بتایا جاتا ھے کہ حضرت سعد اسلمی کالے تھے کوئی ان کا نکاح اپنی بیٹی سے نہیں کرتا تہا ؛ لیکن اللہ کے نبی نے ایک صحابی عمرو بن وھب کے گھرانے کی بچی سے کردیا , والد کو پس و پیش ہوا , اہل خانہ سے مشاورتی میٹنگ لی ؛ لیکن ان کی دختر نیک اختر نے نبی پاک کے حکم کی تعمیل میں ان سیاہ رنگ صحابی سے نکاح پر بخوشی رضا ظاہر کی کہ نبی کا فرمان ھے تو بس حرف آخر ھے!!!
اس واقعے کا حوالہ و تحقیق درکار ھے!!
••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*
اس طرح کے دو واقعات ہمیں ملے ہیں :
1
) ایک حضرت سعد اسود سُلمی کا اور
2
) دوسرا حضرت جُلیبیب کا
لیکن حضرت سعد اسود والے واقعہ کی بنسبت حضرت جلیبیب کا واقعہ مستند ھے ؛ البتہ ہم دونوں واقعات کا ذکر کرتے ہیں:
💗 *حضرت سعد اسود* 💗
سعد الأسود السلمي، ثم الذكواني. روى الحسن وقتادة عن أنس قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فسلم عليه، وقال: يا رسول الله، أيمنع سوادي ودمامتي من دخول الجنة؟ قال: " لا، والذي نفسي بيده ما اتقيت ربك، عز وجل، وآمنت بما جاء به رسوله " ، قال: قد شهدت أن لا إله إلا الله وأن محمداً عبده ورسوله، فمالي يا رسول الله؟ قال: " لك ما للقوم، وعليك ما عليهم، وأنت أخوهم " ، فقال: قد خطبت إلى عامة من بحضرتك، ومن ليس عندك، فردني لسوادي ودمامة وجهي، وإني لفي حسب من قومي بني سليم، قال: فاذهب إلى عمر، أو قال: عمرو بن وهب، وكان رجلاً من ثقيف، قريب العهد بالإسلام، وكان فيه صعوبة، فاقرع الباب، وسلم، فإذا دخلت عليهم فقل: زوجني نبي الله فتاتكم، وكان له ابنة عاتق، ولها جمال وعقل، ففعل ما أمره، فلما فتحوا له الباب قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم زوجني فتاتكم، فردوا عليه رداً قبيحاً، وخرج الرجل، وخرجت الجارية من خدرها فقالت: يا عبد الله، ارجع، فإن يكن نبي الله زوجنيك فقد رضيت لنفسي ما رضي الله ورسوله، وقالت الفتاة لأبيها: النجاء النجاء قبل أن يفضحك الوحي، فخرج الشيخ حتى أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: أنت الذي رددت علي رسولي ما رددت، قال: قد فعلت ذاك، وأستغفر الله، وظننا أنه كاذب، وقد زوجناها إياه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اذهب إلى صاحبتك فادخل بها " ، فبينما هو في السوق يشتري لزوجته ما يجهزها به، إذ سمع منادياً ينادي: يا خيل الله اركبي، وبالجنة أبشري، فاشترى سيفاً ورمحاً وفرساً وركب معتجراً بعمامته إلى المهاجرين، فلم يعرفوه، فرآه رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم يعرفه، فقاتل فارساً حتى قام به فرسه، فقاتل راجلاً وحسر ذراعيه، فلما رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم سوادها عرفه، فقال: سعد؟ قال: سعد. فلم يزل يقاتل حتى قالوا صرع سعد. فأتاه رسول الله صلى الله عليه وسلم فوضع رأسه في حجره، وأرسل سلاحه وفرسه إلى زوجته، وقال: " قولوا لهم: قد زوجه الله خيراً من فتاتكم، وهذا ميراثه " .
٭ المصدر: أسد الغابة
٭ المحدث: الإمام ابن الأثير
٭ الصفحة: 457
٭ الرقم: 1966
٭ الطبع: دار ابن حزم، بيروت، لبنان.
🔅 *الإصابة في تمييز الصحابة* 🔅
الإصابة ميں حافظ ابن حجر عسقلاني نے اس واقعه كو جو حضرت سعد أسود كي بابت منقول هے معتبر نهيں مانا هے:
[ سعد الأسود السّلمي]
ثم الذّكواني.
روى ابن عدي، و ابن حبّان، و المخلص في الثاني من فوائده، كلّهم من طريق سويد بن سعيد، عن محمد بن عمر بن صالح، عن قتادة، عن أنس: جاء رجل إلى النّبيّ (صلى اللَّه عليه و سلّم) فقال: يا رسول اللَّه، أ يمنع سوادي و دمامتي من دخول الجنة؟ قال: «لا» ... الحديث.
و فيه: أنه قال: و إني لفي حسب من قومي بني سليم ثم من ذكوان، معروف الآباء، و لكن غلب عليّ سواد أخوالي، و فيه: أنه زوّجه بنت عمر أو عمرو بن وهب الثقفيّ، فذكر قصّة شبيهة بقصة جليبيب، و محمد بن عمر، ذكر الحاكم أنه روى حديثا موضوعا- يعني هذا.
٭ المصدر: الإصابة في تمييز الصحابة
٭ المحدث: الحافظ ابن حجر العسقلاني
٭ المجلد: 3
٭ الصفحة: 74
٭ الرقم: 3225
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
☪️ *الکامل فی الضعفاء*☪️
امام ابن عدی نے " محمد بن عمر بن صالح کلاعی " کے حالات میں یہ واقعہ ذکر کیا ھے اور فرمایا ھے کہ یہ راوی منکر الحدیث ھے , پھر واقعہ کے آخر میں تفصیل سے لکہا ھے کہ یہ واقعہ منکَر الاسناد ھے (ملخصا)
★ مُحَمد بْن عُمَر بْن صالح الكلاعي من أهل حماة قرية من قرى حمص.
منكر الحديث عن ثقات الناس.
حَدَّثَنَا بَهْلُولُ بْنُ إِسْحَاقَ بِهِ بَهْلُولُ الأَنْبَارِيُّ، وَعَبد اللَّهِ بْنُ مُحَمد بْنِ عَبد الْعَزِيزِ، قَالا: حَدَّثَنا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيد، حَدَّثَنا مُحَمد بْن عُمَر بْن صالح الكلاعي فِي قَرْيَةٍ مِنَ الْقُرَى يُقَالُ لَهَا حَمَاةُ فِي نَاحِيَةِ حِمْصَ عَنِ الْحَسَنِ وَقَتَادَةَ، عَن أَنَس قَالَ أَتَى رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ وَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ أَيَمْنَعُ سَوَادِي وَدَمَامَةُ وَجْهِي مِنْ دُخُولِي الْجَنَّةِ؟ .... الخــــ
قَالَ الشَّيْخُ الإمام ابن عدي: وَلِمُحَمَّدِ بْنِ عُمَر الْكَلاعِيِّ هَذَا الْحَدِيثُ الطَّوِيلُ الَّذِي رَوَاهُ عَنْهُ سُوَيْدٌ، وَقَالَ عَنِ الْحَسَنِ وَقَتَادَةَ، عَن أَنَس هُوَ حَدِيثٌ مُنْكَرٌ بِهَذَا الإِسْنَادِ.
وَقَدْ حَدَّثَ المُسَيَّب بْنُ وَاضِحٍ بِحَرْفَيْنِ ، ثلاثة منه مختصرة، فَقَالَ مرة بن الْحَسَنِ، وَابْنِ سِيرِين، عَن أَنَس وَقَالَ مَرَّةً أُخْرَى كَمَا قَالَ سُوَيْدٌ، عَن قَتادَة وَالْحَسَنِ، عَن أَنَس كَمَا ذَكَرْتُهُ، وَمُحمد بْنُ عُمَر لَيْسَ بِذَاكَ الْمَعْرُوفُ،
*إِنَّمَا ذَكَرْتُهُ لِشَرْطِي فِي أَوَّلِ الْكِتَابِ مهما أنكرته من حديث فإني أَذْكُرُهُ فِي كِتَابِي وَأُبَيِّنُ حَالَهُ* وَلَمْ نَجِدْ لِلْمُتَقَدِّمِينَ فِيهِ كَلامًا على أنهم قد تكلموا في مِنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ إلاَّ أَنَّهُمْ لَمْ يَبْلُغْهُمْ حَالَهُ ، لأَنَّ مُحَمد بْنَ عُمَر هَذَا لَيْسَ بِذَاكَ الْمَعْرُوفُ.
٭ المصدر: الكامل في الضعفاء
٭ المحدث: الإمام ابن عدي
٭ الصفحة: 2215
٭ الطبع: دار الفكر، بيروت، لبنان.
___ *حضرت جلیبیب کا واقعہ* ____
مسند احمد میں حضرت جلیبیب کا واقعہ مستند روایت سے موجود ھے:
حَدَّثَنَا عَفّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ کِنَانَۃَ بْنِ نُعَیْمٍ الْعَدَوِیِّ، عَنْ أَبِی بَرْزَۃَ الْأَسْلَمِیِّ، أَنَّ جُلَیْبِیبًا کَانَ امْرَأً یَدْخُلُ عَلَی النِّسَائِ یَمُرُّ بِہِنَّ وَیُلَاعِبُہُنَّ، فَقُلْتُ لِامْرَأَتِی: لَا یَدْخُلَنَّ عَلَیْکُمْ جُلَیْبِیبٌ، فَإِنَّہُ إِنْ دَخَلَ عَلَیْکُمْ لَأَفْعَلَنَّ وَلَأَفْعَلَنَّ، قَالَ: وَکَانَتْ الْأَنْصَارُ إِذَا کَانَ لِأَحَدِہِمْ أَیِّمٌ لَمْ یُزَوِّجْہَا حَتّٰی یَعْلَمَ ہَلْ لِلنَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فِیہَا حَاجَۃٌ أَمْ لَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لِرَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ: ((زَوِّجْنِی ابْنَتَکَ۔)) فَقَالَ: نِعِمَّ وَکَرَامَۃٌ یَا رَسُولَ اللّٰہِ وَنُعْمَ عَیْنِی، فَقَالَ: ((إِنِّی لَسْتُ أُرِیدُہَا لِنَفْسِی۔)) قَالَ: فَلِمَنْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ لِجُلَیْبِیبٍ: قَالَ: فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أُشَاوِرُ أُمَّہَا فَأَتٰی أُمَّہَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَخْطُبُ ابْنَتَکِ، فَقَالَتْ: نِعِمَّ وَنُعْمَۃُ عَیْنِی، فَقَالَ: إِنَّہُ لَیْسَ یَخْطُبُہَا لِنَفْسِہِ إِنَّمَا یَخْطُبُہَا لِجُلَیْبِیبٍ، فَقَالَتْ: أَجُلَیْبِیبٌ ابْنَہْ أَجُلَیْبِیبٌ ابْنَہْ أَجُلَیْبِیبٌ ابْنَہْ لَا لَعَمْرُ اللّٰہِ لَا تُزَوَّجُہُ، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ یَقُومَ لِیَأْتِیَ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لِیُخْبِرَہُ بِمَا قَالَتْ أُمُّہَا، قَالَتْ الْجَارِیَۃُ: مَنْ خَطَبَنِی إِلَیْکُمْ؟ فَأَخْبَرَتْہَا أُمُّہَا، فَقَالَتْ: أَتَرُدُّونَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَمْرَہُ؟ ادْفَعُونِی فَإِنَّہُ لَمْ یُضَیِّعْنِی، فَانْطَلَقَ أَبُوہَا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَأَخْبَرَہُ، قَالَ: شَأْنَکَ بِہَا فَزَوَّجَہَا جُلَیْبِیبًا، قَالَ: فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فِی غَزْوَۃٍ لَہُ، قَالَ: فَلَمَّا أَفَائَ اللّٰہُ عَلَیْہِ، قَالَ لِأَصْحَابِہِ: ((هل تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ؟)) قَالُوْا نَفْقِدُ فُلَانًا وَنَفْقِدُ فُلَانًا، قَالَ: ((انْظُرُوْا ہَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ؟)) قَالُوْا: لَا، قَالَ: ((لٰکِنِّی أَفْقِدُ جُلَیْبِیبًا۔)) قَالَ: ((فَاطْلُبُوْہُ فِی الْقَتْلٰی؟)) قَالَ: فَطَلَبُوہُ فَوَجَدُوہُ إِلٰی جَنْبِ سَبْعَۃٍ قَدْ قَتَلَہُمْ ثُمَّ قَتَلُوہُ، فَقَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ہَا ہُوَ ذَا إِلٰی جَنْبِ سَبْعَۃٍ قَدْ قَتَلَہُمْ ثُمَّ قَتَلُوہُ، فَأَتَاہُ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَامَ عَلَیْہِ، فَقَالَ: ((قَتَلَ سَبْعَۃً وَقَتَلُوہُ، ہٰذَا مِنِّی وَأَنَا مِنْہُ، ہٰذَا مِنِّی وَأَنَا مِنْہُ۔)) مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا ثُمَّ وَضَعَہُ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عَلٰی سَاعِدَیْہِ، وَحُفِرَ لَہُ مَا لَہُ سَرِیرٌ إِلَّا سَاعِدَا رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثُمَّ وَضَعَہُ فِی قَبْرِہِ وَلَمْ یُذْکَرْ أَنَّہُ غَسَّلَہُ، قَالَ ثَابِتٌ: فَمَا کَانَ فِی الْأَنْصَارِ أَیِّمٌ أَنْفَقَ مِنْہَا وَحَدَّثَ إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ ثَابِتًا، قَالَ: ہَلْ تَعْلَمْ مَا دَعَا لَہَا رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: ((اللَّہُمَّ صُبَّ عَلَیْہَا الْخَیْرَ صَبًّا، وَلَا تَجْعَلْ عَیْشَہَا کَدًّا کَدًّا۔)) قَالَ: فَمَا کَانَ فِی الْأَنْصَارِ أَیِّمٌ أَنْفَقَ مِنْہَا، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمٰنِ: مَا حَدَّثَ بِہِ فِی الدُّنْیَا أَحَدٌ إِلَّا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ مَا أَحْسَنَہُ مِنْ حَدِیثٍ.
قال المحقق: إسناده صحيح علي شرط مسلم.
{ ترجمة}
سیدنا ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا جلیبیب رضی اللہ عنہ خوش مزاج قسم کے آدمی تھے، وہ عورتوں کے پاس چلے جاتے اور ان کے پاس سے گزرتے ہوئے کوئی مزاحیہ بات کر جاتے، ان کے اس مزاج کی وجہ سے میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا تھا کہ جلیبیب رضی اللہ عنہ تمہارے پاس نہ آئے، اگر وہ آیا تو تمہاری خیر نہیں۔ انصار کا یہ معمول تھا کہ ان کے ہاں کوئی بن شوہر عورت ہوتی تو وہ اس وقت تک اس کی شادی نہ کرتے جب تک انہیں یہ علم نہ ہو جاتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی حاجت ہے یا نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک انصاری سے فرمایا: تم اپنی بیٹی کا نکاح مجھے دے دو۔ اس نے کہا جی ٹھیک ھے اے اللہ کے رسول! اور یہ بات میرے لیے باعث افتخار و اعتزاز ہوگی اور اس سے مجھے از حدخوشی ہوگی، ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضاحت کر دی کہ میں اسے اپنے لیے طلب نہیں کر رہا۔ اس نے کہا، اللہ کے رسول! پھر کس کے لیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جلیبیب کے لیے۔ یہ سن کر اس نے کہا:اے اللہ کے رسول!میں بچی کی ماں یعنی اپنی بیوی سے مشورہ کر لوں، وہ بچی کی ماں کے پاس گیا اور بتلایا کہ اللہ کے رسول تمہاری بیٹی کا رشتہ طلب کرتے ہیں۔ وہ بولی کہ بالکل ٹھیک ہے اور اس سے ہمیں از حد خوشی ہوگی۔ شوہر نے بتلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے لیے نہیں، بلکہ جلیبیب رضی اللہ عنہ کے لیے رشتہ طلب کرتے ہیں۔ اس نے کہا: کیا جلیبیب کے لیے، نہیں، جلیبیب کو ہم بیٹی نہیں دے سکتے، جلیبیب نہیں۔اللہ کی قسم! ہم جلیبیب رضی اللہ عنہ سے اس کا نکاح نہیں کریں گے، جب وہ مرد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جانے لگا تاکہ اپنی بیوی کے جواب سے آپ کو مطلع کرے تو وہ بچی بول اٹھی کہ آپ لوگوں کے پاس میرے نکاح کا پیغام کس نے بھیجا ہے؟ تو اس کی ماں نے اسے بتلا دیا۔ و ہ لڑکی بولی: کیا تم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کا انکار کر دو گے؟ آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے کر دیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے ضائع نہیں کریں گے، چنانچہ بچی کا باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں گیا اور اس نے ساری بات آپ کے گوش گزارکی اور کہا: اب آپ اس کے متعلق با اختیار ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا نکاح جلیبیب رضی اللہ عنہ کے ساتھ کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک غزوہ میں تشریف لے گئے، جب اللہ نے آپ کو فتح سے ہم کنار کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم کسی آدمی کو غیر موجود پاتے ہو؟ صحابہ نے بتلایا کہ فلاں فلاں آدمی نظر نہیں آرہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پھر دیکھو کون کون نظر نہیں آرہا، صحابہ نے کہا: اور تو کوئی آدمی ایسا نظر نہیں آتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لیکن مجھے جلیبیب دکھائی نہیں دے رہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ اسے مقتولین یعنی شہداء میں جا کر تلاش کرو، صحابہ نے جا کر ان کو تلاش کیا تو انہیں اس حال میں پایا کہ ان کے قریب سات کافر مرے پڑے تھے۔ معلوم ہوتاتھا کہ وہ ان ساتوں کو مارنے کے بعد شہید ہوئے ہیں، صحابہ نے آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتلایا کہ اے اللہ کے رسول! وہ تو سات کافروں کو قتل کرنے کے بعد خود شہید ہوا پڑا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی لاش کے پاس آئے، اس کے قریب کھڑے ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس نے سات آدمیوں کو قتل کیا، اس کے بعد کافروں نے اسے شہید کر ڈالا، یہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں، یہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو تین بار ارشاد فرمائی، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی لاش کو اپنے بازوؤں پر اٹھا لیا ، اس کی قبر تیار کی گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بازواس کے چارپائی بنے ہوئے تھے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے قبر میں اتارا، ان کو غسل دیئے جانے کا ذکر نہیں ہے۔ ثابت کہتے ہیں کہ انصار یوں میں یہ واحد بیوہ تھی، جس سے بہت زیادہ لوگوں نے نکاح کرنے کی رغبت کا اظہار کیا۔اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے ثابت سے کہا: کیا آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے حق میں کیا دعا کی تھی؟ آپ نے یہ دعا کی تھی: یا اللہ! اس پر خیر و برکت کی برکھا برسا دے اور اس کی معیشت تنگ نہ ہو۔ اس دعا کی برکت تھی کہ یہ انصار میں واحد بیوہ تھی کہ جس سے بہت زیادہ لوگوں کو نکاح کرنے کی رغبت تھی۔ ابو عبدالرحمن عبداللہ بن امام احمد کہتے ہیں کہ دنیا میں اس حدیث کو صرف حماد بن سلمہ نے روایت کیا ہے اور یہ کیسی عمدہ حدیث ھے۔
٭ المصدر: المسند لأحمد
٭ المجلد: 33
٭ المحقق: شعيب الأرنؤوط
٭ الصفحة: 29
٭ الرقم: 19784
٭ الطبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.
2️⃣ یہی واقعہ امام احمد نے اپنی مسند میں حدثنا عبد الرزاق، حدثنا معمر، عن ثابت البناني، عن أنس ... اس سند سے ذكر كيا هے، اور اس كے متعلق د/ شعيب الأرنؤوط صاحب لكهتے هيں: إسناده صحيح علي شرط الشيخين.
٭ المصدر: مسند أحمد
٭ المجلد: 19
٭ الصفحة: 385
٭ الرقم: 12393
٭ الطبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.
💠 *صحیح موارد الظمآن* 💠
شیخ البانی نے بھی حضرت جلیبیب کے واقعے کو صحیح لکھا ھے:
• المصدر: صحيح موارد الظمآن
• المحدث: العلامة ألباني
• المجلد: 2
• الصفحة: 388
• الرقم: 1923 / 1924
• الطبع: دار الصميعي، الرياض، السعودية.
والله تعالي أعلم
✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صديقي*
12 مارچ، 2023
No comments:
Post a Comment