Monday, January 13, 2020

حضرت عبد ﷲ بن حذافہ کا واقعہ

*٭حضرت عبداللہ بن حذافہؓ کا واقعہ٭*


(حکومت، دولت اور شہزادی ٹھکرانے والے صحابیؓ کی داستان)

  حضرت عبداللہ بن حذافہؓ کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ آپ کو رومی کافروں نے قید کرلیا اور اپنے بادشاہ کے پاس پہنچا دیا۔بادشاہ نے آپ سے کہا تم نصرانی بن جاؤ، میں تمہیں راج پاٹ میں شریك كرليتا هوں، اور اپنی بیٹی سے تمہارا نکاح بہی کرادونگا عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عن نے جواب دیا .
کہ یہ تو کیا اگر تو اپنی بادشاہت مجھے دے دے اور تمام عرب کا راج بھی مجھے سونپ دے اور چاہے کہ میں ایک آنکھ جھپکنے کے برابر بھی اپنے دینِ محمد ﷺ سے پھر جاؤں تو بھی یہ ناممکن ہے۔بادشاہ نے کہا پھر تجھے قتل کردوں گا حضرتِ عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ہاں یہ تجھے اختیار ہے۔چنانچہ اسی وقت بادشاہ نے حکم دیا اور انہیں صلیب پر چڑھا دیا اور تیراندازوں نے قریب سے بحکم بادشاہ ان کے ہاتھ پاؤں چھیدنا شروع کردیا،بار بار کہا جاتا کہ اب بھی نصرانیت قبول کرلو،
اور آپ پورے صبر و استقلال کے ساتھ فرماتے جاتے تھے ہرگز نہیں۔ آخر بادشاہ نے حکم دیا اسے سولی سے اتار لو(اور پیتل کی بنی ہوئی دیگ خوب تپا کر آگ بنا کر لاؤ)چنانچہ وہ پیش ہوئی۔بادشاہ نے ایک اور مسلمان قیدی کی بابت حکم دیا کہ اسے اس میں ڈال دو۔اسی وقت حضرتِ عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں آپ کے دیکھتے ہوئے اس مسلمان قیدی کو اس میں ڈال دیا گیا۔
وہ مسکین صحابی اسی وقت چرمر ہو کر رہ گئے،گوشت پوست جل گیا اور ہڈیاں چمکنے لگیں۔پھر بادشاہ نے حضرتِ عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ دیکھو اب بھی وقت ہےبات مان لو اور ہمارا مذہب قبول کرلو ورنہ اسی آگ کی دیگ میں اسی طرح تمہیں بھی ڈال کر جلا دیا جائے گا ۔آپ نے پھر بھی ایمانِ جوش سے کام لے کر فرمایا کہ ناممکن ہے کہ میں اللہ کے دین کو چھوڑ دوں۔
اسی وقت بادشاہ نے حکم دیا کہ انہیں چرخی پر چڑھا کر اس میں ڈال دوں۔جب یہ اس آگ کی دیگ میں ڈالے جانے کے لیے چرخی پر اٹھائے گئے تو بادشاہ نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسؤ نکل رہے ہیں۔اس وقت اس نے حکم دیا کہ رک جائیں اور انہیں اپنے پاس بلا لیا،اس لیے کہ اب اسے امید بندھ گئی تھی کہ شاہد اس عذاب کو دیکھ کر اس کے خیالات بدل گئے ہوں، میری بات مان لے گا اور میرے مذہب کو قبول کرکے میری دامادی میں آکر میری سلطنت کا ساجھی بن جائے گا۔
لیکن بادشاہ کی یہ تمنا بے سود نکلی حضرتِ عنداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ صرف اس وجی سے رویا تھا کہ آہ! ایک جان ہے جسے اللہ کی راہ میں اس عذاب کے ساتھ قربان کر رہا ہوں،کاش میرے روئیں روئیں میں ایک ایک جان ہوتی تو آج سب میں سب جانیں اللہ کی راہ میں ایک ایک کرکے فدا کردیتا۔
 بعض روایات میں ہے کی آپ کو قیدخانے میں رکھا اور کھانا پینا بند کردیا کئی دن کے بعد شراب اور خنزیر کا گوشت بھیجا،لیکن آپ نے اس بھوک پر بھی اس کی طرف توجہ نہ فرمائی۔بادشاہ نے آپ کو بلا بھیجا اور اسے نہ کھانے کا سبب دریافت کیا تو آپ نے جواب دیا :"اس حالت میں میرے لیے جائز تو ہوگیا ہے لیکن میں تجھ جیسے دشمن کو اپنے بارے میں خوش ہونے کا موقع نہیں دینا چاہتا"۔
اب بادشاہ نے کہا :اچھا تم میرے سر کا بوسہ لے لو، تو میں تمہیں اور تمہارے ساتھ کے تمام قیدیوں کو رہا کردیتا ہوں۔آپ نے اسے قبول فرما لیا اور اس کے سر کا بوسہ لے لیا اور بادشاہ نے بھی اپنا وعدہ پورا کیا۔آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو چھوڑ دیا۔جب حضرتِ عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ یہاں سے آزاد ہوکر حضرتِ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے .
تو آپ نے انُہیں بڑے ادب کے ساتھ منبرِ رسول ﷺ پر بٹھایا اور فرمایا کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ اپنا واقعہ ہم کو سناؤ۔چنانچہ جب آپ نے شروع کیا تو خلیفہ المسلمین رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تو آپ نے فرمایا ہر مسلمان پر حق ہے کہ عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کی پیشانی چومے اور میں ابتداء کرتا ہوں یہ فرما کر آپ نے ان کے سر کا بوسہ لیا اور پھر دیگر مسلمانوں نے.


اس واقعہ کا حوالہ مطلوب ھے!!

   *باسمه تعالي*
*الجواب وبه التوفيق*:

 یہ واقعہ چند کتب میں موجود ھے: مثلا: شعب الایمان, سیر اعلام النبلاء, الاصابہ, تاریخ ابن عساکر, المحن وغیرہ میں؛ البتہ واقعے کی سند پر کلام ھے ؛ جسکی وجہ سے اسکی سند کافی کمزور ہوجاتی ھے ؛ تاہم اسکا ایک ضعیف شاہد موصولا عن ابن عباس موجود ھے جسکی وجہ سے اتنا کہا جاسکتا ھے کہ اس واقعہ کی کوئی اصل ضرور ھے یعنی اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ھے۔

🔘 *شعب الایمان میں*

أخبرنا أبو الحسين محمد بن الفضل القطان، أخبرنا أبو سهل بن زياد القطان، حدثنا سعيد بن عثمان الأهوازي، حدثنا عبد الله بن معاوية الجمحي، وأخبرنا أبو نصر عمر بن عبد العزيز بن عمر بن قتادة، أخبرنا أبو محمد يحيى بن منصور القاضي، حدثنا أبو الفضل أحمد بن سلمة، حدثنا عبد الله بن معاوية الجمحي، حدثنا عبد العزيز بن محمد القسملي، حدثنا ضرار بن عمرو، عن أبي رافع، قال:
’’ وجه عمر بن الخطاب رضي الله عنه جيشا إلى الروم، وفيهم رجل يقال له عبد الله بن حذافة من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، فأسره الروم فذهبوا به إلى ملكهم، فقالوا: إن هذا من أصحاب محمد، فقال له الطاغية: هل لك أن تتنصر وأشركك في ملكي وسلطاني؟
فقال له عبد الله: " لو أعطيتني جميع ما تملك، وجميع ما ملكته العرب - وفي رواية القطان: وجميع مملكة العرب - على أن أرجع عن دين محمد صلى الله عليه وسلم طرفة عين، ما فعلت "،
قال: إذا أقتلك، قال: " أنت وذاك "، قال: فأمر به فصلب، وقال للرماة: ارموه قريبا من يديه قريبا من رجليه وهو يعرض عليه، وهو يأبى،
ثم أمر به فأنزل، ثم دعا بقدر وصب فيها ماء حتى احترقت،
ثم دعا بأسيرين من المسلمين، فأمر بأحدهما فألقي فيها وهو يعرض عليه النصرانية وهو يأبى، ثم أمر به أن يلقى فيها، فلما ذهب به بكى، فقيل له: إنه بكى فظن أنه رجع، فقال: ردوه فعرض عليه النصرانية فأبى، قال: فما أبكاك؟ قال: " أبكاني أني قلت هي نفس واحدة تلقى هذه الساعة في هذا القدر فتذهب، فكنت أشتهي أن يكون بعدد كل شعرة في جسدي نفس تلقى هذا في الله عز وجل "،
قال له الطاغية: هل لك أن تقبل رأسي وأخلي عنك؟ قال عبد الله: " وعن جميع أسارى المسلمين؟ " قال: وعن جميع أسارى المسلمين، قال عبد الله: " فقلت في نفسي عدو من أعداء الله أقبل رأسه ويخلي عني وعن أسارى المسلمين لا أبالي قال فدنا منه وقبل رأسه "، فدفع إليه الأسارى، فقدم بهم على عمر فأخبر عمر بخبره، فقال: حق على كل مسلم أن يقبل رأس عبد الله بن حذافة، وأنا أبدأ فقام عمر فقبل رأسه.

٭ المصدر: شعب الايمان
٭ المحدث: بيهقيؒ
٭ المجلد: 3
٭ الصفحة: 179
٭ الرقم: 1522
٭ الطبع: مكتبة الرشد، رياض، السعودية.


⚠ اس سند میں ایک راوی " ضرار بن عمرو " ہیں جن کے متعلق کچھ کلام ھے :

 ۞ ضرار بن عمرو، يقال: من اهل ملطية، قال ابن معين: ليس بشيئ، ولا يكتب حديثه، وقال ابن عدي: هو منكر الحديث.

٭ المصدر: مختصر الكامل لابن عدي
٭ المؤلف: تقي الدين المقريزي
٭ الصفحة: 436
٭ الرقم: 949
٭ الطبع: مكتبة السنة، قاهرة، مصر.


🔰 *تاريخ ابن عساكر ميں*

تاریخ ابن عساکر میں یہ واقعہ تین طرح سے مروی ھے: ایک سند تو وہی ھے جو امام بیہقی کے حوالہ سے اوپر ذکر کی گئ ھے اور ایک سند موصولا حضرت ابن عباس سے مروی ھے جس میں ایک راوی متکلم فیہ ہیں ۔اور تیسری سند مرسلا عن زھری مذکور ھے:

+ نام کتاب: تاریخ ابن عساکر
+ نام مؤلف: حافظ ابن عساکرؒ
+ جلد: 27
+ صفحة: 358 تا 360
+ طبع:  دار الفكر، بيروت، لبنان.

⚠ ابن عساکر نے جو روایت ابن عباسؓ سے موصولا ذکر کی ھے اسکی سند میں  ایک راوی" عطاء بن عجلان" ہیں جنکے متعلق ائمہ کے اقوال سخت ہیں :

  ۩ عطا بن عجلان العطار بصري، قال ابن معين: ليس بشيئ، كذاب، يحدث عنه مروان الفزاري، ومرة قال: يروي عنه اسماعيل بن عياش، لم يكن بشيئ، كان يوضع له الحديث .
وقال البخاري: منكر الحديث.
وقال السعدي: كذاب.
وقال ابن عدي: عامة رواياته غير محفوظة.

٭ المصدر : مختصر الكامل في الضعفاء
٭ تقي الدين المقريزيؒ
٭ الصفحة: 610
٭ الرقم: 1523
٭ الطبع: مكتبة السنة، قاهرة، مصر.

💠 ابن عساکرؒ نے جو روایت مرسلا ذکر کی ھے  اس میں ایک راوی" یزید بن سمرہ ابو ھزان" ہیں جنکی بابت ابن حبانؒ نے کہا: کہ بسا اوقات یہ خطا کرجایا کرتے تہے۔

۞ يزيد بن سمرة أبو هزان الدهان، يروي عن عطاء الخراساني، روي عنه هشام بن عمار، ربما أخطأ.

* المصدر: كتاب الثقات
* المحدث:  ابن حبانؒ
* المجلد: 9
* الصفحة: 272
* الطبع: دائرة المعارف العثمانية، حيدرآباد، الهند.


🌷 *سير أعلام النبلاء ميں*

یہ واقعہ امام ذھبیؒ نے بہی عبدﷲ بن حذافہ کے ترجمہ کے تحت  سیر اعلام میں ذکر فرمایا ھے:

÷ نام کتاب: سير أعلام النبلاء
÷ نام محدث: الامام ذهبيؒ
÷ الصفحة: 2365
÷ الرقم : 3192
÷ الطبع: بيت الافكار الدولية، لبنان.


💎  *الإصابة ميں*

ؔعلامہ «ابن حجر عسقلانی» نے اس واقعہ کو "الاصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ" میں حضرت عبد ﷲ بن حذافہؓ کے مناقب میں  ذکر کیا ھے:

٭ المصدر: الإصابة في تمييز الصحابةؓ
٭ المحدث: ابن حجر العسقلانيؒ
٭ المجلد : 4
٭ الصفحة: 52
٭ الرقم: 4641
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

📘 *كتاب المحن ميں*

اؔبو العرب تمیمی نے اس واقعہ کو آزمائشوں کے واقعات میں ذکر کیا ھے:

• المصدر: كتاب المحن
• المؤلف: أبو العرب محمد التميميؒ
• الصفحة: 306
• الطبع: دار الغرب الاسلامي، بيروت، لبنان.

 🔹 *خلاصۂ کلام*

 اس واقعہ کی کوئی نہ کوئی اصل ھے اسکو من گھڑت نہیں کہا جاسکتا ھے۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
۱۳ جنوری: ؁۲۰۲۰ء

No comments:

Post a Comment