▪ *حضرت علیؓ اور آبِ فردوس سے وضو*▪
حضرت علیؓ کی منقبت میں ایک واقعہ بیان کیا جاتا ھے خصوصا شیعی علماء اپنی محافل و مجالس میں اس کو بہت شد و مد سے بیان کیا کرتے ہیں: کہ ایک بار آقائے کریمؐ عصر کی نماز پڑھا رھے تھے اور آپؐ نے پہلی رکعت کے رکوع کو بہت طویل کردیا حتی کہ مقتدیوں کو لگنے لگا کہ شاید آپؐ کو سہو ہوگیا ھے؛ لیکن آپؐ نے پھر رکوع سر اٹھالیا اور سمعﷲ لمن حمدہ کہا پھر نماز کو مختصرا مکمل فرمایا, پھر آپؐ نے رخ انور مصلیوں کی جانب کیا, اور اپنی نگاہ پہلی صف پر اس طرح ڈالی جیسے کسی کی تلاش ہو, پھر دوسری صف کو اسی طرح نظروں سے ٹٹولا اور پھر تیسری صف کو اور فرمایا: مجہے میرے چچازاد بہائی علی نظر نہیں آرھے کہاں ہیں وہ؟ حضرت علی کرمﷲ وجہہ نے سب سے آخری صف سے عرض کیا : جی حضور میں یہاں ہوں! ارشاد ہوا: علی میرے نزدیک آؤ! حضرت علی تمام مہاجر و انصار مقتدیوں کی گردن پھلانگتے ہوئے آگے آئے حضورؐ نے فرمایا: علی! تم پہلی صف سے پیچھے کیوں رہ گئے؟ حضرت علیؓ نے جواب دیا: میں نماز میں ہی تہا اور تکبیر اولی بہی پاچکا تہا؛ لیکن مجھے وضو میں شک گزرا کہ وضو ہے یا نہیں تو میں گھر گیا, اور حسن و حسین کو آواز دی لیکن کوئی جواب نہ ملا تبہی اچانک مجہے ایک غیبی آواز سنائی دی, ابو الحسن! ذرا ادھر متوجہ ہوئیے! میں آواز کی سمت متوجہ ہوا تو کیا دیکہتا ہوں کہ سونے کا ایک بڑا پیالہ ہے اس میں پانی تہا اور ایک تولیہ تہی, میں نے تولیہ لیکر کندھے پر رکہی, اور پانی کی طرف اشارہ کیا تو پانی خود بخود میری ہتیلیوں پر بہنے لگا, میں وضو سے فارغ ہوا, مجہے علم نہیں : کہ کس نے وہ برتن اور تولیہ رکہا تہا, حضور انور یہ سن کر مسکرائے اور علی کو سینے سے لگایا, اور پیشانی کا بوسہ لیا, پھر فرمایا: میں تمکو خوشخبری سناؤں ؟ کہ وہ پانی سے بہرا برتن جنت سے آیا تہا اور پانی و رومال جنت الفردوس سے آیا تہا, اور جس نے تمکو نماز کی تیاری کرائی وہ حضرت جبرئیلؑ تہے, اور جس نے تمکو تولیہ دی وہ میکائیلؑ تہے, قسم ھے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمدؐ کی جان ھے : اسرافیلؑ پہلی رکعت میں میرا گھٹنہ پکڑے رھے (جسکی وجہ سے رکوع طویل ہوا) حتی کہ تم وضو بناکر میرے ساتھ نماز میں شریک ہوگئے ,کون ھے جو مجہے ملامت کریگا تجھ سے محبت کرنے کی وجہ ؛ علی! ﷲ اور فرشتے آسمانوں میں تم سے محبت رکہتے ہیں.
اس واقعہ کی تحقیق مطلوب ھے!!!!
•• *باسمہ تعالی* ••
*الجواب وبہ التوفیق:*
یہ واقعہ اؔمام "ابن الجوزی" نے ٭موضوعات٭ میں ذکر فرماکر اسکے متعلق کہا: یہ من گھڑت ھے؛ لہذا اسکے بیان و نشر سے احتراز ضروری ھے۔
🔹 *الموضوعات میں*
★ أنبأنا محمد بن عبد الباقي البزارقال انبانا هناد بن ابراهيم النسفي قال، انبانا ابو الحسن علي بن يوسف بن محمد بن حجاج الطبري، قال حدثنا ابو عبد الله الحسين بن جعفر الجرجاني، قال حدثنا اسماعيل بن إسحاق بن سليمان الضبي،قال حدثنا محمد بن علي الكفرتوني قال حدثني حميد الطويل،عن أنس بن مالك،قال: صلَّى بنا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم صلاةَ العصرِ ، فأبطأ في ركوعِه في الرَّكعةِ الأولَى حتَّى ظننَّا أنَّه قد سها وغفل ، ثمَّ رفع رأسَه : فقال : سمِع اللهُ لمن حمِده ، ثمَّ أوجز في صلاتِه وسلَّم ، ثمَّ أقبل علينا بوجهِه ، ثمَّ جثَا على رُكبتَيْه ، ثمَّ رمَى بطرفِه إلى الصَّفِّ الأوَّلِ يتفقَّدُ أصحابَه ، ثمَّ الصَّفِّ الثَّاني ثمَّ الصَّفِّ الثَّالثِ يتفقَّدُهم رجلًا رجلًا ، ثمَّ قال : ما لي لا أرَى ابنَ عمِّي عليَّ بنَ أبي طالبٍ ، فأجابه عليٌّ من آخرِ الصُّفوفِ : لبَّيْك يا رسولَ اللهِ ، فقال : ادْنُ منِّي يا عليُّ ، فما زال يتخطَّى أعناقَ المهاجرين والأنصارِ حتَّى دنا منه ، فقال : ما الَّذي خلَّفك عن الصَّفِّ الأوَّلِ ؟ قال : شككتُ أنِّي على طُهرٍ ، فناديتُ : يا حسنُ ، يا حسينُ يا فضَّةُ ! فلم يجبْني أحدٌ ، فإذا بهاتفٍ يهتفُ من ورائي : يا أبا الحسنِ التفِتْ فالتفتُّ ، فإذا أنا بسَطْلٍ من ذهبٍ فيه ماءٌ وعليه منديلٌ ، فأخذتُ المنديلَ ، فوضعتُه على منكبي ، وأومأتُ إلى الماءِ ، فإذا الماءُ يفيضُ على كفِّي ، فتطهَّرتُ ، ولا أدري من وضع السَّطْلَ والمنديلَ ؟ فتبسَّم رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم في وجهِه ، وضمَّه إلى صدرِه ، وقبَّل بين عينَيْه ؛ ثمَّ قال : ألا أبشِّرُك ؟ إنَّ السَّطلَ من الجنَّةِ ، والماءَ والمنديلَ من الفردوسِ الأعلَى ، والَّذي هيَّأك للصَّلاةِ جبريلُ ، والَّذي مندَلك ميكائيلُ ، والَّذي نفسُ محمَّدٍ بيدِه ما زال إسرافيلُ قابضًا بيدِه على رُكبتي حتَّى لحقتَ معي الصَّلاةَ ، فيلومني أحدٌ على حبِّك ، واللهُ وملائكتُه يحبُّونك من فوقِ السَّماءِ.
• نام کتاب: الموضوعات
• المؤلف: ابوالفرج ابن الجوزيؓ
• مجلد: 1
• صفحة: 309
• درجة: موضوع
• طبع: المكتبة السلفية، بالمدينة المنورة.
▪ *كفاية الطالب ميں*
یہ واقعہ شؔیعی کتاب " کفایت الطالب فی مناقب علی بن ابی طالبؓ " میں بہی مذکور ھے:
* نام کتاب: كفاية الطالب
* نام مؤلف: محمد يوسف الگنجي،
* صفحة: 289
* طبع: دار إحياء التراث، طهران، إيران.
▫ *بحر الدموع ميں*
اؔمام «عبد الرحمن ابن الجوزی» نے اس واقعہ کو " بحر الدموع" میں حضرت ابن عباسؓ سے بلا کسی سند نقل فرمایا ھے:
+ نام کتاب: بحر الدموع
+ مؤلف: ابو الفرج ابن الجوزيؒ
+ الصفحة: 138
+ الطبع: دار الصحابة للتراث، طنطا.
⚠ *حاصل کلام*:
سیدنا حضرت علی کرمﷲ وجہہ کے متعدد فضائل روایات مستندہ میں موجود ہیں انکو پڑھا اور بیان کیا جائے؛ سوال میں مذکورہ واقعہ غیر مستند ھے اسکو بیان نہ کیا جائے۔
وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
۳۰ دسمبر: ء۲۰۱۹
حضرت علیؓ کی منقبت میں ایک واقعہ بیان کیا جاتا ھے خصوصا شیعی علماء اپنی محافل و مجالس میں اس کو بہت شد و مد سے بیان کیا کرتے ہیں: کہ ایک بار آقائے کریمؐ عصر کی نماز پڑھا رھے تھے اور آپؐ نے پہلی رکعت کے رکوع کو بہت طویل کردیا حتی کہ مقتدیوں کو لگنے لگا کہ شاید آپؐ کو سہو ہوگیا ھے؛ لیکن آپؐ نے پھر رکوع سر اٹھالیا اور سمعﷲ لمن حمدہ کہا پھر نماز کو مختصرا مکمل فرمایا, پھر آپؐ نے رخ انور مصلیوں کی جانب کیا, اور اپنی نگاہ پہلی صف پر اس طرح ڈالی جیسے کسی کی تلاش ہو, پھر دوسری صف کو اسی طرح نظروں سے ٹٹولا اور پھر تیسری صف کو اور فرمایا: مجہے میرے چچازاد بہائی علی نظر نہیں آرھے کہاں ہیں وہ؟ حضرت علی کرمﷲ وجہہ نے سب سے آخری صف سے عرض کیا : جی حضور میں یہاں ہوں! ارشاد ہوا: علی میرے نزدیک آؤ! حضرت علی تمام مہاجر و انصار مقتدیوں کی گردن پھلانگتے ہوئے آگے آئے حضورؐ نے فرمایا: علی! تم پہلی صف سے پیچھے کیوں رہ گئے؟ حضرت علیؓ نے جواب دیا: میں نماز میں ہی تہا اور تکبیر اولی بہی پاچکا تہا؛ لیکن مجھے وضو میں شک گزرا کہ وضو ہے یا نہیں تو میں گھر گیا, اور حسن و حسین کو آواز دی لیکن کوئی جواب نہ ملا تبہی اچانک مجہے ایک غیبی آواز سنائی دی, ابو الحسن! ذرا ادھر متوجہ ہوئیے! میں آواز کی سمت متوجہ ہوا تو کیا دیکہتا ہوں کہ سونے کا ایک بڑا پیالہ ہے اس میں پانی تہا اور ایک تولیہ تہی, میں نے تولیہ لیکر کندھے پر رکہی, اور پانی کی طرف اشارہ کیا تو پانی خود بخود میری ہتیلیوں پر بہنے لگا, میں وضو سے فارغ ہوا, مجہے علم نہیں : کہ کس نے وہ برتن اور تولیہ رکہا تہا, حضور انور یہ سن کر مسکرائے اور علی کو سینے سے لگایا, اور پیشانی کا بوسہ لیا, پھر فرمایا: میں تمکو خوشخبری سناؤں ؟ کہ وہ پانی سے بہرا برتن جنت سے آیا تہا اور پانی و رومال جنت الفردوس سے آیا تہا, اور جس نے تمکو نماز کی تیاری کرائی وہ حضرت جبرئیلؑ تہے, اور جس نے تمکو تولیہ دی وہ میکائیلؑ تہے, قسم ھے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمدؐ کی جان ھے : اسرافیلؑ پہلی رکعت میں میرا گھٹنہ پکڑے رھے (جسکی وجہ سے رکوع طویل ہوا) حتی کہ تم وضو بناکر میرے ساتھ نماز میں شریک ہوگئے ,کون ھے جو مجہے ملامت کریگا تجھ سے محبت کرنے کی وجہ ؛ علی! ﷲ اور فرشتے آسمانوں میں تم سے محبت رکہتے ہیں.
اس واقعہ کی تحقیق مطلوب ھے!!!!
•• *باسمہ تعالی* ••
*الجواب وبہ التوفیق:*
یہ واقعہ اؔمام "ابن الجوزی" نے ٭موضوعات٭ میں ذکر فرماکر اسکے متعلق کہا: یہ من گھڑت ھے؛ لہذا اسکے بیان و نشر سے احتراز ضروری ھے۔
🔹 *الموضوعات میں*
★ أنبأنا محمد بن عبد الباقي البزارقال انبانا هناد بن ابراهيم النسفي قال، انبانا ابو الحسن علي بن يوسف بن محمد بن حجاج الطبري، قال حدثنا ابو عبد الله الحسين بن جعفر الجرجاني، قال حدثنا اسماعيل بن إسحاق بن سليمان الضبي،قال حدثنا محمد بن علي الكفرتوني قال حدثني حميد الطويل،عن أنس بن مالك،قال: صلَّى بنا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم صلاةَ العصرِ ، فأبطأ في ركوعِه في الرَّكعةِ الأولَى حتَّى ظننَّا أنَّه قد سها وغفل ، ثمَّ رفع رأسَه : فقال : سمِع اللهُ لمن حمِده ، ثمَّ أوجز في صلاتِه وسلَّم ، ثمَّ أقبل علينا بوجهِه ، ثمَّ جثَا على رُكبتَيْه ، ثمَّ رمَى بطرفِه إلى الصَّفِّ الأوَّلِ يتفقَّدُ أصحابَه ، ثمَّ الصَّفِّ الثَّاني ثمَّ الصَّفِّ الثَّالثِ يتفقَّدُهم رجلًا رجلًا ، ثمَّ قال : ما لي لا أرَى ابنَ عمِّي عليَّ بنَ أبي طالبٍ ، فأجابه عليٌّ من آخرِ الصُّفوفِ : لبَّيْك يا رسولَ اللهِ ، فقال : ادْنُ منِّي يا عليُّ ، فما زال يتخطَّى أعناقَ المهاجرين والأنصارِ حتَّى دنا منه ، فقال : ما الَّذي خلَّفك عن الصَّفِّ الأوَّلِ ؟ قال : شككتُ أنِّي على طُهرٍ ، فناديتُ : يا حسنُ ، يا حسينُ يا فضَّةُ ! فلم يجبْني أحدٌ ، فإذا بهاتفٍ يهتفُ من ورائي : يا أبا الحسنِ التفِتْ فالتفتُّ ، فإذا أنا بسَطْلٍ من ذهبٍ فيه ماءٌ وعليه منديلٌ ، فأخذتُ المنديلَ ، فوضعتُه على منكبي ، وأومأتُ إلى الماءِ ، فإذا الماءُ يفيضُ على كفِّي ، فتطهَّرتُ ، ولا أدري من وضع السَّطْلَ والمنديلَ ؟ فتبسَّم رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم في وجهِه ، وضمَّه إلى صدرِه ، وقبَّل بين عينَيْه ؛ ثمَّ قال : ألا أبشِّرُك ؟ إنَّ السَّطلَ من الجنَّةِ ، والماءَ والمنديلَ من الفردوسِ الأعلَى ، والَّذي هيَّأك للصَّلاةِ جبريلُ ، والَّذي مندَلك ميكائيلُ ، والَّذي نفسُ محمَّدٍ بيدِه ما زال إسرافيلُ قابضًا بيدِه على رُكبتي حتَّى لحقتَ معي الصَّلاةَ ، فيلومني أحدٌ على حبِّك ، واللهُ وملائكتُه يحبُّونك من فوقِ السَّماءِ.
• نام کتاب: الموضوعات
• المؤلف: ابوالفرج ابن الجوزيؓ
• مجلد: 1
• صفحة: 309
• درجة: موضوع
• طبع: المكتبة السلفية، بالمدينة المنورة.
▪ *كفاية الطالب ميں*
یہ واقعہ شؔیعی کتاب " کفایت الطالب فی مناقب علی بن ابی طالبؓ " میں بہی مذکور ھے:
* نام کتاب: كفاية الطالب
* نام مؤلف: محمد يوسف الگنجي،
* صفحة: 289
* طبع: دار إحياء التراث، طهران، إيران.
▫ *بحر الدموع ميں*
اؔمام «عبد الرحمن ابن الجوزی» نے اس واقعہ کو " بحر الدموع" میں حضرت ابن عباسؓ سے بلا کسی سند نقل فرمایا ھے:
+ نام کتاب: بحر الدموع
+ مؤلف: ابو الفرج ابن الجوزيؒ
+ الصفحة: 138
+ الطبع: دار الصحابة للتراث، طنطا.
⚠ *حاصل کلام*:
سیدنا حضرت علی کرمﷲ وجہہ کے متعدد فضائل روایات مستندہ میں موجود ہیں انکو پڑھا اور بیان کیا جائے؛ سوال میں مذکورہ واقعہ غیر مستند ھے اسکو بیان نہ کیا جائے۔
وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
۳۰ دسمبر: ء۲۰۱۹
No comments:
Post a Comment