Friday, October 25, 2019

قبر میں عمر کا نکیرین سے سوال

▪ *قبر ميں عمر فؔاروقؓ کا نکیرین سے سوال  *▪

ایک بات کی بابت استفسار مقصود ہے: کہ حضور علیہ السلام ایک بار حضرت عمر فاروق سے قبر کے سوال و جواب اور نکیرین کے متعلق گفتگو فرمارہے تھے تو حضرت عمرؓ نے دریافت کیا: کہ اس وقت میری(ایمانی) کیفیت ایسی ہی ہوگی جیسی کہ آج ھے ؟ حضورؑ نے فرمایا: کہ ہاں! تب حضرت عمر نے کہا: پھر تو فکر کی ضرورت نہیں میں نکیرین کے سوالوں کو کافی ہوجاؤںگا۔(یعنی ان کے سوالوں کے جوابات دیدونگا)
 تو حضور نے عرض فرمایا: قسم اس ذات کی: جس نے مجہے نبی بنایا ھے اے! مجہے جبرئیلؑ نے( تمہارے متعلق) خبر دی کہ جب نکیرین سے تمہارا قبر میں سامنا ہوگا تو تم خود الٹا نکیرین سے سوال کروگے: اور یہ کہوگے کہ میرا رب تو اللہ ھے تمہارا رب کون ھے؟
میرے نبی تو محمد ہیں تمہارے نبی کون ھیں؟ اور میرا دین تو اسلام ھے تم بتاؤ تمہارا دین کیا ھے؟
 تب نکیرین تعجب کرینگے اور حیرت سے کہینگے: ہم تمہارے پاس سوال کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں یا تم ہماری طرف !!!

__*باسمہ تعالی*__
*الجواب وبہ التوفیق:*

 یہ روایت ؔطبری نے "الریاض النضرة" میں ذکر کی ھے جسکی عبارت یہ ھے:

💠 *_الریاض النضرة_*

وعن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "إذا وضع الرجل في قبره أتاه منكر ونكير، وهما ملكان فظان غليظان أسودان أزرقان, ألوانهما كالليل الدامس, أصواتهما كالرعد القاصف, عيونهما كالشهب الثواقب, أسنانهما كالرماح، يسحبان بشعورهما على الأرض, بيد كل واحد منهما مطرقة، لو اجتمع الثقلان الجن والإنس لم يقدروا على حملها, يسألان الرجل عن ربه، وعن نبيه، وعن دينه"، فقال عمر بن الخطاب: أيأتيانني وأنا ثابت كما أنا? قال: "نعم" قال: فسأكفيكهما -يا رسول الله-، فقال صلى الله عليه وسلم: "والذي بعثني بالحق نبيًّا, لقد أخبرني جبريل أنهما يأتيانك، فتقول أنت: الله ربي، فمن ربكما? ومحمد نبيي، فمن نبيكما? والإسلام ديني، فما دينكما? فيقولان: وا عجباه!! ما ندري نحن أرسلنا إليك, أم أنت أرسلت إلينا?

💡 *_ترجمہ_*

 نبی کریمؑ سے مروی ھے : جب آدمی اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا ھے تو اسکے پاس "منکر نکیر" آتے ہیں , وہ دو فرشتے ہیں جو مزاج میں بہت سخت اور ترش  ہیں , ان کی سیاہ اور نیلے ہیں , ان کی رنگت سخت تاریک رات کی مانند ہے , ان کی آواز کڑکتی بجلی کی طرح ہے, ان کی آنکہیں دہکتے شعلے جیسی ہیں, ان کے دانت نیزوں جیسے ہیں, بال ان کے ( طوالت کی وجہ سے) زمین پر گھسٹتے ہونگے, دونوں کے ہاتھ میں وزنی ایسا ہتہوڑا ہوگا کہ اگر انسان و جنات سارے مل کر اسکواٹھانا چاہیں تو اٹھا نہ سکیں, وہ صاحب قبر سے اس کے رب , نبی, اور دین کے متعلق سوال کرینگے, تو حضرت عمر نے کہا: کیا وہ میرے پاس بہی آینگے اور میں ایسا ہی رہونگا جیسے اب ہوں؟ حضور نے جواب دیا: جی ہاں! تو عمر فاروق نے کہا: تب تو میں ان کو کافی ہوں, حضور نے کہا: قسم مجہکو نبی بنانے والی کی: مجہے جبریل نے بتایا ھے کہ وہ تمہارے پاس بہی آئنگے عمر! پھر تم ان سے پوچھوگے : میرا رب تو ﷲ ہے تمہارا رب کون  ھے؟ محمد میرے نبی ہیں تمہارے نبی کون ہیں؟ اور اسلام تو میرا مذہب ہے تمہارا مذہب کیا ہے, وہ دونوں کہیں گے : تعجب کی بات ھے: ہمیں یہ نہیں پتہ چل رہا کہ ہم تمہاری طرف بہیجے گئے ہیں یا تم ہماری جانب بھیجے گئے ہو؟

المصدر:  الرياض النضرة
المؤلف: محب الطبريؒ
المجلد: 1
الصفحة: 346
الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

🔰 *_اس واقعہ کی حیثیت_*

 اس واقعہ کے دو جزء ہیں :

1) حضورؐ کا حضرت عمرؓ سے نکیرین کے متعلق گفتگو کرنا

2) حضورؐ کا جبریلؑ کی وساطت سے حضرت عمر فاروقؓ کو خبر دینا کہ تم خود الٹا نکیرین سے ہی سوال کروگے


1⃣  پہلے جزء کے متعلق معمولی لفظی تغیر کیساتھ حافظ عراقی نے " المغنی عن الاسفار" میں لکہا ہے : کہ اتنا تو حضرت عطاء بن یسارؒ تؔابعی سے مرسلاً صحیح سند سے ثابت ھے اور موصولاً ضعیف سند کیساتھ,

📔 *المغنی عن الاسفار*

قال العراقي : أخرجه ابن أبي الدنيا في كتاب القبور هكذا مرسلًا، ورجاله ثقات،

 قال البيهقي في الاعتقاد: رويناه من وجه صحيح عن عطاء بن يسار مرسلًا،

قلت: ووصله ابن بطة في الإبانة من حديث ابن عباس،

ورواه البيهقي في الاعتقاد من حديث عمر، وقال: غريب بهذا. الإسناد، تفرد به مفضل، ولأحمد، وابن حبان من حديث عبد الله بن عمر اهـ.

 المصدر: المغنی عن الاسفار
المؤلف: الحافظ زین الدینؒ الؔعراقی
الصفحۃ:1236
الرقم: 4446
الطبع: المكتبة الطبرية، الرياض.


2⃣ *دوسرے جزء کے متعلق*

دوسرے جزء یعنی حضرت عمرؓ کے نکیرین سے سوال کرنے کے متعلق " الریاض النضرة" کی تخریج کرنیوالے محقق " عبد المجید طعمة حؔلبی" فرماتے ہیں:
کہ حضرت عمر فاروق کا نکیرین سے سوال کے متعلق حصہ روایت کا جزء نہیں ھے یہ بلا سند •محب طبریؒ• نے ذکر کردیا ھے.

💎 خرجه عبد الواحد بن محمد بن علي المقدسي في كتابه التبصير
, وخرج الحافظ أبو عبد الله ُ، ولم يذكر ما بعده. وخرج سعيد بن منصور معناه، ولفظه: حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، أنا محمد بن علوان بن علقمة، قال: حدثني أصحابنا، قالوا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعمر: "كيف بك إذا جاءك منكر ونكير يسألانك؟ صوتهما مثل الرعد القاصم، وأبصارهما مثل البرق الخاطف, يطئان في أشعارهما، ويبحثان بأنيابهما"، فقال: يا رسول الله, أنبعث على ما متنا عليه? قال: "نعم, إن شاء الله تعالى" قال: إذن أكفيكهما. اهـ.

المصدر: الریاض النضرۃ
المؤلف: محب الطبریؒ
المحقق: عبد المجید طعمة حؔلبی
المجلد:2
الصفحة: 297
الرقم:749
الطبع: دار المعرفة، بيروت، لبنان.


••• _الحاصل_•••

 مذکورہ روایت کا پہلا حصہ جو نکیرین کے اوصاف و احوال کے متعلق ھے اسکو تو بیان کیا جاسکتا ھے ؛ لیکن دوسرا حصہ جو حضرت عمر فاروقؓ کے نکیرین سے سوال کے متعلق ھے اسکو بیان نہ کیا جائے۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

No comments:

Post a Comment