Wednesday, November 27, 2019

حضرت بلال کی نبی کی وفات کے بعد مدینہ میں اذان

*نبی کریمؑ کی وفات کے بعد حضرت بلالؓ کی مدینہ میں تشریف آوری اور اذان*



ایک واقعہ بہت مشہور ھےکہ:
حضورؐ کے وصال کے بعد سیدنا بلال مدینہ کی گلیوں میں یہ کہتے پھرتے کہ لوگوں تم نے کہیں رسول اللہ کو دیکھا ہے تو مجھے بھی دکھا دو،
 پھر کہنے لگے کہ اب مدینے میں میرا رہنا دشوار ہے، اور شام کے شہر حلب میں چلے گئے۔پھر تقریبا چھ ماہ بعد  حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال سے فرمایا: ”ماہذہ الجفوة یا بلال،أمابان لک أن تزورني یا بلال“؟ بلال یہ کیا بے وفائی ہے؟ کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ تم میری زیارت کے لیے (مدینہ) آوٴ“ بلال گھبراہٹ کے عالم میں نیند سے بیدار ہوئے، سواری پر سوار ہوئے۔ مدینہ منورہ پہنچے اور قبر مبارک پر حاضری دی، وہاں روتے رہے، اپنے چہرے کو قبر مبارک پر ملتے رہے۔ اتنے میں حسن وحسین آگئے، حضرت بلال نے دونوں کو گلے لگالیا پیار کیا، نواسوں نے فرمائش کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو اذان دیا کرتے تھے ہم وہی اذان سننا چاہتے ہیں، اوپر چڑھئے اور اذان دیجئے، بلال رضی اللہ اس جگہ کھڑے ہوگئے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کھڑے ہوکر اذان دیا کرتے تھے، اذان شروع کی، ”اللہ اکبر، اللہ اکبر“ کہا تو سارا مدینہ حرکت میں آگیا، ”اشہد ان لا إلہ إلا اللہ“ کہا تو یہ حرکت شدید ہوگئی۔ ”اشہد أن محمداً رسول اللہ“ کہا تو عورتیں بھی باہر نکل آئیں اور لوگ سوالیہ انداز میں کہنے لگے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (دوبارہ) مبعوث کردیئے گئے؟ حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جتنا اس دن مدینہ کی عورتیں اور مرد روئے اتنا رونا کسی اور دن نہیں دیکھا گیا۔

_اس واقعہ کے صحیح یا غلط ہونیکی نشاندہی فرماکر ماجور ہوں_

••• *باسمہ تعالیٰ*•••
*الجواب وبہ التوفیق:*

اس واقعے کی کوئی اصل ثابت نہیں ہے, اور "عؔلامہ ابن حجر عسقلانیؒ" نے اسکو من گھڑت و بے اصل بتایا ھے, لہذا اسکو معتبر و مستند نہ مانا جائے اور نہ ہی بیان کیا جائے۔

▪  *تنزيه الشريعة ميں*▪


عن أبي الدرداءؓ قال: لما دخل عمر بن الخطاب - رضي الله عنه - سأله بلال أن يقره بالشام ففعل ذلك، فنزل دارنا،ثم أن بلالا رأى في منامه النبي - صلى الله عليه وسلم - وهو يقول له:"ما هذه الجفوة يا بلال! أما آن لك أن تزورني يا بلال فانتبه حزينا وجلا خائفا فركب راحلته وقصد المدينة فأتى قبر النبي - صلى الله عليه وسلم - فجعل يبكي عنده ويمرغ وجهه عليه، فأقبل الحسن والحسين فجعل يضمهما ويقبلهما، فقالا له: يا بلال نشتهي نسمع أذانك الذي كنت تؤذن به لرسول الله - صلى الله عليه وسلم - في المسجد ففعل، فَعَلا سطح المسجد فوقف موقفه الذي كان يقف فيه، فلما أن قال: الله أكبر ارتجت المدينة فلما أن قال: أشهد أن لا إله إلا الله ازدادت رجتها، فلما أن قال أشهد أن محمدا رسول الله خرجت العواتق من خدورهن وقالوا: بُعث رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فما رؤى يومٌ أكثر باكيا ولا باكية بالمدينة بعد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من ذلك اليوم"إ.هـ. من طريق ابراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال بن أبي الدرداء، قال الذهبي في الميزان: فيه جهالة، وقال ابن حجر في اللسان: هذه قصة بينة الوضع.

❊ نام كتاب: تنزيه الشريعة
❊ نام مؤلف: أبوالحسن الكنانيؒ
❊ جلد: 2
❊ صفحة: 118
❊ رقم: 113
❊ طبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

▪ *لسان المیزان میں*▪

  اس واقعہ کے متعلق ابن حجرؒ کی وضاحت کہ اسکا من گھڑت ہونا واضح ھے:

 إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال بن أبي الدرداء.فيه جهالة.
حدث عنه محمد بن الفيض الغساني. انتهى.
ترجم له ابن عساكر ثم ساق من روايته، عَن أبيه، عَن جَدِّه، عن أم الدرداء، عَن أبي الدرداء في قصة رحيل بلال إلى الشام وفي قصة مجيئه إلى المدينة وأذانه بها وارتجاج المدينة بالبكاء لأجل ذلك *وهي قصة بينة الوضع*.

وقد ذكره الحاكم أبو أحمد في الكنى وقال: كناه لنا محمد بن الفيض وأرخ محمد بن الفيض وفاته سنة اثنتين وثلاثين ومئتين.

❊ نام کتاب: لؔسان المیزان
❊ نام مؤلف: ابن حجر العسقلانیؒ
❊ جلد:1
❊ صفحة: 359
❊ رقم:  294
❊ طبع: دار البشائر الاسلامية، بيروت، لبنان.


والله تعالي أعلم
✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*

Thursday, November 21, 2019

سبحان ﷲ کہنے کی فضیلت

▪ *سبحان ﷲ کہنے کی فضیلت*▪


کیا کسی حدیث میں یہ مضمون وارد ھے : کہ جس نے ایک مرتبہ " سبحان ﷲ " کہا تو اسکے لیے خدا تعالی جنت میں ایک درخت لگاتے ہیں جسکی وسعت و لمبائی اس قدر ہوگی کہ اگر ایک عربی گھوڑا اس کے نیچے دوڑنا شروع کردے اور ہزار سالوں تک دوڑتا رھے تب بہی اسکی مسافت پوری نہ ہوسکے؟

از راہ کرم اس پر روشنی ڈالی جائے!!!.

__باسمہ تعالی__
_الجواب وبہ التوفیق_

 احادیث طیبہ مبارکہ میں " سبحان ﷲ والحمد للہ" کہنے کی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں اور "سبحان ﷲ" کہنے پر جنت میں درخت لگائے جانے کا بہی ذکر مستند روایات میں مذکور ہے:

🌷 *ترمذی کی روایت*🌷

عن جابر رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال :
( مَنْ قَالَ : سُبْحَانَ اللهِ العَظِيمِ وَبِحَمْدِهِ ، غُرِسَتْ لَهُ نَخْلَةٌ فِي الجَنَّةِ )

_ترجمہ_

حضرت جابرؓ سے مروی ھے کہ نبی کریمؑ کا ارشاد ھے: جس نے سبحان ﷲ والحمد للہ کہا, تو جنت میں اسکے لیے  درخت لگایا جایئگا۔

نام کتاب: سنن ترمذی
المحدث:ابو عیسی ترمذیؒ
الراوی:۔جابرؓ
المجلد:5
الصفحہ:456
حدیث نمبر: 3464
درجہ : حسن صحیح
طبع:  دار الغرب الاسلامی بیروت لبنان۔
 

🔘 *مجمع الزوائد میں*🔘

عن معاذ بن انس عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ  انہ قال: مَنْ قَالَ سُبْحَانَ اللّٰہِ العظیم نبت لَہُ غرس فِی الْجَنَّةِ ۔

_ترجمہ_
 حضرت معاذ بن انسؓ سے روایت ھے:کہ رسولﷲؐ نے ارشاد فرمایا: جس نے "سبحان ﷲ العظیم" کہا, تو اسکے لیے جنت میں پودا لگایا جایئگا۔

نام کتاب: مجمع الزوائد
الراوی: معاذ بن انسؓ
المحدث: الہیثمیؒ
المجلد: 10
الصفحہ:84
حدیث نمبر:16881
درجہ حدیث: حسن
طبع: دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔

📘 *ابن ماجہ میں*📘

عن أبي هريرة: أن رسول الله مر به وهو يغرس غراسا، فقال: ياأبا هريرة! ماالذي تغرس؟ قلت: غراسا لي، قال: أَلَاأَدُلُّکَ عَلَی غِرَاسٍ خَیْرٍ لَکَ مِنْ ہَذَا قَالَ بَلَی یَارَسُولَ اللَّہِ قَالَ قُلْ سُبْحَانَ اللَّہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَلَاإِلَہَ إِلَّااللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ یُغْرَسْ لَکَ بِکُلِّ وَاحِدَةٍ شَجَرَةٌ.

ترجمه:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ان کے پاس سے گذرے جب کہ یہ درخت لگارہے تھے توآپؐ نے ارشاد فرمایا: ابوہریرہ کیا لگارھے ہو؟ تو انہوں نے کہا: حضور اپنا ایک پودہ لگارہا ہوں, حضورؐ نے کہا: اس سے بہتر پودے کی بابت تمکو نہ بتلادوں؟ کہا: جی حضرت ضرور بتایئں! تب حضورؐ نے کہا: تم "سُبْحَانَ اللَّہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَلَاإِلَہَ إِلَّااللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ"  پڑھا کرو, تمہارے لیے ہر جملہ کے بدلے درخت لگادیا جایئگا۔

نام کتاب: سنن ابن ماجہ
الراوی: ابوہریرہؓ
المحدث: ابن ماجہؒ
الصفحہ: 858
حدیث نمبر: 3860
درجہ حدیث: حسن
طبع: دار الفکر بیروت لبنان۔


___[ *الحاصل*]___

 ان احادیث میں "سبحان اللہ" یا "سبحان اللہ العظیم" یا "سبحان اللہ و بحمدہ" کہنے پر مطلق درخت کا ذکر ہے اس درخت کی کوئی مساحت و مسافت کا ذکر نہیں ھے؛ تاہم {بخاری و مسلم} میں ایک حدیث ہے ، حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : " جنت میں ایک درخت ہے ( جس کا نام طوبی ہے ) اگر کوئی سوار اس درخت کے سائے میں سو برس تک چلتا رہے تب بھی اس کی مسافت ختم نہ ہوگی۔

لیکن اس درخت کا تعلق سبحان ﷲ وغیرہ سے نہیں ھے یہ تو محض جنت کے ایک خاص درخت کی خبر ھے.لہذا سوال میں مذکور سبحان ﷲ والحمد للہ کی فضیلت میں درخت کی لمبائی و چوڑائی اور گھوڑے والی بات نہ ذکر کیجائے۔

🔹 قال أبو هريرة-رضي الله عنه- يبلغ به النبي -صلى الله عليه وسلم- قال:   إن في الجنة شجرة يسير الراكب في ظلها مائة عام لا يقطعها  واقرؤوا إن شئتم:  وَظِلٍّ مَّمْدُودٍ.

کتاب: صحیح البخاری
راوی: ابوہریرةؓ
محدث: امام بخاریؒ
جلد:2
صفحہ: 1376
حدیث نمبر: 4881
طبع: الطاف اینڈ سنز, کراچی پاکستان۔


وﷲ تعالی اعلم
کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

شوہر کو پانی پلانے کی فضیلت

••• *شوہر کو پانی پلانے کی فضیلت*•••

 ایک روایت مشہور ہورہی ھے : رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ایک زوجہ(بیوی) جو اپنے شوہر کو ایک گلاس پانی پینے کے لیے دیتی ھے وہ ایک سال کی ایسی عبادت کا ثواب حاصل کرتی ھے جس میں ہر رات عبادت میں گزری ہو اور ہر دن روزوں میں گزرا ہو۔

اس کی کیا حیثیت ھے؟

__*باسمہ تعالی*___
*الجواب وبہ التوفیق:*

 یہ روایت مستند کتب حدیث میں مذکور نہیں ھے , البتہ  شیعی مشہور کتاب _وسائل الشيعة_ میں بلا سند مذکور ھے ؛ اسکا اعتبار نہیں ھے۔


🔰 *وسائل الشيعة*

قال : وقال ( عليه السلام ) : ما من امرأة تسقي زوجها شربة
من ماء إلا كان خيرا لها من عبادة سنة صيام نهارها وقيام ليلها ويبنى الله لها بكل شربة تسقي زوجها مدينة في الجنة وغفر لها ستين خطيئة .

❊ (ترجمة) جو عورت اپنے شوہر کو پانی پلائے اسکو ایک ایسے سال کی عبادت سے زیادہ ثواب ملتا ھے جس کا ہر دن روزوں میں گزارا ہو اور ہر رات عبادت میں , اور اس پلانی پلانے کا اجر یہ بہی ہوگا کہ شوہر کے ہر گھونٹ کے بدلے جنت میں اللہ ایک شہر کا شہر ایسی عورت کے لیے تیار کریگا, نیز اسکے 60 گناہ بہی معاف فرمائگا۔

★نام کتاب: وؔسائل الشیعة
★مؤلف: الحر العاملی
★جلد:20
★صفحة: 172
★طبع: مؤسسة آل البيت لاحياء التراث، قُم ـ ايران

💡 تاہم اسی سے ملتی جلتی ایک روایت  ”_ؔابن حبیب اندلسیؒ_“ نے اپنی کتاب «ادب النساء» میں ذکر کی ھے ؛ لیکن سند انہوں نے بہی ذکر نہیں فرمائی ھے:

💎 *ادب النساء کی عبارت*

 أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: ((وأيما امرأةٍ ناولت زوجها شربةً من ماءٍ فكأنما أعتقت رقبةً، وسقاها الله من الكوثر سبعين شربةً قبل أن تدخل الجنة، وألبسها حلةً من حلل الجنة)).

۞ ( ترجمہ) جو عورت اپنے شوہر کو پانی پلایئگی اسکا ثواب ایسا ھے کہ جیسے غلام آزاد کرنے کا ثواب ھے, اور اللہ اسکو جنت میں داخل کرنے سے پہلے حوض کوثر سے ستر گھونٹ پلایئگا, نیز جنتی جوڑے پہنایئگا۔

✧(وأيما امرأةٍ وضعت مائدةً بين يدي زوجها كتب الله لها بذلك عبادة سنةٍ، وكتب لها بكل رغيفٍ وضعته بين يدي زوجها عشر حسناتٍ، ورفع لها عشر درجاتٍ، ووضع على رأسها تاجًا من نورٍ مكلل بالدر والياقوت)). انتهى.

▪( ترجمہ)  جو عورت اپنے شوہر کے کہانے کے وقت دستر خوان لگائے ﷲ اسکو ایک سال کی عبادت لکھے گا, اور شوہر کے سامنے رکہی جانیوالی ہر روٹی کے بدلہ دس نیکیاں لکھے گا اور اسکے دس درجات بلند فرمایئگا, اور قیامت میں موتیوں اور یاقوت سے جڑا نورانی تاج بہی پہنایئگا۔

. نام کتاب: أدب النساء
. نام مؤلف: عبد الملک بن حبیب اندلسی
. صفحة: 293,
. طبع: دار الغرب الاسلامی بیروت، لبنان۔

__( *خلاصۂ کلام*)__

 مذکورہ روایت میں جو فضیلت بیان کی گئ ھے اسکی نسبت نبی کریمؐ کی جانب نہ کیجائے اور اس فضیلت کے ماننے میں احتیاط برتی جائے؛ گوکہ اس کے ہم معنی روایت «شؔیخ عبد الملک بن حبیب اندلسی» نے بہی ذکر کی ھے؛ لیکن مذکورہ شیخ حدیث کے باب میں خاصا مقام نہیں رکہتے تہے جیساکہ علامہ ذہبی نے تصریح کی ھے:

🔹 وكان موصوفا بالحذق في الفقه ، كبير الشأن ، بعيد الصيت ، كثير التصانيف إلا أنه في باب الرواية ليس بمتقن ، بل يحمل الحديث تهورا كيف اتفق ، وينقله وجادة وإجازة ، ولا يتعانى تحرير أصحاب الحديث .

•نام کتاب: سیر اعلام النبلاء
•مؤلف: الذھبیؒ
•جلد: 12
•صفحة: 103
•طبع: مؤسسة الرسالة، بیروت لبنان

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*