▪️ *حضرت ابوہریرہؓ کی اپنے ایک فتوے سے توبہ* ▪️
کیا یہ واقعہ کسی حدیث سے ثابت ھے : کہ ایک عورت نے ایک صحابی سے کہا: کہ میں نے زنا کیا تہا جس کے نتیجے میں میرا ایک بچہ پیدا ہوا پھر میں نے اس بچے کو قتل کیا.. کیا اب میری توبہ قبول ہوسکتی ھے؟ تو اس صحابی نےکہا: نہیں ہوسکتی, یہ سن کر عورت بے ہوش ہوگئ پھر اس صحابی نے یہ مسئلہ نبی کریم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا : کہ آپ نے خود کو بہی ہلاکت میں ڈال دیا اور اس عورت کو بھی؛ اس کی توبہ قبول کیجایئگی۔
اس واقعے پر روشنی ڈالیں!!!
••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:*
یہ واقعہ جن صحابی کا ھے ان کا اسمِ گرامی " سیدنا ابوہریرہؓ " ھے, اس واقعہ پر محدثین و مفسرین کا بہت کلام ھے ؛ اور بعض محدثین کے بقول یہ من گھڑت بہی ھے ؛ معلوم ہوا یہ واقعہ مستند نہیں ؛لہذا اس کی نسبت نبی کریم کی جانب نہ کی جائے۔
💠 *تنبيه الغافلين ميں* 💠
یہ واقعہ فؔقیہ ابو اللیث سمرقندیؒ نے اپنی کتاب" تنبیہ الغافلین" میں ذکر کیا ھے:
قال الفقيه: حدثنا ابي -رحمه الله- قال: حدثنا ابو الحسين الفراء، عن ابي بكر احمد بن إسحاق بإسناده، عن أبي هريرة قال: خرجتُ ذات ليلة بعد ما صليت العشاء الآخرة مع رسول الله صلى الله عليه و سلم فإذا أنا بامرأة متنقبة قائمة على الطريق ، فقالت: يا أبا هريرة إني قد ارتكبت ذنبا عظيما، فهل لي من توبة؟ فقلت: وما ذنبك؟ قالت: إني زنيت وقتلت ولدي من الزنا، فقلت لها: هلكتِ وأهلكتِ والله مالك من توبة،قال: فشهقت شهقة وخرت مغشيا عليها، ومضت، وقلت في نفسي: أُفتي ورسول الله صلى الله عليه و سلم بين أظهرنا، فلما أصبحتُ غدوتُ إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم، وقلت: يا رسول الله إن امرأة استفتتني البارحة في كذا وكذا،وإني أفتيتها بكذا وكذا، فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم: إنا لله وإنا إليه راجعون، أنت والله يا أبا هريرة! هلكتَ وأهلكتَ، أين كنت يا اباهريرة! من هذه الآية {والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق ولا يزنون إلى قوله فأولئك يبدل الله سيئاتهم حسنات وكان الله غفورا رحيما} الفرقان 68 70 قال: فخرجت من عند رسول الله صلى الله عليه و سلم، وأنا أعدو في سكك المدينة، وأقول من يدلني على امرأة استفتتني البارحة في كذا وكذا، والصبيان يقولون: جُنَّ أبو هريرة، حتى إذا كان الليل لقيتها في ذلك الموطن، فأعلمتها بقول رسول الله صلى الله عليه و سلم وأن لها التوبة، فشهقت شهقة من السرور، وقالت: إن لي حديقة وهي صدقة للمساكين كفارةً لذنبي.
(ترجمة)
حضرت ابوہریرہ سے مروی ھے: ایک رات میں نبی کریم کے ساتھ عشاء پڑھ کر نکلا تو راہ میں ایک کنارے پر کھڑی باپردہ خاتون ملی , کہنے لگی: ابوہریرہ! مجھ سے ایک بہت بڑا گناہ سرزد ہوا تہا کیا اسکی توبہ ہوسکتی ھے؟ میں نے پوچھا: کیا گناہ ہوا تہا؟ کہنے لگی: مجھ سے زنا کا صدور ہوگیا تہا اور اس کے نتیجے میں ایک بچہ ہوا تہا میں نے اسے قتل کردیا تہا, میں نے کہا: تو تو برباد ہوگئ اور تیری توبہ مقبول نہ ہوگی, وہ خاتون چیخ مارکر بیہوش ہوکر گر پڑی ,میں نے سوچا: کہ ابہی حضور ہمارے درمیان ہیں تو میں فتوی کیوں دے رہا ہوں! صبح کو میں در نبوت پہونچا اور رات کا سارا ماجرا کہہ سنایا,حضور نے سن کر انا للہ پڑھا اور کہا: ابوہریرہ! تم یہ جواب دیکر خود کو ہلاکت میں ڈال آئے ہو کیا تم کو یہ آیت معلوم نہیں؟ جو لوگ خدا کے ساتھ کسی کو ساجہی نہیں بناتے اور نہ ناحق قتل کرتے ہیں اور نہ زنا کرتے ہیں ( اور جو یہ گناہ کرتے ہیں وہ اسکا انجام پالینگے) ان کو دو چند عذاب بروز حشر دیا جایئگا اور وہ اس عذاب میں ہمیشہ رسوا ہوکر رہینگے, ہاں اگر توبہ کرلیں اور ایمان قبول کرلیں اور نیک اعمال انجام دیں تو ایسوں کی بدی کو نیکی سے بدل دیا جایئگا , اور ﷲ تو بہت معاف کرنے والا اور رحم والا ھے, یہ سن کر میں نکل پڑا اور مدینہ منورہ کی گلیوں میں اس خاتون کی تلاش میں دوڑتا پھرتا , گلی کے بچے مجھے دیوانہ سمجہتے , تاآنکہ وہ خاتون مل گئیں اور میں نے ان کو نبی کریم کا فتوی سنایا اور قبولیت توبہ کی نوید سنائی, وہ مارے خوشی کے پھولے نہ سماتی تہیں ,کہنے لگیں: میرا ایک باغ ھے وہ فقراء کیلیے میرے گناہ کے کفارے کے طور پر صدقہ ھے
٭ المصدر: تنبيه الغافلين
٭ المصنف: ابو الليث السمرقنديؒ
٭ الصفحة: 117
٭ الطبع: دار ابن كثير، دمشق ۰
✳️ *كتاب التوابين ميں* ✳️
انہیں الفاظ میں تنبیہ الغافلین کے حوالے سے امام اؔبن قدامة حنبليؒ نے یہ واقعہ اپنی کتاب " التوابین" میں نقل فرمایا ھے:
* المصدر: كتاب التوابين
* المحدث: ابن قدامةؒ
* الصفحة: 104
* الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
🔲 *تفسیر در منثور میں* 🔲
امام جلال الدین سیوطیؒ نے یہ واقعہ تفسیر " در منثور " میں بسند ضعیف ذکر کیا ھے:
وأخرج ابن جرير وابن ابي حاتم وابن مردويه بسند ضعيف عن أبي هريرة: الخـ ...
★ المصدر: تفسير الدر المنثور
★ المفسر: الإمام جلال الدين السيوطيؒ
★ المجلد: 6
★ الصفحة: 279
★ الدرجة: ضعيف
★ الطبع: دار الفكر، بيروت، لبنان.
💐 تفسير طبري 💐
یہ واقعہ ابن جریر طبری نے تفسیر جامع البیان میں ذکر کیا ھے: جس کی سند کچھ اس طرح ھے:
حدثني عبد الكريم بن عمير، قال:حدثنا ابراهيم بن المنذر، قال: حدثنا عيسي بن شعيب بن ثوبان، مولي لبني الديل من اهل المدينة، عن فليح الشماس، عن عبيد بن ابي عبيد، عن ابي هريرة الخ.
% المصدر: تفسير جامع البيان
% المفسر: ابو جعفر الطبري
% المجلد: 17
% الصفحة: 510
% الطبع: مركز البحوث والدراسات العربية والاسلامية، قاهرة، مصر.
♏ تفسير ابن كثير ♏
علامہ ابن کثیر دمشقی نے تفسیر ابن کثیر میں یہ واقعہ نقل کرنے کے بعد کہا: کہ اس کی سند میں راوی غیر معلوم ھے:
هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَفِي رِجَالِهِ مَنْ لَا يُعرف وَاللَّهُ أَعْلَمُ.
٭ المصدر: تفسير ابن كثير
٭ المفسر:
٭ المجلد: 6
٭ الصفحة: 129
٭ الطبع: دار طيبة، الرياض، السعودية.
☪️ *موضوعات ابن الجوزي*☪️
امام عبد الرحمن جوزی نے " موضوعات " میں کہا: کہ یہ روایت صحیح نہیں ھے؛ کیونکہ اس کی سند میں راوی" عیسی بن شعیب" ہیں ان کا کوئی متابع نہیں ھے نیز دوسرا راوی" عبید بن ابی عبید" مجہول ہے, بقول ابن حبان متروک ھے:
★ روايت كي سند ★
انبأنا عبد الوهاب، انبأنا محمد بن المظفر ، انبأنا العتيقي، انبأنا يوسف بن أحمد، حدثنا العقيلي، حدثنا محمد بن اسماعيل الصائغ، حدثنا إبراهيم بن المنذر، حدثنا عيسي بن شعيب بن ثوبان، عن فليح، عن عبيد بن ابي عبيد، عن أبي هريرة قال: الخ ...
هذا حديث لا يصح عن رسول الله صلي الله عليه وسلم، قال العقيلي: عيسي بن شعيب عن فليح لا يتابع علي حديثه هذا، وعبيد بن ابي عبيد مجهول، وقال ابن حبان: عيسي متروك.
٭ المصدر: الموضوعات
٭ المحدث: ابن الجوزي
٭ المجلد: 3
٭ الصفحة: 120
٭ الطبع: المكتبة السلفية، المدينة المنورة.
🔰 ميزان الاعتدال 🔰
امام ذھبی نے اس روایت کو من گھڑت قرار دیا ھے:
عيسي بن شعيب بن ثوبان المدني، مولي بني الدئل، لا يعرف، روي عن فليح الشماسي، عن عبيد بن ابي عبيد، عن ابي هريرة قال: الخ....
هذا خبر موضوع؛ رواه ابراهيم بن المنذر الحزامي عن عيسي هذا.
٭ المصدر: ميزان الاعتدال
٭ المحدث: الامام الذهبي
٭ المجلد: 3
٭ الصفحة: 313
٭ الرقم: 6572
٭ الطبع: دار المعرفة، بيروت، لبنان.
⚠️ تنزيه الشريعة ميں ⚠️
امام کنانی نے کہا: کہ بقول امام عقیلی عیسی بن شعیب کا متابع نہیں ھے اور عبید مجہول الحال ہیں لیکن امام ذہبی نے من گھڑت کہا ھے وﷲ اعلم:
قلت: ليس في هذا ما يقتضي الحكم علي الحديث بالوضع، وعيسي: قال فيه الحافظ ابن حجر في التقريب: فيه لين، واصطلاح الحافظ في التقريب ان يعبر بهذه العبارة فيمن ليس له من الحديث الا القليل، ولم يثبت فيه ما يترك حديثه من اجله،ولم يتابع علي حديثه، وعبيد بن ابي عبيد ذكر الحافظ في لسان الميزان: أنه روي عنه عاصم ابن عبيد الله، والراوي عنه في هذا الخبر "فليح" فقد زالت جهالة عينه، و بقيت جهالة حاله، فيكون مستورا، لكن الذهبي صرح في الميزان: بان الخبر موضوع، والله تعالي أعلم.
+ المصدر: تنزيه الشريعة
+ المحدث: ابو الحسن الكناني
+ المجلد: 2
+ الصفحة: 283
+ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
والله تعالي أعلم
✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*
25 نومبر: ء2020