بنی اسرائیل میں ایک نوجوان تھا جو کہ بڑا نافرمان تھا۔ اتنا کہ شہر والوں نے بیزار ہو کر اسے شہر بدر کر دیا۔ چلتے چلتے وہ ایک ویرانے میں جا پہنچا ۔ حالات کی تنگی اس پر آ پڑی ۔ کھانا پینا ختم ہوا ۔ پھر بیماری نے آ لیا ۔ یہاں تک کہ مرض الموت میں گرفتار ہوا۔ ایسے میں اس نے اللہ کو پکارا: اے وہ ذات جو معاف کرے تو گھٹتا نہیں اور عذاب دے تو بڑھتا نہیں۔ اے اللہ ! اگر مجھے معاف کرنے سے تیرے ملک میں کوئی کمی آتی ہو یا مجھے عذاب دینے سے تیری سلطنت میں اضافہ ہو تو پھر میرا کوئی سوال نہیں۔ اے میرے رب ساری عمر تیری نافرمانی میں کٹ گئی آج تک کوئی اچھا کام نہیں کیا۔ ۔۔اے میرے رب میرا آج کوئی سنگی ساتھی نہیں رہا، میرا آج تیرے سوا کوئی سہارا نہیں رہا۔سب ناتے رشتے ٹوٹ گئے۔ آج میرے جسم نے بھی میرا ساتھ چھوڑ دیا۔ تُو مجھے اکیلا نہ چھوڑ۔۔ تو مجھے معاف فرما دے۔۔اے میرے رب مجھے معاف فرما دےکہ میں نے تیرے بارے میں سنا ہے کہ تو غفور الرحیم ہے۔ اسی حال میں اس کی جان نکل گئی۔
موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل ہوئی : اے موسیٰ! میرا ایک دوست فلاں جنگل میں مر گیا ہے اس کےغسل کا انتظام کرو۔اس کا جنازہ پڑھواور لوگوں میں اعلان کردو کہ آج جو شخص اس کا جنازہ پڑھے گا اس کی بخشش کر دی جائے گی۔
اس روایت کی تحقیق و تخریج فرمادیں!!!
••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:*
یہ واقعہ بغیر سند کے حضرت وھب بن منبہ سے مروی ھے ؛ لہذا اسکو حدیث نہیں مانا جایئگا:
☪️ *كتاب التوابين* ☪️
وعن وهب بن منبه ، قال : " كان في زمن موسى عليه السلام شاب عات مسرف على نفسه ، فأخرجوه من بينهم لسوء فعله ، فحضرته الوفاة في خربة على باب البلد ، فأوحى الله تعالى إلى موسى عليه السلام : إن وليا من أوليائي حضره الموت ، فاحضره وغسله ، وصل عليه ، وقل لمن كثر عصيانه يحضر جنازته لأغفر لهم ، واحمله إلي لأكرم مثواه ، فنادى موسى في بني إسرائيل ، فكثر الناس ، فلما حضروه عرفوه ، فقال : يا نبي الله ، هذا هو الفاسق الذي أخرجناه ، فتعجب موسى من ذلك ، فأوحى الله إليه : صدقوا وهم شهدائي ، إلا أنه لما حضرته الوفاة في هذه الخربة نظر يمنة ويسرة ، فلم ير حميما ولا قريبا ، ورأى نفسه غريبة وحيدة ذليلة ، فرفع بصره إلي ، وقال : إلهي عبد من عبادك ، غريب في بلادك ، لو علمت أن عذابي يزيد في ملكك ، وعفوك عني ينقص من ملكك لما سألتك المغفرة ، وليس لي ملجأ ولا رجاء إلا أنت ، وقد سمعت فيما أنزلت أنك قلت : إني أنا الغفور الرحيم ، فلا تخيب رجائي.
يا موسى ، أفكان يحسن بي أن أرده وهو غريب على هذه الصفة ، وقد توسل إلي بي ، وتضرع بين يدي ، وعزتي لو سألني في المذنبين من أهل الأرض جميعا لوهبتهم له لذل غربته.
يا موسى ، أنا كهف الغريب ، وحبيبه ، وطبيبه ، وراحمه "
٭ المصدر: كتاب التوابين
٭ المحدث: الإمام ابن قدامة المقدسي
٭ الصفحة: 82
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
✴️ *آداب الدعاء* ✴️
اسی طرح یہ واقعہ ابن عبد الہادی نے "آداب الدعاء" میں نقل کیا ھے:
• المصدر: آداب الدعاء
• المؤلف: الإمام يوسف بن حسن بن عبد الهادي المقدسي الحنبلي
• الصفحة: 172
• الطبع: دار النوادر، بيروت، لبنان.
🔅 *واقعه كي حقيقت* 🔅
بظاہر یہ واقعہ اسرائیلی روایات میں سے ہے، حدیث کی کتابوں میں اس کا کہیں ثبوت ہمیں نہیں ملا؛ *لہذا مذکورہ واقعے کو اسرائیلی روایت کہہ کر بیان کیاجا سکتا ہے*، لیکن حدیث کہہ کر اس کو بیان نہیں کرسکتے۔
اور اسرائیلی روایات بیان کرنے کے بارے میں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اصول یوں بیان فرمایا ہے:
’’ بنی اسرائیل کی روایات صرف مسئلہ کی مضبوطی اور اس کی گواہی کے لیے لائی جاتی ہیں خود ان سے مسائل ثابت نہیں ہو سکتے، روایاتِ بنی اسرائیل تین قسم کی ہیں:
1- جس کی تصدیق خود ہمارے ہاں موجود ہے، یعنی قرآن کی کسی آیت یا حدیث کے مطابق بنی اسرائیل کی کسی کتاب میں بھی کوئی روایت مل جائے، اس کی صحت میں تو کوئی کلام نہیں۔
2- جس کی تکذیب خود ہمارے ہاں موجود ہو، یعنی کسی آیت یا حدیث کے خلاف ہو، اس کے غلط ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔
3- جس کی ہم نہ تصدیق کرسکتے ہیں نہ تکذیب، اس لیے کہ ہمارے ہاں نہ تو کوئی ایسی روایت ہے، جس کی مطابقت کی وجہ سے ہم اسے صحیح کہہ سکیں، نہ قرآنِ مجید کی کسی آیت یا کسی حدیث کے مخالف ہو کہ اس بنا پر ہم اسے غلط کہہ سکیں۔
♠ لہذا یہ تیسری قسم کی روایات وہ ہیں جن کے بارے میں ہمارے لیے یہ حکم ہے کہ خاموش رہیں، نہ انہیں غلط کہیں نہ صحیح سمجھیں، البتہ انہیں ذکر کرنا جائز ہے؛( لیکن یہ صراحت ہو کہ یہ از قبیل اسرائیلیات ہے.)
★ "ولكن هذه الأحاديث الإسرائيلية تذكر للاستشهاد، لا للاعتضاد، فإنها على ثلاثة أقسام:
① أحدها: ما علمنا صحته مما بأيدينا مما يشهد له بالصدق، فذاك صحيح.
② والثاني: ما علمنا كذبه بما عندنا مما يخالفه.
③ والثالث: ما هو مسكوت عنه لا من هذا القبيل ولا من هذا القبيل، فلانؤمن به ولانكذبه، وتجوز حكايته لما تقدم".
∅ المصدر: تفسير ابن كثير
∅ المحدث: الإمام ابن كثير الدمشقي
∅ المجلد: 1
∅ الصفحة: 9
∅ الطبع: دار طيبة، رياض، السعودية.
والله تعالي أعلم
✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صديقي*
17، مارچ، 2023
No comments:
Post a Comment