Monday, February 8, 2021

اونٹ خریدنے کا واقعہ

 ▪️ *اونٹ خریدنے کا واقعہ* ▪️


 رضاخانی مشہور واعظ " ثاقب رضا مصطفائی " بیان کرتے ہیں


ایک دن حضور اکرم  سیر کرتے کرتے مدینہ منورہ سے باہر کسی چراگاہ میں تشریف لے گئے، وہاں کسی قافلے نے پڑاؤ کیا ہوا تھا، اس جگہ قافلے والوں کے سرخ رنگ کے کچھ اونٹ چر رہے تھے، ان اونٹوں میں سے ایک اونٹ حضور نبی کریم صلی الله علیہ وآله واصحابہ وسلم کو پسند آگیا، اس اونٹ کے نصیب کہ وہ حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو پسند آگیا، حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے قافلے والوں سے پوچھا کہ یہ اونٹ بیچتے ہو؟ قافلے والوں نے پتہ نہیں اونٹ بیچنا تھا یا نہیں، مگر حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پوچھنے پر قافلے والوں نے کہا: جی بیچنا ہے، پوچھا گیا کتنےکا بیچنا ہے؟ کہا گیا: اتنے کا بیچنا ہے، سودا طے ہونے لگا، حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے میں اس اونٹ کو خریدتا ہوں، اونٹ کی قیمت تو طے ہو چکی ہے، بات یہ ہے کہ میں گھر سے اونٹ خریدنے کی نیت سے تو نکلا نہیں تھا، یہ تو سیر کے لئے چلتے چلتے یہاں آ پہنچا اور مجھے اونٹ پسند آگیا، قیمت تو ساتھ لے کر نکلا نہیں، اس لئے ابھی اونٹ کی قیمت ادا کرنے کے لئے میرے پاس تو کچھ نہیں ہے، ہاں میں واپس جا کر اس اونٹ کی قیمت آپ کو بھیج دیتا ہوں، قافلے والوں نے کہا: ہمیں منظور ہے، قافلے والے کافی دیر حضور نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کو دیکھتے رہے، حضور نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ واصحابہ وسلم نے اونٹ پکڑا اور واپس مدینہ منورہ کی طرف چل دیئے،  قافلے والے حضور نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کے چلنے کی رفتار کے حسن میں کھو گئے، جب حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نظروں سے اوجھل ہو گئے تو قافلے والے اپنے دلوں پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہو گئے، تھوڑی دیر بعد جب وہ سکتے کی حالت سے باہر آئے تو ایک دوسرے سے پوچھنے لگے: یار یہ جو شخص ہم سے اونٹ لے کر چلا گیا کوئی جانتا ہے یہ کون تھا؟ کسی نے اس شخص کا پتہ بھی پوچھا تھا کہاں سے آیا اور وہ کہاں گیا؟ وہاں پر موجود افراد نے کہا: نہیں، ہم میں سے کوئی نہیں جانتا وہ شخص کون تھا، کہاں سے آیا اور اونٹ لے کر کہاں گیا ہے، اونٹ کا مالک بولا: یار یہ تو عجیب کہانی ہے، ایک شخص نے یہاں اونٹ کو پسند کیا، اس کی قیمت طے کی اور یہ بتا کر کہ میں اس کی قیمت واپس جا کر بھیج دیتا ہوں اونٹ لے کر چلا گیا، ہم میں سے کسی کو اپنا پتہ بھی نہیں بتایا نہ اپنی کوئی چیز ہمارے پاس گروی رکھی نہ ہی یہاں کسی کو اپنا ضامن رکھ کر گیا ہے، جب یہ باتیں ہو رہی تھیں تو قافلے والوں میں سے ایک شخص بولا: یار وہ شخص جب بول رہا تھا تو اس کے منہ سے نور جھڑکتا تھا، میں تو اس کے چہرے کی طرف ہی دیکھتا رہ گیا، پھر دوسرا شخص بھی بول اٹھا: ہاں یار جب وہ شخص مسکرا کر بات کر رہا تھا میں تو اس کے مسکرانے کے انداز میں ہی کھو کر رہ گیا، ایک اور شخص نے کہا: یار میں تو اس شخص کی زلفوں کے پیچ و خم میں ہی کھو گیا، ایک کہنے لگا کہ میں تو اس شخص کی آنکھوں میں ہی ڈوب کر رہ گیا..                      

قافلے میں موجود ہر شخص کی زبان پر بس ایک ہی بات تھی یار ہم تو اس شخص کے حسن میں اس طرح کھوۓ کہ کسی کو اس کا پتہ پوچھنا ہی یاد نہ رہا.

اونٹ کے مالک نے کہا: اب جو بھی ہوا سو ہوا، وہ شخص ہم سب کو اپنے حسن کا جادو دکھا کر ہمارا قیمتی اونٹ ہتھیا کر چلا گیا، اب وہ واپس نہیں آئےگا، جب اس شخص کی زبان سے یہ لفظ نکلا کہ وہ ہم سے ہمارا قیمتی اونٹ ہتھیا کر چلا گیا، تو اب تک خاموش بیٹھی قافلے کے سردار کی بیوی نے اپنے خیمے کا پردہ سرکایا اور اس (جملے کو کہنے والے) شخص کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: سنو اگر وہ شخص تمہیں تمہارے قیمتی اونٹ کی قیمت دینے نہ آیا تو میں اس کی ضامن ہوں، میں تمہیں اس اونٹ کی قیمت ادا کروں گی، اونٹ کا مالک بولا: اچھا تو آپ اس شخص کو جانتی ہیں؟ وہ عورت بولی: والله جانتی تو میں بھی اس شخص کو نہیں ہوں، پھر قافلے سے کوئی بولا: آپ جانتی نہیں تو اس کی ضمانت کیسے دے رہی ہیں؟ اس عورت نے کہا: جب آپ سب لوگ اس شخص سے اونٹ کا سودا طے کر رہے تھے تو اپنے خیمے کی اوڑھ سے میں نے اس شخص کا چہرہ دیکھا تھا بس میں نے اس کی ضمانت اسی لئے دی ہے کہ جس کا چہرہ اتنا سوہنا ہو وہ جھوٹا ہو ہی نہیں سکتا، اس بات کو ابھی تھوڑی ہی دیر گذری تھی کہ ایک شخص قافلے والوں کے پاس آیا اور ان کو مخاطب کرتے ہوئے بولا: یہ لو کھجوریں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے یہ کھجوریں آپ قافلے والوں کی ضیافت کے لئے بھیجی ہیں، ان کجھوروں سے اپنے اونٹ کی قیمت پوری کر لو، قافلے والوں نے کھجوریں نظرانہ لے کر آنے والے شخص کی بات سن کر کہا: ہم اونٹ کی قیمت کیا لیں گے، ہم تو خود اس کی اداؤں کے سامنے بک گئے ہیں.

قافلے والوں نے کجھوریں لانے والے شخص سے پوچھا: ہمیں یہ بتاؤ کہ وہ حسیں حسن والا سوہنا شخص رہتا کہاں ہے؟ اس شخص نے کہا: وہ جو سامنے نخلستان نظر آرہا ہے وہ جو کھجوروں کے جھنڈ دکھائی دے رہے ہیں وہی ڈیرہ ہے اس مدینے والے مدنی ماہی کا، اس کے بعد وہ پورا کا پورا قافلہ مدینہ منورہ میں حضور نبی کریم صلی الله علیہ وآله واصحابہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوا اور حضور نبی کریم صلی الله علیہ وآله واصحابہ وسلم کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر اسلام قبول کر لیا.


*کیا یہ پورا واقعہ درست ہے؟*


••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق:* 


   جی یہ واقعہ متعدد کتب میں محدثین نے ذکر کیا ھے, چند حوالہ جات ملاحظہ ہوں: 


🔳 *المواهب اللدنية* 🔳



 وفد طارق بن عبد الله وقومه, روى البيهي عن جامع بن شداد قال: حدَّثني رجل يقال له طارق بن عبد الله قال: إني لقائم بسوق ذي المجاز إذ أقبل رجل وهو يقول: أيها الناس, قولوا لا إله إلا الله تفلحوا، ورجَّع يتبعه يرميه بالحجارة يقول: يا أيها الناس, إنه كذاب فلا تصدقوه، فقلت من هذا؟ فقالوا: هذا غلام من بني هاشم يزعم أنه رسول الله. قلت: من ذا الذي يفعل هذا؟ قالوا: عمه عبد العزّى.

 قال: فيما أسلم الناس وهاجروا، خرجنا من الربذة نريد المدينة نمتار من تمرها، فلمَّا دنونا من حيطانها ونخلها قلنا: لو نزلنا فلبسنا ثيابًا غير هذه، فإذا رجل في طمرين له فسلم, وقال: من أين أقبل القوم؟ قلنا: من الربذة، قال: وأين تريدون؟ قلنا: نريد المدينة، قال: ما حاجتكم فيها؟ قلنا: نمتار من تمرها، قال: ومعنا ظعينة لنا، ومعنا جمل أحمر مخطوم، فقال: "أتبيعون جملكم هذا"؟ قالوا: نعم, بكذا وكذا صاعًا من تمر، فأخذ بخطام الجمل فانطلق، فلمَّا توارى عنَّا بحيطان المدينة ونخلها قلنا: ما صنعنا، والله ما بعنا جملنا ممن نعرف, ولا أخذنا له ثمنًا. قال: تقول المرأة التي معنا: والله لقد رأيت رجلًا كأنَّ وجهه قطعة القمر ليلة البدر، أنا ضامنة لثمن جملكم, وفي رواية ابن إسحاق: قالت الظعينة: فلا تلاوموا، لقد رأيت وجه رجل لا يغدر بكم، ما رأيت شيئًا أشبه بالقمر ليلة البدر من وجهه؛ إذ أقبل رجل فقال: أنا رسول رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إليكم، هذا تمركم, فكلوا واشبعوا واكتالوا، واستوفوا، فاكلنا حتي شبعنا، واكتلنا واستوفينا، ثم دخلنا المدينة، فلما دخلنا المسجد، إذا هو قائم علي المنبر، يخطب الناس، فأدركنا من خطبته وهو يقول: تصدقوا فان الصدقة خير لكم، اليد العليا خير من اليد السفلي.



٭ المصدر: المواهب اللدنية 

٭ المحدث: العلامة احمد القسطلاني

٭ المجلد: 2

٭ الصفحة: 199

٭ الطبع: المكتب الإسلامي، بيروت، لبنان.


🔆 *البداية والنهاية* 🔆


  امام ابن کثیر دمشقی نے بھی یہ واقعہ تاریخ ابن کثیر میں ذکر فرمایا ھے اور الفاظ وہی ہیں جو المواہب اللدنیہ میں بحوالہ بیہقی مذکور ہیں: 


٭ المصدر: البداية والنهاية 

٭ المجلد: 7

٭ الصفحة: 346

٭ الطبع: دار هجر للطباعة والنشر، جيزة، مصر.


✴️ *صحيح السيرة النبوية* ✴️


شیخ ابراھیم العلی نے سیرت کے متعلق ایک کتاب تالیف کی ھے جس میں انہوں نے التزام فرمایا ھے کہ وہ سیرت کے متعلق فقط روایات صحیحہ ذکر کریں گے ,ضعیف , من گھڑت اور دیگر خرافاتی روایات سے کتاب کو دور رکھیں گے , موصوف نے اس کتاب میں یہ واقعہ ذکر کیا ھے: 



∅ المصدر: صحيح السيرة النبوية

∅ المؤلف: إبراهيم العَلي

∅ الصفحة: 515

∅ الرقم: 802

∅ الطبع: دار النفائس، الأُرْدن.


🔮 *دلائل النبوة*🔮


  امام بیہقی نے دلائل النبوہ میں یہ واقعہ سندا ذکر کیا ھے, یہ وہی کتاب ھے جس کے حوالے سے علامہ قسطلانی نے المواھب اللدنیہ میں اور امام حافظ ابن کثیر نے تاریخ ابن کثیر میں بیان کیا ھے: 


أخبرنا أبو الحسين بن الفضل القطان، أنبأنا اسماعيل بن محمد الصَّفَّار، حدثنا محمد بن الجهم، حدثنا جعفر بن عون، حدثنا ابو جناب الكلبي، حدثنا جامع بن شداد المحاربي، قال: حدثنا رجل رجل من قومه يقال له "طارق بن عبد الله " الخ...


٭ المصدر: دلائل النبوة 

٭ المحدث: ابوبكر البيهقي 

٭ المجلد: 5

٭ الصفحة: 380

٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.


💎 *زاد المعاد* 💎


    امام ابن القیم الجوزی بہی اس کو ذکر کرنے والوں میں سے ہیں , اسکا ذکر انہوں نے " زاد المعاد" میں کیا ھے: 



• المصدر: زاد المعاد 

• المحدث: ابن القيم 

• الصفحة: 569

• الطبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.


💠 *الإحسان في تقريب صحيح ابن حبان* 💠


    ابن بلبان نے یہ روایت ذکر کی ھے: اور محقق د/ شعیب الارنؤوط نے اسکو صحیح کہا ھے: 


÷ المصدر: الاحسان في تقريب صحيح ابن حبان

÷ المحدث: ابن بلبان الفارسي

÷ المحقق: شعيب الارنؤوط

÷ المجلد: 14

÷ الصفحة: 517

÷ الرقم: 6562

÷  الطبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.


💟 *مستدرك حاكم* 💟


     امام حاکم نیشاپوری نے مستدرک میں یہ روایت ذکر کی ھے, اور امام شمس الدین ذھبی نے تلخیص میں اسکو صحیح کہا ھے: 


× المصدر: المستدرك للحاكم

× المجلد: 2

× الصفحة: 668

× الرقم: 4219

× الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.


🕯️ *خلاصۂ کلام* 🕯️


  سوال میں جس واقعے کے متعلق پوچھا گیا ھے اسکو خطیب نے طول دیا ھے واقعہ اتنا ھے: جب حضرت طارق بن عبد ﷲ اور ان کی قوم کے چند افراد( مسلمان ہونے کے بعد ) بغرض تجارت ( کھجور کی خرید و فروخت کیلیے ) مدینہ آئے تو مدینہ آنے سے قبل انہوں نے پڑاؤ ڈالا تاکہ سفر کی تکان اتارلیں اور لباس تبدیل کرلیں تبہی ایسا ہوا کہ ایک شخص جو پرانے کپڑوں میں ملبوس تہا آیا اور سلام کیا اور اہل قافلہ سے معلوم کیا : کون ہو؟ کہاں سے آرھے ہو, بتایا گیا : ہم ربذہ سے آرھے ہیں مدینہ منورہ کا ارادہ ھے , اور ہمارا مقصد کھجور کی فروخت ھے , اور قافلے والوں نے بتایا: ہمارے ساتھ کجاوے میں ایک پردہ نشیں خاتون بھی ھے اور ہمارے پاس سرخ اونٹ ھے جس کی ناک میں نکیل ہے, اس شخص ( حضور اکرم) نے کہا: وہ اونٹ فروخت کروگے؟ انہوں نے کہا: کہ ہاں! بیچ دیں گے اور بھاؤ طے ہوگیا , ابہی خریدار شخص نے قیمت ادا بہی نہ کی کہ وہ اونٹ لے کر چلا گیااور مدینہ کی آبادی میں اوجہل ہوگیا , اہل قافلہ حیران! کہ بنا قیمت دیئے ہی چلا گیا تبہی ان کی پردہ نشیں خاتون نے کہا: میں نے اس شخص کا چہرہ دیکھا ھے گویا چودھویں کا چاند تہا اسکو برا مت کہو! مجھے یقین ھے وہ دھوکہ نہیں دے گا اور میں گارنٹی لیتی ہوں اگر وہ قیمت ادا کرنے نہ آیا تو میں ادا کردونگی, تبہی ایک شخص آیا اور کہنے لگا: میں رسول خدا کا قاصد ہوں اور تمہاری قیمت کے طور پر کھجور لایا ہوں , ناپ لو , خیر قیمت پوری تہی , تب یہ قافلہ مدینہ میں داخل ہوا اور مسجد نبوی پہونچا دیکہا یہی شخص ( نبی اکرم) منبر پر کھڑے بیان فرمارھے ہیں اور راوی کہتے ھے: کہ مجھے ان کی تقریر میں یہ بات بخوبی یاد ھے وہ فرمارھے تھے صدقہ کیا کرو! کیونکہ صدقہ تمہارے لیے بہتر ھے, اور دینے والا ہاتھ مانگنے والے ہاتھ سے بہتر ھے۔ 



وﷲ تعالی اعلم

✍🏻... کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی* 

8 فروری : 2021

No comments:

Post a Comment