Friday, January 29, 2021

علماء کو تجارت ضروری

 ▪️ *علماء کو تجارت ضروری* ▪️


    یہ بات اظہر من الشمس ھے کہ ہر انسان کو اس دنیا میں رہتے ہوئے کسبِ معاش کے جائز اور حلال طریقے اپنانا ناگزیر ھے؛ لیکن علماء و طلبہ کو بھی یہ بات ذہن نشین کرلینی ضروری ھے کہ تدریس و تعلیم کے ساتھ ساتھ کوئی نہ کوئی کام و تجارت بھی ہونی چاہئے یا وہ کوئی فن و صنعت سیکہیں!


چونکہ معاش انسان کی طبعی ضرورت ہے تو اس ضرورت کو طبعی ذرائع معاش کے ذریعہ ہی پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، معاش کے طبعی ذرائع تین چیزیں ہیں:

(1) زراعت۔

( 2) صنعت وحرفت۔

(3) تجارت۔

یاد رکھیں! ملازمت طبعی ذریعہ معاش نہیں ہے اس لئے حتی الامکان اس غیر فطری طریقۂ معاش سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے اور آزاد پیشہ اختیار کرنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔ علماء کرام کا بڑا طبقہ اسی غیر فطری ذریعۂ معاش سے وابستہ ہے جسکا نتیجہ دوسروں کی محتاجی اور حق گوئی سے محرومی ہے۔ملازمت میں مالک اپنی ضرورت کے پیش نظر اجرت دیتا ہے جس کام کی جتنی زیادہ ضرورت اسکی اتنی ہی زیادہ اجرت ہوتی ہے۔عوام کے نزدیک “علماء کرام” عوام کی اہم اور اضطراری ضرورت نہیں ہے، بلکہ صرف اختیاری ضرورت ہے۔جس کا دل چاہتا ہے دینی امور کی رہنمائی “علماء کرام” سے حاصل کرتا ہے اور جس کا دل نہیں چاہتا وہ حاصل نہیں کرتا ہے۔مسلم معاشرہ کا بڑا طبقہ بے نمازی ہے اس لئے اس کو امام کی ضرورت کا احساس نہیں ہوتا ہے۔ لہذا “علماء کرام و ائمہ مساجد” آج عوام کی نظر میں اہم ضرورت نہیں ہے۔ اسی لئے علماء کرام اور ائمہ مساجد کو دنیا کی قلیل ترین اجرت سے نوازا جاتا ہے، جس کانام بھی تن خواہ رکھا جاتا ہے، اس کا تلخ تجربہ ملک کے موجودہ حالات نے “علماء کرام اور ائمہ مساجد” کو بخوبی کرایا ہے جس کے نتیجہ میں یہ احساس بھی پیدا ہوا کہ علمائے کرام کو ایسا ذریعہ معاش اختیار کرنا چاہئیے، جس میں وہ عوام الناس کے محتاج نہ رہیں۔انسان کی بہترین آمدنی وہ ہے جس کو وہ اپنے ہاتھ سے پیدا کریں۔ نہ کہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر حاصل کریں۔لہذا علماءکرام اپنی قسمت عوام کے ہاتھ فروخت کرنے سے اجتناب کریں اور آزاد ذریعۂ معاش اختیار کریں۔ دینی خدمات مساجد و مدارس میں غلامی نما ملازمت کی بیڑی پیروں میں ڈالنے کی محتاج نہیں ہے۔

علماء کرام آزاد پیشہ کے ساتھ بھی دینی خدمات انجام دے سکتے ہیں۔علماء کرام آزاد پیشہ اختیار کرنے کی کوشش کریں تاکہ عوام کی محتاجگی نہ رہیں جس کے نتیجہ میں علماء کرام خود مختاری اور خوداری کی زندگی بسر کرسکیں گے۔ نیز اپنا ضمیر اور دین و ایمان بچا سکیں گے ؛ کیونکہ روایت میں ھے : کہ بنا درہم و دینار زندگی بھی پُرسکون نہیں اور دین بچانا بہی آسان نہیں, نیز حلال مال مرد صالح کیلیے بہترین سرمایہ ھے: 



💟 *مجمع الزوائد* 💟


قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: يا عمرو!  نِعِمَّا بالمال الصالح للمرء الصالح.


٭ المصدر: مجمع الزوائد 

٭ المجلد: 9

٭ الصفحة: 27

٭ الرقم: 6302

٭ الدرجة: ضعيف

٭ الطبع: دار المنهاج، جدة، السعودية.



🔮 *المعجم الكبير* 🔮


حضرت مقدام بن معدی کرب صحابی رسول ہیں , بازار میں دودھ فروخت کر رھے ہیں کسی نے معلوم کرلیا : حضرت! آپ بہی تجارت کرتے ہیں؟ فرمایا: جی ہاں! نبی کریم کا ارشاد ھے: آخر زمانے میں لوگوں کو درہم و دینار کے بغیر دین و دنيا سنبھالنا مشکل ہوجایئگا:


عن حبیب بن عبید قال: رأيت المقدام بن معدي كرب جالسا في السوق، وجارية له تبيع لبنا،وهو جالس ياخذ الدراهم، فقيل له في ذلك: فقال: سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم: يقول:  إذا كان في آخِرِ الزمانِ لا بُدَّ للناسِ فيها من الدراهِمِ والدَّنانِيرِ ، يُقِيمُ الرجلُ بها دِينَه ودُنْياهُ.


٭ المصدر: المعجم الكبير 

٭ المجلد: 20

٭ الصفحة: 279

٭ الرقم: 660

٭ الدرجة: ضعيف

٭ الطبع: مكتبة ابن تيمية، قاهرة، مصر.



🔰 *مجمع الزوائد* 🔰


درہم و دینار مال و دولت کے بنا زندگی میں مزہ ہی نہیں: 


عن المقدام بن معدي كرب، عن النبي صلي الله عليه وسلم: ياتي علي الناس زمان، من لم يكن معه اصفر، ولا أبيض لم يتهنَّ بالعيش.


٭ المصدر: مجمع الزوائد

٭ المجلد: 9

٭ الصفحة: 29

٭ الرقم: 6304

٭ الدرجة: ضعيف

٭ الطبع: دار المنهاج، جدة، السعودية.


والله تعالي اعلم

✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار صديقي*

29 جنوري: 2021

No comments:

Post a Comment