؎ *پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تہا*
ایک بات بہت مشہور ہے کہ ہر انسان کے خمیر میں نطفے کے ساتھ اس جگہ کی مٹی بھی شامل ہوتی ہے جہاں وہ دفن ہوگا مثلا: جب کوئی انسان وفات پاتا ھے اور جہاں اسکی تدفین ہوتی ہے تو لوگ اسکے متعلق کہتے ہیں :
؏ *پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تہا*
اس بات میں کتنی صداقت ہے اور اگر صداقت ہے تو اسکا مطلب و مفہوم کیا ہے؟
از راہ کرم روشنی ڈالیں!!
•••• *باسمہ تعالی*••••
*الجواب وبہ التوفیق:*
جی یہ بات حدیث سے ثابت شدہ ھے : کہ ہر انسان کے خمیر میں نطفہ کے ساتھ ساتھ اس جگہ کی مٹی بہی شامل ہوتی ھے جہاں اسکو دفن کیا جایئگا یعنی اگر کسی کی ولادت "ہندوستان"میں ہوئی اور بقضائے ایزدی اسکی وفات ”مکہ مکرمہ“ میں ہوگئ اور وہیں اسکو دفنادیا گیا تو گو کہ اسکی ولادت ہندوستانی تہی لیکن اسکا خمیر مکہ مکرمہ کی سرزمیں سے گوندھا گیا تہا اور یہ بات اسکی تدفین سے ثابت ہوگئ ۔ اسکے متعلق تفصیل سے حضرت اقدس *مفتی محمد شفیع عؔثمانیؒ* اپنی مایہ ناز شہرہ آفاق تفسیر -{معارف القرآن}- میں بحوالہ تفسیر ”قرطبی“ لکہتے ہیں : کہ حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ھے کہ ہر پیدا ہونیوالے انسان پر رحم مادر میں اس جگہ کی مٹی کا کچھ جزء ڈالا جاتا ھے جس جگہ اسکا دفن ہونا ﷲ کے علم میں مقدر ہے۔
★ نام کتاب: معارف القرآن
★مفسر: شفیع عؔثمانیؒ
★جلد:6
★صفحہ:117-118
★طبع: مکتبہ معارف القرآن کراچی
🔅 معارف القرآن میں ذکر کردہ حضرت ایوہریرہؓ کی روایت ،ؔحافظ ابونعیمؒ نے 《حلیۃ الاولیاء》 میں ذکر کی ھے :
حدثنا القاضي محمد بن إسحاق بن إبراهيم الأهوازي قال: ثنا محمد بن نعيم، قال: ثنا أبو عاصم، قال: ثنا ابن عون، عن محمد بن سيرين، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما من مولود إلا وقد ذر عليه من تراب حفرته»
قال أبو عاصم: ما تجد لأبي بكر، وعمر رضي الله تعالى عنهما فضيلة مثل هذه لأن طينتهما من طينة رسول الله صلى الله عليه وسلم هذا حديث غريب من حديث ابن عون عن محمد، لم نكتبه إلا من حديث أبي عاصم النبيل عنه، وهو أحد الثقات الأعلام من أهل البصرة.
+نام کتاب: حلیة الاولیاء
+مؤلف: ابو نعیمؒ
+مجلد:2
+صفحۃ: 280
+طبع:دار الفکر، بیروت، لبنان
🔰 *روایت کا درجہ*
یہ روایت بلحاظ سند اس قابل نہیں کہ اسکو بیان کیا جائے؛ کیونکہ اسکی سند میں ایک راوی −«محمد بن اسحاق بن ابراہیم اھوازی»− ہیں جن پر وضع حدیث کا الزام ہے
⚡محمد بن اسحق بن ابراهيم الاهوازي ولقبه ” سركره“ عن موسي بن اسحاق بن موسي الخطمي.
قال ابوبكر بن عبدان الشيرازي: أقر بالوضع،
۰المصدر: لسان الميزان
۰المؤلف: ابن حجر العسقلانيؒ
۰المجلد: 6
۰الصفحة: 553-554
۰الطبع:دار البشائر الاسلامية، بيروت لبنان.
🔘 لیکن ذخیرۂ احادیث میں فقط یہی ایک روایت نہیں ھے ؛بلکہ صحیح سند سے اسی مفہوم و معنی کے ثبوت کے لیے دوسری روایت بھی موجود ہے:
~~*روایت کے الفاظ*~~
عن أبي سعيد الخدريؓ قال: مر النبي صلى الله عليه وسلم بجنازة عند قبر فقال: " قبر من هذا؟ " فقالوا: قبر فلان الحبشي يا رسول الله. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا إله إلا الله , سيق من أرضه , وسمائه إلى تربته التي خلق منها ".
۰۰۰۰ (ترجمہ)۰۰۰۰
سیدنا ابو سعید الخدریؓ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان میں ایک جنازے پر ایک قبر کے پاس سے گزرے ، آپ ﷺ نے پوچھا یہ کس کی قبر ہے ؟ وہاں موجود لوگوں نے بتایا کہ فلاں حبشی کی ہے (جو ہمارے شہر مدینہ میں فوت ہوگیا ہے ) آپ نے " لا إله إلا الله " پڑھا اور فرمایا : یہ آدمی اپنی زمین و آسمان یعنی اپنے علاقے سے(اللہ کے حکم سے ) یہاں اس مٹی میں لایا گیا جس مٹی سے اسے پیدا کیا گیا تھا ۔
اس روایت کو ؔامام حاکمؒ نے روایت کیا ھے اور روایت فرمانے کے بعد اسکے متعلق لکہا: کہ یہ روایت سند کے اعتبار سے صحیح ہے گو امام بخاریؒ و مسلمؒ نے اسکو اپنی صحیحین میں ذکر نہ بہی کیا ہو تب بہی کوئی مسئلہ نہیں نیز اس روایت کے متعدد شواہد ہیں اور سب کے سب صحیح ہیں۔
。نام کتاب: مستدرک حاکم
。مؤلف: ابو عبدﷲ حاکم نیشاپوریؒ
。جلد:1
。صفحۃ: 515
。طبع:دار الحرمین , مصر
♦ نیز مفتی محمد شفیع عثمانیؒ صاحب نے مذکورہ مقام پر «―تفسیر مؔظہری―» کے حوالے سے مزید کہا : کہ حضرت عبد ﷲ بن مسعودؓ نبی کریمؐ سے روایت کرتے ھیں کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ہر پیدا ہونیوالے بچے کے ناف میں ایک جزء مٹی کا ڈالا جاتا ھے اور جب مرتا ہے تو اسی زمین میں دفن ہوتا ہے جہاں کی مٹی اسکے خمیر میں شامل کی گئ تہی, اور فرمایا: کہ میںؐ اور ابوبکرؓ ایک ہی مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں اور اسی میں دفن ہونگے ۔
یہ روایت خطیبؒ نے نقل کرکے فرمایا: کہ یہ روایت غریب ہے اور ابن جوزیؒ نے اسکو موضوعات میں شمار کیا ھے ؛ لیکن ؞؞؞شیخ محدث مؔیرزا محمد حارثی بدخشیؒ ؞؞؞ نے فرمایا: اسکے بہت سے شواہد حضرت ابن عمرؓ, ابوہریرہؓ, ابو سعیدؓ اور ابن عباسؓ سے منقول ہیں, جس سے اس روایت کو قوت پہونچتی ہیں؛ اس لیے یہ روایت حسن لغیرہ سے کم درجہ کی نہیں۔ ( مظہری)
نام کتاب: مؔعارف القرآن
مفسر: شفیع عثمانیؒ
مجلد: 6
صفحہ:118
طبع: مکتبہ معارف القرآن کراچی
••• *خلاصۂ کلام* •••
یہ بات کہنا کہ ہر انسان کی تدفین اسی جگہ ہوا کرتی ھے جس زمین کی مٹی سے اسکا خمیر گوندھا ہوتا ہے درست اور صحیح ہے ؛ نیز مذکورہ _ؔمرزا جہاں بخت جہاںدار_ کا شعر جو عوام کی زباں زد ہے یہ بہی اسی حدیث کا مفہوم ہے۔
شعر کی دوسری سطر ضرب المثل اور کہاوت بن گئ ھے مکمل شعر اس طرح ہے:
؎ *آخر گل اپنی صرف در مے کدہ ہوئی*
*پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا*
وﷲ تعالی اعلم
کتبہ: *محمد عدنان وقار ؔصدیقی*
۹ذی الحجۃ، '۱۴۴۰ھ' مطابق ۱۱ اگست ۲۰۱۹ء
ایک بات بہت مشہور ہے کہ ہر انسان کے خمیر میں نطفے کے ساتھ اس جگہ کی مٹی بھی شامل ہوتی ہے جہاں وہ دفن ہوگا مثلا: جب کوئی انسان وفات پاتا ھے اور جہاں اسکی تدفین ہوتی ہے تو لوگ اسکے متعلق کہتے ہیں :
؏ *پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تہا*
اس بات میں کتنی صداقت ہے اور اگر صداقت ہے تو اسکا مطلب و مفہوم کیا ہے؟
از راہ کرم روشنی ڈالیں!!
•••• *باسمہ تعالی*••••
*الجواب وبہ التوفیق:*
جی یہ بات حدیث سے ثابت شدہ ھے : کہ ہر انسان کے خمیر میں نطفہ کے ساتھ ساتھ اس جگہ کی مٹی بہی شامل ہوتی ھے جہاں اسکو دفن کیا جایئگا یعنی اگر کسی کی ولادت "ہندوستان"میں ہوئی اور بقضائے ایزدی اسکی وفات ”مکہ مکرمہ“ میں ہوگئ اور وہیں اسکو دفنادیا گیا تو گو کہ اسکی ولادت ہندوستانی تہی لیکن اسکا خمیر مکہ مکرمہ کی سرزمیں سے گوندھا گیا تہا اور یہ بات اسکی تدفین سے ثابت ہوگئ ۔ اسکے متعلق تفصیل سے حضرت اقدس *مفتی محمد شفیع عؔثمانیؒ* اپنی مایہ ناز شہرہ آفاق تفسیر -{معارف القرآن}- میں بحوالہ تفسیر ”قرطبی“ لکہتے ہیں : کہ حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ھے کہ ہر پیدا ہونیوالے انسان پر رحم مادر میں اس جگہ کی مٹی کا کچھ جزء ڈالا جاتا ھے جس جگہ اسکا دفن ہونا ﷲ کے علم میں مقدر ہے۔
★ نام کتاب: معارف القرآن
★مفسر: شفیع عؔثمانیؒ
★جلد:6
★صفحہ:117-118
★طبع: مکتبہ معارف القرآن کراچی
🔅 معارف القرآن میں ذکر کردہ حضرت ایوہریرہؓ کی روایت ،ؔحافظ ابونعیمؒ نے 《حلیۃ الاولیاء》 میں ذکر کی ھے :
حدثنا القاضي محمد بن إسحاق بن إبراهيم الأهوازي قال: ثنا محمد بن نعيم، قال: ثنا أبو عاصم، قال: ثنا ابن عون، عن محمد بن سيرين، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما من مولود إلا وقد ذر عليه من تراب حفرته»
قال أبو عاصم: ما تجد لأبي بكر، وعمر رضي الله تعالى عنهما فضيلة مثل هذه لأن طينتهما من طينة رسول الله صلى الله عليه وسلم هذا حديث غريب من حديث ابن عون عن محمد، لم نكتبه إلا من حديث أبي عاصم النبيل عنه، وهو أحد الثقات الأعلام من أهل البصرة.
+نام کتاب: حلیة الاولیاء
+مؤلف: ابو نعیمؒ
+مجلد:2
+صفحۃ: 280
+طبع:دار الفکر، بیروت، لبنان
🔰 *روایت کا درجہ*
یہ روایت بلحاظ سند اس قابل نہیں کہ اسکو بیان کیا جائے؛ کیونکہ اسکی سند میں ایک راوی −«محمد بن اسحاق بن ابراہیم اھوازی»− ہیں جن پر وضع حدیث کا الزام ہے
⚡محمد بن اسحق بن ابراهيم الاهوازي ولقبه ” سركره“ عن موسي بن اسحاق بن موسي الخطمي.
قال ابوبكر بن عبدان الشيرازي: أقر بالوضع،
۰المصدر: لسان الميزان
۰المؤلف: ابن حجر العسقلانيؒ
۰المجلد: 6
۰الصفحة: 553-554
۰الطبع:دار البشائر الاسلامية، بيروت لبنان.
🔘 لیکن ذخیرۂ احادیث میں فقط یہی ایک روایت نہیں ھے ؛بلکہ صحیح سند سے اسی مفہوم و معنی کے ثبوت کے لیے دوسری روایت بھی موجود ہے:
~~*روایت کے الفاظ*~~
عن أبي سعيد الخدريؓ قال: مر النبي صلى الله عليه وسلم بجنازة عند قبر فقال: " قبر من هذا؟ " فقالوا: قبر فلان الحبشي يا رسول الله. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا إله إلا الله , سيق من أرضه , وسمائه إلى تربته التي خلق منها ".
۰۰۰۰ (ترجمہ)۰۰۰۰
سیدنا ابو سعید الخدریؓ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان میں ایک جنازے پر ایک قبر کے پاس سے گزرے ، آپ ﷺ نے پوچھا یہ کس کی قبر ہے ؟ وہاں موجود لوگوں نے بتایا کہ فلاں حبشی کی ہے (جو ہمارے شہر مدینہ میں فوت ہوگیا ہے ) آپ نے " لا إله إلا الله " پڑھا اور فرمایا : یہ آدمی اپنی زمین و آسمان یعنی اپنے علاقے سے(اللہ کے حکم سے ) یہاں اس مٹی میں لایا گیا جس مٹی سے اسے پیدا کیا گیا تھا ۔
اس روایت کو ؔامام حاکمؒ نے روایت کیا ھے اور روایت فرمانے کے بعد اسکے متعلق لکہا: کہ یہ روایت سند کے اعتبار سے صحیح ہے گو امام بخاریؒ و مسلمؒ نے اسکو اپنی صحیحین میں ذکر نہ بہی کیا ہو تب بہی کوئی مسئلہ نہیں نیز اس روایت کے متعدد شواہد ہیں اور سب کے سب صحیح ہیں۔
。نام کتاب: مستدرک حاکم
。مؤلف: ابو عبدﷲ حاکم نیشاپوریؒ
。جلد:1
。صفحۃ: 515
。طبع:دار الحرمین , مصر
♦ نیز مفتی محمد شفیع عثمانیؒ صاحب نے مذکورہ مقام پر «―تفسیر مؔظہری―» کے حوالے سے مزید کہا : کہ حضرت عبد ﷲ بن مسعودؓ نبی کریمؐ سے روایت کرتے ھیں کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ہر پیدا ہونیوالے بچے کے ناف میں ایک جزء مٹی کا ڈالا جاتا ھے اور جب مرتا ہے تو اسی زمین میں دفن ہوتا ہے جہاں کی مٹی اسکے خمیر میں شامل کی گئ تہی, اور فرمایا: کہ میںؐ اور ابوبکرؓ ایک ہی مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں اور اسی میں دفن ہونگے ۔
یہ روایت خطیبؒ نے نقل کرکے فرمایا: کہ یہ روایت غریب ہے اور ابن جوزیؒ نے اسکو موضوعات میں شمار کیا ھے ؛ لیکن ؞؞؞شیخ محدث مؔیرزا محمد حارثی بدخشیؒ ؞؞؞ نے فرمایا: اسکے بہت سے شواہد حضرت ابن عمرؓ, ابوہریرہؓ, ابو سعیدؓ اور ابن عباسؓ سے منقول ہیں, جس سے اس روایت کو قوت پہونچتی ہیں؛ اس لیے یہ روایت حسن لغیرہ سے کم درجہ کی نہیں۔ ( مظہری)
نام کتاب: مؔعارف القرآن
مفسر: شفیع عثمانیؒ
مجلد: 6
صفحہ:118
طبع: مکتبہ معارف القرآن کراچی
••• *خلاصۂ کلام* •••
یہ بات کہنا کہ ہر انسان کی تدفین اسی جگہ ہوا کرتی ھے جس زمین کی مٹی سے اسکا خمیر گوندھا ہوتا ہے درست اور صحیح ہے ؛ نیز مذکورہ _ؔمرزا جہاں بخت جہاںدار_ کا شعر جو عوام کی زباں زد ہے یہ بہی اسی حدیث کا مفہوم ہے۔
شعر کی دوسری سطر ضرب المثل اور کہاوت بن گئ ھے مکمل شعر اس طرح ہے:
؎ *آخر گل اپنی صرف در مے کدہ ہوئی*
*پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا*
وﷲ تعالی اعلم
کتبہ: *محمد عدنان وقار ؔصدیقی*
۹ذی الحجۃ، '۱۴۴۰ھ' مطابق ۱۱ اگست ۲۰۱۹ء
No comments:
Post a Comment