مفتی صاحب! ایک شیعہ نے مجھے سوال بہیجا ھے کہ حضرت عمر فاروق اعظمؓ با ادب نہیں تھے ؛ اس لیے کہ جب بھی وہ پیغمبر علیہ السلام یا حضرت فاطمہؓ کا تذکرہ کرتے تھے تو انہیں نازیبا الفاظ میں یاد کرتے تھے ؛ یہی وجہ ھے کہ ان کو علمائے اہل سنت نے احمق سے تعبیر کیا ھے جیسا کہ امام عبد الرزاقؒ ( صاحب مصنف ابی شیبہ) نے حضرت عمر فاروقؓ کو احمق لکھا ھے, اور خود امام ذہبیؒ نے یہ بات نقل کی ھے!
••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*
یہ بات کہ حضرت عمر فؔاروق اعظمؓ شان نبوت یا شان بتول کے سلسلے میں باادب نہیں تھے کسی رافضی کی فکر و سوچ ہوسکتی ھے ؛ در اصل امام ذھبیؒ نے اس بات کی تفصیل بیان کی ھے کہ جب حضرت علی و حضرت عباس رضی ﷲ عنہما حضرت عمرؓ کی خدمت میں میراث نبوی کے مطالبے کیلیے تشریف لائے تو حضرت عمر فاروقؓ نے کہا: کہ عباس آپ تو بھتیجے ( محمد صلی ﷲ علیہ وسلم) کی میراث سے اور اے علی! تم رفیقہء حیات کی جانب سے ان کے والد کے ترکے سے ان کا حصہ طلب کرنے ہوئے ہو( یعنی آپ رضی ﷲ عنہ طلب میراث میں اس رشتے کی وضاحت فرمارھے تھے جس کی بنا پر یہ دونوں بزرگ تشریف لائے تھے ) اب حضرت عمر فاروقؓ پر یہ الزام تراشی اور بہتان (کہ انہوں نے حضور اکرمؐ کا اسم گرامی نہ لیا اور فقط رشتہ ذکر کیا ) کسی بدعقل کی ذہنی سوچ ہوسکتی ھے ؛ کیونکہ منصب نبوت اور ذات نبوت کی تکریم و تعظیم حضرت عمر فاروق اعظمؓ سے زیادہ کون کرسکتا ھے اسکا اندازہ روافض یا شیعوں کی غلیظ سوچ میں کیسے آسکتا ھے!!! نیز یہ روایت نقل کرکے امام عبد الرزاق صنعانیؒ ( مصنف ابن ابی شیبہ کے مصنِف) نے حضرت عمرؓ کے متعلق خود نازیبا کلمات ادا کیے ہیں یعنی حضرت عمرؓ کو احمق کہا ھے کہ دیکہو! یہ ( عمر ) احمق کس طرح کہہ رہا ھے۔ اسکا جواب امام ذہبی نے لکہا ھے: کہ محترم عبد الرزاق! نازیبا کلمات تو آپ کہہ رھے ہیں کہ حضرت عمر کی شان میں بدتمیزی کر رھے ہیں ـ
💟 *سیر اعلام النبلاء* 💟
قال العقيلي سمعت علي بن عبد الله بن المبارك الصنعاني يقول : كان زيد بن المبارك ، قد لزم عبد الرزاق ، فأكثر عنه ، ثم خرق كتبه ، ولزم محمد بن ثور ، فقيل له في ذلك ، فقال : كنا عند عبد الرزاق ، فحدثنا بحديث معمر ، عن الزهري ، عن مالك بن أوس بن الحدثان . . . الحديث الطويل فلما قرأ قول عمر لعلي والعباس : فجئت أنت تطلب ميراثك من ابن أخيك ، وجاء هذا يطلب ميراث امرأته ، قال عبد الرزاق : انظروا إلى الأنوك ، يقول : تطلب أنت ميراثك من ابن أخيك ، ويطلب هذا ميراث زوجته من أبيها ، لا يقول : رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال زيد بن المبارك : فلم أعد إليه ، ولا أروي عنه .
قلت : هذه عظيمة ، وما فهم قول أمير المؤمنين عمر ، فإنك يا هذا لو سكت ، لكان أولى بك ، فإن عمر إنما كان في مقام تبيين العمومة والبنوة ، وإلا فعمر -رضي الله عنه- أعلم بحق المصطفى وبتوقيره وتعظيمه من كل متحذلق متنطع ، بل الصواب أن نقول عنك : انظروا إلى هذا الأنوك الفاعل -عفا الله عنه- كيف يقول عن عمر هذا ، ولا يقول : قال أمير المؤمنين -الفاروق- ؟ ! وبكل حال فنستغفر الله لنا ولعبد الرزاق ، فإنه مأمون على حديث رسول الله -صلى الله عليه وسلم- صادق.
٭ المصدر: سير أعلام النبلاء
٭ المحدث: الإمام الذهبيؒ
٭ الصفحة: 2266
٭ الرقم: 2980
٭ الطبع: بيت الأفكار الدولية، جدة، السعودية.
🔖 *میزان الاعتدال* 🔖
امام ذھبیؒ نے اس روایت کو( جس میں حضرت عمرؓ کے متعلق امام عبد الرزاقؒ کا کلام ھے ) مرسل کہا ھے اور اس کی صحت سے لاعلمی کا اظہار کیا ھے اور فرمایا : کہ حضرت عمر فاروق اعظمؓ پر بے ادبی کا کوئی بھی الزام نہیں کیونکہ جس مسئلہ میراث کے بارے میں ان کا مذاکرہ چل رہا تہا اس
میں ترکہ کی تقسیم سے متعلق رشتوں کی بات کر رھے تھے: ۩
قلت: في هذه الحكاية إرسال، والله أعلم بصحتها، ولا اعتراض على الفاروق - رضي الله عنه - فيها فإنه تكلم بلسان قسمة التركات.
٭ المصدر: ميزان الاعتدال
٭ المحدث: الإمام الذهبيؒ
٭ المجلد: 2
٭ الصفحة: 611
٭ الرقم: 5044
٭ الطبع: دار المعرفة، بيروت، لبنان.
🔮 *شیعیت سے رجوع* 🔮
امام عبد الرزاقؒ کے متعلق وارد ھے کہ ان میں معمولی سا تشیع تہا یعنی وہ آج کل کے شیعوں و روافض کی طرح نہ تھے ؛ بلکہ شیخینؓ ( حضرت صدیق اکبر و عمر فاروق اعظم ) کی افضلیت کے قائل تھے اور خود ان کے بقول روافض کافر ہیں , نیز ان کے متعلق لکہا گیا ھے: کہ حضرت نے اس معمولی سے تشیع سے بھی رجوع کرلیا تہا۔
◆ *تاريخ ابن عساكر* ◆
كتب إلي أبو نصر عبد الرحيم بن عبد الكريم أنا أبو بكر البيهقي أنا أبو عبد الله الحافظ قال: سمعت أبا العباس قاسم بن القاسم السياري شيخ خراسان في عصره يقول: سمعت أبا مسلم البغدادي يقول: عبيد الله بن موسى من المتروكين تركه أبو عبد الل ه أحمد بن حنبل لتشيعه وقد عوتب أحمد بن حنبل على روايته عن عبد الرزاق فذكر أنه رجع عن ذلك،
كتب إلي أبو طالب عبد القادر بن محمد وحدثنا أبو الحجاج يوسف بن مكي الفقيه عنه أنا أبو إسحاق إبراهيم بن عمر البرمكي نا أحمد بن جعفر القطيعي نا عبد الله بن أحمد بن حنبل قال: سمعت سلمة بن شبيب أبا عبد الرحمن يقول سمعت عبد الرزاق يقول:والله ما انشرح صدري قط أن أفضل عليا على أبي بكر وعمر رحم الله أبا بكر ورحم الله عمر ورحم الله عثمان ورحم الله عليا ومن لم يحبهم فما هو بمؤمن فإن أوثق عملي حبي إياهم رضوان الله عليهم ورحمته أجمعين.
أخبرنا أبو الفرج سعيد بن أبي الرجاء أنا أبو الفتح منصور بن الحسين وأبو طاهر أحمد بن محمود قالا أنا أبو بكر بن المقرئ حدثني محمد بن عبيد الله بن محمد بن الحسن بن أبي عبيد قال سمعت أحمد وعبد الله ابني الشرقي يقولان: سمعنا أبا الأزهر يقول: سمعت عبد الرزاق يقول: أُفَضِّلُ الشيخين بتفضيل عليٍّ إياهما على نفسه، ولو لم يفضلهما لم أفضلهما، كفى بي إزراء أن أحب عليا ثم أخالف قوله،
قال وأنا ابن عدي نا ابن أبي عصمة نا أحمد بن أبي يحيى قال سمعت أبا بكر بن زنجويه يقول سمعت عبد الرزاق يقول: الرافضيُّ كافرٌ.
٭ المصدر: تاريخ مدينة دمشق
٭ المؤلف: الإمام ابن عساكر
٭ المجلد: 36
٭ الصفحة: 189 / 190
٭ الطبع: دار الفكر، بيروت، لبنان.
والله تعالي أعلم
✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صديقي*
6 ستمبر،2021
No comments:
Post a Comment