Thursday, May 28, 2020

زمین نے تیل واپس کردیا

▪️ *زمین نے تیل واپس کردیا* ▪️

عہدِ فاروقیؓ میں ایک خاتون کا تیل زمین پر گر گیا۔ تیل زمین پر گر کرزمین میں جذب ہوگیا۔ وہ عورت فرطِ غم سے کھڑی رو رہی تھی کہ وہاں سے امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ گزرے ۔ آپ نے اس خاتون سے رونے کی وجہ پوچھی: تو اس نے سارا معاملہ عرض کردیا۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کوڑا لے کر زمین کو مارنے لگے اور فرمانے لگے:   ’’ اے زمین! کیا تونے میرے دورِ خلافت میں اس خاتون کا تیل غصب کیا ؟ تیل واپس کر۔ورنہ میں تیرے اندر ایسے شخص کو دفن کردونگا جو بے نمازی ہوگا ‘‘  یہ فرمانا تھا کہ زمین نے تیل اگل دیا اور اس خاتون نے اسے اپنے برتن میں ڈال لیا۔

اس واقعے کی اصل مطلوب ھے!!!

••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*

 یہ واقعہ ہمکو تلاش بسیار کے بعد بہی کسی مستند کتاب میں نہ مل سکا؛ تاہم علمائے بریلویت کی ایک کتاب "مرآۃ المناجیح  شرح مشکات المصابیح " میں ملا ھے؛ لیکن اس میں بے نمازی کی تدفین کی دھمکی کا ذکر نہیں ہے,  بہت اختصار کیساتھ اتنا لکہا ھے:

🔰 کہ ایک عورت کا تیل زمین میں گرگیا وہ رونے لگی , زمین تیل چوس چکی تہی وہاں سے حضرت عمرؓ کا گزر ہوا وجہ رونے کی پوچھی :اور کوڑے سے زمین کو مارنے لگے اے زمین کیا میرے دور خلافت میں تونے اسکا تیل غصب کیا, واپس اگل! تیل واپس اگلا, عورت نے برتن میں بٹور لیا۔

__*حوالہ* ___

• نام كتاب: مؔرآة المناجيح
• نام مؤلف: احمد يار خان نؔعيمي
• جلد: 8
•صفحة: 349
• طبع: نعيمي كتبخانه گجرات، پاكستان.

★ خلاصه ★

یہ واقعہ کسی مستند کتاب میں مذکور نہیں؛ لہذا بیان کو موقوف رکھا جائے۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻... کتبہ : *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
28 مئی؁ء  2020

جنت کا انوکھا پھل

▪️ *جنت کا انوکھا پھل* ▪️

حضرت علیؓ سے روایت ھے: کہ ﷲ  نے جنت میں ایک درخت پیدا فرمایا ھے جسکا پھل سیب سے بڑا,انار سے چھوٹا, مکھن سے نرم, شہد سے میٹھا اور مشک سے زیادہ خوشبودار ھے,اس درخت کی شاخیں تر موتیوں کی, تنے سونے کے اور پتے زبرجد کے ہیں , اس درخت کا پھل صرف وہی کھاسکے گا جو حضور  صلی ﷲ  علیہ وسلم  پر کثرت سے درود پاک پڑھے گا۔

اسکا حوالہ و حقیقت مطلوب ھے!!!

••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*

 سوال میں مذکور درود پاک پڑھنے کی جو فضیلت و انعام ہے اسکو  امام سیوطیؒ و عبد الرحمن صفوریؒ نے ذکر کیا ھے؛ لیکن اسکی سند نہیں ذکر کی گئ ھے؛ لہذا سند ملنے تک اسکے بیان کو موقوف رکھا جائے۔

🔰  *سيوطي كي عبارت* 🔰

وقال علي: " خَلَقَ اللَّهُ تَعَالَى فِي الْجَنَّةِ شَجَرَةً ثَمَرُهَا أَكْبَرُ مِنَ التُّفَّاحِ، وَأَصْغَرُ مِنَ الرُّمَّانِ، أَلْيَنُ مِنَ الزُّبْدِ، وَأَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ، وَأَطْيَبُ مِنَ الْمِسْكِ، وَأَغْصَانُهَا مِنَ اللُّؤْلُؤِ الرَّطْبِ، وَجُذُوعُهَا مِنَ الذَّهَبِ، وَوَرَقُهَا مِنَ الزَّبَرْجَدِ لَا يَأْكُلُ مِنْهَا إِلَّا مَنْ أَكْثَرَ مِنَ الصَّلَاةِ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".

٭ المصدر: الحاوي للفتاوي
٭ المؤلف: السيوطيؒ
٭ المجلد: 2
٭ الصفحة: 39
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.


💠 *نزهة المجالس ميں*

یہی بعینہ عبارت حضرت علیؓ سے بلا سند امام عبد الرحمن صفوری شافعیؒ نے بہی ذکر کی ھے:

• نام كتاب: نزهة المجالس
• نام مؤلف: عبد الرحمان الصفوريؒ
• المجلد 2
• الصفحة: 344
• الطبع : المكتب الثقافي، قاهرة، مصر.

والله تعالي اعلم
✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*
۲۸ مئی: ؁ء۲۰۲۰

Tuesday, May 26, 2020

عید کے چاند پر اختلاف کی وجہ

▪️ *عید کے چاند پر اختلاف کی وجہ* ▪️

گزشتہ چند سالوں سے بقضائے الہی رمضان و عید کے چاند کے متعلق ہم کچھ اختلافات دیکھتے رہے ہیں اور ان اختلافات کی خبر آج کل سوشل میڈیا کے ذریعے لمحوں ہی لمحوں  میں ساری دنیا میں پہونچ جاتی ھے اس اختلاف رؤیت کی وجہ ایک شیعی پوسٹ میں کچھ اس طرح درج ھے:
راوی نے امام جعفر صادقؑ سے پوچھا کہ عید کے چاند کے مسئلہ پر ہمیشہ اختلاف کیوں ہوتا ھے ؟ تو جواب میں امام جعفر صادقؑ نے ارشاد فرمایا: جب مولا حسین بن علیؑ کا سر کاٹا گیا تو منادی نے صدا لگائی " اے ظالم امت! اے فاسق امت! اب تم قیامت تک صحیح دن عید الفطر نہ مناسکوگے نہ ہی عید قربان اور ہمیشہ اس میں الجہن کا شکار رہوگے جب تک مولا حسینؑ کے خون کا انتقام امام مہدیؑ آکر نہیں لے لیتے"
گویا یہ عید کے چاند کا مسئلہ اب تاقیامت رہیگا چاہے امت جتنا زور لگالے , کربلا کے بعد اب امت قیامت تک عید کے معاملے پر الجھن کا شکار رہیگی تا آنکہ مہدیؑ آکر حسینؑ کے قتل کا بدلہ نہ لے لے۔

اس شیعی پوسٹ کی تحقیق درکار ہے!!!


••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*

یہ پوسٹ اگر اسکے متعلق یہ کہا جائے کہ یہ انتہائی مضحکہ خیز بات ھے تو بے جا نہ ہوگا؛ کیونکہ اس میں اختلاف رؤیت کے متعلق جتنا مذکور ھے وہ بے سر و پا ھے۔ اس اختلاف کی وجہ کا سانحۂ کربلا اور شہادت حضرت حسینؓ سے کوئی تعلق نھیں ھے۔ یہ روایت شیعہ کی متعدد کتب میں مذکور ہے اس میں یہ لفظ بہی ھے کہ امت گمراہ! تو کیا امت محمدیہ گمراہ ھے؟ اگر ھے تو خود شیعہ بہی اسی امت کا گمراہ حصہ قرار پاینگے۔ نیز حضرت مہدیؒ جب دنیا میں ہونگے تو کسی بہی ایک روایت میں یہ مذکور نہیں کہ انکا واقعہ کربلا سے کچھ تعلق ہوگا۔ تو اس طرح کی باتیں شیعہ اپنی جانب سے گھڑ کر بزرگ ہستیوں کی جانب منسوب کرتے ہیں اور ان کو بدنام کراتے ہیں ۔
اسی طرح ان کے بقول جب عید و صیام یا عید قربان و حج کے صحیح ایام سے امت ناواقف ھے تو اسکا مطلب شیعہ بہی چودہ صدیوں سے غلط تواریخ میں عبادات ادا کررھے ہیں ۔ تو اس قدر فضول باتیں لکہنے سے قبل یہ تو سوچ لیتے کہ اسکی زد میں وہ خود بہی آرہے ہیں۔

🔰 *شیعی کتاب کا حوالہ*

حدثنا محمد بن الحسن قال: حدثنا محمد بن يحيى عن محمد بن أحمد عن السياري عن محمد بن إسماعيل الرازي، عن أبي جعفر الثاني (ع) قال: قلت له: ما تقول في الصوم؟ فإنه قد روي أنهم لا يوفقون لصوم! فقال لي: اما انه قد أجيبت دعوة الملك فيهم، قال: قلت وكيف ذلك جعلت فداك؟ قال: إن الناس لما قتلوا الحسين بن علي أمر الله تبارك وتعالي ملكا ينادي أيتها الأمة الظالمة القاتلة عترة نبيها لا وفقكم الله لصوم ولا فطر، وفي حديث آخر لفطر ولا أضحى.


2 - و عن علي بن محمد عمن ذكره عن محمد بن سليمان عن عبد الله بن الجنيد التفليسي عن رزين قال قال أبو عبد الله (ع) لما ضرب الحسين بن علي  بالسيف فسقط ثم ابتدر ليقطع رأسه نادى مناد من بطنان العرش ألا أيتها الأمة المتجبرة الضالة بعد نبيها لا وفقكم الله لا ضحى ولا فطر، قال: ثم قال أبو عبد الله (ع) فلا جرم والله ما وفقوا ولا يوفقون حتى يثار بثائر الحسين عليه السلام.

٭ المصدر: وسائل الشيعة
٭ المؤلف: الحر العاملي
٭ المجلد : 9
٭ الصفحة: 260
٭ الرقم: 13454
٭ الطبع: مؤسسة النشر الإسلامي، قُم، إيران.

📌 *الغرض*: 📌

 سانحۂ کربلا کا اس اختلاف رؤیت سے کوئی تعلق نہیں ھے؛ کیونکہ یہ اختلاف اس سے بہی پہلے حضرت امیر معاویہ کے زمانے میں بہی ہوا جیساکہ مسلم و غیرہ کی حدیث میں ھے۔ نیز روزہ و عید کا مسئلہ بہی یہی ھے کہ چاند دیکھ کر روزہ شروع کریں اور چاند دیکھ کر عید منایئں۔ امت صدیوں سے اسی پر گامزن ھے شیعوں کے  بقول یہ امت گمراہ ھے اس طرح کی احمقانہ باتوں سے خود کو کبیدہ خاطر نہ کیا جائے۔مزید اختلاف مطالع کی بحث کے مطالعے کا شوق دامن گیر ہو حدیث و فقہ کی کتب بینی کی جائے۔

وﷲ تعالی اعلم

✍🏻... کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*
۲ شوال: ؁ھ ١٤٤١

Saturday, May 23, 2020

آخری جمعہ یا ماہ رمضان کو الوداع کہنا

••• *آخری جمعہ یا ماہ رمضان کو الوداع کہنا*•••

 ایک پوسٹ سوشل میڈیا پر نشر ہورہی ھے: کہ حضرت جابرؓ سے روایت ھے: کہ نبی کریمؑ رمضان کے آخری جمعہ میں تشریف لائے اور مجہے دیکھ کر فرمایا: کہ رمضان کو اس دعا کیساتھ رخصت کرو!

  *اللهم لا تجعله آخر العهد من صيامنا إياه فان جعلته  فاجعلني مرحوما ولا تجعلني محروما*
 فإنه من قال ذلك ظفر باحدى الحسنيين اما ببلوغ شهر رمضان من قابل واما بغفران الله ورحمته.

(ترجمہ:) اے ﷲ! میرے لیے یہ رمضان آخری نہ ہو اور اگر آخری ہو تو مجہے رحمت پانیوالوں میں سے بنادے اور مجہے محروم مت کر!

اسکی تحقیق مطلوب ھے!!!

••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*

  یہ روایت کافی تلاش کے بعد بہی کتب حدیث میں مل نہ سکی؛ البتہ شیعوں کی ایک کتاب" جامع أحاديث الشيعہ" میں موجود ھے, اور یہ بات سمجھ سے بالاتر ھے کہ کوئی دعا جو نبی پاکؐ سے ثابت ہو اور وہ اہل السنت والجماعت کی کتب میں نہ ہوکر شیعوں کی کتابوں میں ہو؛ لہذا اس وداعی کی کوئی حقیقت نہیں ھے۔

🔰 *شیعی کتاب کا حوالہ*

روى الشيخ جعفر بن محمد بن أحمد بن العباس بن محمد الدوريستي في كتاب الحسنى باسناده إلى جابر بن عبد الله الأنصاري قال دخلت على رسول الله صلى الله عليه وآله في آخر جمعة من شهر رمضان فلما أبصرني (بصر بي - خ ل) قال لي يا جابر هذا آخر جمعة من شهر رمضان فودعه وقل اللهم لا تجعله آخر العهد من صيامنا إياه فان جعلته  فاجعلني مرحوما ولا تجعلني محروما فإنه من قال ذلك ظفر باحدى الحسنيين اما ببلوغ شهر رمضان من قابل واما بغفران الله ورحمته.

• المصدر: جامع أحاديث الشيعة
• المؤلف: اسماعيل المعزي الملايري
• المجلد: 10
• الصفحة: 236
• الطبع: قم، إيران.


وﷲ تعالی اعلم
✍🏻... کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

۳۰ رمضان ؁١٤٤١ھ

Monday, May 18, 2020

حضرت ابراہیم کا امتحان

▪️ *حضرت ابراہیمؑ  کا امتحان*▪️

جب اللہ پاک نے ابراہیم کو " خلیل" کو لقب دیا تو فرشتوں نے بطور معلومات سوال کیا یا اللہ آپ نے جن کو خلیل کا لقب دیا تو کیا اس انسان کو بھی آپ سے اتنی محبت ہے کہ آپکے دوست کہلانے کا درجہ پاگیا
اللہ رب العزت نے فرمایا ہاں ابراہیم کو مجھ سے اتنی محبت ہے اگر تم لوگوں کو شک ہے تو جاو اور اپنے طور پر اسکا امتحان لے لو لہذا ایک فرشتہ دوسرے تمام فرشتوں کا چیف انسپکٹر بن کر انسانی شکل میں ابراہیم کے پاس آیا ، اس وقت ابراہیم بکریاں چرا رہے تھے آسمان سے نظارہ ہورہا ہے فرشتے کان لگائے آنکھ کھلی رکھ کر دیکھ رہے ہیں کہ کیا پیش آنے والا ہے، اللہ رب العزت بھی دیکھ رہا ہے، ابراہیم ایک طرف بکریاں چرا رہے ہیں، اتنے میں ایک آواز آئی سبحان ذی الملک و الملکوت سبحان ذی العزۃ والعظمۃ الھیبتہ والقدرۃ والکبریاء والجبروت سبحان الملک الحی الذی لا ینام ولا یموت سبوح قدوس ربنا و رب الملئکتہ والروح اللہم اجرنا من النار یا مجیریا مجیر"

 ابراہیم علیہ سلام نے آواز سنی تو چاروں طرف دیکھا آواز میں مٹھاس اتنی کہ پہلے کبہی نہ سنی نہ محسوس ہوئی، سننے میں بس ایک سرور آگیا، نظریں گھما کر دیکھا ایک آدمی بیٹھا تھا قریب ہی۔ ابراہیم نے فرمایا " سبحان اللہ یہی کلمات ذرا دوبارہ سنا دیں آدمی نے کہا میں سنا تو دونگا لیکن مجھے کیا دوگےابراہیم نے کہا " آدھی بکریاں لے لینا اس نے دوبارہ انہیں الفاظ میں اللہ کی بڑائی بیان کی تو ابراہیم کو پہلے سے بھی زیادہ مزہ آنے لگا ایک بار ذرا پھر سنا دیں" ابراہیم نے فرمایااچھا سنا دونگا لیکن بدلے میں کیا دوگے" اس انسان نے کہا میری آدھی بکریاں جو بچی ہے وہ بھی آپ لیں لینا" ابراہیم نے کہااس انسان نے پھر وہی کلمات ادا کیےاب کی بار تو مزہ ہی دوبالا ہوگیا جب ابراہیم نے یہ الفاظ سنے تو فرمایااللہ کے بندے بڑی مہربانی ہوگی اگر یہ کلمات دوبارہ سنادو اسی طرح میٹھی آواز میں، اب رہا نہیں جاتااس بندے نے کہا اب تو بکریاں بھی نہیں ہے مجھے کیا دوگےابراہیم نے فرمایادیکھو بھائ بکریاں چرانے کے لیے تجھے ایک چرواہے کی ضرورت تو پڑے گی ہی، مجھے ہی نوکر رکھ لو"
 یہ سن کر فرشتہ بولا" ماشاء اللہ ۔ میں انسان نہیں فرشتہ ہوں اور آپکا امتحان لینے کے غرض سے آیا تھا اللہ نے آپکو کامیاب کیا آپکی اللہ سے محبت اور تڑپ نے ثابت کردیا کہ اللہ نے آپکو خلیل اللہ کا لقب یوں نہیں دیا۔

اس واقعے کی تحقیق درکار ھے!!!

 ••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*

  یہ واقعہ تلاش بسیار کے بعد بہی ہمکو کتب میں نہ مل سکا؛ لہذا اسکے بیان کو موقوف رکھا جائے؛ تاہم یہ واقعہ الفاظ کے معمولی فرق کیساتھ ایک کتاب "اتحاف الاخصا بفضائل المسجد الاقصی " میں بلا کسی سند و حوالہ صیغۂ قیل ( تمریض) سے مذکور ھے:
جسکا خلاصہ عرض ہے کہ سیدنا ابراہیمؑ کے خیر و خوبی میں اضافے اور دنیا سے بے رغبتی  کو دیکھ کر فرشتوں نے کہا: کہ ابراہیمؑ کا ظاہر تو ایسا ھے کہ ان کو دنیا کی چمک لمحہ بہر کو بہی خدا تعالی کی یاد سے غافل نہیں کرتی لیکن کیا باطنی کیفیات بہی ان کی ایسی ہی ہیں؟ ﷲ کو فرشتوں کے کہنے کا مطلب کیا تہا اسکا بخوبی علم تہا تو خدا تعالی نے فرشتوں میں سے دو جلیل القدر فرشتوں ( جبرئیل و میکائیل ) کو ابراہیم کے پاس بہیجا کہ وہ ابراہیم کے مہمان بن کر جایئں اور باآواز بلند اللہ کا ذکر کریں تو وہ انسان کی صورت میں مہمان بن کر در دولت ابراہیم پہونچے اور رات کو قیام کیا اور جب رات کا کچھ حصہ بیت گیا تو ایک فرشتہ نے سبحان الملک القدوس ذی الملک والملکوت کہا, دوسرے نے سبحان الملک القدوس کہا, حضرت ابراہیم پر اس مسحور کن آواز سے مدہوشی طاری ہوگئ کچھ افاقہ ہوا تو یہ کلمات دہرانے کی درخواست کی ۔فرشتوں نے کہا ہم بلا معاوضہ نہیں دہراینگے ۔الغرض ابراہیم نے اپنی بکریاں گائے و دیگر مویشیوں کو بطور ہدیہ دینے کا وعدہ کیا اور تمام مال یونہی ذکر رب سننے کی چاہ میں خرچ کردیا تب حقیقت سے فرشتوں نے پردہ اٹھایا اور تمام واقعہ کہہ سنایا ۔اور سیدنا ابراہیمؑ کے مال و اولاد میں برکت و کثرت اور سلامتی کی خوب خوب دعا دیکر واپس ہوئے۔

٭ المصدر: إتحاف الأخصا في فضائل المسجد الأقصي
٭ المؤلف: أبو عبد الله محمد بن شهاب الدين أحمد بن علي بن عبد الخالق المنهاجي شمس الدين السيوطيؒ
٭ المجلد: 2
٭ الصفحة: 70
٭ الطبع: الهيئة المصرية العامة للكتاب، مصر.

والله تعالي أعلم
✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*
۲۵ رمضان: ١٤٤١ھ؁

عید کا دن اور یتیم بچہ

🌟 *عید کا دن اور یتیم بچہ*🌟

ایک مرتبہ ہمارے پیارے نبیﷺ نماز عید کے لیے نکلے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ سب بچے کھیل رہے ہیں مگر ان میں ایک بچہ ایک طرف بیٹھا رو رہا ہے اور اس کے کپڑے بھی پھٹے پرانے ہیں۔
 پیارے نبیﷺ نے اس بچے سے فرمایا: "بیٹا کیا بات ہے تو رو رہا ہے اور بچے کے ساتھ کھیلتا نہیں"
 غالباً بچہ نہیں جانتا ہوگا کہ اس کے مخاطب ہمارے پیارے نبیﷺ ہیں۔ یا پریشانی کی وجہ سے نہیں پہچان سکا ہوگا اس لیے اس نے کہا صاحب مجھے میرے حال پر چھوڑ دیجئے دراصل میرا باپ فلاں غزوے میں ہمارے پیارے نبیﷺ کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے شہید ہوگیا تھا میری ماں نے دوسرا نکاح کر لیا۔ وہ میرا مال کھا گئے اور میرے سوتیلے باپ نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے۔ اب میرے پاس نہ کھانا ہے نہ پینا نہ کپڑا نہ گھر۔ جب میں نے ان بچوں کو کھیلتے اور نئے کپڑے پہنے دیکھا تو میرا غم تازہ ہوگیا اسی لیے رو پڑا- ہمارے پیارے نبیﷺ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کیا تو اس بات پر راضی نہیں ہے میں تیرا باپ عائشہؓ تیری ماں فاطمہؓ تیری بہن علیؓ تیرے چاچا اور حسنؓ و حسینؓ تیرے بھائی ہوں- کہنے لگا یارسول اللہﷺ اس پر میں کیسے راضی نہیں ہو سکتا- ہمارے پیارے نبیﷺ اسے گھر لے آئے اور اسے خوب صورت کپڑے پہنائے نہلایا دھلایا اور کھانا کھلایا- وہ خوش وخرم باہر نکلا تو لڑکوں نے پوچھا ابھی تو تو رو رہا تھا اور اب بڑا خوش وخرم ہے بات کیا ہوئی ہے وہ کہنے لگا میں بھوکا تھا اللہ تعالیٰ نے میرے کھانے کا انتظام کردیا میں ننگا تھا الله تعالی نے میرے کپڑے کا انتظام کردیا- اور اب میرے باپ رسول اللہﷺ ماں سیدہ عائشہؓ بہن سیدہ فاطمہؓ چچا سیدنا علیؓ اور بھائی حسن وحسینؓ بن چکے ہیں- یہ سن کا لڑکے کہنے لگے کاش آج ہمارے باپ بھی نہ ہوتے- یہ لڑکا ہمیشہ ہمارے پیارے نبیﷺ کی زیرکفالت رہا- حتی کہ جس دن آپﷺ نے وصال فرمایا تو یہ بچہ رو رہا تھا اور کہہ رہا تھا افسوس میں آج پھر یتیم اور غریب ہوگیا- اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے اس کو اپنے ساتھ ملا لیا-


(بحوالہ: پیارے نبی صلی اللہ علیه وسلم کے پیارے واقعات. ناشر: اسلامی کتب خانہ, کراچی)

اس واقعہ کی تحقیق مطلوب ھے!!!

••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*

 یہ واقعہ عیدین میں بالخصوص نبی پاکؐ کی یتیموں سے محبت و شفقت کے عنوان سے خطباء بہت بیان کرتے ہیں؛ اور اس کے کثرت بیان سے یہ اس قدر مشہور ہوا کہ لگتا ھے کہ واقعتا یہ واقعہ درست ہوگا( یہ الگ بات ھے یتیموں و بے سہاراؤں سے حضور مقبولؐ کو بہت پیار و محبت تہی) لیکن جب تحقیق کی گئ تو ظاہر ہوا یہ واقعہ سرے سے ثابت بالسند نہیں ھے؛ لہذا اس کو بیان کرنے سے احتراز کیا جائے۔ اس عنوان سے مستند واقعات سیرت و کتب حدیث سے بیان کیے جایئں۔

🔰 *واقعہ کی عربی عبارت* 🔰

خرج النبي صلى الله عليه وسلم يوم العيد لأجل صلاة العيد
فرأى الصبيان يلعبون ووجد صبيا واقفاً يبكي فقال له النبي صلى الله عليه وسلم مايبكيك أيها الصبي فقال له الصبي وهو لم يعرف إنه النبي صلى الله عليه وسلم دعني أيها الرجل فإن ابي مات في أحد الغزوات مع رسول الله  صلى الله عليه وسلم وأمي تزوجت بغير أبي فأخذ داري وأكل مالي فصرت كما تراني عاريا جائعا حزيناً ذليلا فلما أتى يوم العيد رأيت الصبيان يلعبون فتشدد حزني فبكيت فقال له النبي صلى الله عليه وسلم أما ترضى أن أكون لك أبا وعائشة أما وفاطمة أختا  وعلي عما والحسن والحسين إخوة فقال له الصبي كيف لا أرضى يارسول الله فأخذه النبي صلى الله عليه وسلم وتوجه به إلى داره فأطعمه وألبسه لباس العيد فخرج الصبي يلعب مع الصبيان فقال له الصبيان كنت واقفاً بيننا الآن تبكي وما يضحكك الآن فقال لهم كنت جائعا فشبعت وكنت عاريا فكسيت وكنت بغير ابي فأصبح رسول الله أبي وعائشة أمي وفاطمة أختي وعلي عمي والحسن والحسين إخوتي  فقال له الصبيان ياليت آباءنا ماتوا في أحد الغزوات مع رسول الله صلى الله عليه.

▪️ *واقعہ پر کلام* ▪️

وقصة اليتيم التي تقرأ علي المنابر ايام الاعياد وفيها:  وجده يبكي يوم العيد فقال له:ايها الصبي! مالك تبكي؟ فقال: دعني فان ابي مات في الغزو مع رسول الله، وليس لي طعام ولا شراب، فاخذه بيده وقال: اما ترضي ان اكون لك ابا، وعائشة اما؟ الخ.

⚠️ وقد فتشت عليها كثيرا في الكتب فلم اجدها الا في كتاب (التحفة المرضية) وهو قد حوي من الخرافات والاكاذيب والترَّهات شيئا كثيرا،وقد جعلها الرويني في ديوانه خطبة لعيد الفطر، فاحذروا الكذب علي رسول الله فوق المنابر.

٭ المصدر: السنن والمبتدعات
٭ المؤلف: الشقيريؒ
٭ الصفحة: 107
٭ الطبع: دار الشريعة، قاهرة، مصر.

🔖 *کتب حذر منہا العلماء میں*

اؔبو عبیدہ مشہور بن حسن آل سلمان نے اپنی کتاب "کتب حذر منھا العلماء" میں بہی اس کا رد کیا ھے.

٭ المصدر: كتب حذر منها العلماء
٭ المؤلف: مشهور بن حسنؒ
٭ المجلد: 2
٭ الصفحة: 212

٭ الطبع: دار الصميعي، الرياض،السعودية.

📌 *التصدی للبدع والاباطیل میں*

اس واقعہ کو "اشرف بن ابراہیم قطقاط" نے بہی غیر ثابت بتایا ھے۔

* المصدر: التصدي للبدع والاباطيل
* المؤلف: أشرف بن إبراهيم قطقاط
* المجلد: 2
* الصفحة: 130
* الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

⏹️ *ایک دوسرا واقعہ*

اسی سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ بسند ضعیف "حیاۃ الصحابۃ" از : «شیخ یوسف کاندھلویؒ»  وغیرہ میں موجود ھے جسکو بیان کیا جاسکتا ہے : حضرت بشیر بن عقربہ جہنیؓ صحابی کی حضورؐ سے غزوہ احد میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے نبی کریمؐ سے معلوم کیا: میرے والد کا کیا بنا؟ جواب ملا: کہ راہ خدا میں شہید ہوگئے , تو وہ رونے لگے حضورؐ نے ان کو لیا اور سر پر دست شفقت پھیرا اور اپنے ساتھ کرلیا اور فرمایا: کیا تو اس بات سے خوش نہیں کہ میں تیرا باپ اور عائشہؓ تیری ماں کہلائے؟

🔰 عَنْ بَشِيرِ بْنِ عَقْرَبَةَ الْجُهَنِيِّ ، قَالَ : لَقِيتُ رَسُولَ الله صلى الله عليه وسلم يَوْمَ أُحُدٍ فَقُلْتُ : مَا فَعَلَ أَبِي؟ فَقَالَ : " اسْتُشْهِدَ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهِ "، فَبَكَيْتُ، فَأَخَذَنِي فَمَسَحَ رَأْسِي وَحَمَلَنِي مَعَهُ، وَقَالَ : " أَمَا تَرْضَى أَنْ أَكُونَ أَنَا أَبُوكَ وَتَكُونَ عَائِشَةُ أُمَّكَ "

÷ المصدر: مجمع الزوائد
÷ المجلد: 8
÷ الصفحة: 207
÷ الرقم: 13517
÷ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
÷ الدرجة: فيه من لا يعرف.

💠 *الاصابة ميں بهي*

٭ المصدر: الإصابة في تمييز الصحابةؓ
٭ المؤلف: ابن حجر العسقلانيؒ
٭ المجلد: 1
٭ الصفحة: 433
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻 ... کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
۱۸ مئ: ؁۲۰۲۰ء

Sunday, May 10, 2020

دعائے جمیلہ

▪️••• *دعائے جمیلہ* ••• ▪️

روایت ہیکہ ایک دن حضرت رسالت پناہؐ مسجد مدینہ منورہ میں بیٹھے تہے کہ حضرت حبرئیلؑ آئے اور کہا: یا رسول ﷲ! حق تعالی سلام فرماتا ھے اور یہ دعا جمیلہ آپ کی امت کیلیے بھیجی ھے حضور نے دریافت کیا کہ اسکا ثواب کتنا ھے ؟ جبرئیل نے کہا کہ جو اسکو پڑھے یا اپنے پاس رکھے اگر چہ اسکے گناہ مانند کفِ دریا یا مثل ریت جنگل یا موافق درختوں کے پتوں کے ہوں حق تعالی بخش دےگا اور وقتِ جان کندنی اپنے یدِقدرت سے خاتمہ بالخیر کریگا اور قبر میں ایک فرشتہ قیامت تک اس کی حفاظت کریگا اور جوکوئی پندرہویں رمضان کو روزہ کھولنے کے وقت پڑھیگا یا پڑھنانہ جانتا ہو تو اپنے ہاتھ میں رکہیگا اور گیارہ مرتبہ درود شریف " اللہم صل علی سیدنا محمد وعلی آل سیدنا ومولانا محمد وبارک وسلم برحمتک یا ارحم الراحمین" باوضو پڑھے گا تو ثواب بے حد پایئگا اور جو حاجت رکہتا ہو ﷲ  اسکو پورا کرےگا اگر ساری عمر میں ایک دفعہ پڑھے یا اپنے پاس رکھے قیامت کے دن آسانی سے پلصراط سے گزر کر جنت میں داخل ہوگا اور جو کوئی اس دعا کو پڑھے یا اپنے پاس رکھے قیامت میں اسکا چہرہ روشن ہوگا اور وہ دعائے معروفہ یہ ہے:

یَا جَمیلُ یا ﷲ یا رقیب یا ﷲ یا عجیب یا ﷲ
یَا رؤف یا ﷲ یا معروف یا ﷲ یا لطیف یا ﷲ
یا حَنّانُ یا ﷲ یا منَّان یا ﷲ یا مجیب یا ﷲ
یا عظیمُ یا ﷲ یا دَیَّانُ یا ﷲ یَا بُرھَانُ یا ﷲ الی آخرہ .

اس دعائے جمیلہ کے فضائل کے متعلق روشنی ڈالیں کیا واقعتا اسکے حدیث میں مذکورہ فضائل وارد ہیں؟

•• *باسمہ تعالی* ••
*الجواب وبہ التوفیق:*


(طویل ترین)دُعائے جمیلہ جو آپ نے معلوم ہے، وہ کسی حدیث میں تو وارِد نہیں، نہ ان کی کوئی فضیلت ہی احادیث میں ذکر کی گئی ہے، اور جو فضائل اس کے شروع میں درج کئے گئے ہیں، ان کو صحیح سمجھنا ہرگز جائز نہیں، کیونکہ یہ خالص جھوٹ ہے، اور جھوٹی بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا وبالِ عظیم ہے۔ تاہم الفاظ کسی نے بڑی محنت سے جمع کیے ہیں ؛ فی نفسہ الفاظ درست ہیں ۔

مستفاد:
• نام کتاب: آپ کے مسائل اور ان کا حل
• نام مؤلف: علامہ لدھیانوی شہید
• جلد: 2
• صفحہ:286
• طبع: مکتبہ لدھیانوی کراچی۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*
16 رمضان 1441ھ