▪️ *صحابیہؓ کی دعا پر فوت شدہ بچے کا زندہ ہونا* ▪️
ایک حدیث سنتے آرہے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ مدینہ میں ایک بچہ فوت ہو گیا تھا ۔ اس کی والدہ کو جب علم ہوا تو اس نے دعا کی کہ کفار مجھے طعنہ دیں گے کہ اسلام میں داخل ہوئی ہو اور اپنا بچہ گنوا دیا ہے۔ تو وہ بچہ زندہ ہو گیا اور رات کا کھانا اپنی والدہ کے ساتھ کھایا۔
کیا یہ روایت ٹھیک ہے؟ اور اس کو آگے بیان کرنے کا کیا حکم ہے؟.
••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*
یہ واقعہ " شیخ یوسف کاندھلویؒ" نے بہی _حیات الصحابۃؓ_ میں نقل کیا ھے؛ لیکن اسکی سند میں انقطاع ھے ؛ لہذا روایت ضعیف اور ناقابل بیان ھے۔
☢️ حیات الصحابۃؓ میں ☢️
عن عبد الله بن عون، عن أنس قال: أدركت في هذه الأمة ثلاثا لو كانت في بني إسرائيل لما تقاسمها الأمم. قلنا: ما هي يا أبا حمزة؟ قال: كنا في الصفة عند رسول الله - ﷺ - فأتته امرأة مهاجرة ومعها ابن لها قد بلغ فأضاف المرأة إلى النساء، وأضاف ابنها إلينا فلم يلبث أن أصابه وباء المدينة فمرض أياما ثم قبض، فغمضه النبي - ﷺ - وأمر بجهازه، فلما أردنا أن نغسله. قال: « يا أنس إئت أمه فأعلمها » فأعلمتها. قال: فجاءت حتى جلست عند قدميه فأخذت بهما ثم قالت: اللهم إني أسلمت لك طوعا، وخالفت الأوثان زهدا، وهاجرت لك رغبة، اللهم لا تشمت بي عبدة الأوثان، ولا تحملني من هذه المصيبة ما لا طاقة لي بحملها. قال: فوالله ما انقضى كلامها حتى حرك قدميه وألقى أثوب عن وجهه وعاش حتى قبض الله رسوله ﷺ، وحتى هلكت أمه.
▪️ *ترجمہ*
حضرت عبداللہ بن عون کہتے ہیں: حضرت انس ؓ نے فرمایا: میں نے اس اُمّت میں ایسی تین باتیں پائی ہیں کہ وہ اگر بنی اسرئیل میں ہو تیں توکوئی اُمّت ان کا مقابلہ اور ان کی برابری نہ کرسکتی۔ ہم نے کہا: اے ابوحمزہ! وہ تین باتیں کیا ہیں؟ انھوں نے فرمایا: ایک مرتبہ ہم لوگ صُفَّہ میں حضورﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک مہاجر عورت حضور ﷺ کی خدمت میں آئی اور اس کے ساتھ اس کا ایک بیٹا بھی تھا جو کہ بالغ تھا۔ حضور ﷺ نے اس عورت کو (مدینہ کی) عورتوں کے سپرد کردیا اور اس کے بیٹے کو ہمارے ساتھ شامل کردیا۔ کچھ ہی عرصہ کے بعد وہ مدینہ کی وبامیں مبتلاہوگیا اور چند دن بیمار رہ کر فوت ہوگیا۔ حضور ﷺ نے اس کی آنکھیں بند کیں اور ہمیں اس کا جنازہ تیار کرنے کا حکم دیا۔ جب ہم نے اسے غسل دینا چاہا تو حضورﷺ نے فرمایا: جاکر اس کی والدہ کو بتادو۔ چنانچہ میں نے اسے بتادیا۔ وہ آئی اور بیٹے کے پیروں کے پاس بیٹھ گئی اور اس کے دونوں پاؤں پکڑ کر اس نے یہ دعامانگی: اے اللہ! میں اپنی خوشی سے مسلمان ہوئی اور میرے دل کا میلان بتوں سے
بالکل ہٹ گیا۔ اس لیے میں نے انھیں چھوڑاہے، اور تیری وجہ سے بڑے شوق سے میں نے ہجرت کی۔ اور مجھ پر یہ مصیبت بھیج کر بتوں کے پوجنے والوں کو خوش نہ کر اور جو مصیبت میں اٹھا نہیں سکتی وہ مجھ پر نہ ڈال۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں: ابھی اس کی والدہ کی دعا ختم نہیں ہوئی تھی کہ اس کے بیٹے نے اپنے قدموں کو ہلایا اور اپنے چہرے سے کپڑاہٹایا (اور زندہ ہوکر بیٹھ گیا) اور بہت عرصہ تک زندہ رہا یہاں تک کہ حضورﷺ کا انتقال ہوگیا اور اس کے سامنے اس کی ماں کا بھی انتقال ہوا۔
٭ المصدر: حياة الصحابةؓ
٭ المؤلف: الشيخ یوسف الكاندهلويؒ
٭ الصفحة: 821
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
💠 *دلائل النبوة ميں*💠
٭امام بیہقیؒ٭ نے بہی یہ واقعہ «دلائل النبوۃ» میں ذکر فرمایا ھے: اور اسکو دو طرح روایت کیا ھے: ایک سند " صالح بن بشیر مری" کی وساطت سے ھے اور اس راوی پر محشی نے محدثین کا کلام نقل کیا ھے کہ یہ راوی منکر الحدیث, واعظ فقط, اور کمزور ھے۔
دوسری سند عیسی بن یونس سے ھے لیکن انقطاع اسمیں بہی ھے :
* نام كتاب: دلائل النبوة
* محدث: الامام البيهقيؒ
* المجلد: 6
* الصفحة: 51
* الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
🔰 *البداية والنهاية* ميں🔰
عؔلامہ "ابن کثیر" نے بہی اسکو ذکر کیا ھے؛ لیکن انہوں نے خود صراحت کی ھے کہ یہ روایت منقطع ھے:
÷ نام كتاب: البداية والنهاية
÷ المحدث: ابن كثير ؒ
÷ المجلد: 6
÷ الصفحة: 154
÷ الطبع: مكتبة المعارف، بيروت، لبنان.
🔖 *منقطع روايت كا حكم*🔖
شیخ محمد بن صالح الؔعثیمن نے مصطلح الحدیث میں لکہا ھے: کہ منقطع روایت غیر مقبول ہے سوائے چار طرح کی منقطعات کے ( ان چار طرح میں مذکورہ روایت نہیں ھے)
★ ومنقطع السند بجميع اقسامه مردود للجهل بحال المحذوف، سوي ما ياتي:1) مرسل الصحابي 2) مرسل كبار التابعين عند كثير من أهل العلم، إذا عضده مرسل آخر، أو عمل صحابي، أو قياس. 3) المعلق إذا كان بصيغة الجزم في كتاب التزمت صحته، كصحيح البخاري، 4) ماجاء متصلا من طريق آخر، وتمت فيه شروط القبول.
٭ المصدر: مصطلح الحديث
٭ المؤلف: محمد بن صالح العثيمين
٭ الصفحة: 14
٭ الطبع: مكتبة العلم، قاهرة، مصر.
وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
۱۹ جولايئ: ء۲۰۲۰
ایک حدیث سنتے آرہے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ مدینہ میں ایک بچہ فوت ہو گیا تھا ۔ اس کی والدہ کو جب علم ہوا تو اس نے دعا کی کہ کفار مجھے طعنہ دیں گے کہ اسلام میں داخل ہوئی ہو اور اپنا بچہ گنوا دیا ہے۔ تو وہ بچہ زندہ ہو گیا اور رات کا کھانا اپنی والدہ کے ساتھ کھایا۔
کیا یہ روایت ٹھیک ہے؟ اور اس کو آگے بیان کرنے کا کیا حکم ہے؟.
••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*
یہ واقعہ " شیخ یوسف کاندھلویؒ" نے بہی _حیات الصحابۃؓ_ میں نقل کیا ھے؛ لیکن اسکی سند میں انقطاع ھے ؛ لہذا روایت ضعیف اور ناقابل بیان ھے۔
☢️ حیات الصحابۃؓ میں ☢️
عن عبد الله بن عون، عن أنس قال: أدركت في هذه الأمة ثلاثا لو كانت في بني إسرائيل لما تقاسمها الأمم. قلنا: ما هي يا أبا حمزة؟ قال: كنا في الصفة عند رسول الله - ﷺ - فأتته امرأة مهاجرة ومعها ابن لها قد بلغ فأضاف المرأة إلى النساء، وأضاف ابنها إلينا فلم يلبث أن أصابه وباء المدينة فمرض أياما ثم قبض، فغمضه النبي - ﷺ - وأمر بجهازه، فلما أردنا أن نغسله. قال: « يا أنس إئت أمه فأعلمها » فأعلمتها. قال: فجاءت حتى جلست عند قدميه فأخذت بهما ثم قالت: اللهم إني أسلمت لك طوعا، وخالفت الأوثان زهدا، وهاجرت لك رغبة، اللهم لا تشمت بي عبدة الأوثان، ولا تحملني من هذه المصيبة ما لا طاقة لي بحملها. قال: فوالله ما انقضى كلامها حتى حرك قدميه وألقى أثوب عن وجهه وعاش حتى قبض الله رسوله ﷺ، وحتى هلكت أمه.
▪️ *ترجمہ*
حضرت عبداللہ بن عون کہتے ہیں: حضرت انس ؓ نے فرمایا: میں نے اس اُمّت میں ایسی تین باتیں پائی ہیں کہ وہ اگر بنی اسرئیل میں ہو تیں توکوئی اُمّت ان کا مقابلہ اور ان کی برابری نہ کرسکتی۔ ہم نے کہا: اے ابوحمزہ! وہ تین باتیں کیا ہیں؟ انھوں نے فرمایا: ایک مرتبہ ہم لوگ صُفَّہ میں حضورﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک مہاجر عورت حضور ﷺ کی خدمت میں آئی اور اس کے ساتھ اس کا ایک بیٹا بھی تھا جو کہ بالغ تھا۔ حضور ﷺ نے اس عورت کو (مدینہ کی) عورتوں کے سپرد کردیا اور اس کے بیٹے کو ہمارے ساتھ شامل کردیا۔ کچھ ہی عرصہ کے بعد وہ مدینہ کی وبامیں مبتلاہوگیا اور چند دن بیمار رہ کر فوت ہوگیا۔ حضور ﷺ نے اس کی آنکھیں بند کیں اور ہمیں اس کا جنازہ تیار کرنے کا حکم دیا۔ جب ہم نے اسے غسل دینا چاہا تو حضورﷺ نے فرمایا: جاکر اس کی والدہ کو بتادو۔ چنانچہ میں نے اسے بتادیا۔ وہ آئی اور بیٹے کے پیروں کے پاس بیٹھ گئی اور اس کے دونوں پاؤں پکڑ کر اس نے یہ دعامانگی: اے اللہ! میں اپنی خوشی سے مسلمان ہوئی اور میرے دل کا میلان بتوں سے
بالکل ہٹ گیا۔ اس لیے میں نے انھیں چھوڑاہے، اور تیری وجہ سے بڑے شوق سے میں نے ہجرت کی۔ اور مجھ پر یہ مصیبت بھیج کر بتوں کے پوجنے والوں کو خوش نہ کر اور جو مصیبت میں اٹھا نہیں سکتی وہ مجھ پر نہ ڈال۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں: ابھی اس کی والدہ کی دعا ختم نہیں ہوئی تھی کہ اس کے بیٹے نے اپنے قدموں کو ہلایا اور اپنے چہرے سے کپڑاہٹایا (اور زندہ ہوکر بیٹھ گیا) اور بہت عرصہ تک زندہ رہا یہاں تک کہ حضورﷺ کا انتقال ہوگیا اور اس کے سامنے اس کی ماں کا بھی انتقال ہوا۔
٭ المصدر: حياة الصحابةؓ
٭ المؤلف: الشيخ یوسف الكاندهلويؒ
٭ الصفحة: 821
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
💠 *دلائل النبوة ميں*💠
٭امام بیہقیؒ٭ نے بہی یہ واقعہ «دلائل النبوۃ» میں ذکر فرمایا ھے: اور اسکو دو طرح روایت کیا ھے: ایک سند " صالح بن بشیر مری" کی وساطت سے ھے اور اس راوی پر محشی نے محدثین کا کلام نقل کیا ھے کہ یہ راوی منکر الحدیث, واعظ فقط, اور کمزور ھے۔
دوسری سند عیسی بن یونس سے ھے لیکن انقطاع اسمیں بہی ھے :
* نام كتاب: دلائل النبوة
* محدث: الامام البيهقيؒ
* المجلد: 6
* الصفحة: 51
* الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
🔰 *البداية والنهاية* ميں🔰
عؔلامہ "ابن کثیر" نے بہی اسکو ذکر کیا ھے؛ لیکن انہوں نے خود صراحت کی ھے کہ یہ روایت منقطع ھے:
÷ نام كتاب: البداية والنهاية
÷ المحدث: ابن كثير ؒ
÷ المجلد: 6
÷ الصفحة: 154
÷ الطبع: مكتبة المعارف، بيروت، لبنان.
🔖 *منقطع روايت كا حكم*🔖
شیخ محمد بن صالح الؔعثیمن نے مصطلح الحدیث میں لکہا ھے: کہ منقطع روایت غیر مقبول ہے سوائے چار طرح کی منقطعات کے ( ان چار طرح میں مذکورہ روایت نہیں ھے)
★ ومنقطع السند بجميع اقسامه مردود للجهل بحال المحذوف، سوي ما ياتي:1) مرسل الصحابي 2) مرسل كبار التابعين عند كثير من أهل العلم، إذا عضده مرسل آخر، أو عمل صحابي، أو قياس. 3) المعلق إذا كان بصيغة الجزم في كتاب التزمت صحته، كصحيح البخاري، 4) ماجاء متصلا من طريق آخر، وتمت فيه شروط القبول.
٭ المصدر: مصطلح الحديث
٭ المؤلف: محمد بن صالح العثيمين
٭ الصفحة: 14
٭ الطبع: مكتبة العلم، قاهرة، مصر.
🔘 *تيسير مصطلح الحديث* 🔘
منقطع روایت کا حکم یہ ھے کہ وہ بالاتفاق ضعیف ہوتی ہے:
وحكمه: المنقطع ضعيف بإجماع العلماء لفقده شرطا من شروط القبول، وهو اتصال السند، وللجهل بحال الراوي المحذوف.
٭ المصدر: تيسير مصطلح الحديث
٭ المؤلف: د/ محمود الطحان
٭ الصفحة: 95
٭ الطبع: مكتبة المعارف، الرياض، السعودية.
وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
۱۹ جولايئ: ء۲۰۲۰
No comments:
Post a Comment