••• *حضورؐ نے اپنی ولادت کی خوشی میں بکرا ذبح کیا؟*•••
ایک پوسٹ گردش میں ھے جس میں امام سیوطی کے حوالے سے درج ھے : کہ نبی اکرم نے اپنی ولادت کی خوشی کے اظہار کیلیے بکرا ذبح فرمایا ( حسن المقصد فی عمل المولد) نیز یہ بھی لکہا ھے: نبی اکرم نے فرمایا : پیر کے دن میری ولادت ہوئی ؛ اسلیے روزہ رکھتا ہوں۔ ( مسلم / السنن الکبری)
اس کی تحقیق مطلوب ھے!!!
••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*
جب ماہِ ربیع الاول آتا ھے اس طرح کی پوسٹیں و مضامین خوب خوب نشر کیے جاتے ہیں جن میں اہل اھواء و اہل بدعت کی خوشی کا سامان ہو یہ بہی اسی طرح کی ایک پوسٹ ھے.
🔰 *امام سیوطیؒ کی عبارت*
امام سیوطیؒ نے اپنی کتاب " حسن المقصد فی عمل المولد " میں ایک بات ذکر کی ھے ؛ لیکن اس میں نہ ہی ولادت کا ذکر ھے نہ ولادت کی خوشی کا؛ بلکہ روایت میں فقط اتنا ذکر ھے : کہ نبی کریمؐ نے بعثت کے بعد اپنا عقیقہ فرمایا.
*حسن المقصد کی عبارت*
ما أخرجه البيهقي عن انس رضي الله عنه: (أن النبي صلى الله عليه وسلم عق عن نفسه بعد النبوة).
ترجمه: نبی اکرمؐ نے بعثت کے بعد یعنی نبوت ملنے کے بعد خود کا عقیقہ فرمایا.
تشریح: روایت میں نہ ولادت کا ذکر ھے اور نہ ہی ولادت کی خوشی میں بکرے کے ذبح کرنے کا نہ ماہ ربیع الاول کا نہ پیر کے دن کا نہ 12 تاریخ کا؛ بس اتنا مذکور ھے : کہ نبی اکرم نے اپنا عقیقہ فرمایا تہا۔
÷ نام کتاب: حسن المقصد فی عمل المولد
÷ نام مؤلف : امام سیوطیؒ
÷ صفحة: 64
÷ طبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
💠 روايت پر كلام 💠
مذکورہ روایت سے فقط اتنا معلوم پڑتا ھے کہ نبی اکرم نے اپنا عقیقہ کیا تہا اس میں نہ سال کا ذکر ھے نہ ماہ و تاریخ کا نہ دن اور وقت کا؛ لیکن کیا اتنی بات بہی مستند سند سے ثابت ھے؟ تو اس روایت پر حفاظ حدیث و محدثین کا کلام ھے یعنی یہ روایت قابل استدلال نہیں ھے:
1️⃣ *امام نووي كا كلام*
امام نوویؒ نے شرح المھذب میں کہا ھے: یہ حدیث باطل ھے , منکر ھے , متروک ھے:
أما الحديث الذي ذكره في عق النبي صلى الله عليه وسلم عن نفسه فرواه البيهقي بإسناده عن عبدالله بن محرر بالحاء المهملة والراء المكررة عن قتادة عن أنس (أن النبي صلى الله عليه وسلم عق عنه نفسه بعد النبوة) وهذا حديث باطل، قال البيهقي هو حديث منكر، وروى البيهقي بإسناده عن عبد الرزاق قال: "إنما تركوا عبدالله بن محرر بسبب هذا الحديث"، قال البيهقي: وقد روى هذا الحديث من وجه آخر عن قتادة، ومن وجه آخر عن أنس وليس بشيء، فهو حديث باطل وعبدالله بن محرر ضعيف متفق على ضعفه قال الحفاظ هو متروك" اهـ.
• المصدر: شرح المهذب
• المصنف: الإمام النوويؒ
• المجلد: 8
• الصفحة: 412
• الطبع: مكتبة الإرشاد، جدة، السعودية.
2️⃣ *امام بيهقيؒ كا كلام*
امام بیہقیؒ نے یہ روایت ذکر کرنے کے بعد کلام لکہا: اسکی سند میں راوی " عبدﷲ بن محرر" ہیں جنکو محدثین نے ترک کردیا ھے.
نوٹ: امام سیوطیؒ نے "حسن المقصد" میں یہ روایت ذکر تو کی ھے ؛ لیکن بیہقی کا کلام ذکر نہیں کیا جس سے بظاہر ایسا لگا کہ یہ روایت مستند ھے۔
قال عبدالزاق إنما تركوا عبدالله ابن محرر لحال هذا الحديث وقد روي من وجه آخر عن قتادة ومن آخر عن أنس وليس بشيء.
× المصدر: السنن الكبري
× المحدث: البيهقيؒ
× المجلد: 9
× حديث نمبر: 19273
× الصفحة: 505
× الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
3️⃣ *ابن حجر عسقلانيؒ كا فرمان*
۩ قوله- أي الرافعي-: "رُوي أنه صلى الله عليه وسلم عق عن نفسه بعد النبوة".. البيهقي من حديث قتادة عن أنس وقال: منكر؛ وفيه عبدالله ابن محرر وهو ضعيف جداً، وقال عبد الرزاق إنما تكلموا فيه لأجل هذا الحديث.
قال البيهقي: وروى من وجه آخر عن قتادة ومن وجه آخر عن انس وليس بشيء.
قلت- القائل ابن حجر العسقلاني-: "أما الوجه الآخر عن قتادة فلم أره مرفوعاً وإنما ورد أنه كان يفتي به، كما حكاه ابن عبد البر، بل جزم البزار وغيره بتفرد عبدالله بن محرر به عن قتادة.
وأما الوجه الآخر عن أنس فأخرجه أبو الشيخ في الأضاحي وابن أيمن في مصنفه والخلال من طريق عبدالله بن المثنى عن ثمامة بن عبدالله بن أنس عن أبيه. وقال النووي في "شرح المهذب" هذا حديث باطل". اهـ.
۞ ابن حجرؒ نے بہی تلخیص حبیر میں اس روایت کو غیر معتبر غیر قابل استدلال بتایا ھے:
٭ المصدر: تلخيص الحبير
٭ المحدث: ابن حجر العسقلانيؒ
٭ المجلد: 4
٭ الحديث: 2418
٭ الصفحة: 269
٭ الطبع: مؤسسة قرطبة للنشر والتوزيع،
4️⃣ *امام ذهبي كا كلام*
امام شمس الدین ذھبیؒ نے بہی اس روایت کو مستند نہیں مانا ھے:
عبد الله بن محرر الجزري عن يزيد بن الاصم، وقتادة .قال احمد ترك الناس حديثه، وقال الجوزجاني: هالك، وقال الدارقطني وجماعة: متروك، وقال ابن حبان: كان من خيار عباد الله الا انه كان يكذب ولا يعلم، ويقلب الاخبار
ولا يفهم،... وقال ابن معين: ليس بثقة، ... ومن بلاياه: روى عن قتادة عن أنس (أن النبي صلى الله عليه وسلم عق عن نفسه بعدما بعث). رواه شيخان عنه" اهـ.
① المصدر: ميزان الاعتدال
② المحدث: الذهبيؒ
③ المجلد: 2
④ الصفحة: 500
⑤ الرقم: 4591
⑥ الطبع: دار المعرفة، بيروت، لبنان.
🌐 *پیر کے دن روزہ رکہنا*
صحیح مسلم میں روایت ھے: کہ نبی کریمؐ بروز پیر روزہ رکھتے تھے :
عن ابي قتادة الانصاري : وَسُئِلَ عن صَوْمِ يَومِ الاثْنَيْنِ؟ قالَ: ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ، وَيَوْمٌ بُعِثْتُ، أَوْ أُنْزِلَ عَلَيَّ فِيهِ.
٭ المصدر: صحيح مسلم
٭ المجلد: 1
٭ الصفحة: 520
٭ الرقم: 1162
٭ الطبع: دار طيبة، رياض.
تشریح: مسلم شریف کی روایت میں فقط اتنا ھے: کہ آنحضورؐ ہر سوموار کو روزہ رکہاکرتے تھے پوچھے جانے پر بتایا: کہ یہ دن میری ولادت کا ھے اور میری بعثت کا بہی ؛ لہذا اس سے فقط اتنا ثابت ھے کہ آپؐ یوم ولادت کو روزہ رکھ لیتے تھے لیکن اس میں تاریخ ولادت کا ذکر ہی نہیں ؛ کیونکہ تاریخ ولادت میں اختلاف واقع ہوا ھے لہذا ہر پیر کو روزہ مستحب ھے نہ یہ کہ سال میں ایک تاریخ کو مقرر کرکے روزہ رکہنا۔
___ *خلاصۂ کلام* ___
ماقبل کی تفصیل سے ثابت ہوا کہ حضور نے نہ تو اپنی ولادت کی خوشی میں بکرا ذبح کیا نہ ہی یہ ثابت ہوا کہ آپ ہر سال کسی متعینہ تاریخ کو روزہ رکہتے ہوں؛ بلکہ اتنا معلوم ہوا ھے کہ آپ علیہ السلام ہر ہفتے سوموار کو روزہ رکہتے تھے بلا قیدِ ماہ و تاریخ۔
وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
25 اکتوبر : 2020ء
No comments:
Post a Comment