▪️ *صحابیؓ کا نماز پڑھ کر سواری کے جانور کو زندہ کروانا* ▪️
ایک واقعہ کی تحقیق درکار ہے کہ ایک شخص یمن سے آرہا تھا راستہ میں اس کا گدھا مرگیا تو اس نے وضو کرکے دو رکعت نماز ادا کی اور یہ دعا مانگی:
’’الٰہی! میں تیری راہ میں جہاد کرنے آیا تھا اور اس سے میرا مقصد آپ کی خوشنودی حاصل کرنا تھا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تو مُردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے اور اہل قبور کو ایک دن زندہ کرکے اٹھائے گا، آج تو مجھے کسی کا احسان مند نہ کرنا، لہٰذا میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ تو میرے گدھے کو زندہ فرما دے۔‘‘
حق تعالیٰ نے اس کی دعا قبول فرمالی اور اس کا گدھا کان ہلاتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*
یہ واقعہ ایک صحابی حضرت نباتہ بن یزیدؓ کا ہے اور مستند ہے ؛ یہ واقعہ متعدد کتب میں مذکور ہے:
🔰 *دلائل النبوة* 🔰
أخبرنا أبو عبد الله الحسين بن عمر بن برهان، وأبو الحسين بن الفضل القطان ، وأبو محمد الشكري، قالوا: أنبأنا إسماعيل بن محمد الصفار ، حدثنا الحسن بن عرفة، حدثنا عبد الله بن إدريس، عن إسماعيل بن أبي خالد ، عن أبي سبرة النخعي، قال: " أقبل رجل من اليمن فلما كان في بعض الطريق نفق حماره، فقام فتوضأ ثم صلى ركعتين، ثم قال: اللهم إني جئت من الدثنية مجاهدا في سبيلك وابتغاء مرضاتك، وأنا أشهد أنك تحيي الموتى، وتبعث من في القبور، لا تجعل لأحد علي اليوم منة، أطلب إليك أن تبعث لي حماري، فقام الحمار ينفض أذنيه ".
*هذا إسناد صحيح*، ومثل هذا يكون كرامة لصاحب الشريعة حيث يكون في أمته مثل هذا كما مضى في الباب قبله، وقد رواه محمد بن يحيى الذهلي وغيره، عن محمد بن عبيد، عن إسماعيل، عن الشعبي، وكأنه سمعه منهما.
٭ المصدر: دلائل النبوة
٭ المحدث: البيهقيؒ
٭ المجلد: 6
٭ الصفحة: 48
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
♦️ *البداية والنهاية* ♦️
تاریخ ابن کثیر میں امام ابو الفداء عماد الدین دمشقیؒ نے بھی تفصیلا یہ واقعہ ذکر کیا ہے اور صاحب واقعہ باکرامت کا اسم گرامی بھی ذکر کیا ہے:
قال الشعبي:
فأنا رأيت الحمار بيع أو يباع في الكناسة - يعني بالكوفة -. قال ابن أبي الدنيا: وأخبرني العباس بن هشام عن أبيه عن جده عن مسلم بن عبد الله بن شريك النخعي، أن صاحب الحمار رجل من النخع، يقال له نباتة بن يزيد، خرج في زمن عمر غازيا، حتى إذا كان يلقى عميرة نفق حماره فذكر القصة، غير أنه قال: فباعه بعد بالكناسة، فقيل له: تبيع حمارك وقد أحياه الله لك؟
قال: فكيف أصنع؟ وقد قال رجل من رهطه ثلاث أبيات فحفظت هذا البيت:
*ومنا الذي أحيا الاله حماره* *وقد مات منه كل عضو ومفصل*،
(ترجمة)
امام شعبیؒ کہتے ہیں: کہ میں نے اس گدھے کو بازار میں بکتے ہوئے دیکھا ہے،لوگوں نے اس کے مالک سے کہا: کہ کیا تو ایسے گدھے کو بیچنے کا ارادہ کر رہا ہے، جس کو رب تعالیٰ نے تیری خاطر زندہ کردیا تھا؟ مالک نے جواب دیا: اگر اس کو فروخت نہ کروں تو کیا کروں؟ اس پر ایک شخص نے تین اشعارکہے، جن میں سے ایک شعر مجھے یاد ہے اور وہ یہ ہے:
*اور ہم میں سے کچھ ایسے بھی (افراد) ہیں کہ خداوند تعالیٰ نے ان کے گدھے میں ایسی جان ڈال دی جیسا کہ ایک نبی کے گدھے میں ڈال دی گئی تھی حالانکہ اس گدھے کے ایک ایک عضو اور جوڑ سے جان نکل گئی تھی۔‘‘*
اس گدھے والے کا نام نباتہ بن یزید النخعی تھا۔
0 المصدر: البداية والنهاية
0 المصنف: ابن كثيرؒ
0 المجلد: 6
0 الصفحة: 153
0 الطبع: مكتبة المعارف، بيروت، لبنان.
🔘 *من عاش بعد الموت* 🔘
امام ابن ابی الدنیا نے بھی مفصلا اس واقعے کو ذکر کیا ہے
عبارت کی طولانی کے پیش نظر ہم فقط حوالہ درج کریں گے:
• المصدر: من عاش بعد الموت
• المحدث: ابن ابي الدنياؒ
• الصفحة: 29
• الرقم: 29
• الطبع: مؤسسة الكتب الثقافية، بيروت، لبنان.
❇️ *الإصابة في تمييز الصحابة* ❇️
حافظ الدنیا امام ابن حجر عسقلانی نے ان صاحب واقعہ جناب حضرت نباتہ بن یزیدؓ کی بابت صحابی ہونے کی تصریح کی ھے اور مذکورہ کرامت کا بھی ذکر فرمایا ہے:
"نباتة بن يزيد النخعي" أدرك النبي صلى الله عليه و سلم، وغزا في خلافة عمر،
ذكر أبو بكر بن دريد في الأخبار المنثورة من طريق ابن الكلبي عن أبيه عن مسلم بن عبد الله بن شريك النخعي وكان قد أدرك معاوية، قال كان فينا رجل يقال له نباتة بن يزيد النخعي، خرج في زمن عمر بن الخطاب غازيا في نفر من الحي حتى إذا كانوا بموضع- ذكره - نفق حماره، فوثب رجل من الحي، يقال له "علاق بن رهيل" - من النخع -فأخذ قلادته، فقالوا له: هل لك أن نحملك معنا؟ قال: لا! اذهبوا ودعوني! فلما أدبروا عنه، قام، فتوضأ ثم ركع ركعتين، ثم قال: اللهم انك تعلم أني أسلمت طائعا وقد خرجت مجاهدا، أريد وجهك فأحي لي حماري! ولا تجعل لأحد عليّ منة! ثم سجد ورفع رأسه، فإذا هو بحماره قائم، فقام فأوكفه، ثم لحق بأصحابه.
« المصدر: الإصابة في تمييز الصحابة
« المحدث: ابن حجر العسقلانيؒ
« المجلد: 6
« الصفحة: 386
« الرقم: 8873
« الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
والله تعالي أعلم
✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*
13 فروري،ء 2024
No comments:
Post a Comment