▪️ *حج میں شیطان کے ماری جانیوالی کنکریاں کہاں جاتی ہیں* ▪️
السلام علیکم مفتی صاحب!
مجھے یہ معلوم کرنا ھے: کہ حج میں جو جمرات پر لاکھوں حجاج کرام کنکریاں مارتے ہیں وہ کہاں چلی جاتی ہیں مجہے کسی نے بتایا تہا کہ جن حاجیوں کی کنکریاں مقبول ہوجاتی ہیں وہ فرشتے اٹھا لیجاتے ہیں اور جنکی مقبول نہیں ہوتیں وہ وہیں پڑی رہ جاتی ہیں۔
کیا یہ بات حدیث سے ثابت ھے؟
از راہ کرم روشنی ڈالیں!!!!
••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*
اس بارے میں امام بیہقی نے روایت ذکر کی ھے:
⏺️ عن أبي الطفيل: سالت ابن عباس عن الحصي الذي يرمي في الجمار منذ قام الاسلام، فقال: ما تقبل منهم رفع، وما لم يتقبل منهم ترك، ولولا ذلك، لسد ما بين الجبلين.
★ ( ترجمة) حضرت ابو الطفیل نے حضرت ابن عباس سے معلوم کیا: کہ وہ کنکریاں جو جمرات میں شیطان کو ماری جاتی ہیں وہ کہاں چلی جاتی ہیں؟ تو حضرت نے جواب دیا: جنکا حج مقبول ہوجائے انکی کنکریاں اٹھالی جاتی ہیں اور جنکا حج مقبول نہ ہو ان کی کنکریاں چھوڑ دی جاتی ہیں, اور اگر ایسا نہ ہو تو پہاڑوں کے درمیان کی جگہ بھر جائے۔
🔰 وروينا عن سفيان الثوري عن ابي خيثم، عن ابي الطفيل عن ابن عباس قال: وكل به ملك، ما تقبل منه رفع، وما لم يتقبل منه ترك.
★ ( ترجمة) ابن عباس سے مروی ھے: کہ ایک فرشتہ اس کام پر مقرر ھے: جو قبول ہوجاتی ہیں وہ اٹھالی جاتی ہیں اور جو قبول نہ ہوں وہ چھوڑ دی جاتی ہیں۔
☢️ وعن سفيان قال: حدثني سليمان العبسي، عن ابي نعيم، قال: سألت أباسعيد عن رمي الجمار؟ فقال لي: ما تقبل منه رفع، ولولا ذلك، كان أطول من ثبير.
★ (ترجمة ) حضرت ابو سعید نے ابونعیم کے سوال( کہ جمرات کی کنکریاں کہاں جاتی ہیں) کے جواب میں ارشاد فرمایا : جو قبول ہوجاتی ہیں وہ اٹھالی جاتی ہیں اگر ایسا نہ ہو تو یہ پہاڑ کی طرح ڈھیر بن جائے۔
• المصدر: السنن الكبري
• المحدث: البيهقيؒ
• المجلد : 5
• الصفحة: 209
• الرقم: 9543
• الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
❇️ *روایت کا درجہ*❇️
ہمکو «فتاوی دار العلوم زکریا» میں اس روایت کے متعلق یہ ملا: یہ روایت ضعیف ھے ؛ لہذا اس معاملہ کے متعلق یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا ھے ؛ بلکہ ممکن اور گمان کے درجے میں یہ بات مانی جاسکتی ھے۔
÷ نام کتاب: فتاوي دار العلوم زكريا
÷ افادات : مفتي رضاء الحق
÷ مجلد: 1
÷ صفحة: 308
÷ طبع: زمزم پبلشرز، نزد: مقدس مسجد، اردو بازار، كراچي، پاكستان.
🟣 *ابن حجرؒ كي تصريح*🟣
موسوعہ حافظ ابن حجر میں بہی اسی طرح کی روایت ذکر ھے؛ جس کو ضعیف لکہا گیا ھے۔
🔖 روى الدارقطني والحاكم من طریق عبد الرحمن بن أبي سعيد عن ابیہ قلنا: يارسول الله، هذه الجمار التي یرمي بها كل عام، فنحسب أنها تنقص، فقال: إنہ مايقبل منها یرفع، ولولا ذلك لرأيتها أمثال الجبال»
وفيه أبوفروة يزيد بن سنان، وهو ضعيف.
٭ المصدر: موسوعة الؔحافظ ابن حجر العسقلانيؒ الحديثية
٭ المؤلف: وليد الزبيدي وغيره
٭ المجلد: 2
٭ الصفحة: 283
٭ الرقم: 399
٭ الطبع: سلسلة إصدارات الحكمة.
والله تعالي أعلم
✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*
۱۹ جولايی: ۲۰۲۰ء
السلام علیکم مفتی صاحب!
مجھے یہ معلوم کرنا ھے: کہ حج میں جو جمرات پر لاکھوں حجاج کرام کنکریاں مارتے ہیں وہ کہاں چلی جاتی ہیں مجہے کسی نے بتایا تہا کہ جن حاجیوں کی کنکریاں مقبول ہوجاتی ہیں وہ فرشتے اٹھا لیجاتے ہیں اور جنکی مقبول نہیں ہوتیں وہ وہیں پڑی رہ جاتی ہیں۔
کیا یہ بات حدیث سے ثابت ھے؟
از راہ کرم روشنی ڈالیں!!!!
••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*
اس بارے میں امام بیہقی نے روایت ذکر کی ھے:
⏺️ عن أبي الطفيل: سالت ابن عباس عن الحصي الذي يرمي في الجمار منذ قام الاسلام، فقال: ما تقبل منهم رفع، وما لم يتقبل منهم ترك، ولولا ذلك، لسد ما بين الجبلين.
★ ( ترجمة) حضرت ابو الطفیل نے حضرت ابن عباس سے معلوم کیا: کہ وہ کنکریاں جو جمرات میں شیطان کو ماری جاتی ہیں وہ کہاں چلی جاتی ہیں؟ تو حضرت نے جواب دیا: جنکا حج مقبول ہوجائے انکی کنکریاں اٹھالی جاتی ہیں اور جنکا حج مقبول نہ ہو ان کی کنکریاں چھوڑ دی جاتی ہیں, اور اگر ایسا نہ ہو تو پہاڑوں کے درمیان کی جگہ بھر جائے۔
🔰 وروينا عن سفيان الثوري عن ابي خيثم، عن ابي الطفيل عن ابن عباس قال: وكل به ملك، ما تقبل منه رفع، وما لم يتقبل منه ترك.
★ ( ترجمة) ابن عباس سے مروی ھے: کہ ایک فرشتہ اس کام پر مقرر ھے: جو قبول ہوجاتی ہیں وہ اٹھالی جاتی ہیں اور جو قبول نہ ہوں وہ چھوڑ دی جاتی ہیں۔
☢️ وعن سفيان قال: حدثني سليمان العبسي، عن ابي نعيم، قال: سألت أباسعيد عن رمي الجمار؟ فقال لي: ما تقبل منه رفع، ولولا ذلك، كان أطول من ثبير.
★ (ترجمة ) حضرت ابو سعید نے ابونعیم کے سوال( کہ جمرات کی کنکریاں کہاں جاتی ہیں) کے جواب میں ارشاد فرمایا : جو قبول ہوجاتی ہیں وہ اٹھالی جاتی ہیں اگر ایسا نہ ہو تو یہ پہاڑ کی طرح ڈھیر بن جائے۔
• المصدر: السنن الكبري
• المحدث: البيهقيؒ
• المجلد : 5
• الصفحة: 209
• الرقم: 9543
• الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
❇️ *روایت کا درجہ*❇️
ہمکو «فتاوی دار العلوم زکریا» میں اس روایت کے متعلق یہ ملا: یہ روایت ضعیف ھے ؛ لہذا اس معاملہ کے متعلق یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا ھے ؛ بلکہ ممکن اور گمان کے درجے میں یہ بات مانی جاسکتی ھے۔
÷ نام کتاب: فتاوي دار العلوم زكريا
÷ افادات : مفتي رضاء الحق
÷ مجلد: 1
÷ صفحة: 308
÷ طبع: زمزم پبلشرز، نزد: مقدس مسجد، اردو بازار، كراچي، پاكستان.
🟣 *ابن حجرؒ كي تصريح*🟣
موسوعہ حافظ ابن حجر میں بہی اسی طرح کی روایت ذکر ھے؛ جس کو ضعیف لکہا گیا ھے۔
🔖 روى الدارقطني والحاكم من طریق عبد الرحمن بن أبي سعيد عن ابیہ قلنا: يارسول الله، هذه الجمار التي یرمي بها كل عام، فنحسب أنها تنقص، فقال: إنہ مايقبل منها یرفع، ولولا ذلك لرأيتها أمثال الجبال»
وفيه أبوفروة يزيد بن سنان، وهو ضعيف.
٭ المصدر: موسوعة الؔحافظ ابن حجر العسقلانيؒ الحديثية
٭ المؤلف: وليد الزبيدي وغيره
٭ المجلد: 2
٭ الصفحة: 283
٭ الرقم: 399
٭ الطبع: سلسلة إصدارات الحكمة.
والله تعالي أعلم
✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*
۱۹ جولايی: ۲۰۲۰ء
No comments:
Post a Comment