مفتی صاحب آج کل ایک ویڈیو گردش کر رہی ھے جس میں ایک ننہا بچہ منبر پر بیٹھ کر خوش نما آواز اور عربی شستہ لہجہ میں ایک خطبہ پڑھ رہا ھے اور اس خطبہ کا عنوان ھے *امام سجاد* کا خطبہ جو یزید کے دربار میں عوام الناس کی موجودگی یزید بن معاویہ کے رو برو دیا گیا , اس خطبہ کی سند و حقیقت کے متعلق جواب ارشاد فرمایئں!
عین نوازش ہوگی۔
( خطبہ کا ویڈیو لنک سوال کے ہمرشتہ کردیا گیا ھے)
••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*
یہ خطبہ بغیر کسی سند " خطیب خوارزم" ابو المؤید موفق بن احمد " مکی حنفی نے مقتل حسین نامی کتاب میں نقل کیا ھے, جس کے عربی الفاظ و ترجمہ درج ذیل ہیں:
🔖 *مقتل حسين* 🔖
*خطبة الإمام زين العابدين عليه السلام في مجلس يزيد*
وروي : أنّ يزيد أمر بمنبر وخطيب ، ليذكر للناس مساوئ للحسين وأبيه علي عليهما السّلام ، فصعد الخطيب المنبر ، فحمد الله وأثنى عليه ، وأكثر الوقيعة في علي والحسين ، وأطنب في تقريظ معاوية ويزيد ، فصاح به علي بن الحسين : « ويلك ، أيّها الخاطب ! اشتريت رضا المخلوق بسخط الخالق ؟ فتبوأ مقعدك من النار » ، ثمّ قال : « يا يزيد ! ائذن لي حتّى أصعد هذه الأعواد فأتكلّم بكلمات فيهنّ لله رضا ، ولهؤلاء الجالسين أجر وثواب » ، فأبى يزيد ، فقال الناس : يا أمير المؤمنين ! ائذن له ليصعد ، فلعلّنا نسمع منه شيئاً ، فقال لهم : إن صعد المنبر هذا لم ينزل إلّا بفضيحتي وفضيحة آل أبي سفيان ، فقالوا : و ما قدر ما يحسن هذا ؟ فقال : إنّه من أهل بيت قد زقّوا العلم زقّاً ، ولم يزالوا به حتّى أذن له بالصعود. فصعد المنبر ، فحمد الله وأثنى عليه ، ثمّ خطب خطبة أبكى منها العيون ؛ وأوجل منها القلوب ، فقال فيها :
« أيّها الناس ! اُعطينا ستّاً ، وفضّلنا بسبع : اعطينا العلم ، والحلم ، والسماحة ، والفصاحة ، والشجاعة ، والمحبّة في قلوب المؤمنين ، وفضّلنا بأنّ منّا النبي المختار محمّداً صلّى الله عليه وآله ، ومنّا الصدّيق ، ومنّا الطيّار ، ومنّا أسد الله وأسد الرسول ، ومنّا سيّدة نساء العالمين فاطمة البتول ، ومنّا سبطا هذه الاُمّة ، وسيّدا شباب أهل الجنّة ، فمن عرفني فقد عرفني ، ومن لم يعرفني أنبأته بحسبي ونسبي : أنا ابن مكّة ومنى ، أنا ابن زمزم والصفا ، أنا ابن من حمل الزكاة بأطراف الرداء ، أنا ابن خير من ائتزر وارتدى ، أنا ابن خير من انتعل واحتفى ، أنا ابن خير من طاف وسعى ، أنا ابن خير من حجّ ولبى ، أنا ابن من حمل على البراق في الهوا ، أنا ابن من أسرى به من المسجد الحرام إلى المسجد الأقصى ، فسبحان من أسرى ، أنا ابن من بلغ به جبرائيل إلى سدرة المنتهى ، أنا ابن من دنا فتدلّى فكان من ربّه قاب قوسين أو أدنى ، أنا ابن من صلّى بملائكة السما ، أنا ابن من أوحى إليه الجليل ما أوحى ، أنا ابن محمّد المصطفى ، أنا ابن علي المرتضى ، أنا ابن من ضرب خراطيم الخلق حتّى قالوا : لا إله إلّا الله ، أنا ابن من ضرب بين يدي رسول الله بسيفين ، وطعن برمحين ، وهاجر الهجرتين ، وبايع البيعتين ، وصلّى القبلتين ، و قاتل ببدر وحنين ، و لم يكفر بالله طرفة عين.
أنا ابن صالح المؤمنين ووارث النبيّين ، وقامع الملحدين ، ويعسوب المسلمين ، ونور المجاهدين ، وزين العابدين ، وتاج البكائين ، وأصبر الصابرين ، وأفضل القائمين من آل ياسين ، ورسول ربّ العالمين ، أنا ابن المؤيّد بجبرائيل ، المنصور بميكائيل ، أنا ابن المحامي عن حرم المسلمين ، وقاتل الناكثين والقاسطين والمارقين ، والمجاهد أعداءه الناصبين ، وأفخر من مشى من قريش أجمعين ، وأوّل من أجاب واستجاب لله من المؤمنين ، وأقدم السابقين ، وقاصم المعتدين ، ومبير المشركين ، وسهم من مرامي الله على المنافقين ، ولسان حكمة العابدين ، ناصر دين الله ، وولي أمر الله ، وبستان حكمة الله ، وعيبة علم الله ، سمح سخي ، بهلول زكي أبطحي رضي مرضي ، مقدام همام ، صابر صوام ، مهذب قوام ، شجاع قمقام ، قاطع الأصلاب ، مفرق الأحزاب ، أربطهم جنانا ، وأطبقهم عنانا ، وأجرأهم لسانا ، وأمضاهم عزيمة ، و أشدّهم شكيمة ، أسد باسل ، وغيث هاطل ، يطحنهم في الحروب ـ إذا ازدلفت الأسنة ، وقربت الأعنة ـ طحن الرحى ، ويذروهم ذرو الريح الهشيم ، ليث الحجاز ؛ وصاحب الإعجاز ؛ وكبش العراق ، الإمام بالنصّ والاستحقاق مكّي مدني ، أبطحي تهامي ، خيفي عقبي ، بدري أحدي ، شجري مهاجري ، من العرب سيّدها ، ومن الوغى ليثها ، وارث المشعرين ، وأبو السبطين ، الحسن والحسين ، مظهر العجائب ، ومفرق الكتائب ، والشهاب الثاقب ، والنور العاقب ، أسد الله الغالب ، مطلوب كلّ طالب ، غالب كلّ غالب ، ذاك جدّي علي بن أبي طالب.أنا ابن فاطمة الزهراء ، أنا ابن سيّدة النساء ، أنا ابن الطهر البتول ، أنا ابن بضعة الرسول ».
قال : ولم يزل ، يقول : « أنا أنا » حتّى ضج الناس بالبكاء والنحيب ، وخشي يزيد أن تكون فتنة ، فأمر المؤذّن : أن يؤذّن ، فقطع عليه الكلام وسكت ، فلمّا قال المؤذّن : الله أكبر ! قال عليّ بن الحسين : « كبّرت كبيراً لا يقاس ، و لا يدرك بالحواس ، لا شيء أكبر من الله » ، فلمّا قال : أشهد أن لا إله إلّا الله ! قال علي : « شهد بها شعري وبشري ، ولحمي ودمي. ومخي وعظمي » ، فلمّا قال : أشهد أنّ محمّداً رسول الله ! التفت عليّ من أعلى المنبر إلى يزيد ، وقال : « يا يزيد ! محمّد هذا جدّي أم جدّك ؟ فإن زعمت أنّه جدّك فقد كذبت ، وإن قلت : إنّه جدّي ، فلم قتلت عترته » ؟
قال : وفرغ المؤذّن من الأذان والإقامة ، فتقدّم يزيد وصلّى صلاة الظهر.
( *ترجمة*)
روایت ھے: کہ یزید نے منبر لگانے اور کسی مقرر کو بیان کرنے کا حکم دیا تاکہ وہ اپنی تقریر میں لوگوں کے سامنے حضرت حسین اور ان کے والد گرامی حضرت علی کی شان میں گستاخی کرے چنانچہ خطیب منبر پر چڑھا اللہ کی حمد و ثنا کی اور حضرت علی و حسین کی شان میں بدتمیزی کی , اور حضرت معاویہ اور یزید کی تعریفوں کے پُل باندھے وہاں ( ملک شام میں دربار یزید میں قیدی کی حیثیت سے ) حضرت حضرت حسین کے فرزند حضرت علی بن حسین بہی تھے تو انہوں نے جرأت سے کہا: اے خطیب! تو برباد ہو؛ تو مخلوق ( یزید ) کی خوشنودی کیلیے خدا کی ناراضگی مول لیتا ھے اور اپنا ٹھکانہ جہنم میں بناتا ھے! پھر حضرت نے کہا: یزید! مجھے منبر سنبہالنے کی اجازت دے تاکہ میں ایسی بات بیان کروں جس میں اللہ کی رضامندی ھے اور سامعین کیلیے اجر و ثواب ھے! یزید نے انکار کردیا؛ لیکن عوام نے مطالبہ کیا کہ امیر المومنین! اس نوجوان کو اجازت دیجائے یزید نے ان سے کہا: اگر اسکو اجازت ملی تو یہ منبر سے تبہی اترے گا جب میری اور ابوسفیان کی آل و اولاد کی رسوائی نہ کردے , لوگوں کا مطالبہ بدستور جاری رہا, اور حضرت علی بن حسین کو اجازت مل گئ , وہ منبر پر آئے اور خدا کی حمد و ثنا کی پھر ایسی تقریر کی کہ تمام کی آنکہیں ڈبڈبا گئیں اور دل ڈر گئے ان کی تقریر یہ تہی:
لوگو! ہمیں چھ چیزیں عطا کی گئی ہیں اور ہمیں سارے جہان پر سات خصوصیات سے فضیلت حاصل ھے , ہمیں علم , بردباری, سخاوت, فصاحت, بہادری اور مومنوں کے دلوں میں محبت دی گئ ھے, اور ہماری فضیلت یہ ھے کہ ہم میں سے ہی نبی مختار محمد صلی ﷲ علیہ وسلم ہیں , اور صدیق ہیں اور جعفر طیار ہیں اور ہمارے ہی بڑے بزرگ اللہ اور اسکے رسول کے شیر ہیں, اور ہمارے ہی خاندان سے تو سارے جہان کی خواتین کی سردار حضرت فاطمہ بتول ہیں اور ہمارے ہی تو اس امت کے دو سردار ہیں اور دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں , پھر فرمایا: جو مجھے پہچانتا ھے تو بہتر ھے وہ مجھے پہچانتا ہے اور جو نہیں جانتا تو تو میں اسکو اپنا حسب و نسب بیان کیے دیتا ہوں! لوگو! سنو ! میں مکہ اور منی کا فرزند ہوں میں زمزم و صفا کا بیٹا ہوں , میں کپڑے اور چادر پہننے والوں میں سب سے بہتر انسان کا بیٹا ہوں , میں چپل پہننے والوں اور برہنہ پا چلنے والوں میں سے سب سے بہتر کا فرزند ہوں , میں طواف و سعی کرنے والوں میں سب سے بہترین کی اولاد ہوں , میں حج و تلبیہ پڑھنے والوں میں سے سب سے بہتر کا فرزند ہوں , میں فرزند ہوں اس شخصیت کا جسکو فضاؤں میں براق پر سوار کیا گیا, میں ہوں بیٹا اس ذات کا جسکو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصی لیجایا گیا, _ پاکیزہ ھے ان کو لیجانی والی ذات_ میں اس کی اولاد ہوں جسکو جبرئیل سدرہ المنتہی لیکر گئے , میں اسکا فرزند ہوں جو رب سے نزدیک سے نزدیک تر ہوا, اور ایک قوس سے بھی کم فاصلہ اسکے اور رب کے درمیان رہ گیا, میں اسکا بیٹا ہوں جس پر آسمان کے فرشتے درود پڑھتے ہیں میں اسکا بیٹا ہوں جس کے پاس عزت والا رب وحی بھیجتا تہا, میں محمد مصطفی کا بیٹا اور علی مرتضی کا فرزند ہوں , میں اس کا بیٹا ہوں جس نے ( کافر ) مخلوق کی ناک پر وار کیا اور وہ کلمہ توحید پڑھنے لگے, میں اسکا بیٹا ہوں جس نے رسول ﷲ کے سامنے دو دو تلواروں سے جنگ لڑی , اور دو دو نیزوں سے مقابلہ کیا, اور دو ہجرتیں کی , اور دو بیعتیں کیں , اور دونوں قبلوں کی جانب رخ کرکے نماز پڑھی, اور جس نے بدر و حنین میں سخت لوہا لیا, اور زندگی کے کسی بھی پل خدا کی ناشکری اور اسکا انکار نہ کیا،میں مومنوں کے نیکو کار, نبیوں کے وارث , ملحدوں کے قمع کرنیوالے , مسلمانوں کے سردار, مجاہدوں کی مشعل , عبادتگزاروں کے سرتاج, رونے والوں کے تاج, سب سے زیادہ صابر, آل نبی کے شب بیداروں میں سب سے افضل , کا بیٹا ہوں, میں ایسے شخص کا فرزند ہوں جس کو جبرئیل کی تائید حاصل ھے, جسکو میکایل کی نصرت حاصل ھے, میں اسکا بیٹا ہوں جو مسلمانوں کی عزت کا محافظ ھے, جو سرکشوں , ناانصافوں, حد سے تجاوز کرنے والوں سے قتال کرنیوالا, اور اپنے سخت دشمنوں سے جہاد کرنیوالا , سارے قریش کی شان ھے, اور سب سے پہلے ( بچوں میںقبول کرنے والا ھے, سابقین اولین میں شمار ھے,زیادتی کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہونچانیوالا ھے, مشرکوں کو نیست کرنیوالا , اور منافقوں پر خدا کا تیر ھے, عبادت گزاروں کی حکمت کی زبان ھے, خدا کے دین کا مددگار ھے, خدا کے معاملہ ( خلافت ) کو سنبھالنے والا اور اسکی حکمت کا باغ , علم باری کا رازادر ھے, شریف و سخی ھے, عقلمند و ذہین ھے, وسیع العلم , راضی برضا ھے خدا کا پسندیدہ ھے, جراتمند , بہادر صابر روزے دار ھے, تہذیب یافتہ , غلط کاروں کو سمجہانیوالا, بہادر , شرافت و سخاوت کا سمندر , دشمنوں پرخچے اڑانے والا, عدو کی صفیں پلٹنے والا, مضبوط دل والا, لگاموں کو تھمانے والا, بیباک, عزائم کو پورا کرنے والا, بلند حوصلوں والا ( وہ شہسوار جسکے گھوڑے کی لگامیں لوہے کی ہوں) بہادر شیر , موسلا دھار بارش جیسا, جنگ میں دشمنوں کو گندم کی پیسنے والا, اور مخالفین گروہ کو ہوا میں اڑانے والا, سرزمین حجاز کا شیر , جس کی زبان میں بلا کی بلاغت ھے, عراق کا سردار ھے, جس کی امامت کی شاہد آیات و احادیث ہیں , جو امامت کا مستحق ھے, پیدائشی مکی ھے اور اقامتی مدنی ھے, بطحا اور تہامہ کا لعل ھے, بیعت عقبہ کا شریک , بدری اور احدی صحابی ھے, بیعت رضوان کا حاضرین اور مہاجر بہی ھے, اس کی سرادری عرب میں تسلیم ھے،
دو پیارے فرزندوں( حسن و حسین) کے باپ ہیں, عجائبات علم کے اظہار کرنے والے , دشمنوں کے فوجی دستوں کو تتر بتر کرنے والے, روشن ستارے, غالب نور , ﷲ کے فاتح شیر, ہر چاہنے والے کے مطمح نظر, ہر فاتح کے فاتح, وہی تو میرے دادا علی بن ابوطالب ہیں, میں فاطمہ زھراء کا فرزند , خواتین کی سردار کا بیٹا, جگر گوشہ رسول کا حصہ ہوں, راوی کہتا ھے: حضرت علی بن حسین اپنا تعارف اس انداز بدیع میں کرارھے تھے اور اور لوگوں پر رونا و گریہ طاری تہا, یزید کو لگا کہ کوئی انہونی نہ ہوجائے چنانچہ اس نے مؤذن کو کہا: اذان پڑھے , اور حضرت علی اذان سن کر خاموش ہوگئے , جب مؤذن نے ﷲ اکبر ﷲ اکبر کی صدا لگائی تو حضرت علی نے کہا: خدا تو اتنا بڑا ھے کہ اسکا کوئی پیمانہ نہیں اس سے بڑا کچھ ہے ہی نہیں, جب مؤذن نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں تو انہوں نے کہا: اس بات کی گواہی میرے جسم کا رواں رواں دیتا ھے میرا گوشت پوست دیتا ھے, پھر جب مؤذن نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں تو حضرت علی منبر پر بیٹھے یزید کی جانب گھوم کر گویا ہوئے: یزید! یہ جو اذان میں محمد نام آتا ھے یہ محمد تیرے جد امجد ہیں یا میرے؟ اگر تیرے گمان میں یہ ھے کہ یہ تیرے جد ہیں تو جہوٹا قرار پایئگا اور تیرا کہنا ھے کہ یہ میرے جدامجد ہیں تو پھر تو بتا! کہ تونے انکے خاندان کو قتل کیوں کیا؟ راوی کہتا ھے: یزید خاموش رہا اور مؤذن نے اذان ختم کی اور یزید آگے بڑھا اور نماز ظہر کی امامت کرائی۔
٭ المصدر: مقتل الحسين
٭ المؤلف: أبو المؤيد الموفق بن أحمد المكي أخطب خوارزم
٭ المجلد: 2
٭ الصفحة: 76
٭ الطبع: دار أنوار الهدي، قُمْ، إيران.
🔅 *صاحب کتاب کا تعارف* 🔅
امام ابو الوفاء قرشی نے " جواهر مضيئة في طبقات حنفیہ " میں ان کا ذکر کیا ھے کہ یہ ماہر فن نحو, ادیب فقیہ ہیں اور
عربیت کے تعلم میں علامہ زمخشری کے تلامذہ میں سے ہیں:
«الموفق بن أحمد بن محمد المكي، خطيب خوارزم، استاذ
ناصر بن عبد اللّه صاحب المغرب، أبو المؤيد، مولده في حدود سنة 484. ذكره القفطي في أخبار النحاة. أديب فاضل له معرفة في الفقه والأدب. روى مصنفات محمد بن الحسن عن عمر بن محمد بن أحمد النسفي. ومات رحمه اللّه سنة 568، وأخذ علم العربية عن الزمخشري»
٭ المصدر: الجواهر المضيئة
٭ المؤلف: محي الدين أبو محمد عبد القادر بن محمد بن محمد بن نصر الله ابن سالم ابن أبي الوفاء القرشي الحنفي
٭ المجلد: 3
٭ الصفحة: 523
٭ الرقم: 1718
٭ الطبع: دار هجر للطباعة والنشر والإعلان، قاهرة، مصر.
🕯️ *خلاصۂ کلام* 🕯️
یہ خطبہ بلا سند منقول ھے ؛ لہذا اس کی نسبت و ثبوت حتمی نہیں کہی جاسکتی ھے جبکہ صاحب کتاب خوارزمی کے متعلق امام ابن تیمیہ نے کہا: کہ حدیث کے باب میں ان کا مقام وہ نہیں کہ ان کی جانب رجوع کیا جائے :
«إن أخطب خوارزم هذا، له مصنّف في هذا الباب، فيه من الأحاديث المكذوبة ما لا يخفى كذبه على من له أدنى معرفة بالحديث، فضلاً عن علماء الحديث، وليس هو من علماء الحديث ولا ممن يرجع إليه في هذا الشأن ألبتة»
٭ المصدر: منهاج السنة
٭ المحدث: الإمام ابن تيمية
٭ المجلد: 5
٭ الصفحة: 41
٭ الطبع: جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية، الرياض، السعودية.
والله تعالي أعلم
✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صديقي*
28 اگست، 2021
No comments:
Post a Comment