▪️ *جشنِ میلاد اور جھنڈے لگانا*▪️
بعض لوگ ماہِ ربیع الاول میں بالخصوص بارہ ربیع الاول کو اپنے گھروں اور عبادت گاہوں پر جہنڈے نصب کرتے ہیں اور حوالے کے طور پر کہتے ہیں کہ حدیث کی کتابوں میں ان جہنڈوں کا ذکر ھے کہ حضورؐ کی والدہ آمنہ نے بوقتِ ولادت رسول کعبے کی چھت پر من جانب ﷲ جہنڈے لگے دیکھے تھے ؛ لہذا جب رب تعالی اپنے حبیب صلی ﷲ علیہ وسلم کی دنیا میں آمد کی خوشی میں جہنڈے لگاتا ھے تو ہم کیوں نہ لگایئں؟
مفتی صاحب! ان جہنڈوں والی روایت کا حوالہ مع تحقیق مطلوب ھے!!!
••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*
امام اؔبونعیم اصفہانیؒ نے " دلائل النبوة " میں ولادت رسولؐ کے وقت کی بہت سی باتیں ایک طویل روایت میں ذکر کی ہیں جس میں مذکور ھے کہ حضرت آمنہ فرماتی ہیں: " میری نگاہوں کے آگے سے ساری آڑ اور رکاوٹ ہٹادی گئ اور مجھے مشرق اور مغرب تک کا سب نظر آنے لگا اور میں نے تین جہنڈے گڑے دیکھے ایک جہنڈا مشرق میں تہا , ایک مغرب میں تہا اور ایک کعبہ شریف کی چھت پر لگا ہوا تہا...
☪️ فكُشف لي عن بصري، فأبصرتُ ساعتي مشارق الأرض ومغاربها، ورأيتُ ثلاث أعلام مضروبات، علم في المشرق، وعلم في المغرب، وعلَمٌ علي ظهر الكعبة ...
٭ المصدر: دلائل النبوة
٭ المحدث: أبونعيم الأصبهانيؒ
٭ الجزء: 2
٭ الصفحة: 611
٭ الرقم: 555
٭ الطبع: دار النفائس، بيروت، لبنان.
⏹️ امام جلال الدین سیوطیؒ نے "خصائص کبری" میں تین طویل روایتیں ذکر کی ہیں جن کا موضوع بہی ولادت رسولؐ ہے اور اس میں ایک روایت کے ضمن میں اسی طرح کے تین جہنڈوں کا ذکر انہوں نے بھی شیخ ابونعیم اصفہانیؒ کی اتباع میں کیا ھے ؛ لیکن روایت کے اختتام کے بعد اپنا موقف بھی لکھا ھے: کہ یہ باتیں انتہائی ناقابل بیان تہیں ؛ البتہ میں نے شیخ اصفہانی کی اتباع میں ذکر کردی ہیں اور یہ سب بادلِ ناخواستہ ہوا ھے:
★ فكشف الله عن بصري، وأبصرتُ تلك الساعة مشارق الأرض ومغاربها، ورأيت ثلاثة أعلام مضروبات، علَمًا في المشرق، وعلما في المغرب، وعلما علي ظهر الكعبة ....
وقال السيوطي بعد ذكرها:
قلتُ: هذا الأثر والأثران قبلها فيها نكارة شديدة، ولم أورد في كتابي هذا أشد نكارة منها، ولم تكن نفسي لتطيب بإيرادها، لكني تبعت الحافظ أبانعيم في ذلك.
٭ المصدر: الخصائص الكبري
٭ المحدث : السيوطيؒ
٭ المجلد: 1
٭ الصفحة: 117/ 122
٭ الطبع: دار الكتب الحديثية، قاهرة، مصر.
••• *خلاصۂ کلام* •••
ان روایات سے حضور علیہ السلام کی ولادت کی خوشی میں جہنڈیاں لگانے کا ثبوت نہیں ھے اور ان سے استدلال کرنا بھی درست نہیں ؛ حضرت شیخ عبد الفتاح ابوغدہؒ " المصنوع" کے تحقیقی حاشیہ میں ذکر کرتے ہیں کہ ولادت کے موقع پر کچھ باتیں اس قدر مشہور ہوگئ ہیں کہ لگتا ھے وہ مستند ہیں حالانکہ وہ فقط مشہور ہیں جبکہ ان کا بیان کرنا جائز بھی نہیں ھے اور رہی یہ بات کہ جب انکا بیان سرے سے جائز ہی نہیں تو محدثین نے ایسی باتوں سے اپنی تالیفات کو کیوں بھرا ھے تو اسکے جواب میں لکہتے ہیں کہ وہ محدثین فقط ناقل ہیں انہوں نے خود صراحت کی ھے کہ جیسا ہم تک پہونچا ھے ہم نے بغیر کتربیونت کے وہ ذکر کردیا ھے ہم نے وہ اپنی طرف سے گھڑا نہیں ھے ؛ بلکہ ہم نے ذکر کردیا ھے جیسا ہم سے ذکر کیا گیا اور امام سیوطیؒ کا فرمان بھی نقل کیا ھے جو ہم نے اوپر کی سطروں میں ذکر کردیا ھے۔
※ ولا يغرنك ذكر بعض العلماء له في كتب السيرة أو التاريخ مثل أبي جرير الطبري في تاريخه 2/ 131-132، وأبي نعيم الاصفهاني في دلائل النبوة ص 96-99، والبيهقي في دلائل النبوة أيضا 1 / 67-71، .... فإن هؤلاء المؤلفين وأمثالهم رحمهم الله يذكرون في كتبهم هذه: كل ما ورد في الباب مماصح و مما لم يصح لتسجيله ومعرفته، وتمحيصه وغربلته، لا لصدقه وصحته،
قال الإمام ابن جرير الطبري في مقدمة تاريخه: وليعلم الناظر في كتابنا هذا أن اعتمادي في كل ما أحضرت ذكره فيه، إنما هو على ما رويت من الأخبار التي أنا ذاكرها فيه، والآثار التي أنا مسندها إلى رواتها، فما يكن في كتابي هذا من خبر ذكرناه عن بعض الماضين مما يستنكره قارئه أو يستشنعه سامعه من أجل أنه لم يعرف له وجها في الصحة ولا معنى في الحقيقة، فليعلم أنه لم يؤت في ذلك من قبلنا، وإنما أتي من قبل بعض ناقليه إلينا، وأنا إنما أدينا ذلك على نحو ما أدي إلينا.
٭ المصدر: المصنوع في معرفة الحديث الموضوع
٭ المحدث: ملا علي القارئؒ
٭ المحقق: الشيخ عبد الفتاح أبوغدة الشاميؒ
٭ الصفحة: 18/ 19
٭ الطبع: مكتب المطبوعات الإسلامية، حلب، الشام.
والله تعالي اعلم
✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*
14 اكتوبر، ء2022