Friday, April 5, 2019

حضرت علی کی فراست

*حضرت علی کی فراست*

  ایک واقعہ آج کل بہت مشہور ہورہا ھے کہ
ایک ہلکی داڑھی والاشخص حضرت عمر بن الخطابؓ اورحضرت علیؓ کے پاس بیٹھا تھا اس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں اور زبان ذکر و تسبیح میں مشغول تھی۔ حضرت عمرؓ نے اس سے پوچھا کہ آپ نے صبح کس حال میں کی؟ اس آدمی نے عجیب انداز سے جواب دیا کہ میں نے اس حال میں صبح کی کہ فتنہ کو پسند کرتا ہوں اور حق بات سے کراہت کرتا ہوں۔اور بغیر وضو کے نماز پڑھتا ہوں اور میرے لیے زمین پر وہ چیز ہےجو آسمان پر اللہ کے لیے نہیں ہے! (یہ سن کر) حضرت عمرؓ طیش میں آگئے اور اللہ کے دین کی خاطر انتقام لینے پر آمادہ ہو گئے اور اس آدمی کو پکڑ کر سخت سزا دینے لگے توحضرت علیؓ نے ہنستے ہوئے کہا: اے امیر المومنین! یہ شخص  جو یہ کہتاہے کہ وہ فتنہ کو پسند کرتاہے اس سے اس کی مراد مال و اولاد ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں مال و اولاد کو فتنہ کہا گیا ہے: ’’اِنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَ اَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃ’‘‘‘ (الانفال:28)۔

 اورحق کو ناپسند کرتا ہے اس سے مراد موت کی ناپسندیدگی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’وَجَآئتْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذٰلِکَ مَا کُنْتَ مِنْہُ تَحِیْدُ‘‘ (ق:19)

اور بغیر وضو کے نماز پڑھتاہے اس سے مراد نبی کریمؐ پر صلوٰۃ (درود) بھیجنا ہے،

ظاہر ہے کہ صلوٰۃ(درود) کے لیے وضو ضروری نہیں ہے۔

 اور اس نے جو یہ کہا ہے کہ اس کے لیے زمین پر وہ چیز ہے جو آسمان پر اللہ کے لیے نہیں ہے اس سے اس کی مراد بیوی بچے ہیں، ظاہر ہے کہ اللہ کی نہ بیوی ہے اور نہ اولاد، وہ ذات تو یکتا بے نیاز ہے، نہ اس کی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور اس کا کوئی ہمسر نہیں۔ حضرت عمر بن الخطابؓ کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا اورہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور خوشی سے جھومتے ہوئے فرمایا: وہ جگہ بری ہے جہاں ابوالحسنؓ نہ ہو یعنی علی بن ابی طالبؓ۔‘‘

ہمیں واقعہ کی تحقیق مطلوب ھے!!!

••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق*


یہ واقعہ اتنی تفصیل سے کسی مستند کتاب میں مذکور نہیں ھے؛ البتہ بلا کسی حوالے کے عربی زبان میں بہی نشر ہورہا ھے .جس میں ھے کہ حضرت عمر رض نے حضرت حذیفہ بن یمان صحابی رسول سے استفسار کیا

  ÷÷ *عربی عبارت* ÷÷

🔰((دخل حُذيفة بن اليمان على عمر بن الخطاب فسأله: كيف أصبحتَ يا حذيفة؟ فأجاب حذيفة: أصبحت أحبُّ الفتنة, وأكره الحق, وأصلِّي بغير وضوء, ولي في الأرض ما ليس لله في السماء, فغضب عمرُ غضبًا شديدًا, وولَّى وجهه عنه, واتفق أنْ دخل عليُّ بن أبي طالب, فرآه على تلك الحال, فسأله عن السبب, فذكر له ما قاله ابن اليمان, فقال عليٌّ: لقد صدقك فيما قال يا عمر, فقال عمر: وكيف ذلك؟! قال عليٌّ: إنه يحب الفتنة؛ لقوله تعالى: إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ [التغابن: 15]، فهو يحب أمواله وأولاده, ويكره الحق بمعنى الموت؛ لقوله تعالى: وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ [الحجر: 99], ويصلي بغير وضوء, يعني أنه يصلي على محمد صلى الله عليه وسلم, ومعنى أنَّ له في الأرض ما ليس لله في السماء, يعنى أنَّ له زوجة وأولادًا, والله تعالى هو الواحد الأحد, الفرد الصمد, الذي لم يلِد، ولم يُولد, فقال عمر: أحسنتَ يا أبا الحسن، لقد أزلتَ ما في قلبي على حذيفة)).

   لیکن اس مفصل واقعہ کا کوئی حوالہ مذکور نہیں ؛ البتہ اس واقعہ کا کچھ حصہ ہمیں دو کتابوں ☜ "الطرق الحكمية و تفسير ابن عطية" میں ملا ھے لیکن دونوں میں کوئی سند یا حوالہ مذکور نہیں ھے

💠 *ابن القیم کی کتاب کی عبارت*

ان عمر بن الخطاب سأل رجلا: كيف انت؟ فقال: ممن يحب الفتنة، ويكره الحق، ويشهد مالم يره، فامربه الي السجن، فامر علي -كرم الله وجهه- برده، وقال: صدق، قال: كيف صدقته؟ قال: يحب المال والولد، وقد قال الله تعالي: ‌{ إنما أموالكم و أولادكم فتنة } ( التغابن: ¹⁵)
ويكره الموت وهو حق، ويشهد أن محمدا رسول الله ولم يره،فأمر عمر بإطلاقه، قال: { الله أعلم حيث يجعل رسالته}.

كتاب: الطرق الحكمية في السياسة الشرعية
مؤلف: ابن القيم الجوزية
الصفحة: 117
الطبع: دار عالم الفوائد للنشر والتوزيع، جدة

🌀 *تفسير ابن العطية كي عبارت*

وقال عمر لحذيفة - رضي الله عنهما-  كيف أصبحت؟ قال: اصبحت احب الفتنة، واكره الحق، فقال عمر: ماهذا؟ قال: أحب ولدي، واكره الموت.

كتاب: المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز  المعروف بتفسير ابن عطية

الصفحة: 1865
الطبع: دار ابن حزم، مصر

تفسیر ابن عطیہ میں فقط حضرت عمر و حذیفہ کا ذکر ھے حضرت علی کا ذکر نہیں یعنی یہ گفتگو فقط حضرت عمر و حذیفہ کے مابین ہوئی, اور واقعہ انتہائی مختصر ھے مفصل نہیں۔



<< *خلاصہ کلام* >>

 یہ واقعہ کسی مستند حوالے سے کتب میں مذکور نہیں ھے؛ لہذا اس کی نسبت حضرات صحابہ کی جانب کرنے میں محتاط رہنا چاہئے, محض ایک پہیلی و چیستاں کی حیثیت سے صحابہ کی جانب نسبت کیے بغیر باہم اس طرح کے سوالات ذہانت و فہم کی جانچ کی خاطر کیے جاسکتے ہیں۔

والله تعالى أعلم
✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار صديقي*
05/04/2019

No comments:

Post a Comment