور بوسہ دینا قبر کا اور اس کو سجدہ کرنا اور سر رکھنا حرام اور ممنوع ہے اور والدین کی قبروں کو بوسہ دینے میں ایک فقہی روایت نقل کرتے ہیں، اور صحیح یہ ہے کہ لا یجوز (جائز نہیں) اور لا یجوز کا ادنی گناہ، گناہ صغیرہ ہے اور اس پر ا صرار کرنا گناہ کبیرہ ہے۔
• نام کتاب: فتاوی رشیدیہ
• نام مؤلف: حضرت مفتی رشید احمد گنگوہی
• صفحہ:154
• طبع : دار الاشاعت, اردو بازار, کراچی,پاکستان.
💠 *اعتراض کا دوسرا جواب فتاوی رحیمیہ میں*💠
*قبر کو بوسہ دینے کا کیا حکم ہے؟:*
(سوال٣٦ ) جو مضمون پہلے سوال میں نقل کیا گیا ہے ، اس کے بعد ایک عنوان ہے ۔ قبر کو بوسہ دینا اس عنوان کے تحت تحریر ہے :۔
’’کنز العباد‘‘ میں بحوالہ ’’ شعبی کرت تحریر ہے ، اپنے والدین کی قبروں کو بوسہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ *نیز شعبی سے ایک روایت یہ بھی ہے ۔ ایک صحابی نے دربار رسالت میں آکر یہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ میں نے قسم کھائی ہے کہ میں ’’باب الجنہ‘‘ اور ’’حور جنت‘‘ کو بوسہ دوں گا اب مجھے یہ قسم کیسے ادا کرنی چاہئے* ۔ *حضورﷺ نے فرمایا کہ اگر تو اپنے والدہ کے قدم اور والد کی جبین چوم لے تو تیری قسم ادا ہوجائے گی ۔ اس شخص نے کہا ۔ میرے والدین نہ ہوں تو کیا کروں ؟ حضورﷺ نے فرمایاان کی قبروں کو چوم لے ۔ اس نے کہا کہ ان کی قبروں کو بھی نہ جانتا ہوں تو ؟ حضورﷺ نے فرمایا کہ زمین پر دوخط کھینچ کر ایک کو والدہ کی اور دوسری کو والد کی قبر سمجھ کر دونوں خط چو م لو ۔ تیری قسم ادا ہوجائے گی۔* اس روایت کو دلیل بنا کر امام طحطاوی نے لکھا ہے کہ اس طریقہ سے استاد و مرشد کی قبر چومنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اس لئے کہ ان کا درجہ والدین سے بڑھ کرہے ۔ ’’ طوالع الا نوار‘‘شرح درمختار میں لکھا
ہے کہ قرآن مجید کے علاوہ اور اشیاء انبیاء ، شہداء اور صالحین کی قبروں کو برکت حاصل کرنے کی خاطر بوسہ دینے کے بارے میں علماء امت میں سخت اختلاف ہے
(الجواب)
صحیح یہ ہے کہ والدین کی قبر کو بوسہ دینا بھی منع ہے اور قول صحیح کو ترک کر کے قول ضعیف پر عمل کرنا مذموم ہے ۔ حضرت شاہ اسحاق محدث دہلوی کی فارسی کتاب ’’ مأۃ مسائل ‘‘ میں فتویٰ ہے کہ :۔
(سوال ۳۷) *بوسہ گرفتن قبر والدین چہ حکم دارد؟ جائز یا گناہ ؟ کدام گناہ* !
ترجمہ:۔ والدین کی قبر کو بوسہ دینا کیساہے ؟ جائز ہے یا گناہ؟ اور گناہ ہے تو کون سا ؟
(الجواب)
بوسہ دادن قبر والدین غیر جائز ست علے الصحیح وفی مدارج النبوہ وبوسہ دادن قبر را وسجدہ کردن آں راورخسار نہادن حرام و ممنوع است ۔ ودر بوسہ دادن قبر والدین روایت فقہی نقل می کنند وصحیح آنست کہ لایجوز ! انتہیٰ و ادنی ٰ لا یجوز گناہ صغیرہ است و اصرار برآن گناہ کبیرہ است کما تقدم !
ترجمہ:۔ صحیح یہ ہے کہ والدین کی قبر کو بھی بوسہ دینا جائز نہیں ۔’’ مدارج النبوۃ‘‘ میں ہے قبر کو چومنا سجدہ کرنا ،رخسار لگانا حرام اور ممنوع ہے اور والدین کی قبر کو بوسہ دینے میں روایت فقہی نقل کرتے ہیں ۔ حالانکہ صحیح یہ ہے کہ ناجائز ہے اور ناجائز کا ادنیٰ مرتبہ گناہ صغیرہ ہے اور اس پر اصرار گناہ کبیرہ ہے ۔
(مأۃ مسائل ص ۷۱)
رضاخانی کتاب ’’ بہارِشریعت‘‘میں ہے ۔مسئلہ ، قبر کو بوسہ دینا بعض علماء نے جائز کہا ہے۔مگر صحیح یہ ہے کہ منع ہے(مشکوٰۃ) بہار شریعت ج ۵ ص ۱۵۷۔
مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی کا فتویٰ یہ ہے کہ احادیث صحاح مرفوعہ محکمہ کے مقابل بعض ضعیف قصے یا محتمل واقعے یا متشابہہ پیش کرتے ہیں ۔ انہیں اتنی عقل نہیں یا قصداً بے عقل بنتے ہیں کہ صحیح کے سامنے ضعیف، متعین کے آگے محتمل ، محکم کے حضور متشابہ واجب الترک ہے ۔(احکام شریعت ۱ ص ۳۴) اس بارے میں جو حدیث بیان کی گئی ہے ، حدیث کی کتابوں میں اس کا نام و نشان نہیں ہے ۔ ایسی روایت بے اصل پر بھروسہ کرنا غلط ہے اور حدیث رسول مان لینا آنحضرت ﷺ پر بہتان دھرنے کے برابر ہے ۔ آپ کا فرمان ہے کہ جو آدمی جان بوجھ کر غلط باتوں کو میری طرف منسوب کرے اس کو چاہئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں تلاش کرے ۔ (معاذﷲ ) فقط ۔ وﷲ اعلم بالصواب۔
÷ نام کتاب : فتاوی رحیمیہ
÷ جلد :2
÷ صفحہ : 104
÷ طبع : دار الاشاعت, اردو بازار, کراچی, پاکستان.
♻️*سوال میں معلوم کردہ روایت کا ماخذ*
فتاوی رحیمیہ کے حوالے سے معلوم ہوگیا ھے کہ سوال میں معلوم کی گئ روایت کا حدیث کی کتابوں میں نام و نشان تک نہیں ھے اور واقعتا ایسا ہی ھے؛ ہم نے معمولی سی تلاش کے بعد یہ روایت شیعی کتاب میں پائی ھے:
وعن كفاية الشعبي، وفتاوي الغرائب، ومطالب المومنين وخزانة الرواية ما هذا لفظه: لا باس بتقبيل قبر الوالدين؛ لان رجلا جاء الي النبي، فقال یارسول الله! انی حلفت ان اقبل عتبۃ باب الجنۃ وجبهة حور العين، فامره النبی ان یقبل رجل الام ووجبهة الاب، قال یارسول الله ان لم یکن ابواي حيين؟ فقال: قبل قبرھما، قال: فان لم اعرف قبرھما؟ قال: خط خطین وانو بان احدھما قبرالام والآخر قبرالاب فقبلهما! فلا تحنث فی یمینک.
٭ المصدر: كشف الارتياب في أتباع محمد بن عبد الوهاب
٭ المؤلف: محسن امين العاملي
٭ الصفحة: 440
٭ الطبع: قُم، إيران.
وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ : *محمد عدنان وقار صدیقی*
23 ستمبر:2020
No comments:
Post a Comment