*`•حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبانے والے واقعہ کی تحقیق•`*
السلام علیکم ورحمتہ اللّٰہ وبرکاتہ! سید الشہداء حضرت حمزہؓ کا سیدہ ہندہؓ نے اسلام لانے سے پہلے کلیجہ چبایا تھا اس کی تخریج درکار ہے ؛بعض محققین فرماتے ہیں کلیجہ چبانا ثابت نہیں ہے!!!
••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:*
جنگ اؔحد کے موقع پر عم النبیؐ حضرت حمزہؓ کی شہادت ہوئی تھی اور آپ کے جسم کا کفار کی جانب سے مُثلہ کیا جانا بھی مشہور اور مستند ہے ؛ لیکن حضرت ہندہؓ کی جانب سے حضرت حمزہؓ کے جگر خوری کے واقعہ کے متعلق ہماری کتب میں دو رائے ہیں:
1️⃣ *پہلی رائے*
حضرت ہندہؓ نے قبل اسلام حضرت حمزہؓ کا جگر چبایا تھا ۔ اور اس رائے کے قائلین بطور دلیل مسند احمد اور سیرت ابن اسحاق کی روایت پیش کرتے ہیں :
💠 *المسند لاحمد* 💠
مسند احمد میں یہ طویل روایت ہے جس میں جگر خوری کا ذکر ہے، اور شؔیخ احمد شاکر، و شیخ شعیب اؔرنؤوط کی اس روایت پر تصحیح اور تحسین بھی ہے جس کی وجہ سے بعض حضرات اس واقعہ کو مستند کہتے ہیں!
حدثنا عفان ، حدثنا حماد ، حدثنا عطاء بن السائب ، عن الشعبي ، عن ابن مسعود ، ان النساء كن يوم احد خلف المسلمين، يجهزن على جرحى المشركين، فلو حلفت يومئذ رجوت ان ابر إنه ليس احد منا يريد الدنيا، حتى انزل الله عز وجل: {منكم من يريد الدنيا ومنكم من يريد الآخرة ثم صرفكم عنهم ليبتليكم } - سورة آل عمران آية 152،" -
فلما خالف اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، وعصوا ما امروا به، افرد رسول الله صلى الله عليه وسلم في تسعة، سبعة من الانصار، ورجلين من قريش، وهو عاشرهم، فلما رهقوه، قال:" رحم الله رجلا، ردهم عنا" قال: فقام رجل من الانصار، فقاتل ساعة حتى قتل، فلما رهقوه ايضا، قال:" يرحم الله رجلا ردهم عنا"، فلم يزل يقول ذا، حتى قتل السبعة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم لصاحبيه:" ما انصفنا اصحابنا"، فجاء ابو سفيان، فقال: اعل هبل. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قولوا: الله اعلى واجل"، فقالوا: الله اعلى واجل، فقال ابو سفيان: لنا عزى، ولا عزى لكم. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قولوا الله مولانا، والكافرون لا مولى لهم"، ثم قال ابو سفيان: يوم بيوم بدر، يوم لنا، ويوم علينا، ويوم نساء، ويوم نسر، حنظلة بحنظلة، وفلان بفلان، وفلان بفلان. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا سواء، اما قتلانا فاحياء يرزقون، وقتلاكم في النار يعذبون". قال ابو سفيان: قد كانت في القوم مثلة، وإن كانت لعن غير ملإ منا، ما امرت ولا نهيت، ولا احببت ولا كرهت، ولا ساءني ولا سرني، قال: *فنظروا، فإذا حمزة قد بقر بطنه، واخذت هند كبده فلاكتها، فلم تستطع ان تاكلها،* فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" أاكلتْ منه شيئا؟" قالوا: لا، قال:" ما كان الله ليدخل شيئا من حمزة النار". فوضع رسول الله صلى الله عليه وسلم حمزة، فصلى عليه، وجيء برجل من الانصار، فوضع إلى جنبه، فصلى عليه، فرفع الانصاري، وترك حمزة، ثم جيء بآخر فوضعه إلى جنب حمزة، فصلى عليه، ثم رفع وترك حمزة، حتى صلى عليه يومئذ سبعين صلاة".
ترجمه:
سیدنا ابن مسعودؓ سے مروی ہے کہ:غزوہ احد کے دن خواتین مسلمانوں کے پیچھے تھیں اور مشرکین کے زخمیوں کی دیکھ بھال کر رہی تھیں، اگر میں قسم کھا کر کہوں تو میری قسم صحیح ہوگی (اور میں اس میں حانث نہیں ہوں گا) کہ اس دن ہم میں سے کوئی شخص دنیا کا خواہش مند نہ تھا، یہاں تک کہ اللہ نے یہ آیت نازل فرمادی: «﴿مِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الْآخِرَةَ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ﴾» [آل عمران: 152] ”تم میں سے بعض لوگ دنیا چاہتے ہیں اور بعض لوگ آخرت، پھر اللہ نے تمہیں ان سے پھیر دیا تاکہ وہ تمہیں آزمائے۔“ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے حکم نبوی کی مخالفت کرتے ہوئے اس کی تعمیل نہ کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف نو افراد کے درمیان تنہا رہ گئے، جن میں سات انصاری اور دو قریشی تھے، دسویں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے، جب مشرکین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہجوم کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اس شخص پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے جو انہیں ہم سے دور کرے“، یہ سن کر ایک انصاری آگے بڑھے، کچھ دیر قتال کیا اور شہید ہوگئے، اسی طرح ایک ایک کرکے ساتوں انصاری صحابہؓ شہید ہوگئے، یہ دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم نے اپنے ساتھیوں سے انصاف نہیں کیا۔“ تھوڑی دیر بعد ابوسفیان آیا (جنہوں نے اس وقت تک اسلام قبول نہیں کیا تھا) اور ہؔبل کی جے کاری کا نعرہ لگانے لگا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اسے جواب دو کہ اللہ ہی بلند و برتر اور بزرگ ہے“، ابوسفیان کہنے لگا کہ ہمارے پاس عُزّٰی ہے، تمہارا کوئی عزی نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے جواب دو کہ اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور کافروں کا کوئی مولیٰ نہیں“، پھر ابوسفیان نے کہا کہ آج کا دن جنگ بدر کا بدلہ ہے، ایک دن ہمارا اور ایک دن ہم پر، ایک دن ہمیں تکلیف ہوئی اور ایک دن ہم خوش ہوئے، حنظلہ حنظلہ کے بدلے، فلاں فلاں کے بدلے، اور فلاں فلاں کے بدلے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں اور ہم میں پھر بھی کوئی برابری نہیں، ہمارے مقتولین زندہ ہیں اور رزق پاتے ہیں جبکہ تمہارے مقتولین جہنم کی آگ میں سزا پاتے ہیں۔“ پھر ابوسفیان نے کہا کہ کچھ لوگوں کی لاشوں کا مثلہ کیا گیا ہے، یہ ہمارے سرداروں کا کام نہیں ہے، میں نے اس کا حکم دیا اور نہ ہی اس سے روکا، میں اسے پسند کرتا ہوں اور نہ ہی ناگواری ظاہر کرتا ہوں، مجھے یہ برا لگا اور نہ ہی خوشی ہوئی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب دیکھا تو سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا پیٹ چاک کر دیا گیا تھا، اور ابوسفیان کی بیوی ہندہ نے ان کا جگر نکال کر اسے چبایا تھا لیکن اسے کھا نہیں سکی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی لاش دیکھ کر پوچھا: ”کیا اس نے اس میں سے کچھ کھایا بھی ہے؟“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے بتایا: نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ حمزہ رضی اللہ عنہ کے جسم کے کسی حصے کو آگ میں داخل نہیں کرنا چاہتا“، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی لاش کو سامنے رکھ کر ان کی نماز جنازہ پڑھائی، پھر ایک انصاری کا جنازہ لایا گیا اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے پہلو میں رکھ دیا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بھی نماز جنازہ پڑھائی، پھر انصاری کا جنازہ اٹھا لیا گیا اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا جنازہ یہیں رہنے دیا گیا، پھر ایک اور جنازہ لا کر سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے پہلو میں رکھا گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بھی نماز جنازہ پڑھائی، پھر اس کا جنازہ اٹھا لیا گیا اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا جنازہ یہیں رہنے دیا گیا، اس طرح اس دن سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ ستر مرتبہ ادا کی گئی ـ
٭ المصدر: مسند احمد حنبل
٭ المحقق: د/ شعيب الأرنؤوط
٭ المجلد: 7
٭ الصفحة: 418
٭ الرقم: 4414
٭ الطبع: دار الرسالة، بيروت،لبنان
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
`تحقيق احمد شاكر`
قال احمد شاكر: إسناده صحيح
٭ المصدر: مسند احمد
٭ المحقق: احمد شاكر
٭ المجلد: 4
٭ الصفحة: 250
٭ الرقم: 4414
٭الطبع: دار الحديث، القاهرة، مصر.
💎 *سيرة ابن إسحاق* 💎
امام ابن اسحاقؒ نے صالح بن کیسان کے حوالے سے یہ روایت ذکر کی ہے، جس میں جگر خوری کا واقعہ ہے:
أخبرنا عبد الله بن الحسن الحراني قال: نا النفيلي قال: نا محمد بن سلمة عن محمد بن اسحق قال: قد وقفت هند بنت عتبة كما حدثني صالح بن كيسان والنسوة الآتون معها يمثلن بالقتلى من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يجدعن الآذان والآناف حتى اتخذت هند من آذان الرجال وأنافهم خذماً وقلائداً، وأعطت خذمها وقلائدها وقرطيها وحشياً غلام جبير بن مطعم، `وبقرت عن كبد حمزة فلاكتها فلم تستطيع أن تسيغها`، ...
٭ المصدر: كتاب السير والمغازي
٭ المصنف: إبن اسحاق
٭ الصفحة: 332
٭ الطبع: دار الفكر، بيروت، لبنان.
🔖 *دوسری رائے* 🔖
دوسری رائے یہ ہے کہ جنگ احد میں حضرت سیدنا حمزہ کا مثلہ ( نعش کو چاک کرنا / بے حرمتی کرنا ) ہوا تہا ؛ لیکن ہندہ نے آپ کا جگر نکال کر اس کو نگلنا چاہا تہا اور نگل نہ سکی تو چبانے پر اکتفاء کیا یہ جزئیہ مستند نہیں ہے ؛ اس پر یہ حضرات دلیل دیتے ہیں کہ مسند احمد کی روایت جو حضرت شعبی ( عامر بن شراحیل ) نے ابن مسعود سے روایت کی ہے یہ روایت منقطع ہے یعنی شعبی اور ابن مسعود کے درمیان راوی محذوف ہے ؛ شعبی کا حضرت ابن مسعود سے سماع ثابت نہیں ہے:
قال أبو حاتم: لم يسمع الشعبي من عبد اللّٰه بن مسعود، ...
وقال العلائي: وأرسل عن عمر، و طلحة بن عبيد الله، وابن مسعود، وعائشة، وعبادة بن الصامت.
٭ المصدر: تحفة التحصيل في ذكر رواة المراسيل
٭ المصنف: الحافظ ولي الدين أبوزرعة العراقي
٭ الصفحة:164
٭ الطبع: مكتبة الرشد، الرياض.
🔅 *البدایہ والنہایہ* 🔅
امام ابن کثیر عماد الدین دمشقی نے اپنی تاریخ میں یہ روایت اسی سند سے ذکر کی ہے جو سند مسند احمد میں مذکور ہے اور روایت ذکر فرماکر اس کے متعلق کلام کیا ہے کہ یہ سند ضعیف ہے:
تفرد به أحمد، وهذا إسناد فيه ضعف أيضا من جهة عطاء بن السائب.
• المصدر: البداية والنهاية
• المؤرخ: الإمام ابن كثير
• المجلد: 5
• الصفحة: 428
• الطبع: مركز البحوث والدراسات العربية والإسلامية، دار هجر.
♻️ *تفسير ابن كثير* ♻️
تفسير ابن كثير ميں بهي اسي سند سے يه واقعه نقل كيا گيا ہے:
° المصدر: تفسير ابن كثير
° المجلد: 2
° الصفحة: 134
° الآية: 149 / 153 آل عمران
° الطبع: دار طيبة، الرياض.
🧷 *دلائل النبوة* 🧷
امام بیہقی بھی یہ واقعہ بواسطہ ” ابن لہیعہ“ نقل فرماتے ہیں:
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، قال: أخبرنا أبو جعفر البغدادي، قال: حدثنا محمد بن عمرو بن خالد، قال: حدثنا أبي، قال حدثنا ابن لهيعة، عن أبي الأسود، عن عروة بن الزبير ...
÷ المصدر: دلائل النبوة
÷ المجلد: 3
÷ الصفحة: 282
÷ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
`روایت کا حکم:`
اس روایت میں ” ابن لہیعہ “ ہیں جن پر کافی کلام وارد ہے:
وذكر عند يحيي احتراق كتب ابن لهيعة، فقال: هو ضعيف قبل ان تحترق وبعد ما احترقت.
٭ المصدر: الكامل في الضعفاء
٭ المحدث: ابن عدي الجرجاني
٭ الجزء: 5
٭ الصفحة: 1463
٭ الطبع: دار الفكر، بيروت، لبنان.
💎 *ماشاع في السيرة ولم يثبت* 💎
محمد بن عبد ﷲ عؔوشن نے یہ روایت نقل کرکے اس کے متعلق شیخ البانیخ کا کلام ذکر کیا ہے کہ مسند احمد کی روایت کے متعلق شیخ احمد شاکر کی تصحیح محل نظر ہے :
قال الشيخ الالباني: وهذا هو الصواب، خلافا لقول الشيخ احمد محمد شاكـر : إنه صحيح؛ فإنه ذُهل عما ذُكر من سماعه منه في الاختلاط.
× المصدر: ماشاع في السيرة ولم يثبت
× المصنف: محمد بن عبد الله عوشن
× الصفحة: 150
× الطبع: دار طيبة، الرياض.
📌 *محققین کی تصحیح کا مطلب* 📌
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ محقق کی نظر میں ایک طویل روایات کے اکثر مندرجات دیگر سندوں سے صحیح ہوتے ہیں لیکن اس طویل روایت میں کوئی جزء گو کہ صحیح یا مستند نہیں ہوتا لیکن محقق اکثر کی جانب نظر کرتے ہوئے روایت کو صحیح لکھ دیتا ہے اس سے روایت کے مکمل متن کی تصحیح مقصود نہیں ہوتی، ہوسکتا ہے شیخ احمد شاکر وغیرہ کی تصحیح کا یہ مقصد ہو کہ جنگ احد میں دیگر واقعات تو مثلا مثلہ کیا جانا وغیرہ تو ثابت ہیں اور ان کا ثبوت مستند اسناد سے دیگر مقامات پر ہے اور شعبي كي مرسل بهي كسي درجه ميں مقبول ہے؛ اسلیے روایت کی تصحیح کی گئ ہو( البتہ حضرت حمزہ کے جگر چبانے کی بات مستند نہیں) :
وَقد علم أَن صِحَة الْإِسْنَاد شَرط من شُرُوط صِحَة الحَدِيث وَلَيْسَت مُوجبَة لصِحَّته فَإِن الحَدِيث إِنَّمَا يَصح بِمَجْمُوع أُمُور مِنْهَا: صِحَة سَنَده وَانْتِفَاء علته وَعدم شذوذه ونكارته وَأَن لَا يكون روايه قد خَالف الثِّقَات أَو شَذَّ عَنْهم.
٭ المصدر: الفروسية
٭ المحدث: ابن القيم
٭ الصفحة: 186
٭ الطبع: دار عالم الفوائد، مكة المكرمة.
جن حضرات کی رائے میں جگر چبانے والی روایت درست ہے انہوں نے مغازی ابن اسحاق کی روایت صالح بن کیسان کے حوالے سے بھی پیش کی ہے اس روایت کی بابت ہم آئندہ کی سطور میں تاریخ امت مسلمہ کے مصنف مولانا محمد اسماعیل ریحان صاحب کا کلام ذکر کریں گے :
💡 *تاریخ امت مسلمہ* 💡
حضرت حمزہ کی لاش کی بے حرمتی ضرور ہوئی ؛مگر کسی صحیح روایت میں منقول نہیں کہ کلیجہ ہندہ نے نکالا اور چبایا ہو۔ اگر چہ اس روایت کو ماننے میں کوئی شرعی رکاوٹ حائل نہیں؛ کیونکہ یہاں حالت کفر کا واقعہ بیان کیا جارہا ہے جس میں شدید دشمنی کے باعث ایسا قبیح فعل صادر ہونا غیر ممکن نہیں۔
تاہم یہ پہلو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ یہ روایت صرف ابن اسحاق کی ہے جو صالح بن کیسان سے منقول ہے ۔ صالح ثقہ تھے مگر ان کی ولادت ۷۰ہجری کی ہے، ظاہر ہے وہ واقعے کے چشم دید گواہ نہ تھے اس لیے روایت میں یقینا انقطاع ہے۔
اس عقلی پہلو پر بھی غور کریں کہ صحیح روایت کے مطابق حضور ﷺ کو اپنے چچا کے قاتل وحشی کے قبول اسلام کے باوجود ان سے ایسا طبعی ملال رہا کہ عمر بھر رو برو دیکھنا گوارا نہ کیا (صحیح ابن حبان ، ح: ۷۰۱۷)
اگر ہندہ نے لاش کی بے حرمتی کی ہوتی (جو کہیں زیادہ انسانیت سوز فعل ہے) تو ان کا بارگاہ رسالت میں ایسا اعزاز و اکرام نہ ہوتا؛ مگر حضور نے فتح مکہ کے دن ان کے گھر کو جائے امن قرار دیا۔ جب انہوں نے اسلام لانے کے بعد عرض کیا کہ پہلے آپ کی جماعت سے پڑھ کر کس کی اہانت پسند نہ تھی مگر اب آپ کی جماعت سے زیادہ کسی کی عزت عزیز نہیں تو حضور نے جواب میں فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے میری کیفیت بھی یہی ہے۔ (صحیح البخاری، ح۳۸۲۵، کتاب المناقب ذكر هند)
ان سے دل لگی کی باتیں بھی کیں اور اجازت دی کہ شوہرکی رکھوائی ہوئی رقم گھر کے ضروری خرچے میں بغیر پوچھے استعمال کرسکتی ہیں۔ (صحیح البخاري، ج : ٢٣٦٠ ، كتاب المظالم باب قصاص المظلوم )
اسلام لانے کے بعد ان کے شوہر حضرت ابوسفیان اور بیٹے حضرت معاویہ کو حضور کا اعتماد حاصل رہا۔
`بس کیا بعید ہے کہ یہ روایت خانوادہ سفیانی کی کردار کشی کے لیے مشہور کی گئی ہو`۔
واللہ اعلم بالصواب۔
( تاریخ امت مسلمہ،جلد:1، صفحہ: 272،طبع:مناہل پبلشر، کراچی)
وﷲ تعالی اعلم
✍🏻... کتبہ : *محمد عدنان وقار صدیقی*
27 جولائی، 2025