جب نبی کریمؐ کی وفات ہوگئ اور تدفین سے فراغت ہوگئ تو یار غارؓ کے دل کے جذبات کچھ اس انداز میں نمودار ہوئے کہ صدیق اکبرؓ کی زبان گویا ہوئی:
⚀ لَمّا رَأَيتُ نَبِيَّنا مُتَجَدَّلاً
ضاقَت عَلَيَّ بِعَرضِهِنَّ الدورُ
وَارْتَعْتُ رَوْعَةَ مُسْتَهامٍ وَاْلِهٍ
وَالعَظمُ مِنّي وَاهِنٌ مَكْسُوْرٌ
أَعَتِيْقُ! وَيْحَكَ ؛إِنَّ حُبَّكَ قَدْ ثَوَي
وَبَقِيْتَ مُنْفَرِدًا، وَأَنْتَ حَسِيْرٌ
يا لَيتَني مِن قَبلِ مَهلَكِ صاحِبي
غُيِّبْتُ في جَدَثٍ عَلَيَّ صُخورُ.
( ترجمة)
جب میں نے اپنے نبی ﷺ کو زمین پر آرام فرماتے دیکھا، تو یہ دنیا اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود مجھ پر تنگ ہوگئ،میں ايک دیوانے کے مثل ہوگیا، اور میری ہڈیاں کمزور ہو کر ٹوٹنے لگیں، بےقراری بڑھی تو میں خود سے ہم کلام ہوا:
اے عتیق! تجھ پر افسوس ہو! کہ تیرا محبوب قبر میں چلا گیا اور اب تو اکیلا اور تھکا ہوا رہ گیا، اے میرے حبیب ﷺ ! کاش کہ آپ کے وصال سے قبل میں مر چکا ہوتا، لوگ مجھے قبر میں رکھ کر پتھروں سے ڈھانپ دیتے ۔
٭ المصدر: مختصر منهاج القاصدين
٭ الصفحة: 391
٭ المؤلف: الإمام ابن قدامة المقدسيؒ
٭ المحقق: د/ شعيب الارناؤوطؒ
٭ الطبع: مكتبة دار البيان، دمشق، سيريا.
والله تعالي أعلم
✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*
26 اگست، 2021
No comments:
Post a Comment