Friday, November 17, 2017

Hazrat Musa As Aur Jari booti, Wild plant ◼حضرت موسی اور جڑی بوٹی◼

◼حضرت موسی اور جڑی بوٹی◼

   میں نے ایک واعظ صاحب کو سنا, انہوں نے دوران وعظ ایک واقعہ حضرت موسی ع کا سنایا: کہ ایک بار حضرت موسی ع کو پیٹ میں درد کی شکایت ہوئی, تو وہ کوہ طور پر تشریف لے گئے اور ﷲ تعالی سے دعا کی تو ﷲ نے فرمایا: موسی! جاؤ! فلاں جڑی بوٹی ھے اسکا استعمال کرو؛ تمہارا درد ختم ہوجائیگا۔
   انہوں نے استعمال کیا تو درد جاتا رہا.   پھر ایک روز درد کی شکایت ہوئی تو اس مرتبہ موسی ع طور پر نہیں گئے اور سابقہ علاج از خود کیا تو اس بار شفا نہ ملی, تو اللہ تبارک و تعالی نے ارشاد فرمایا:کہ موسی! شفا دینا یا نہ دینا سب ہمارے قبضہ قدرت میں ھے تم کو ہم سے پوچھ کر ہی دوبارہ وہ علاج کرنا تہا. 

مجھے اس واقعے کی سند مطلوب ھے!

*باسمہ تعالی* 
*الجواب وبہ التوفیق:* 

     بعینہ ان الفاظ میں یہ واقعہ تہ ملا؛ البتہ ایک واقعہ اسی کے بالکل قریب ھے وہ درج ذیل ھے۔
  کہ حضرت موسی کو کوئی عارضہ لاحق ھوا جسکی دوا قوم موسی کو معلوم تہی, قوم نے کہا: کہ حضرت فلاں دوا اور جڑی بوٹی استعمال کیجئے شفا ہوجائیگی, تو حضرت موسی ع نے فرمایا:   میں وہ دوا استعمال نہ کرونگا تاآنکہ ﷲ خود ہی بلا دوا کے مجھے شفایاب نہ کردے. چنانچہ حضرت موسی ع کی بیماری طویل ہوگئی اور شفا نہ ہوئی, تو ﷲ نے وحی بھیجی! کہ موسی تم اپنے توکل سے میری حکمت کو باطل کرنا چاھتے ہو, جاؤ! قوم کی بتائی ہوئی دوا کا استعمال کرو تب ہی ہم شفا دینگے, چنانچہ حضرت موسی نے تعمیل کی اور شفا حاقل ہوئی, تب ﷲ نے فرمایا: کہ تمام دواؤں اور جڑی بوٹیوں میں شفا فقط میں نے رکھی ھے, تمہارا دوا کا استعمال کرنا توکل کےخلاف نہیں ھے۔

 حضرت موسی کا قصہ ھے اسکی اصل عربی عبارت یہ ھے:

◼وفي الاسرائيليات: " ان موسى بن عمران (ع) اعتل بعلة، فدخل عليه بنو إسرائيل، فعرفوا علته، فقالوا له: لو تداويت بكذا لبرئت، فقال: لا اتداوى حتى يعافيني الله من غير دواء. فطالت علته، فاوحى الله إليه: وعزتي وجلالي! لا ابرؤك حتى تتداوى بما ذكروه لك. فقال لهم: داووني بما ذكرتم. فداووه، فبرىء. فاوجس في نفسه من ذلك، فاوحى الله ـ تعالى ـ اليه: اردت أن تبطل حكمتي بتوكلك علي، فمن أودع العقاقير منافع الأشياء غيري؟ ". 

 ⚫ واقعہ کی تحقیق: 
 یہ واقعہ " جامع السعادات" میں بلا کسی سند مذکور ھے, اور خود صاحب کتاب نے اس واقعہ کو از قبیل اسرائیلیات کہا ھے, نیز کتاب کے مصنف ایک شیعہ ہیں.

حوالہ : 

[المصدر: جامع السعادات
المجلد/3,
 الصفحہ: 228, 
المؤلف: محمد مہدی النراقی- *العالم الشیعی*-
الطبع: مؤسسہ علمی مطبوعات, بیروت, لبنان]

  ◀   اسرائیلیات وہ باتیں جو بنی اسرائیل یعنی یہودیوں سے بکثرت منقول ہیں یا نصاریٰ سے۔

شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے رقم فرمایا کہ:

"اسرائیلیات یا اسرائیلی روایات ان روایات کو کہتے ہیں جو یہودیوں یا عیسائیوں سے ہم تک پہنچی ہیں ان میں سے بعض براہِ راست بائبل یا تالمود سے لی گئی ہیں بعض منشاءاوران کی شروح سے اوربعض وہ زبانی روایات ہیں جو اہل کتاب میں سینہ بسینہ نقل ہوتی چلی آئی ہیں اور عرب کے یہود ونصاری میں معروف ومشہور تھیں"۔ (علوم القرآن:۳۴۵)

⚫  *اسرائیلیات کا حکم*⚫

   اس سلسلہ میں تقریباًً علمائے امت نے ایک ہی جواب دیا ،الفاظ وتعبیرات اگر چہ مختلف ہیں؛ لیکن حکم ایک ہی ہے، آگے ہم مختلف علماء کرام کی تحریریں پیش کریں گے، 
سب سے پہلے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کے دلنشین اورصاف وشفاف تحریر کو نقل کرتے ہیں جو انہوں نے علامہ ابن کثیرؒ کے حوالہ سے پیش کی ہے؛ چنانچہ رقمطراز ہیں کہ: 
(۱)پہلی قسم وہ اسرائیلیات ہیں جن کی تصدیق دوسرے خارجی دلائل سے ہوچکی ہے مثلا: فرعون کا غرق ہونا وغیرہ، ایسی روایات اسی لیے قابلِ اعتبار ہیں کہ قرآن کریم یا صحیح احادیث نے ان کی تصدیق کردی ہے۔ (۲)دوسری قسم وہ اسرائیلیات ہیں جن کا جھوٹ ہونا خارجی دلائل سے ثابت ہوچکا ہے،مثلا: یہ کہانی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام آخر عمر میں (معاذ اللہ) بت پرستی میں مبتلا ہوگئے تھے یہ روایت اس لیے قطعا باطل ہے کہ قرآن کریم نے صراحۃ ًاس کی تردید فرمائی ہے۔
⚫ (۳) تیسری قسم ان اسرائیلیات کی ہے جن کے بارے میں خارجی دلائل ہے نہ یہ ثابت ہو تا ہے کہ وہ سچی ہیں اورنہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ جھوٹ ہیں، مثلا تورات کے احکام وغیرہ ایسی اسرائیلیات کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "لا تصدقوھا ولاتکذبوھا"۔ اس قسم کی روایات کو بیان کرنا تو جائز ہے؛ لیکن ان پرنہ کسی دینی مسئلہ کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے نہ ان کی تصدیق یا تکذیب کی جاسکتی ہے *اوراس قسم کی روایات کو بیان کرنے کا کوئی خاص فائدہ بھی نہیں*۔ (علوم القرآن:۳۶۴).


واللہ تعالی اعلم۔

✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

No comments:

Post a Comment