Thursday, January 18, 2024

جب ماں کی ممتا جاگ اٹھی

 ▪️ *جب ماں کی ممتا جاگ اٹھی*▪️


 ایک رافضی کا بیان ہے کہ حضرت عمر کو عموما فیصلوں میں حضرت علی کی محتاجگی رہی ھے ورنہ حضرت عمر کے فیصلے قابل اعتراض ہوا کرتے تھے کیونکہ ایک مرتبہ کا واقعہ ھے دو خواتین تھیں ان میں سے ایک کے بیٹے کو بھیڑیا لے گیا دونوں آپس میں جھگڑنے لگیں کہ جو بچہ بھیڑیا لے گیا ھے وہ تیرا ھے 

یہ مقدمہ حضرت عمر فاروق کی عدالت میں گیا تو حضرت عمر نے فیصلہ بڑی خاتون کے حق میں سنادیا کہ بچہ بڑی والی خاتون کا ھے اور بھیڑیا جسکو لے گیا ھے وہ چھوٹی خاتون کا تہا۔

  دونوں جب کمرۂ عدالت سے باہر آئیں تو حضرت علی سے ملاقات ہوئی اور سارا ماجرا کہہ سنایا۔ تب حضرت علی نے اس فیصلے پر اپنی رائے دی کہ فیصلہ اس طرح نہ ہو ؛ بل کہ اس بچے کو آرے سے چیر کر دونوں خواتین میں آدھا آدھا تقسیم کردیا جائے الغرض! آرا لایا گیا تو حقیقت میں یہ بچہ جس عورت کا تھا  اسکی ممتا مچل گئ اور وہ کہنے لگی: یہ بچہ میرا نہیں بس یہ بچہ اس عورت کو دیدو ( اس نے یہ اسلیے کہا تاکہ بچہ اگر اسکو نہ بھی مل سکا تو زندہ تو رہیگا) حضرت علی کی یہ ترکیب کام آگئ اور بچہ اصل ماں کو ہی دیدیا جو آرے سے اسکے کاٹنے پر خوب روئی تھی جبکہ دوسری عورت بچہ کٹوانے پر رضامند تھی۔


اس کی تحقیق درکار ہے!!!


••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق*:


  یہ واقعہ حضرت علی اور حضرت عمر فاروق کا نہیں اور جو ان حضرات کی جانب منسوب کرے وہ جہوٹا ھے یہ واقعہ در حقیقت حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کا ہے جیسا کہ امام بخاری بھی اسکو صحیح بخاری میں لائے ہیں:



🔅 *صحیح البخاری* 🔅


  

حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، قال: حدثنا ابو الزناد، عن عبد الرحمن، عن ابي هريرة رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" كانت امراتان معهما ابناهما جاء الذئب فذهب بابن إحداهما، فقالت لصاحبتها: إنما ذهب بابنك، وقالت الاخرى إنما ذهب بابنك، فتحاكمتا إلى داود عليه السلام، فقضى به للكبرى، فخرجتا على سليمان بن داود عليهما السلام فاخبرتاه، فقال: ائتوني بالسكين اشقه بينهما، فقالت الصغرى: لا تفعل يرحمك الله هو ابنها، فقضى به للصغرى" قال ابو هريرة: والله إن سمعت بالسكين قط إلا يومئذ وما كنا نقول إلا المُِدية.


÷ *ترجمہ* ÷


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”دو عورتیں تھیں اور ان کے ساتھ ان کے دو بچے بھی تھے، پھر بھیڑیا آیا اور ایک بچے کو اٹھا کر لے گیا اس نے اپنی ساتھی عورت سے کہا کہ بھیڑیا تیرے بچے کو لے گیا ہے، دوسری عورت نے کہا کہ وہ تو تیرا بچہ لے گیا ہے۔ وہ دونوں عورتیں اپنا مقدمہ داؤد علیہ السلام کے پاس لائیں تو آپ نے فیصلہ بڑی کے حق میں کر دیا۔ وہ دونوں نکل کر سلیمان بن داؤد علیہما السلام کے پاس گئیں اور انہیں واقعہ کی اطلاع دی۔ سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ چھری لاؤ میں لڑکے کے دو ٹکڑے کر کے دونوں کو ایک ایک دوں گا۔ اس پر چھوٹی عورت بول اٹھی کہ ایسا نہ کیجئے آپ پر اللہ رحم کرے، یہ بڑی ہی کا لڑکا ہے لیکن آپ علیہ السلام نے فیصلہ چھوٹی عورت کے حق میں کیا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ واللہ! میں نے «سكين» چھری کا لفظ سب سے پہلی مرتبہ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی زبان سے) اس دن سنا تھا اور ہم اس کے لیے (اپنے قبیلہ میں) «مدية‏.‏» کا لفظ بولتے تھے۔


• المصدر: صحيح البخاري

• المحدث: الإمام البخاري

• المجلد: 2

• الصفحة: 1886

• الرقم: 6769

• الطبع: الطاف اينڈ سنز، کراچی، پاکستان.


 

💠 *منهاج السنة* 💠


امام ابن تیمیہ قدس سرہ نے منہاج السنہ میں لکھا ھے کہ روافض یہ کہتے ہیں: دو خواتین جن میں سے ایک کا بچہ بھیڑیا اٹھا لے گیا ان میں اختلاف ہوا وہ ایک دوسرے کو کہنے لگیں کہ بھیڑیا تیرے بچے کو لے گیا ھے تو وہ حضرت علی کی خدمت میں آئیں حضرت نے ان کو سمجہایا لیکن وہ نه مانيں،  تب حضرت علی نے آرے سے چیرنے والی ترکیب آزمائی تو حقیقی ماں بلبلا اٹھی تو اصلی ماں کو بچہ حوالے کردیا گیا، یہ سن کر حضرت عمر فاروق بہت خوش ہوئے اور دعا دی.





اسکے متعلق امام ابن تیمیہ کا جواب یہ ھے: ایسا کوئی واقعہ خلافت عمر فاروق میں رونما ہی نہ ہوا ؛ بلکہ یہ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کا ھے:



قال الرافضي: وتنازعت امرأتان في طفل، ولم يعلم الحكم، وفزع فيه إلى أمير المؤمنين علي، فاستدعى أمير المؤمنين المرأتين ووعظهما، فلم ترجعا، فقال ائتوني بمنشار، فقالت المرأتان: ما تصنع به؟ فقال: أقده بينكما نصفين، فتأخذ كل واحدة نصفا، فرضيت واحدة، وقالت الأخرى: اللهَ اللهَ يا أبا الحسن! إن كان ولا بد من ذلك،  فقد سمحتُ لها به،  فقال علي: الله أكبر، هو ابنك، دونها، ولو كان ابنها، لرقتْ عليه، فاعترفت الأخرى أن الحق مع صاحبتها ، ففرح عمر، ودعا لأمير المؤمنين.


والجواب : أن هذه قصة لم يذكر لها  إسنادا، ولا يعرف صحتها، ولا أعلم أحدا من أهل العلم ذكرها، ولو كان لها حقيقة لذكروها، ولا تعرف عن عمر وعلي، ولكن هي معروفة عن سليمان بن داود عليهما السلام،


وقد ثبت ذلك في الصحيحين عن النبي ﷺ: من حديث أبي هريرة: قال: قال رسول الله ﷺ: بينما امرأتان معهما ابناهما جاء الذئب ...الخ.


٭ المصدر: منهاج السنة

٭ المؤلف: الإمام ابن تيمية

٭ المجلد: 6

٭ الصفحة: 91

٭ الطبع: جامعة الإمام محمد، الرياض، السعودية.



والله تعالي اعلم

✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صديقي*

18 جنوري، 2024

No comments:

Post a Comment