Friday, October 23, 2020

حضرت علی و فاطمہ کی سخاوت

 ••• *حضرت علی و فاطمہ کی سخاوت* •••



ایک مرتبہ جب حضرت امام حسن اورامام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہا دونوں بیمار ہوگئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر تشریف لے گئے اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’ان کے لئے نذر کرو۔ منت مانو‘‘۔

 سیدنا علی رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا اوران کی خادمہ حضرت ثوبیہ رضی اللہ عنھا تینوں نے منت مان لی کہ اگر یہ شفا یاب ہوگئے تو ہم تین روزے رکھیں گے۔ چنانچہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے شمعون جو خیبر  کا یہودی تھا سے کچھ قرض لیا اور ایک روایت میں ہے کہ کام کرکے اجرت کے طور پر کچھ لیا اور ان تھوڑے سے پیسوں سے سحری و افطاری کا اہتمام کیا۔ پہلے دن جب افطار کا وقت ہوا تو دروازے پر آ کر ایک شخص نے آواز دی۔ اے اہل بیت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھوکا ہوں۔ سیدہ کائنات رضی اللہ عنھا نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا اور روٹی کے ساتھ جو کھانا پکا تھا وہ سارا اُٹھا کر مسکین کو دے دیا اور خود پانی سے روزہ افطار کیا۔ اگلے دن روزہ رکھا جوبچا تھا وہ پکایا۔ افطار کا وقت ہوا تو ایک اور سائل آگیا۔ اس نے کہا کہ میں یتیم ہوں تو سارا پکا ہوا کھانا اس یتیم کو دے دیا اورخود پانی سے روزہ افطار کر لیا۔ تیسرے دن روزہ رکھا پھر سائل آگیا۔ اس نے کہا کہ میں قیدی ہوں خدا کے لئے مجھے دیں۔ میں بھوکاہوں۔ پھر سب کچھ اس کو دے دیا اور خود پانی سے روزہ افطار کیا۔ یوں تینوں دن جب روزہ پانی سے افطار ہوتا رہا۔ منت پوری کرنے سے امام حسن رضی اللہ عنہ اور امام حسین رضی اللہ عنہ  شفایاب ہو تو گئے تھے مگر بھوک کی وجہ سے ان کے پیارے پیارے چہرے مرجھاگئے۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اورخاتون جنت حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنھا کے چہرے بھی مرجھا گئے تھے اور ان کا پیٹ اندر کی طرف لگ گیا۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی المرتضی، حسنین کریمین، سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہم کا چہرہ دیکھا تو پوچھا : کیا ماجرا ہے؟ انہوں نے بتایا : آقا علیہ السلام یہ واقعہ ہوا ہے۔ بس اتنی بات ہوئی تھی اور ابھی آقا علیہ السلام کے دل میں تھوڑا سا دکھ آیا ہی تھا کہ میری شہزادی بیٹی نے کتنی قربانی دی ہے؟ میرے شہزادوں نے تین دن کیسے بھوک سے گذارے کہ اسی اثنا میں جبریل علیہ السلام اترے اورحاضر ہو کر عرض کرنے لگے۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ لیجئے سورۃ الدھر کی آیات۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ان کے گھرانے کے لئے تحفہ بھیجی ہیں۔ اس لئے کہ جب انہوں نے نذر مانی تھی تو افطار کے وقت وہ اللہ کی محبت میں کسی دن مسکین، کسی دن یتیم اور کسی دن قیدی کو کھانا کھلا دیتے تھے۔ اس کے بعد جبرئیل علیہ السلام نے سورۃ الدھر کی درج ذیل آیات تلاوت کیں۔

يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًاo وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًاo إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًاo

(الدهر، 76 : 7 - 10)

’’(یہ بندگانِ خاص وہ ہیں) جو (اپنی) نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جن کی سختی خوب پھیل جانے والی ہے اور اپنا کھانا اللہ کی محبت میں (خود اس کی طلب و حاجت ہونے کے باوجود ایثاراً) محتاج کو اور یتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) ہم تو محض اللہ کی رضا کے لئے تمہیں کھلا رہے ہیں۔ نہ تم سے کسی بدلہ کے خواستگار ہیں اور نہ شکر گزاری کے (خواہشمند) ہیں۔ ہمیں تو اپنے رب سے اس دن کا خوف رہتا ہے جو (چہروں کو) نہایت سیاہ (اور) بدنما کردینے والا ہے‘



( اس واقعے کی تحقیق و حوالہ مطلوب ھے!!!)


••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق*:


 یہ واقعہ متعدد کتبِ تفسیر میں منقول ھے ہم بطور مثال " تفسیر کشاف " کا حوالہ ذکر کرتے ہیں:


💠 *تفسیر کشاف*💠


وعن ابن عباس رضى الله عنه: أنّ الحسن والحسين مرضا، فعادهما رسول الله ﷺ في ناس معه، فقالوا: يا أبا الحسن، لو نذرت على ولدك، فنذر علىّ وفاطمة وفضة جارية لهما إن برآ مما بهما: أن يصوموا ثلاثة أيام، فشفيا وما معهم شيء، فاستقرض علىّ من شمعون الخيبري اليهودي ثلاث أصوع من شعير، فطحنت فاطمة صاعا واختبزت خمسة أقراص على عددهم، فوضعوها بين أيديهم ليفطروا فوقف عليهم سائل فقال:السلام عليكم أهل بيت محمد، مسكين من مساكين المسلمين، أطعمونى أطعمكم الله من موائد الجنة، فآثروه وباتوا لم يذوقوا إلا الماء، وأصبحوا صياما، فلما أمسوا ووضعوا الطعام بين أيديهم وقف عليهم يتيم، فآثروه، ووقف عليهم أسير في الثالثة، ففعلوا مثل ذلك، فلما أصبحوا أخذ على رضى الله عنه بيد الحسن والحسين وأقبلوا إلى رسول الله ﷺ، فلما أبصرهم وهم يرتعشون كالفراخ من شدّة الجوع قال: ما أشد ما يسوؤني ما أرى بكم، وقام فانطلق معهم فرأى فاطمة في محرابها قد التصق ظهرها ببطنها وغارت عيناها. فساءه ذلك، فنزل جبريل وقال: خذها يا محمد هنأك الله في أهل بيتك فأقرأه السورة.


٭ المصدر: تفسير الكشاف

٭ المفسر: جار الله الزمخشريؒ

٭ المجلد:  4

٭ الصفحة: 657

٭ الطبع: دار الكتب العلمية،بيروت، لبنان.


🔰 *واقعے کی حقیقت* 🔰


اس واقعے کو گرچہ واعظین و مفسرین نے اپنی کتب و بیانات میں جگہ دی ھے؛ لیکن محدثین کے نزدیک یہ واقعہ من گھڑت اور غیر مستند ھے؛ ہم اس بارے میں  محدثین کی جو  آراء ہیں ان کا حوالہ (عبارت سے صرف نظر کرتے ہوئے)  اختصار کے پیش نظر ذکر کرینگے :



1️⃣ *کتاب الموضوعات میں*


"امام ابن الجوزیؒ" نے اسکے بارے میں کہا: اس کے من گھڑت ہونے میں شک و شبہ نہیں ھے۔ 


وهذا حديث لا يشك في وضعه ولو لم يدل على ذلك إلا الأشعار الركيكة والأفعال التي يتنزه عنها أولئك السادة، قال يحيى بن معين: "أصبغ بن نباتة لا يساوي شيئا"، وقال أحمد بن حنبل: "حرقنا حديث محمد بن كثير، وأما أبو عبد الله السمرقندي فلا يوثق به".


÷  المصدر: كتاب الموضوعات 

÷  المحدث: ابن الجوزيؒ 

÷  المجلد: 1

÷  الصفحة: 390

÷  الطبع: المكتبة السلفية، المدينة المنورة،


2️⃣ *نوادر الاصول میں*


حکیم ترمذیؒ نے " نوادر الاصول" میں لکہا: یہ بنائی ہوئی بات ھے اسکا واضع قابل مذمت ھے:


هذا حديث مزوق، قد تطرف فيه صاحبه حتي يشبه علي المستمعين، والجاهل يعض علي  شفتيه تلهفا الا يكون بهذه الصفة، ولا يدري أن صاحب هذا الفعل مذموم.


★ المصدر: نوادر الاصول 

★ المحدث: حكيم الترمذيؒ

★ المجلد: 1

★ الصفحة: 246

★ الطبع: دار الجيل، بيروت، لبنان.


3️⃣ *اللآلي المصنوعة ميں*


امام سیوطیؒ نے بھی اسکا رد فرمایا ھے: 


قال الحكيم الترمذي في نوادر الأصول: ومن الحديث الذي تنكره القلوب حديث رواه ليث، عن مجاهد، عن ابن عباس في قوله تعالى: )يوفون بالنذر ويخافون يوما كان شره مستطيرا  ويطعمون الطعام على حبه مسكينا ويتيما وأسيرا .


※ المصدر: اللآلي المصنوعة

※ المحدث: الامام السيوطيؒ 

※ المجلد: 1

※ الصفحة: 371

※ الطبع: دار المعرفة، بيروت، لبنان.



وﷲ تعالی اعلم

✍🏻... کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

۲۳ اکتوبر: ؁۲۰۲۰ء

No comments:

Post a Comment