• *ایک عجیب طلاق کا واقعہ*•
ایک واقعہ بہت مشہور ھے: کہ ایک دیہاتی صحابیؓ نے اپنی اہلیہ کو طلاق دیدی اور طلاق کے الفاظ اس طرح کہے: انت طالق حتی حین( تجہے طلاق ہے وقت تک) اسکے بعد انکو ندامت ہوئی اور انہوں نے اہلیہ سے رجعت کرنا چاہی لیکن وہ اپنے کہے ہوئے کلمہ "حتی حین " کی مراد میں پریشان تہے کہ اس سے کتنے عرصہ تک کے لیے بیوی کو طلاق پڑی چنانچہ وہ حضورؐ کی خدمت میں آئے ؛ لیکن حضور پاکؐ سے اس وقت ملاقات نہ ہوسکی تو وہ صدیق اکبرؓ کی خدمت میں پہونچے اور ان سے اپنا مسئلہ معلوم کیا, صدیق اکبر نے کہا: تیری بیوی تجھ پر حرام ہوچکی ھے اب رجعت کی کوئی سبیل نہیں ھے۔
وہ وہاں سے حضرت عمر فاروقؓ کی خدمت میں آئے ان سے بہی اپنا یہی سوال دہرایا تو حضرت فاروق اعظم کا جواب یہ تہا کہ تیری بیوی تجھ پر چالیس سال کے لیے حرام ہوگئ ھے ۔ وہ شخص حضرت عثمان غنیؓ کے پاس گیا اور ان سے بہی معلوم کیا انہوں نے اسکا جواب یہ بتایا کہ تیری زوجہ تیرے حق میں ایک سال کے لیے حرام ہوئی ھے وہ وہاں نکل کر حضرت علیؓ حیدر کی خدمت میں آیا اور ان سے بہی اپنا سوال رکہا حضرت علی نے جواب دیا کہ تیری بیوی فقط ایک رات کے لیے تجھ پر حرام ہوئی ہے۔ وہ شخص یہ چار مختلف جوابات سن کر حیرانی میں مبتلاء ہوا اور سیدھا نبی اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ حضورؐ اس وقت کسی باغ میں تشریف رکہتے تھے اس شخص نے حضورؐ سے اپنا سارا ماجرا کہہ سنایا تو حضورؐ نے اسکو بٹھایا اور کسی صاحب کو بہیجا کہ وہ چاروں یاران باصفا کو بلا لائے چاروں حضرات آگئے تو حضورؐ نے حضرت صدیقؓ سے معلوم کیا کہ تم نے جو جواب دیا کہ تاعمر حرام ہوگئ ھے کس دلیل کی بنیاد پر دیا؟ صدیق اکبر نے کہا: میری دلیل قرآنی آیت ھے " فمتعناھم حتی حین" یہاں حین سے مراد موت ھے لہذا اس شخص نے بہی لفظ حین استعمال کیا تہا تو اس رو سے تاعمر حرام کا جواب دیا گیا۔
حضور سن کر خاموش رھے اور حضرت عمر کی جانب متوجہ ہوئے ان سے بہی یہی کہا کہ تمہارا جواب کس دلیل کی بنیاد پر تہا؟ حضرت فاروق اعظم نے بہی کہا کہ میرے جواب کی بنیاد بہی قرآن کی آیت ھے " ھل اتی علی الانسان حین من الدھر" یہاں حین کی مراد چالیس برس ھے اسی لیے میرا جواب چالیس سال کے لیے حرام ہونے کا تہا۔
حضور خاموش رھے اور حضرت عثمان غنی سے انکے جواب کی دلیل معلوم کی ۔حضرت غنی ذوالنورین نے کہا: میرا جواب بہی آیت قرآنی پر۔مبنی ہے " مثل کلمہ طیبہ کشجرہ طیبہ تؤتی اکلہا کل حین" یہاں حین سے مراد ایک سال ھے اسی لیے میرا جواب ایک سال تہا۔
حضور خاموش رھے اور سیدنا علی سے انکے جواب کی دلیل طلب کی ۔حضرت حیدر کرار نے عرض کیا: حضرت میرا جواب بہی قرآنی آیت سے ثابت ھے " فسبحان ﷲ حین تمسون" یہاں حین سے مراد ایک رات ھے اسی لیے میرا جواب تہا کہ بیوی فقط ایک رات کے لیے حرام ہوئی ھے۔
حضور اپنے پیارے اصحاب کے جوابات سن کر بہت مسرور ہوئے اور سائل سے فرمایا : جواب تو سارے ہی درست ہیں ؛ تاہم تیرے حق میں زیادہ آسانی علی کے جواب کو لینے میں ھے تو علی کی رائے کو عمل میں لے آ!
اس واقعہ کی اصل مطلوب ھے!!
٭٭ *باسمه تعالي* ٭٭
*الجواب وبه التوفيق*:
یہ واقعہ ہمکو کسی حدیث کی کتاب میں تلاشِ بسیار کے بعد بھی نہیں مل سکا, نیز حدیث کے متعلق تحقیقات کرنے والے ایک ادارے کا جواب بہی یہی ھے: کہ اس واقعہ کا کوئی ثبوت نہیں ھے؛ لہذا اسکی نسبت کسی صحابیؓ یا نبی کریمؐ کی جانب نہ کیجائے اور نہ ہی اسکو بیان و نشر کیا جائے۔یہ بہی ممکن ھے کہ مذکورہ واقعہ شیعوں نے گھڑا ہو؛ تاکہ وہ حضرت علی کی دیگر خلفائے ثلثہ پر فوقیت علمی ظاہر کرائیں!
*عربی عبارت میں*
قال الصحابي لامرأته: أنت طالق إلى حين! ثم لما هدأ وأراد ردها استحى أن يكلم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكلم الصديق رضي الله عنه، فأجاب الصديق: يا رجل موعد ردها يوم القيامة ألم تقرأ قوله سبحانه {فآمنوا فمتعناهم إلى حين} (الصافات 148) والحين يوم القيامة.
فذهب الرجل إلى ابن الخطاب رضي الله عنه، فأجابه بقوله: المسألة أقرب من ذلك، لأن الله تعالى قال {هل أتى على الإنسان حين من الدهر لم يكن شيئاً مذكوراً} (الإنسان 1) وأخبرنا النبي صلى الله عليه وسلم أن الحين هو المدة التي قضاها آدم وهو منجدل في طينة. قال الرجل: كم ؟ قال ابن الخطاب: أربعون سنة، فقطع الرجل فرحته وذهب إلى ابن عفان رضي الله عنه فأجابه: هون عليك فإن الأمر أهون، لأن الله قال عن الأرض {تؤتي أكلها كل حين بإذن ربها} (إبراهيم 25) فالحين هنا سنة زراعية. فرح الرجل وأراد تصديق النبي على حكم عثمان بأن تكون المدة فقط سنة، فذهب إليه مسرعاً والتقى على بابه ابن أبي طالب فقال: استأذن لي لأحدث النبي فقال: وما بالك اليوم منشرحاً؟ فقص عليه الخبر وقال: الحين عند الأول يوم القيامة، وعند الثاني أربعون سنة، وعند الثالث سنة واحدة، فأجابه بسؤال: متى طلقتها؟ قال بالأمس! فقال له ردها اليوم ولا تثريب عليك، فغر الرجل فاه وقال كيف يا ابن عم رسول الله؟ قال: ألم يقل ربنا {فسبحان الله حين تمسون وحين تصبحون} (الروم 17) فالحين قد يكون يوماً وقد يكون ليلة وأنت قضيت اليوم والليلة، فجرى الرجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فجمع النبي الأربعة واستمع إلى رأي كلٍ منهم وقال لكل واحد: «صدقت»، والرجل عيناه تدور بينهم في ترقب وخوف، فإذا بالنبي يبتسم له ويقول: «خذ برأي علي فهو أيسر عليك».
وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
۹جنوری: ۲۰۲۰ء
ایک واقعہ بہت مشہور ھے: کہ ایک دیہاتی صحابیؓ نے اپنی اہلیہ کو طلاق دیدی اور طلاق کے الفاظ اس طرح کہے: انت طالق حتی حین( تجہے طلاق ہے وقت تک) اسکے بعد انکو ندامت ہوئی اور انہوں نے اہلیہ سے رجعت کرنا چاہی لیکن وہ اپنے کہے ہوئے کلمہ "حتی حین " کی مراد میں پریشان تہے کہ اس سے کتنے عرصہ تک کے لیے بیوی کو طلاق پڑی چنانچہ وہ حضورؐ کی خدمت میں آئے ؛ لیکن حضور پاکؐ سے اس وقت ملاقات نہ ہوسکی تو وہ صدیق اکبرؓ کی خدمت میں پہونچے اور ان سے اپنا مسئلہ معلوم کیا, صدیق اکبر نے کہا: تیری بیوی تجھ پر حرام ہوچکی ھے اب رجعت کی کوئی سبیل نہیں ھے۔
وہ وہاں سے حضرت عمر فاروقؓ کی خدمت میں آئے ان سے بہی اپنا یہی سوال دہرایا تو حضرت فاروق اعظم کا جواب یہ تہا کہ تیری بیوی تجھ پر چالیس سال کے لیے حرام ہوگئ ھے ۔ وہ شخص حضرت عثمان غنیؓ کے پاس گیا اور ان سے بہی معلوم کیا انہوں نے اسکا جواب یہ بتایا کہ تیری زوجہ تیرے حق میں ایک سال کے لیے حرام ہوئی ھے وہ وہاں نکل کر حضرت علیؓ حیدر کی خدمت میں آیا اور ان سے بہی اپنا سوال رکہا حضرت علی نے جواب دیا کہ تیری بیوی فقط ایک رات کے لیے تجھ پر حرام ہوئی ہے۔ وہ شخص یہ چار مختلف جوابات سن کر حیرانی میں مبتلاء ہوا اور سیدھا نبی اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ حضورؐ اس وقت کسی باغ میں تشریف رکہتے تھے اس شخص نے حضورؐ سے اپنا سارا ماجرا کہہ سنایا تو حضورؐ نے اسکو بٹھایا اور کسی صاحب کو بہیجا کہ وہ چاروں یاران باصفا کو بلا لائے چاروں حضرات آگئے تو حضورؐ نے حضرت صدیقؓ سے معلوم کیا کہ تم نے جو جواب دیا کہ تاعمر حرام ہوگئ ھے کس دلیل کی بنیاد پر دیا؟ صدیق اکبر نے کہا: میری دلیل قرآنی آیت ھے " فمتعناھم حتی حین" یہاں حین سے مراد موت ھے لہذا اس شخص نے بہی لفظ حین استعمال کیا تہا تو اس رو سے تاعمر حرام کا جواب دیا گیا۔
حضور سن کر خاموش رھے اور حضرت عمر کی جانب متوجہ ہوئے ان سے بہی یہی کہا کہ تمہارا جواب کس دلیل کی بنیاد پر تہا؟ حضرت فاروق اعظم نے بہی کہا کہ میرے جواب کی بنیاد بہی قرآن کی آیت ھے " ھل اتی علی الانسان حین من الدھر" یہاں حین کی مراد چالیس برس ھے اسی لیے میرا جواب چالیس سال کے لیے حرام ہونے کا تہا۔
حضور خاموش رھے اور حضرت عثمان غنی سے انکے جواب کی دلیل معلوم کی ۔حضرت غنی ذوالنورین نے کہا: میرا جواب بہی آیت قرآنی پر۔مبنی ہے " مثل کلمہ طیبہ کشجرہ طیبہ تؤتی اکلہا کل حین" یہاں حین سے مراد ایک سال ھے اسی لیے میرا جواب ایک سال تہا۔
حضور خاموش رھے اور سیدنا علی سے انکے جواب کی دلیل طلب کی ۔حضرت حیدر کرار نے عرض کیا: حضرت میرا جواب بہی قرآنی آیت سے ثابت ھے " فسبحان ﷲ حین تمسون" یہاں حین سے مراد ایک رات ھے اسی لیے میرا جواب تہا کہ بیوی فقط ایک رات کے لیے حرام ہوئی ھے۔
حضور اپنے پیارے اصحاب کے جوابات سن کر بہت مسرور ہوئے اور سائل سے فرمایا : جواب تو سارے ہی درست ہیں ؛ تاہم تیرے حق میں زیادہ آسانی علی کے جواب کو لینے میں ھے تو علی کی رائے کو عمل میں لے آ!
اس واقعہ کی اصل مطلوب ھے!!
٭٭ *باسمه تعالي* ٭٭
*الجواب وبه التوفيق*:
یہ واقعہ ہمکو کسی حدیث کی کتاب میں تلاشِ بسیار کے بعد بھی نہیں مل سکا, نیز حدیث کے متعلق تحقیقات کرنے والے ایک ادارے کا جواب بہی یہی ھے: کہ اس واقعہ کا کوئی ثبوت نہیں ھے؛ لہذا اسکی نسبت کسی صحابیؓ یا نبی کریمؐ کی جانب نہ کیجائے اور نہ ہی اسکو بیان و نشر کیا جائے۔یہ بہی ممکن ھے کہ مذکورہ واقعہ شیعوں نے گھڑا ہو؛ تاکہ وہ حضرت علی کی دیگر خلفائے ثلثہ پر فوقیت علمی ظاہر کرائیں!
*عربی عبارت میں*
قال الصحابي لامرأته: أنت طالق إلى حين! ثم لما هدأ وأراد ردها استحى أن يكلم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكلم الصديق رضي الله عنه، فأجاب الصديق: يا رجل موعد ردها يوم القيامة ألم تقرأ قوله سبحانه {فآمنوا فمتعناهم إلى حين} (الصافات 148) والحين يوم القيامة.
فذهب الرجل إلى ابن الخطاب رضي الله عنه، فأجابه بقوله: المسألة أقرب من ذلك، لأن الله تعالى قال {هل أتى على الإنسان حين من الدهر لم يكن شيئاً مذكوراً} (الإنسان 1) وأخبرنا النبي صلى الله عليه وسلم أن الحين هو المدة التي قضاها آدم وهو منجدل في طينة. قال الرجل: كم ؟ قال ابن الخطاب: أربعون سنة، فقطع الرجل فرحته وذهب إلى ابن عفان رضي الله عنه فأجابه: هون عليك فإن الأمر أهون، لأن الله قال عن الأرض {تؤتي أكلها كل حين بإذن ربها} (إبراهيم 25) فالحين هنا سنة زراعية. فرح الرجل وأراد تصديق النبي على حكم عثمان بأن تكون المدة فقط سنة، فذهب إليه مسرعاً والتقى على بابه ابن أبي طالب فقال: استأذن لي لأحدث النبي فقال: وما بالك اليوم منشرحاً؟ فقص عليه الخبر وقال: الحين عند الأول يوم القيامة، وعند الثاني أربعون سنة، وعند الثالث سنة واحدة، فأجابه بسؤال: متى طلقتها؟ قال بالأمس! فقال له ردها اليوم ولا تثريب عليك، فغر الرجل فاه وقال كيف يا ابن عم رسول الله؟ قال: ألم يقل ربنا {فسبحان الله حين تمسون وحين تصبحون} (الروم 17) فالحين قد يكون يوماً وقد يكون ليلة وأنت قضيت اليوم والليلة، فجرى الرجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فجمع النبي الأربعة واستمع إلى رأي كلٍ منهم وقال لكل واحد: «صدقت»، والرجل عيناه تدور بينهم في ترقب وخوف، فإذا بالنبي يبتسم له ويقول: «خذ برأي علي فهو أيسر عليك».
وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
۹جنوری: ۲۰۲۰ء
No comments:
Post a Comment