Hadees,Huzoor Alehissalam ny
farmaya banda kehta hy mera maal mra mal..3 trah ka mal uska hy jo khaya jo
pehna or jo agey bhejdya baqi warisoun ka hy uska nhi..ek or Hadees bayan ki hy
rawi Hazrt Hasan Basri RaziAllahu Anhu kaha gya hy..Apney amwaal ko Zakaat sy
pak karo..apny bimaroun ka ilaj sadqey sy karo or jb balaen tumhari trf rukh
karen to dua sy or Allah k Huzur zaari sy Allah ki madad chaho..bimar ho to pehly
sadqa nikalo phr ilaj k lye jao or agey SADQA QAZA KO BADAL DETA HY TAQDEER KO
BADAL DETA HY..is k bad Hazrat Moosa Alehissalam ka jari booti wala waqiya hy
jo Allah ny unko ilaj btaya tha phr zakat maal ko pak krti hy or akhr mein
mazkoora bala 3 batoun wali hadees dohrakr ye kaha gya hy k agr ye mizaj nhi
rakhogey to musibatoun pr musibaten ati rhengi
*باسمہ تعالی*
*الجواب وبہ التوفیق:*
*الجواب وبہ التوفیق:*
علامہ پیر
ثاقب رضا مصطفائی ( دامت برکاتہم) کی ایک ویڈیو کلپ ھے, جس میں وہ فرماتے ہیں کہ
صدقہ اور زکات ادا کرنے کے متعدد فوائد ھیں, اور مال کی بیجا محبت ممدوح نہیں ھے؛
انہوں نے مزید فرمایا کہ اپنی بیماری کے علاج سے قبل صدقہ نکالا کریں؛ کیونکہ شفا
فقط اللہ کے ہاتھ ھے, ڈاکٹر محض دواء تجویز کرتا ھے, غرضیکہ انہوں نے یہ تمام بات
درست فرمائی ہیں,
پھر آخر میں ایک واقعہ حضرت موسی ع کا ذکر فرمایا: کہ ان کو ایک مرتبہ پیٹ درد کی شکایت ہوئی تو انہوں نے طور کا قصد کیا اور اللہ جل شانہ سے فریاد کی تو اللہ نے انکو کسی جڑی بوٹی کی طرف رہنمائی فرمائی ۔ تو ان کو شفاء ہوگئی,
پھر ایک مرتبہ حضرت موسی کو مذکورہ شکایت ہوئی تو اس بار وہ اللہ سے پوچھے بنا مذکورہ جڑی بوٹی لے آئے اور اسکو لستعمال کیا؛ لیکن اب کی بار شفاء حاصل نہ ہوسکی, تو اللہ نے فرمایا : کہ شفاء میرے دست قدرت میں ھے, جڑی بوٹی محض سبب ھے اور اسباب میں تاثیر اللہ کے حکم سے پیدا ہوتی ھے ؛ لہذا آپ کو مجھ سے معلوم کرکے جڑی بوٹی استعمال کرنا چاھئے تہی۔ اس واقعہ کی سندی حیثیت سے قطع نظر یہ بات درست ھے؛ کیونکہ اسباب میں تاثیر اللہ تعالی پیدا فرماتے ہیں انکی مرضی اور حکم کے بنا کسی چیز میں کوئی خصوصیت یا اثر نہیں ھوتا۔
پھر آخر میں ایک واقعہ حضرت موسی ع کا ذکر فرمایا: کہ ان کو ایک مرتبہ پیٹ درد کی شکایت ہوئی تو انہوں نے طور کا قصد کیا اور اللہ جل شانہ سے فریاد کی تو اللہ نے انکو کسی جڑی بوٹی کی طرف رہنمائی فرمائی ۔ تو ان کو شفاء ہوگئی,
پھر ایک مرتبہ حضرت موسی کو مذکورہ شکایت ہوئی تو اس بار وہ اللہ سے پوچھے بنا مذکورہ جڑی بوٹی لے آئے اور اسکو لستعمال کیا؛ لیکن اب کی بار شفاء حاصل نہ ہوسکی, تو اللہ نے فرمایا : کہ شفاء میرے دست قدرت میں ھے, جڑی بوٹی محض سبب ھے اور اسباب میں تاثیر اللہ کے حکم سے پیدا ہوتی ھے ؛ لہذا آپ کو مجھ سے معلوم کرکے جڑی بوٹی استعمال کرنا چاھئے تہی۔ اس واقعہ کی سندی حیثیت سے قطع نظر یہ بات درست ھے؛ کیونکہ اسباب میں تاثیر اللہ تعالی پیدا فرماتے ہیں انکی مرضی اور حکم کے بنا کسی چیز میں کوئی خصوصیت یا اثر نہیں ھوتا۔
_________________
خلاصۂ کلام:
وہ ویڈیو 3 باتوں پر مشتمل ھے
بندہ کا مال وہ ھے جو اس نے کھا لیا یا پی لیا یا پہن لیا, اسکے سوا جو مال ھے وہ تو ختم ہونا ھے یا ورثہ کے حصے میں آنا ھے۔
خلاصۂ کلام:
وہ ویڈیو 3 باتوں پر مشتمل ھے
بندہ کا مال وہ ھے جو اس نے کھا لیا یا پی لیا یا پہن لیا, اسکے سوا جو مال ھے وہ تو ختم ہونا ھے یا ورثہ کے حصے میں آنا ھے۔
روایت کی
تحقیق:
یہ روایت صحیح ابن حبان میں صحیح سند کے ساتھ مروی ھے۔
یہ روایت صحیح ابن حبان میں صحیح سند کے ساتھ مروی ھے۔
يقولُ العبدُ مالي وإنَّما له مِن مالِه
ثلاثةٌ:
ما أكَل فأفنأو ما أعطى فأبقى أو لبِس فأبلى وما سوى ذلك فهو ذاهبٌ وتارِكُه للنَّاسِ .
ما أكَل فأفنأو ما أعطى فأبقى أو لبِس فأبلى وما سوى ذلك فهو ذاهبٌ وتارِكُه للنَّاسِ .
الراوي: أبو
هريرة
المحدث: ابن حبان – المصدر: صحيح ابن حبان
الصفحة:35
الرقم: 3244
المجلد: 8
الطبع: مؤسسہ الرسالہ
خلاصة حكم المحدث: *صحیح*
•••••••••••••••••••••••
دوسری بات یہ ھے: کہ اپنے اموال کی زکات ادا کرکے حفاظت کریں, صدقہ سے بیماروں کا علاج کریں, دعا اور گریہ وزاری سے مصائب کا سامنا کریں!
المحدث: ابن حبان – المصدر: صحيح ابن حبان
الصفحة:35
الرقم: 3244
المجلد: 8
الطبع: مؤسسہ الرسالہ
خلاصة حكم المحدث: *صحیح*
•••••••••••••••••••••••
دوسری بات یہ ھے: کہ اپنے اموال کی زکات ادا کرکے حفاظت کریں, صدقہ سے بیماروں کا علاج کریں, دعا اور گریہ وزاری سے مصائب کا سامنا کریں!
یہ بات بہی
درست ھے؛ امام ابوداود نے اپنی مراسیل میں حضرت حسن بصری رح کے حوالے سے ذکر کی ھے,
حَصِّنوا أموالَكم بالزكاةِ ، ودَاوُوا مرضاكم بالصدقةِ ،
واستقبِلوا أمواجَ البلاءِ بالدُّعاءِ والتَّضرُّعِ .
الراوي: الحسن
البصري
المحدث: أبو داود – المصدر: المراسيل
الصفحة أو الرقم: 210
خلاصة حكم المحدث: أورده في كتاب المراسيل
•••••••••••••••••••••
المحدث: أبو داود – المصدر: المراسيل
الصفحة أو الرقم: 210
خلاصة حكم المحدث: أورده في كتاب المراسيل
•••••••••••••••••••••
تیسری بات
جو حضرت موسی کا قصہ ھے اسکی اصل عربی عبارت یہ ھے:
وفي الاسرائيليات: ” ان موسى بن عمران (ع) اعتل بعلة، فدخل عليه بنو إسرائيل، فعرفوا علته، فقالوا له: لو تداويت بكذا لبرئت، فقال: لا اتداوى حتى يعافيني الله من غير دواء. فطالت علته، فاوحى الله إليه: وعزتي وجلالي! لا ابرؤك حتى تتداوى بما ذكروه لك. فقال لهم: داووني بما ذكرتم. فداووه، فبرىء. فاوجس في نفسه من ذلك، فاوحى الله ـ تعالى ـ اليه: اردت أن تبطل حكمتي بتوكلك علي، فمن أودع العقاقير منافع الأشياء غيري؟ “.
واقعہ کی تحقیق:
یہ واقعہ ” جامع السعادات” میں بلا کسی سند مذکور ھے, اور خود صاحب کتاب نے اس واقعہ کو از قبیل اسرائیلیات کہا ھے, نیز کتاب کے مصنف ایک شیعہ ہیں.
وفي الاسرائيليات: ” ان موسى بن عمران (ع) اعتل بعلة، فدخل عليه بنو إسرائيل، فعرفوا علته، فقالوا له: لو تداويت بكذا لبرئت، فقال: لا اتداوى حتى يعافيني الله من غير دواء. فطالت علته، فاوحى الله إليه: وعزتي وجلالي! لا ابرؤك حتى تتداوى بما ذكروه لك. فقال لهم: داووني بما ذكرتم. فداووه، فبرىء. فاوجس في نفسه من ذلك، فاوحى الله ـ تعالى ـ اليه: اردت أن تبطل حكمتي بتوكلك علي، فمن أودع العقاقير منافع الأشياء غيري؟ “.
واقعہ کی تحقیق:
یہ واقعہ ” جامع السعادات” میں بلا کسی سند مذکور ھے, اور خود صاحب کتاب نے اس واقعہ کو از قبیل اسرائیلیات کہا ھے, نیز کتاب کے مصنف ایک شیعہ ہیں.
حوالہ
:
[المصدر:
جامع السعادات
المجلد/3,
الصفحہ: 228,
المؤلف: محمد مہدی النراقی- *العالم الشیعی*-
الطبع: مؤسسہ علمی مطبوعات, بیروت, لبنان]
المجلد/3,
الصفحہ: 228,
المؤلف: محمد مہدی النراقی- *العالم الشیعی*-
الطبع: مؤسسہ علمی مطبوعات, بیروت, لبنان]
اسرائیلیات
وہ باتیں جو بنی اسرائیل یعنی یہودیوں سے بکثرت منقول ہیں یا نصاریٰ سے۔
شیخ الاسلام
مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے رقم فرمایا کہ:
“اسرائیلیات
یا اسرائیلی روایات ان روایات کو کہتے ہیں جو یہودیوں یا عیسائیوں سے ہم تک پہنچی
ہیں ان میں سے بعض براہِ راست بائبل یا تالمود سے لی گئی ہیں بعض منشاءاوران کی
شروح سے اوربعض وہ زبانی روایات ہیں جو اہل کتاب میں سینہ بسینہ نقل ہوتی چلی آئی
ہیں اور عرب کے یہود ونصاری میں معروف ومشہور تھیں”۔ (علوم القرآن:۳۴۵)
*اسرائیلیات
کا حکم*
اس سلسلہ
میں تقریباًً علمائے امت نے ایک ہی جواب دیا ،الفاظ وتعبیرات اگر چہ مختلف ہیں؛ لیکن
حکم ایک ہی ہے، آگے ہم مختلف علماء کرام کی تحریریں پیش کریں گے،
سب سے پہلے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کے دلنشین اورصاف وشفاف تحریر کو نقل کرتے ہیں جو انہوں نے علامہ ابن کثیرؒ کے حوالہ سے پیش کی ہے؛ چنانچہ رقمطراز ہیں کہ:
(۱)پہلی قسم وہ اسرائیلیات ہیں جن کی تصدیق دوسرے خارجی دلائل سے ہوچکی ہے مثلا: فرعون کا غرق ہونا وغیرہ، ایسی روایات اسی لیے قابلِ اعتبار ہیں کہ قرآن کریم یا صحیح احادیث نے ان کی تصدیق کردی ہے۔ (۲)دوسری قسم وہ اسرائیلیات ہیں جن کا جھوٹ ہونا خارجی دلائل سے ثابت ہوچکا ہے،مثلا: یہ کہانی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام آخر عمر میں (معاذ اللہ) بت پرستی میں مبتلا ہوگئے تھے یہ روایت اس لیے قطعا باطل ہے کہ قرآن کریم نے صراحۃ ًاس کی تردید فرمائی ہے۔
(۳) تیسری قسم ان اسرائیلیات کی ہے جن کے بارے میں خارجی دلائل ہے نہ یہ ثابت ہو تا ہے کہ وہ سچی ہیں اورنہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ جھوٹ ہیں، مثلا تورات کے احکام وغیرہ ایسی اسرائیلیات کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: “لا تصدقوھا ولاتکذبوھا”۔ اس قسم کی روایات کو بیان کرنا تو جائز ہے؛ لیکن ان پرنہ کسی دینی مسئلہ کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے نہ ان کی تصدیق یا تکذیب کی جاسکتی ہے *اوراس قسم کی روایات کو بیان کرنے کا کوئی خاص فائدہ بھی نہیں*۔ (علوم القرآن:۳۶۴).
سب سے پہلے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کے دلنشین اورصاف وشفاف تحریر کو نقل کرتے ہیں جو انہوں نے علامہ ابن کثیرؒ کے حوالہ سے پیش کی ہے؛ چنانچہ رقمطراز ہیں کہ:
(۱)پہلی قسم وہ اسرائیلیات ہیں جن کی تصدیق دوسرے خارجی دلائل سے ہوچکی ہے مثلا: فرعون کا غرق ہونا وغیرہ، ایسی روایات اسی لیے قابلِ اعتبار ہیں کہ قرآن کریم یا صحیح احادیث نے ان کی تصدیق کردی ہے۔ (۲)دوسری قسم وہ اسرائیلیات ہیں جن کا جھوٹ ہونا خارجی دلائل سے ثابت ہوچکا ہے،مثلا: یہ کہانی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام آخر عمر میں (معاذ اللہ) بت پرستی میں مبتلا ہوگئے تھے یہ روایت اس لیے قطعا باطل ہے کہ قرآن کریم نے صراحۃ ًاس کی تردید فرمائی ہے۔
(۳) تیسری قسم ان اسرائیلیات کی ہے جن کے بارے میں خارجی دلائل ہے نہ یہ ثابت ہو تا ہے کہ وہ سچی ہیں اورنہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ جھوٹ ہیں، مثلا تورات کے احکام وغیرہ ایسی اسرائیلیات کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: “لا تصدقوھا ولاتکذبوھا”۔ اس قسم کی روایات کو بیان کرنا تو جائز ہے؛ لیکن ان پرنہ کسی دینی مسئلہ کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے نہ ان کی تصدیق یا تکذیب کی جاسکتی ہے *اوراس قسم کی روایات کو بیان کرنے کا کوئی خاص فائدہ بھی نہیں*۔ (علوم القرآن:۳۶۴).
واللہ تعالی
اعلم۔
..کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*
No comments:
Post a Comment