🌟 *عید کا دن اور یتیم بچہ*🌟
ایک مرتبہ ہمارے پیارے نبیﷺ نماز عید کے لیے نکلے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ سب بچے کھیل رہے ہیں مگر ان میں ایک بچہ ایک طرف بیٹھا رو رہا ہے اور اس کے کپڑے بھی پھٹے پرانے ہیں۔
پیارے نبیﷺ نے اس بچے سے فرمایا: "بیٹا کیا بات ہے تو رو رہا ہے اور بچے کے ساتھ کھیلتا نہیں"
غالباً بچہ نہیں جانتا ہوگا کہ اس کے مخاطب ہمارے پیارے نبیﷺ ہیں۔ یا پریشانی کی وجہ سے نہیں پہچان سکا ہوگا اس لیے اس نے کہا صاحب مجھے میرے حال پر چھوڑ دیجئے دراصل میرا باپ فلاں غزوے میں ہمارے پیارے نبیﷺ کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے شہید ہوگیا تھا میری ماں نے دوسرا نکاح کر لیا۔ وہ میرا مال کھا گئے اور میرے سوتیلے باپ نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے۔ اب میرے پاس نہ کھانا ہے نہ پینا نہ کپڑا نہ گھر۔ جب میں نے ان بچوں کو کھیلتے اور نئے کپڑے پہنے دیکھا تو میرا غم تازہ ہوگیا اسی لیے رو پڑا- ہمارے پیارے نبیﷺ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کیا تو اس بات پر راضی نہیں ہے میں تیرا باپ عائشہؓ تیری ماں فاطمہؓ تیری بہن علیؓ تیرے چاچا اور حسنؓ و حسینؓ تیرے بھائی ہوں- کہنے لگا یارسول اللہﷺ اس پر میں کیسے راضی نہیں ہو سکتا- ہمارے پیارے نبیﷺ اسے گھر لے آئے اور اسے خوب صورت کپڑے پہنائے نہلایا دھلایا اور کھانا کھلایا- وہ خوش وخرم باہر نکلا تو لڑکوں نے پوچھا ابھی تو تو رو رہا تھا اور اب بڑا خوش وخرم ہے بات کیا ہوئی ہے وہ کہنے لگا میں بھوکا تھا اللہ تعالیٰ نے میرے کھانے کا انتظام کردیا میں ننگا تھا الله تعالی نے میرے کپڑے کا انتظام کردیا- اور اب میرے باپ رسول اللہﷺ ماں سیدہ عائشہؓ بہن سیدہ فاطمہؓ چچا سیدنا علیؓ اور بھائی حسن وحسینؓ بن چکے ہیں- یہ سن کا لڑکے کہنے لگے کاش آج ہمارے باپ بھی نہ ہوتے- یہ لڑکا ہمیشہ ہمارے پیارے نبیﷺ کی زیرکفالت رہا- حتی کہ جس دن آپﷺ نے وصال فرمایا تو یہ بچہ رو رہا تھا اور کہہ رہا تھا افسوس میں آج پھر یتیم اور غریب ہوگیا- اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے اس کو اپنے ساتھ ملا لیا-
(بحوالہ: پیارے نبی صلی اللہ علیه وسلم کے پیارے واقعات. ناشر: اسلامی کتب خانہ, کراچی)
اس واقعہ کی تحقیق مطلوب ھے!!!
••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*
یہ واقعہ عیدین میں بالخصوص نبی پاکؐ کی یتیموں سے محبت و شفقت کے عنوان سے خطباء بہت بیان کرتے ہیں؛ اور اس کے کثرت بیان سے یہ اس قدر مشہور ہوا کہ لگتا ھے کہ واقعتا یہ واقعہ درست ہوگا( یہ الگ بات ھے یتیموں و بے سہاراؤں سے حضور مقبولؐ کو بہت پیار و محبت تہی) لیکن جب تحقیق کی گئ تو ظاہر ہوا یہ واقعہ سرے سے ثابت بالسند نہیں ھے؛ لہذا اس کو بیان کرنے سے احتراز کیا جائے۔ اس عنوان سے مستند واقعات سیرت و کتب حدیث سے بیان کیے جایئں۔
🔰 *واقعہ کی عربی عبارت* 🔰
خرج النبي صلى الله عليه وسلم يوم العيد لأجل صلاة العيد
فرأى الصبيان يلعبون ووجد صبيا واقفاً يبكي فقال له النبي صلى الله عليه وسلم مايبكيك أيها الصبي فقال له الصبي وهو لم يعرف إنه النبي صلى الله عليه وسلم دعني أيها الرجل فإن ابي مات في أحد الغزوات مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وأمي تزوجت بغير أبي فأخذ داري وأكل مالي فصرت كما تراني عاريا جائعا حزيناً ذليلا فلما أتى يوم العيد رأيت الصبيان يلعبون فتشدد حزني فبكيت فقال له النبي صلى الله عليه وسلم أما ترضى أن أكون لك أبا وعائشة أما وفاطمة أختا وعلي عما والحسن والحسين إخوة فقال له الصبي كيف لا أرضى يارسول الله فأخذه النبي صلى الله عليه وسلم وتوجه به إلى داره فأطعمه وألبسه لباس العيد فخرج الصبي يلعب مع الصبيان فقال له الصبيان كنت واقفاً بيننا الآن تبكي وما يضحكك الآن فقال لهم كنت جائعا فشبعت وكنت عاريا فكسيت وكنت بغير ابي فأصبح رسول الله أبي وعائشة أمي وفاطمة أختي وعلي عمي والحسن والحسين إخوتي فقال له الصبيان ياليت آباءنا ماتوا في أحد الغزوات مع رسول الله صلى الله عليه.
▪️ *واقعہ پر کلام* ▪️
وقصة اليتيم التي تقرأ علي المنابر ايام الاعياد وفيها: وجده يبكي يوم العيد فقال له:ايها الصبي! مالك تبكي؟ فقال: دعني فان ابي مات في الغزو مع رسول الله، وليس لي طعام ولا شراب، فاخذه بيده وقال: اما ترضي ان اكون لك ابا، وعائشة اما؟ الخ.
⚠️ وقد فتشت عليها كثيرا في الكتب فلم اجدها الا في كتاب (التحفة المرضية) وهو قد حوي من الخرافات والاكاذيب والترَّهات شيئا كثيرا،وقد جعلها الرويني في ديوانه خطبة لعيد الفطر، فاحذروا الكذب علي رسول الله فوق المنابر.
٭ المصدر: السنن والمبتدعات
٭ المؤلف: الشقيريؒ
٭ الصفحة: 107
٭ الطبع: دار الشريعة، قاهرة، مصر.
🔖 *کتب حذر منہا العلماء میں*
اؔبو عبیدہ مشہور بن حسن آل سلمان نے اپنی کتاب "کتب حذر منھا العلماء" میں بہی اس کا رد کیا ھے.
٭ المصدر: كتب حذر منها العلماء
٭ المؤلف: مشهور بن حسنؒ
٭ المجلد: 2
٭ الصفحة: 212
٭ الطبع: دار الصميعي، الرياض،السعودية.
📌 *التصدی للبدع والاباطیل میں*
اس واقعہ کو "اشرف بن ابراہیم قطقاط" نے بہی غیر ثابت بتایا ھے۔
* المصدر: التصدي للبدع والاباطيل
* المؤلف: أشرف بن إبراهيم قطقاط
* المجلد: 2
* الصفحة: 130
* الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
⏹️ *ایک دوسرا واقعہ*
اسی سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ بسند ضعیف "حیاۃ الصحابۃ" از : «شیخ یوسف کاندھلویؒ» وغیرہ میں موجود ھے جسکو بیان کیا جاسکتا ہے : حضرت بشیر بن عقربہ جہنیؓ صحابی کی حضورؐ سے غزوہ احد میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے نبی کریمؐ سے معلوم کیا: میرے والد کا کیا بنا؟ جواب ملا: کہ راہ خدا میں شہید ہوگئے , تو وہ رونے لگے حضورؐ نے ان کو لیا اور سر پر دست شفقت پھیرا اور اپنے ساتھ کرلیا اور فرمایا: کیا تو اس بات سے خوش نہیں کہ میں تیرا باپ اور عائشہؓ تیری ماں کہلائے؟
🔰 عَنْ بَشِيرِ بْنِ عَقْرَبَةَ الْجُهَنِيِّ ، قَالَ : لَقِيتُ رَسُولَ الله صلى الله عليه وسلم يَوْمَ أُحُدٍ فَقُلْتُ : مَا فَعَلَ أَبِي؟ فَقَالَ : " اسْتُشْهِدَ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهِ "، فَبَكَيْتُ، فَأَخَذَنِي فَمَسَحَ رَأْسِي وَحَمَلَنِي مَعَهُ، وَقَالَ : " أَمَا تَرْضَى أَنْ أَكُونَ أَنَا أَبُوكَ وَتَكُونَ عَائِشَةُ أُمَّكَ "
÷ المصدر: مجمع الزوائد
÷ المجلد: 8
÷ الصفحة: 207
÷ الرقم: 13517
÷ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
÷ الدرجة: فيه من لا يعرف.
💠 *الاصابة ميں بهي*
٭ المصدر: الإصابة في تمييز الصحابةؓ
٭ المؤلف: ابن حجر العسقلانيؒ
٭ المجلد: 1
٭ الصفحة: 433
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
وﷲ تعالی اعلم
✍🏻 ... کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
۱۸ مئ: ۲۰۲۰ء
ایک مرتبہ ہمارے پیارے نبیﷺ نماز عید کے لیے نکلے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ سب بچے کھیل رہے ہیں مگر ان میں ایک بچہ ایک طرف بیٹھا رو رہا ہے اور اس کے کپڑے بھی پھٹے پرانے ہیں۔
پیارے نبیﷺ نے اس بچے سے فرمایا: "بیٹا کیا بات ہے تو رو رہا ہے اور بچے کے ساتھ کھیلتا نہیں"
غالباً بچہ نہیں جانتا ہوگا کہ اس کے مخاطب ہمارے پیارے نبیﷺ ہیں۔ یا پریشانی کی وجہ سے نہیں پہچان سکا ہوگا اس لیے اس نے کہا صاحب مجھے میرے حال پر چھوڑ دیجئے دراصل میرا باپ فلاں غزوے میں ہمارے پیارے نبیﷺ کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے شہید ہوگیا تھا میری ماں نے دوسرا نکاح کر لیا۔ وہ میرا مال کھا گئے اور میرے سوتیلے باپ نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے۔ اب میرے پاس نہ کھانا ہے نہ پینا نہ کپڑا نہ گھر۔ جب میں نے ان بچوں کو کھیلتے اور نئے کپڑے پہنے دیکھا تو میرا غم تازہ ہوگیا اسی لیے رو پڑا- ہمارے پیارے نبیﷺ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کیا تو اس بات پر راضی نہیں ہے میں تیرا باپ عائشہؓ تیری ماں فاطمہؓ تیری بہن علیؓ تیرے چاچا اور حسنؓ و حسینؓ تیرے بھائی ہوں- کہنے لگا یارسول اللہﷺ اس پر میں کیسے راضی نہیں ہو سکتا- ہمارے پیارے نبیﷺ اسے گھر لے آئے اور اسے خوب صورت کپڑے پہنائے نہلایا دھلایا اور کھانا کھلایا- وہ خوش وخرم باہر نکلا تو لڑکوں نے پوچھا ابھی تو تو رو رہا تھا اور اب بڑا خوش وخرم ہے بات کیا ہوئی ہے وہ کہنے لگا میں بھوکا تھا اللہ تعالیٰ نے میرے کھانے کا انتظام کردیا میں ننگا تھا الله تعالی نے میرے کپڑے کا انتظام کردیا- اور اب میرے باپ رسول اللہﷺ ماں سیدہ عائشہؓ بہن سیدہ فاطمہؓ چچا سیدنا علیؓ اور بھائی حسن وحسینؓ بن چکے ہیں- یہ سن کا لڑکے کہنے لگے کاش آج ہمارے باپ بھی نہ ہوتے- یہ لڑکا ہمیشہ ہمارے پیارے نبیﷺ کی زیرکفالت رہا- حتی کہ جس دن آپﷺ نے وصال فرمایا تو یہ بچہ رو رہا تھا اور کہہ رہا تھا افسوس میں آج پھر یتیم اور غریب ہوگیا- اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے اس کو اپنے ساتھ ملا لیا-
(بحوالہ: پیارے نبی صلی اللہ علیه وسلم کے پیارے واقعات. ناشر: اسلامی کتب خانہ, کراچی)
اس واقعہ کی تحقیق مطلوب ھے!!!
••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*
یہ واقعہ عیدین میں بالخصوص نبی پاکؐ کی یتیموں سے محبت و شفقت کے عنوان سے خطباء بہت بیان کرتے ہیں؛ اور اس کے کثرت بیان سے یہ اس قدر مشہور ہوا کہ لگتا ھے کہ واقعتا یہ واقعہ درست ہوگا( یہ الگ بات ھے یتیموں و بے سہاراؤں سے حضور مقبولؐ کو بہت پیار و محبت تہی) لیکن جب تحقیق کی گئ تو ظاہر ہوا یہ واقعہ سرے سے ثابت بالسند نہیں ھے؛ لہذا اس کو بیان کرنے سے احتراز کیا جائے۔ اس عنوان سے مستند واقعات سیرت و کتب حدیث سے بیان کیے جایئں۔
🔰 *واقعہ کی عربی عبارت* 🔰
خرج النبي صلى الله عليه وسلم يوم العيد لأجل صلاة العيد
فرأى الصبيان يلعبون ووجد صبيا واقفاً يبكي فقال له النبي صلى الله عليه وسلم مايبكيك أيها الصبي فقال له الصبي وهو لم يعرف إنه النبي صلى الله عليه وسلم دعني أيها الرجل فإن ابي مات في أحد الغزوات مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وأمي تزوجت بغير أبي فأخذ داري وأكل مالي فصرت كما تراني عاريا جائعا حزيناً ذليلا فلما أتى يوم العيد رأيت الصبيان يلعبون فتشدد حزني فبكيت فقال له النبي صلى الله عليه وسلم أما ترضى أن أكون لك أبا وعائشة أما وفاطمة أختا وعلي عما والحسن والحسين إخوة فقال له الصبي كيف لا أرضى يارسول الله فأخذه النبي صلى الله عليه وسلم وتوجه به إلى داره فأطعمه وألبسه لباس العيد فخرج الصبي يلعب مع الصبيان فقال له الصبيان كنت واقفاً بيننا الآن تبكي وما يضحكك الآن فقال لهم كنت جائعا فشبعت وكنت عاريا فكسيت وكنت بغير ابي فأصبح رسول الله أبي وعائشة أمي وفاطمة أختي وعلي عمي والحسن والحسين إخوتي فقال له الصبيان ياليت آباءنا ماتوا في أحد الغزوات مع رسول الله صلى الله عليه.
▪️ *واقعہ پر کلام* ▪️
وقصة اليتيم التي تقرأ علي المنابر ايام الاعياد وفيها: وجده يبكي يوم العيد فقال له:ايها الصبي! مالك تبكي؟ فقال: دعني فان ابي مات في الغزو مع رسول الله، وليس لي طعام ولا شراب، فاخذه بيده وقال: اما ترضي ان اكون لك ابا، وعائشة اما؟ الخ.
⚠️ وقد فتشت عليها كثيرا في الكتب فلم اجدها الا في كتاب (التحفة المرضية) وهو قد حوي من الخرافات والاكاذيب والترَّهات شيئا كثيرا،وقد جعلها الرويني في ديوانه خطبة لعيد الفطر، فاحذروا الكذب علي رسول الله فوق المنابر.
٭ المصدر: السنن والمبتدعات
٭ المؤلف: الشقيريؒ
٭ الصفحة: 107
٭ الطبع: دار الشريعة، قاهرة، مصر.
🔖 *کتب حذر منہا العلماء میں*
اؔبو عبیدہ مشہور بن حسن آل سلمان نے اپنی کتاب "کتب حذر منھا العلماء" میں بہی اس کا رد کیا ھے.
٭ المصدر: كتب حذر منها العلماء
٭ المؤلف: مشهور بن حسنؒ
٭ المجلد: 2
٭ الصفحة: 212
٭ الطبع: دار الصميعي، الرياض،السعودية.
📌 *التصدی للبدع والاباطیل میں*
اس واقعہ کو "اشرف بن ابراہیم قطقاط" نے بہی غیر ثابت بتایا ھے۔
* المصدر: التصدي للبدع والاباطيل
* المؤلف: أشرف بن إبراهيم قطقاط
* المجلد: 2
* الصفحة: 130
* الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
⏹️ *ایک دوسرا واقعہ*
اسی سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ بسند ضعیف "حیاۃ الصحابۃ" از : «شیخ یوسف کاندھلویؒ» وغیرہ میں موجود ھے جسکو بیان کیا جاسکتا ہے : حضرت بشیر بن عقربہ جہنیؓ صحابی کی حضورؐ سے غزوہ احد میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے نبی کریمؐ سے معلوم کیا: میرے والد کا کیا بنا؟ جواب ملا: کہ راہ خدا میں شہید ہوگئے , تو وہ رونے لگے حضورؐ نے ان کو لیا اور سر پر دست شفقت پھیرا اور اپنے ساتھ کرلیا اور فرمایا: کیا تو اس بات سے خوش نہیں کہ میں تیرا باپ اور عائشہؓ تیری ماں کہلائے؟
🔰 عَنْ بَشِيرِ بْنِ عَقْرَبَةَ الْجُهَنِيِّ ، قَالَ : لَقِيتُ رَسُولَ الله صلى الله عليه وسلم يَوْمَ أُحُدٍ فَقُلْتُ : مَا فَعَلَ أَبِي؟ فَقَالَ : " اسْتُشْهِدَ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهِ "، فَبَكَيْتُ، فَأَخَذَنِي فَمَسَحَ رَأْسِي وَحَمَلَنِي مَعَهُ، وَقَالَ : " أَمَا تَرْضَى أَنْ أَكُونَ أَنَا أَبُوكَ وَتَكُونَ عَائِشَةُ أُمَّكَ "
÷ المصدر: مجمع الزوائد
÷ المجلد: 8
÷ الصفحة: 207
÷ الرقم: 13517
÷ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
÷ الدرجة: فيه من لا يعرف.
💠 *الاصابة ميں بهي*
٭ المصدر: الإصابة في تمييز الصحابةؓ
٭ المؤلف: ابن حجر العسقلانيؒ
٭ المجلد: 1
٭ الصفحة: 433
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
وﷲ تعالی اعلم
✍🏻 ... کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
۱۸ مئ: ۲۰۲۰ء
No comments:
Post a Comment