Sunday, April 28, 2019

عورتوں سے زیادہ باتیں دل مردہ

•• *عورتوں سے زیادہ باتیں*••

کیا ایسی روایت ھے: کہ جو مرد عورتوں سے زیادہ باتیں کرتا ھے اسکا دل مردہ ہوجاتا ھے؟!!

*« باسمه تعالي*»
*الجواب وبه التوفيق*

ایسی ایک روایت مذکور تو ھے : کہ چار چیزیں دل  کو مردہ کرتی ہیں :
1) گناہ پر گناہ کرنا
2)عورتوں سے زیادہ گفتگو کرنا
3)بیوقوفوں سے مباحثہ و جہگڑا کرنا ۔کیونکہ تم اسکو کچھ کہوگے پھر وہ تم کو بہی کہے گا۔
4) اور مردہ لوگوں کی ہم نشینی, پوچھا گیا : کہ اس سے کیا مراد ھے؟
فرمایا: کہ فضول خرچ مالدار کی صحبت اور ظالم بادشاہ و سلطان کے پاس اٹھنا بیٹھنا۔

   لیکن یہ روایت باعتبار سند بہت زیادہ کمزور ہے ؛ لہذا اس کی نسبت نبی کریم کی جانب نہ کی جائے۔

🔘 *روایت کے الفاظ و سند*

أخبرنا والدي أخبرنا أبو الفضل القومساني ، أخبرنا أبو علي بن فضال ، أخبرنا أبو بشر محمد بن أحمد العُتْبِي بطرسوس ، حدثنا علي بن سعيد العسكري ، أخبرنا محمد بن يحيى الأزدي ، حدثنا *داود بن المحبَّر* ، حدثنا *سليمان بن الحكم بن عوانہ* ، عن محمد بن واسع ، عن أبي هريرة قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -:

( أربعٌ يُمِتن القلب: الذنب على الذنب ، وكثرة مناقشة النساء وحديثهنّ ، وملاحاة الأحمق تقول له ويقول لك ، ومجالسة الموتى. قيل: يا رسول الله وما مجالسة الموتى؟ قال: كلُّ غنيٍّ مترَف وسلطان جائر ) .

المصدر: مسند الفردوس،
المحدث: الديلمي
الراوي: ابوهريرة
المجلد: 1
الصفحة: 375
الرقم: 1510
الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

🛑 *روایت میں کمزوری کی وجہ*

1⃣ اس روایت میں ایک راوی " سلیمان بن عوانہ" ہیں جن پر روایت حدیث میں اعتماد نہیں کیا گیا ھے۔

2⃣ اس کی سند میں دوسرا راوی "داود بن المحبر" بہی ہے ان پر بہی متہم بالکذب ہونے کی صراحت ھے۔

 المصدر: الزيادات علي الموضوعات
المؤلف: السيوطي
الصفحة: 664
الرقم: 791
الطبع: مكتبة المعارف للنشر والتوزيع، رياض.

*زیادہ ہنسنا*

 البتہ دل کے مردہ ہونے کی بات جو مستند روایات میں ھے وہ یہ ھے: کہ زیادہ مت ہنسو ؛ زیادہ ہنسی دلوں کو مردہ کردیتی ھے۔

🔰عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم:مَنْ يَأْخُذُ مِنْ أُمَّتِي خَمْسَ خِصَالٍ ، فَيَعْمَلُ بِهِنَّ ، أَوْ يُعَلِّمُهُنَّ مَنْ يَعْمَلُ بِهِنَّ ؟ قَالَ : قُلْتُ : أَنَا يَا رَسُولَ اللهِ ، قَالَ : فَأَخَذَ بِيَدِي فَعَدَّهُنَّ فِيهَا ، ثُمَّ قَالَ : اتَّقِ الْمَحَارِمَ تَكُنْ أَعْبَدَ النَّاسِ ، وَارْضَ بِمَا قَسَمَ اللهُ لَكَ تَكُنْ أَغْنَى النَّاسِ ، وَأَحْسِنْ إِلَى جَارِكَ تَكُنْ مُؤْمِنًا ، وَأَحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ تَكُنْ مُسْلِمًا ، *وَلاَ تُكْثِرِ الضَّحِكَ ، فَإِنَّ كَثْرَةَ الضَّحِكِ تُمِيتُ الْقَلْب*َ.

(ترمذی, حدیث: 2305)

<< *خلاصۂ کلام* >>

 یہ روایت سندی حیثیت سے بہت کمزور ھے نیز غیر محارم خواتین سے بلاضرورت شرعیہ ضرورت سے زیادہ گفتگو منع ھے؛ لیکن محارم عورتوں سے گفتگو کی جاسکتی ھے ؛ تاہم روایت میں ذکر کردہ بقیہ 3 باتیں معنوی لحاظ سے درست ہیں ان کو اقوال زریں کا نام دیا جاسکتا ھے۔اور کتب اصول حدیث میں صراحت بہی ھے کہ اگر کوئی روایت بحیثیت سند موضوع و من گھڑت ہو تو اسکی نسبت حضور کی جانب نہ کرکے ایک اچھی بات کے عنوان سے ذکر کیا جاسکتا ھے۔ بشرطیکہ وہ بات اچھی ہی ہو۔

1⃣قال الصغانی: اذا علم ان حدیثا متروک او موضوع, فلیروہ ولکن لا یقول علیہ: قال رسولﷲ صلیﷲ علیہ وسلم۔

ترجمہ: اگر کسی روایت کے متعلق معلوم ہو کہ وہ متروک یا منگھڑت ھے لیکن وہ نص شرعی سے متصادم نہ ہو تو اسکو حدیث کا عنوان دئیے بغیر بیان کرنا درست ہوگا۔

( تذکرة الموضوعات/صفحة: 8. مؤلف: الادیب الفاضل اللبیب العلامہ محمد طاہر پٹنی الہندی رح.
مطبع: ادارہ الطباعة المنيرية.مصر )

2⃣ واما اخبار الصالحین وحکایات الزاھدین والمتعبدین ومواعظ البلغاء وحکم الادباء, فالاسانید زینة لها.وليست شرطا لتاديتها.

( نوادر الحديث/41. للشيخ يونس الجونفوري رح. ط:اداره افادات اشرفيه دوبگه هردوي روڈ لکہنؤ )

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

Thursday, April 25, 2019

تراویح کے سجدے کی فضیلت

••• *تراویح کے ہر سجدے کی فضیلت* •••

مجھے ایک حدیث کی تخریج اور صحت کے بارے میں تفصیل چاہیئے:کہ

تراویح کے ہر سجدے پر ڈیڑھ ہزار نیکی لکھی جاتی ہے، اور ہر سجدے پر جنت میں سرخ یاقوت کا ایک محل تیار کیا جاتا ہے جس کے ساٹھ ہزار سونے چاندی کے دروازے ہوتے ہیں اور تراویح کے ہر سجدے پر جنت میں ایک درخت لگایا جاتا ہے جس کے نیچے سو سال عربی گھوڑا دوڑ سکتا ہے!!

«« *باسمه تعالي*»»
*الجواب وبه التوفيق*

یہ روایت امام بیہقی رح نے اپنی مشہور کتاب”شعب الايمان“ میں ذکر کی ھے ؛ لیکن اسکی سند میں ایک راوی ہیں : < محمد بن مروان السدي> جن کے اوپر ائمہ جرح و تعدیل نے سخت جرح فرمائی ھے؛ لہذا ان سے مروی روایت کو قابل عمل یا قابل قبول نہیں مانا جایئگا۔اور نہ ہی اسکو بیان کی اجازت ہوگی۔

🔘 *شعب الایمان کی عبارت*

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، وَأَبُو سَهْلٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْمِهْرَانِيُّ، وَأَبُو زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ الْمُزَكِّي، قَالُوا: أخبرنا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللهِ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْبَغَوِيُّ، بِبَغْدَادَ، حدثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيلٍ الْعَنْزِيُّ، حدثنا هِشَامُ بْنُ يُونُسَ اللُّؤْلُؤِيُّ، حدثنا *مُحَمَّدُ بْنُ مَرْوَانَ السُّدِّي*ُّ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ الْعَبْدِيِّ، وعَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا كَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فُتِحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ فَلَا يُغْلَقُ مِنْهَا بَابٌ حَتَّى يَكُونَ آخِرُ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ، وَلَيْسَ مِنْ عَبْدٍ مُؤْمِنٍ يُصَلِّي فِي لَيْلَةٍ إِلَّا كَتَبَ اللهُ لَهُ أَلْفًا وَخَمْسَمِائَةِ حَسَنَةٍ بِكُلِّ سَجْدَةٍ، وَبَنَى لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ مِنْ يَاقُوتَةٍ حَمْرَاءَ لَهَا سِتُّونَ أَلْفَ بَابٍ لِكُلٍّ بَابٍ مِنْهَا قَصْرٌ مِنْ ذَهَبٍ مُوَشَّحٍ بِيَاقُوتَةٍ حَمْرَاءَ، فَإِذَا صَامَ أَوَّلَ يَوْمٍ مِنْ رَمَضَانَ غَفَرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ إِلَى مِثْلِ ذَلِكَ الْيَوْمِ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ، وَاسْتَغْفَرَ لَهُ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ مِنْ صَلَاةِ الْغَدَاةِ إِلَى أَنْ تُوَارَى بِالْحِجَابِ، وَكَانَ لَهُ بِكُلِّ سَجْدَةٍ يَسْجُدُها فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِلَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ شَجَرَةٌ يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا خَمْسَ مِائَةَ عَامٍ

 "  قَدْ رَوَيْنَا فِي الْأَحَادِيثِ الْمَشْهُورَةِ مَا يَدُلُّ عَلَى هَذَا أَوْ بَعْضِ مَعْنَاهُ "

المصدر: شعب الإيمان
المؤلف: البيهقي
الراوي: ابو سعيد الخدري
المجلد: 3
الصفحة: 314
رقم الحديث: 3635
الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

🛑 *محمد بن مروان*

▪محمد بن مروان کے متعلق امام نسائی نے فرمایا:

محمد بن مروان الكوفي يروي عن الكلبي "متروك الحديث "

ترجمة: محمد بن مروان جو کوفہ کے باشندے ہیں وہ اپنے استاذ کلبی سے روایت حدیث کیا کرتے ہیں درجہ حدیث میں متروک ہیں یعنی ان کی روایت کردہ حدیث کو لیا نہیں جاتا ھے۔

المصدر: کتاب الضعفاء والمتروکین
المصنف: نسائی
الصفحة:219
الطبع: مؤسسة الكتب الثقافية، بيروت لبنان.

🔅ان کے متعلق امام ابن حجر کی تحقیق یہ ھے:

محمد بن مروان بن عبد الله بن إسماعيل السُّدِّي، وهو الأصغر، كوفيٌّ، متهم بالكذب، من الثامنة.

ترجمة: محمد بن مروان السدی جو کوفہ سے تعلق رکہتے ہیں ان پر کذب بیانی کا الزام ھے ۔

المصدر: تقريب التهذيب
المؤلف: ابن حجر العسقلاني
الصفحة: 895
الطبع: دار العاصمة للنشر والتوزيع.

•••《 *خلاصه كلام*》•••

واعظین و خطباء کو اس روایت کے بیان کرنے سے احتراز کرنا چاہئے؛ تاہم نماز تراویح بیس رکعات ایک اہم عبادت ھے جسکا اجر و فضیلت اپنی جگہ مسلَّم ھے۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار صديقي*

Friday, April 19, 2019

شرعی نظام عدل میں عورت قاضی

*شرعی نظام عدل میں ایک خاتون کا قاضی ہونا*
....................................
ابن حزم نے المحلی میں لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شفا بنت عبد اللہ (یہ امت مسلمہ کی وہ عظیم خاتون ہیں جو حضرت ام المومنین حفصہ کی نکاح سے قبل معلمہ/ٹیچر تھیں) کو بازار کا محتسب یعنی Accountability Judge اور Market Administrator مقرر کیا۔ ممکن ہے احباب کو یہ بات عجب لگے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک عورت کو جج کیسے مقرر کر دیا۔ چونکہ میرا واسطہ بھی عدالت و کچہری سے ہے، بعض اوقات کچھ وکلاء سے بھی سننے کو ملتا ہے کہ ہمارے ہاں اسلام کہاں ہے؟ اسلام میں تو عورت جج نہیں بن سکتی، ادھر عورتیں جج بنی بیٹھی ہیں۔ ان احباب کی خدمت میں سب سے پہلے تو مندرجہ بالا روایت اور پھر حنفی ہونے کے ناطے امام اعظم سیدنا ابو حنیفہ کا قول بھی پیش ہے؛ جائز ان تلی المرء ۃ الحکم دلیلہ قد روی عن عمر بن الخطاب انہ ولی الشفاء امراۃ من قومہ السوق۔ عورت کو قاضی بنانا جائز ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر سے مروی ہے کہ انہوں نے بازار کی محتسب ایک عورت شفاء کو بنایا تھا۔ آپ فقہ حنفی کی کوئی کتاب اٹھا لیں سب میں واضح موجود ہے کہ عورت قاضی/جج بن سکتی ہے (لیکن جیسے سب سے پہلے ذکر کیا کہ چند شرائط کے ساتھ تو عورت کے جج بننے میں فقط یہ شرط ہے کہ وہ) حدود و قصاص کے کیسز میں جج نہیں بن سکتی، اس کے علاوہ دیگر تمام معاملات میں عورت جج بن سکتی ہے۔ اور حضرت عمر کی روایت بھی واضح ہے کہ آپ نے جن کو Accountability Judge مقرر کیا تھا وہ بازار جاتیں، گھومتیں اور مارکیٹ کو کنٹرول رکھتی تھیں۔ اگر عورت
کو چار دیواری میں قید کرنے کا نام شریعت، اسلام یا غیرت ہوتا تو حضرت عمر عورت کو Accountability Judge کیوں مقرر کرتے۔؟

یہ ایک تحریر ھے اسکی حقیقت و سچائی سے پردہ اٹھانا ضروری ھے!!••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:*

    عورت کے لفظ سے ہر شریف انسان کے ذہن میں جو معنی گردش کرتے ہیں وہ یہی ہیں کہ یہ چھپانے کی چیز ھے , زینت خانہ ھے شمع محفل بننے کے قابل نہیں , خدا کی تخلیق کردہ ایک عظیم نعمت ھے جسکی تقدیس و تعظیم ہر رشتہ کے لحاظ سے ضروری ھے, اسکی پرورش وتربیت پر اللہ نے اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ھے, اسکی تعلیم , پڑھائی و لکھائی کو بہی ضروری قرار دیا ھے, خود قرآن کی اولین وحی جو آخری پیغمبر پر نازل ہوئی اس میں بلا افتراق جنس تعلیم کا حکم ھے جس میں مرد و زن برابر ہیں؛ تاہم کچھ اغیار و ملحدین زمانہ قدیم سے یہی راگ الاپتے رھے ہیں کہ اسلام نے عورت کو ناخواندگی و غلامی کے سوا کچھ نہیں دیا حالانکہ اس عنوان پر خود ذی ہوش و ذی عقل غیر مسلموں کی جانب سے تقاریر و تحاریر منظر عام پر آئیں کہ یہ محض اسلام کو بدنام کرنے کی ایک سازش ھے۔ قرآن و سنت اور فقہ تو عورت کی آزادی اور ہر طرح کے حقوق کی ادایئگی کے سلسلے میں بھرے پڑے ہیں ! اسلامی تعالیمات کا مطالعہ تو کیا جائے ؛ تاکہ سچائی سامنے آئے۔

الغرض! یہ تحریر عورت کے تمام حقوق عامہ و خاصہ پر مشتمل نہ ہوکر فقط ایک موضوع پر مشتمل ھے اور موضوع ھے : *اسلام میں عورت کا جج و قاضی بننا اور نوکری پیشہ ہونا* اسی عنوان کو سوالیہ تحریر میں سرخی بہی دی گئ ھے , تحریر اتنی اہم نہ تہی کہ اسکی جانب نظر التفات کی جاتی البتہ اس میں آخری سطر کے اندر  اسلامی قانون نسواں پر تنقید کی گئ ھے بس یہی محرک ہوا کہ چند سطور معرض وجود میں لائی جایئں اور سوالیہ تحریر میں درج غلط فہمی کا ازالہ کیا جائے۔

سب سے قبل ہم *المحلی* کی عبارت کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا واقعتا حضرت امیر المومنین نے حضرت شفاء بنت عبد ﷲ کو بازاری امور کی دیکھ ریکھ کی وزارت سونپی تہی یا ان کو جج کا عہدہ دیا گیا تہا
تو ہمیں اس بارے میں کوئی صحیح یا قابل استدلال روایت نہیں ملتی البتہ ابن حزم اندلسی رح کی شہرۂ آفاق کتاب "المحلیٰ" میں ایک مسئلہ مذکور ھے کہ عورت حنفیوں کے نزدیک عہدہ قضا سنبہال سکتی ھے اور اسکی دلیل میں حضرت عمر رض سے ایک روایت نقل کی ھے تاہم اس روایت کی سند وہاں موجود نہیں؛ لہذا ایک بے سند روایت جو کہ فقط ایک ہی کتاب میں ہو اور دیگر کتب حدیث اس سے کلیتا ساکت ہوں کس طرح قابل استدلال بن سکتی ھے کہ اس روایت کو دلیل بناکر عورت کو بے محابا سر عام ملازمت پیشہ بنایا جائے ۔

▪ *المحلی کی عبارت*▪

وجاز أن تلي المرأة الحكم، وهو قول أبي حنيفة، وقد روي عن عمر بن الخطاب: انه ولي الشفاء امرأة من قومه السوق، الخـ.

المصدر:  المحلي بالآثر
المؤلف: ابن حزم الاندلسي
المجلد: 9
الصفحة: 429
المسألة: 1800
الطبع: إدارة الطباعة المنيرية، قاهرة مصر.

ترجمہ:

 اور جائز ھے کہ عورت فیصلے کی ذمہ داری سنبال لے , اور یہ امام ابوحنیفہ کا قول بہی ھے ؛ کیونکہ حضرت عمر سے مروی ھے کہ انہوں نے اپنی قوم کی ایک خاتون شفاء بنت عبدﷲ کو بازاری معاملات کی ذمہ داری دی تہی۔

  وضاحت:
 یہ روایت بحیثیت سند قابل استدلال نہیں کہ اس کو لیکر اعتراض کیا جائے۔

اس روایت کے متعلق ابن العربی نے احکام القرآن میں جو کہا ھے وہ بات اہم ھے کہ یہ روایت بے اصل ھے اس کو اہل بدعات نے گھڑا ھے :

✳ قال ابن العربي في أحكام القرآن عنه : ( لم يصح ، فلا تلفتوا إليه ، فإنما هو من دسائس المبتدعة في الأحاديث ) .

المصدر: احکام القرآن
المؤلف: ابوبکر ابن العربی
المجلد: 3
الصفحہ: 482
الطبع: دار الکتب العلمیہ, بیروت لبنان۔

🔘 اسی طرح امام التفسیر علامہ قرطبی رح نے بہی کہا ھے:

  المصدر: الجامع لاحکام القرآن
  المفسر: القرطبی
  المجلد: 16
  الصفحہ: 139
  الطبع: مؤسسہ الرسالہ بیروت لبنان۔

   ان تصریحات کی روشنی میں ابن حزم کی روایت کا کوئی مول نہیں باقی رہ جاتا کہ اسکو لیکر شور شرابا کیا جائے۔💡 جبکہ حضرت عمر کا قول و فعل دیکہا جائے تو کسی بہی زاویہ سے یہ روایت ان سے اتفاق نہیں رکہتی ؛ کیونکہ خود حضرت عمر کا فتح الباری میں ابن  حجر نے ایک مقولہ نقل کیا ھے : کہ ہم قریش خاندان سے تعلق رکہتے ہیں ہمارے یہاں خواتین حاکم نہیں ہوا کرتیں

نیز حضرت عمر ہی نے اپنی اہلیہ عاتکہ بنت زید کو مسجد میں نماز ادا کرنے سے روکا تہا۔

  خود حضرت عمر نے حضور سے کہا تہا : کہ آپ کے در دولت پر ہر نیک و بد کی آمد رہتی ھے لہذا آپ امہات المومنین کو حجاب اور پردے کی خوب تاکید کیجئے گا اسی پر خدا نے آیات حجاب کا نزول فرمایا اور یوں آیات حجاب بہی موافقات عمر سے ٹہری۔

تو کیسے ممکن ھے کہ سیدنا عمر فاروق جیسا دور اندیش صحابی  ایک عورت کو عہدہ قضا دیکر آنے والے روشن خیالوں یا مستشرقین کو زبان درازی کا موقع دیں!

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ شفاء بنت عبدﷲ ایک عاقلہ اور پڑھی لکھی ماہر خاتون تہیں ۔اور حضرت حفصہ کی استانی کا بہی ان کو شرف حاصل رہا ھے۔ خود سیدنا عمر فاروق ان سے بہت سے سرکاری و حکومتی امور میں مشاورت کیا کرتے تھے لیکن روایات سے یہ ثابت نہیں ہوتا ھے کہ ان کو عمر فاروق نے باقاعدہ مارکیٹ کاقلم دان سپرد کیا ہو اور وہ فوڈ آفیسر بنی ہوں۔

  اب ہم اصل مسئلہ کی جانب آپ کی توجہات مبذول کرانا چاہینگے کہ فقہ حنفی میں اس مسئلے کے متعلق کیا صراحت ھے:

  تو خلاصہ کے طور پر اتنا عرض ھے کہ حنفی فقہ میں اصول فقہیہ کی روشنی میں خاتون (حدود وقصاص) کے علاوہ دیگر معاملات یعنی حقوق و نکاح یا مالی معاملات میں فیصل بن سکتی ھے ؛ کیونکہ احناف کا اصول ھے کہ جس کے اندر شہادت یعنی کورٹ میں گواہی دینے کی اہلیت ہو وہ قاضی بھی بن سکتا ھے البتہ اہلیت کے ساتھ ساتھ شرائط بہی ہیں جنکی تفصیل کا یہاں موقع نہیں ۔اب ہم عورت کو دیکہتے ہیں تو وہ شہادت اور گواہی کی اہلیت رکہتی ھے لیکن ہر معاملے میں نہیں بلکہ حدود و قصاص کے علاوہ میں لہذا وہ ان دونوں معاملات کے علاوہ میں فیصلہ کرسکتی ھے۔

لیکن یہ معاملہ اتنا آسان نہیں ھے کہ عورت کو جج کے عہدے کی آفر و پیش کش کی جائے ؛ کیونکہ فقہ حنفی کی مستند کتب میں آگے یہ بہی صراحت ھے کہ عورت کو عہدہ سونپنے والا گنہگار ہوگا , یعنی عورت کو اس کام کے کرنے کی شریعت نے تحسین نہیں کی نہ ہی اسکی حوصلہ افزائی کی ھے۔بلکہ یہ کہا ھے کہ عورت اگر ان (حدود و قصاص)کے علاوہ میں خود سے قاضی بن بیٹھی یا کوئی اس کے پاس مقدمہ لیکر پہونچا اور وہ اپنا فیصلہ صادر کردے تو نافذ ہوجایئگا۔

*حنفی عبارت*

قال صاحب الدر المختار:
والمرأة تقضي في غير حد، وقود وإن أثم المولي لها  ؛لخبر البخاري: لن يفلح قوم ولوا امرهم امرأة.
وقال الشامي تحته: لانها لا تصلح شهادة فيهما، فلا تصلح حاكمة.

المصدر: الدر مع الرد
المجلد: 8
الصفحة: 142
الطبع: دار عالم الكتب، رياض،

*ترجمة:*
عورت حدود وقصاص کے علاوہ میں فیصلہ کرسکتی ھے لیکن اسکو فیصل بنانے والا گنہگار ہوگا۔کیونکہ بخاری کی روایت ھے : وہ قوم کبہی فلاح نہ پاسکے گی جس نے اپنے معاملات (عامہ یعنی خلافت و حکومت اور فیصلے )عورت کے سپرد کردیئے۔

اسی طرح کی عبارات ہدایہ, البحر الرائق, مجمع البحرین وغیرہ دیگر حنفی کتب فقہیہ میں بہی مذکور ہیں :

1⃣ مجمع البحرين
   المؤلف: ابن الساعاتي الحنفي
   الصفحة: 739
   الطبع:دار الكتب العلمية، بيروت

2⃣ البحر الرائق
  المؤلف: ابن نجيم المصري
  المجلد: 7
  الصفحة: 8
  الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت

3⃣ الهداية شرح بداية المبتدي
    المؤلف: المرغيناني
    المجلد:5
    الصفحة: 378
    الطبع:إدارة القرآن والعلوم الاسلامية، كراتشي، باكستان.سبہی کتب کا خلاصہ یہی ھے کہ عورت کو جج بنانا کوئی لائق تحسین یا پسندیدہ عمل نہیں ھے؛ کیونکہ صحیح روایت یہ کہتی ھے کہ عورت کو خلافت کی ذمہ داری سونپنا یا ایسے امور کا ذمہ دار بنانا جو مردوں کو زیبا ہیں سب ناقابل قبول عمل ہے اور عقلا بہی یہی بات درست ھے کیونکہ ہم خلافت عثمانیہ جو صدیوں پر محیط رہی اسی طرح ہندوستان میں دور حکومت مغلیہ جنکی زمام حنفی خلفاء و بادشاہان کے ہاتھ میں تہی اور جہاں حنفی فقہ رائج تہا اور حنفی علماء بادشان وقت کے ہم نشیں و جلیس و انیس مشیر رہا کرتے تھے دیکہتے  ہیں کہ کبہی بہی انہوں نے اس حنفی  فقہی عبارت پر عمل پیرا ہونا گوارا نہ کیا ۔ اور فقط اسی روایت پر کاربند رھے جس میں حضور کریم نے سخت ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا :

🔅عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ :
( لَقَدْ نَفَعَنِي اللَّهُ بِكَلِمَةٍ سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيَّامَ الْجَمَلِ بَعْدَ مَا كِدْتُ أَنْ أَلْحَقَ بِأَصْحَابِ الْجَمَلِ فَأُقَاتِلَ مَعَهُمْ . قَالَ : لَمَّا بَلَغَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ أَهْلَ فَارِسَ قَدْ مَلَّكُوا عَلَيْهِمْ بِنْتَ كِسْرَى قَالَ : لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمْ امْرَأَةً ) .
 __ *خلاصۂ ترجمہ* __

وہ لوگ کبہی کامیابی سے ہمکنار نہ ہونگے جو عورت کو اپنے معاملات سپرد کردیں!

 البخاری
المجلد: 2
الصفحة: 1196
الرواية: 4425
الطبع:  الطاف اينڈ سنز، كراتشي، باكستان.

( *نوٹ*)

 قارئین کو ایک شبہ ہوسکتا ھے کہ گزشتہ سطور میں ہم نے ایک بات لکہی ھے کہ عورت کو  اگر قاضی بنایا جائے  تو اسکے فیصلے نافذ ہونگے ؛ لیکن اسکو اس عہدے پر لانے والا گنہگار ہوگا ۔شبہ یہ ہوسکتا ھے کہ جب ایک کام گناہ کا باعث ھے تو اسکا نفاذ کیونکر ہورہا ھے؟

  اسکی بابت اتنا عرض ھے کہ کار گناہ ہونا اسکے مؤثر ہونے یا نافذ ہونے کو مانع ہرگز نہیں ؛ اسکی متعدد نظیریں و مثالیں شریعت میں موجود ہیں کہ عمل فی نفسہ گناہ ھے لیکن اثر انداز ھے جیسے: تنہاء خواتین کی جماعت کہ امام و مقتدی سب کےسب عورتیں ہوں تو یہ عمل فی نفسہ مکروہ تحریمی کا ارتکاب ھے لیکن اگر کوئی ایسا کرتا ھے تو ان خواتین کی نماز ہوجایئگی۔


ویکرہ تحریمًا جماعۃ النساء ولو في التراویح الخ (در مختار، کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، صفحہ: 305, جلد: 2, ط: دار عالم الکتب ریاض۔

🔰 اسی طرح اگر کوئی روزہ دار ہو اور وہ بوقت افطار اپنا روزہ کھجور , پانی یا کسی حلال شیئ سے نہ کھول کر شراب سے یا خنزیر کے گوشت سے کہولے تو گو کہ یہ عمل کار گناہ ھے حرام کا ارتکاب ھے ؛ لیکن باوجود اسکے یہ عمل مؤثر ھے وہ اس طرح کہ روزہ افطار کرنا نام ھے کہ وقت غروب روزہ دار کچھ کہا یا پی لے بس روزہ مکمل ہوجایئگا ۔تو جس نے شراب یا خنزیر سے روزہ افطار کیا ھے اس نے بہی یہی کیا ھے اسکا روزہ بہی کامل کہلایئگا ہاں حرام چیز سے روزہ کہولنے کا سخت گناہ اسکو ملیگا۔

بس اسی طرح سے شبہ بالا کا دفع ہوجایئگا۔کہ حنفی کتب میں جو عورت کے جج بننے کا تذکرہ ھے وہ ایک مسئلہ ھے لیکن اسکو عملی جامہ پہنانا گناہ شمار ھے۔
الغرض!! اسلام خشک اور جامد مذہب نہیں ھے نہ ہی اس میں خواتین کو پڑھنے لکھنے سے روکا گیا ھے بلکہ پڑھائی لکھائی پر خوب زور دیا گیا ھے : مثلا: لیڈی ڈاکٹرز , لیڈی معلمات وغیرہ کی اسلام کو بہی شدید ضرورت ھے لہذا اسلامی خواتین خوب خوب تعلیم حاصل کریں لیکن یہ ایک دائرے میں ہی رہ کر کیا جایئگا کہ مرد و زن کااختلاط نہ ہو ۔پردے کی مکمل رعایت ہو ۔سفر طویل ہو تو محرم ساتھ ہو, غیر محارم سے دوستییاں نہ ہوں ۔وغیرہ وغیرہ

لیکن ایک عورت اگر جج یا وکیل بنتی ھے( تو قطع نظر اس سے کہ وہ کونسا نصاب تعلیم پڑھینگی) تو وہ اپنا حجاب و حیاء فی زماننا باقی نہ رکھ پایئگی ۔اخبارات و رسائل اور مشاہدہ اس بات پر گواہ ھے کہ وکلاء کے چیمبروں میں یا ان کی کسی کیس میں فتحیابی کے بعد جو جشن فتح کے نام پر دیر رات گئے تک پارٹیاں ہوتی ہیں جس میں(خاتون) اسسٹینٹ اپنے سینیروں کے لیے کیا کچھ نہیں کرجاتے , نیز غنڈوں و بدمعاشوں اور بد قماشوں کے مقدمات اگر خاتون لڑے گی تو کیا وہ رابعہ بصری یا سیدہ فاطمہ کی شبیہ رہ جایئگی۔
روشن خیالوں کو ذرا کبہی سوچنا چاھئے جہاں تک راقم السطور کی سوچ ھے تو ایسے روشن دماغ حضرات جن کے افکار ظلمات میں ڈوبے ہوئے ہیں اس طرح کی تحریروں سے فقط یہ چاہتے ہیں کہ ہماری خواتین جو کبہی زینت خانہ تہیں اور اب شمع محفل بن کر خوب واہ واہی لوٹ رہی ہیں اس کو شریعت مبغوض سمجہتی ھے بس کچھ نہ کچھ ایسا شوشہ چھوڑا اور چھیڑا جائے کہ مسند افتاء پر فروکش مفتیان و علماء اور فقہاء ان کی بین کے آگے ناچیں اور سر تسلیم خم کرتے ہوئے ان کے لائف اسٹائل اور طرز زندگی پر شرعی جواز کی مہر ثبت کردیں ! حالانکہ یہ نورانی شریعت ھے جسکی بقاء تاقیامت ھے ۔خواہ کیسے ہی نشیب و فراز ہوں یہ سنبہلی رہیگی۔اسکے صاف چشمے کو کوئی گندگی گدلا نہ کرسکے گی ۔

آخر میں ہم ایک فتوی بسلسلہ عورت کی ملازمت اس تحریر کے ہم رشتہ کرنا چاہینگے تاکہ خوب عیاں ہو کہ عورت گھر سے باہر ملازمت کن حالات میں کن شرائط کے ساتھ کرسکتی ھے۔

*خواتین کی ملازمت کا حکم*

محترم حضرات مفتیان کرام
 ․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
سوال:﴿۷۴﴾

کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں :
کیا مسلم خواتین سرکا ری وغیر سرکاری نوکریاں کرسکتی ہیں یا نہیں؟ کرنے اور نہ کرنے کی وجوہات کیا ہیں؟ اگر شوہر تنگدست ہو تو اس صورت میں بیوی کے لیے نوکری کے تعلق سے شریعت کا کیا حکم ہے؟
قرآن وحدیث کی روشنی میں مذکورہ جزئیات کے جوابات مدلل ومفصل تحریر فرمائیں عین کرم ہوگا۔

فقط والسلام محمد خورشید خادم جامعہ حضرت عثمان بن عفان  ، احمد پور، لاتور، مہاراشٹر (۱۱۸۰/د ۱۴۳۲ء)

*الجواب وباللہ التوفیق:*

شریعت نے اصالةً عورت پر کسب ِمعاش کی ذمہ داری نہیں ڈالی ہے؛ بلکہ مردوں کو کسب ِمعاش کا مکلف بنایا ہے؛ چنانچہ شادی تک لڑکیوں کا نان ونفقہ والد کے ذمے اور شادی کے بعد شوہر پر واجب قرار دیاہے، یہی لوگ اس کے نان ونفقہ کے ذمہ دار ہیں۔ الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلٰی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ۔(سورہ نساء:۳۴)
ترجمہ: مرد حاکم ہیں عورتوں پر اس سبب سے کہ اللہ تعالی نے بعضوں کو بعضوں پر فضیلت دی ہے اور اس سبب سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔
اس لیے کسی عورت کو اگر نفقے کی تنگی یامخصوص حالات کے تحت معاشی بدحالی کا سامنا نہیں، تو محض معیارِ زندگی بلندکرنے اورزندگی میں ترفہ پیداکرنے کے لیے گھر سے باہر نکل کر ملازمت کے لیے پیش قدمی کرنا شریعت کی نظر میں پسندیدہ عمل نہیں؛ لیکن اگر عورت کو معاشی تنگی کا سامنا ہو اور شوہر اس کی ذمہ داری اٹھانے سے قاصر ہو ، یا تساہلی کرتا ہو، یا عورت بیوہ ہو اور گھرمیں رہ کر اس کے لیے کوئی ذریعہ معاش اختیار کرنا ممکن نہ ہو، تو ایسی مجبوری اور ضرورت کے وقت ملازمت کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت ہوگی؛ چناں چہ حضرات فقہائے کرام نے معتدة الوفات کو کسبِ معاش کے لیے دن دن میں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے ؛ مگر ایسی مجبوری اور ضرورت کے وقت باہر نکل کر ملازمت کے جائز ہونے کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ ملازمت کا کام فی نفسہ جائز کام ہو ایسا کام نہ، جو شرعاً ناجائز یا گناہ ہو؛کیوں کہ ممنوع وناجائز کام کی ملازمت بہر صورت ناجائز ہے۔
عورت کے لیے ملازمت ناگزیر ہونے کی صورت میں اور اس شرط کے پائے جانے کے ساتھ کہ وہ ملازمت جائز کام کی ہے، دوسری ضروری شرط احکامِ ستر وحجاب کی پوری پابندی کرنا ہے، اس کی تفصیل شرعی تعلیمات کی روشنی میں درج ذیل ہے۔
(الف): شرعی پردہ کی مکمل رعایت ہو، باہر نکلنے کے وقت شدید ضرورت کی حالت میں اگرچہ چہرہ اور ہاتھ کھولنے کی اجازت ہے؛ مگر فتنے کا خوف ہو تو ان کے کھولنے سے بھی پرہیز کرنا ضروری ہے ،موجودہ دور جو فتنہ کا خوف ناک دور ہے، اس میں عام حالات میں حکم چہرہ چھپانے ہی کا ہے۔

(ب):لباس دبیز، سادہ اور جسم کے لیے ساتر ہو، بھڑک دار، جاذب، پر کشش اور نیم عریاں قسم کا نہ ہو، اور ایسا لباس بھی نہ ہو، جس سے جسم کا کوئی حصہ نمایاں ہوتا ہو ؛ کیوں کہ حدیث میں عورت کے لیے ایسا لباس پہننے کی ممانعت اور وعیدوارد ہوئی ہے :
رب نساء کاسیات عاریات ممیلات ومائلات، لا یدخلن الجنّة ولا یجدن ریحہا وإن ریحہا لیوجد من مسیرة کذا وکذا(مسلم شریف:۱/۳۹۷)۔
ترجمہ:کچھ عورتیں ہیں جو کپڑا پہننے والی ہیں(مگر) وہ برہنہ ہیں، دوسروں کو مائل کرنے والی ہیں اور خود بھی مائل ہونے والی ہیں (ایسی عورتیں) ہر گز جنت میں نہیں جائیں گی اور نہ اس کی خوشبو سونگھ پائیں گی حالانکہ اس کی بواتنی اتنی دور سے آئے گی ۔
(ج)بناوٴ سنگار اور زیب وزینت کے ساتھ نیز خوشبو لگاکرنہ نکلے، قرآن کریم میں اس سے ممانعت وارد ہوئی ہے ارشاد باری ہے: وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّةِ الْأوْلَی (احزاب:۳۳)، احادیث میں بھی خوشبو لگا کرنکلنے و الی عورت کو زانیہ قرار دیا گیا ہے: کل عین زانیة والمرأة إذا استعطرت فمر ت بالمجلس فہي کذا وکذا یعني زانیة(ترمذی:رقم:۲۷۸۶)، ترجمہ:ہر آنکھ زنا کرنے والی ہے اور عورت جب خوشبو لگا کر مجلس کے پاس سے گذرتی ہے تو وہ زنا کرنے والی ہوتی ہے۔
(د)مردوں سے بالکل اختلاط نہ ہو، اگر کبھی کسی مرد سے اتفاقیہ گفتگو کی نوبت آئے تو عورت لوچ دار طرزِ گفتگو کے بجائے سخت لہجہ اختیار کرے تاکہ دل میں بے جا قسم کے وساوس وخیالات پیدا نہ ہوں ،اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبہِ مَرَضٌ۔(الآیة احزاب : ۳۲)، ترجمہ:تم بولنے میں نزاکت مت کرو کہ ایسے شخص کو خیال ہونے لگتا ہے جس کے قلب میں خرابی ہے ۔
(ھ) ایسا زیور پہن کر نہ نکلے جس سے آواز آتی ہو ۔وَلَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِیُْعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ ۔(النور:۳۱)،ترجمہ:او ر اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہوجاوے۔
(و)ملازمت کرنے کی وجہ سے خانگی امور میں لاپروائی نہ ہو جس سے شوہر اور بچوں کے حقوق ضائع ہوں؛ کیوں کہ عورت کی اولین اور اہم ذمہ داری ،بچوں کی تعلیم و تربیت اور امور خانہ داری ہے، ملازمت ثانوی درجہ کی چیز ہے، شریعت نے عورت کو اس کا مکلف بھی نہیں بنایا۔
(ز)راستہ پر امن ہو؛ یعنی آمدورفت کے دوران کسی شر اور فتنہ کا اندیشہ نہ ہو ۔

مذکورہ شرطیں قرآن وحدیث سے ثابت ہیں، فقہائے کرام نے ان کی صراحت کی ہے، ان شرائط کا لحاظ رکھتے اور ان پر عمل کرتے ہوئے اگر جائز کام کی ملازمت عورت اختیار کرے تو اس کی گنجائش ہوسکتی ہے ؛ مگر غور کامقام ہے کہ اکثر جگہوں میں دورانِ ملازمت ان میں سے بیشتر شرائط مفقود ہوتی ہیں، اور یہ بھی غور کرنے کا مقام ہے کہ جہاں عورتوں کی ملازمت سے بظاہر کچھ فوائد محسوس کئے جاتے ہیں، وہیں معاشرے پر اس کے بہت زیادہ خراب اثرات بھی پڑرہے ہیں؛ مثلاً: خاندانی رکھ رکھاؤ ختم ہوجاتا ہے، زوجین کے مزاج وانداز میں ایک دوسرے سے دوری پیدا ہوجاتی ہے، بچوں کی تربیت نرسری کے حوالے ہوجاتی ہے ،عورت کی ملازمت ہی کے نتیجے میں طلاق وتفریق کے مسائل بھی بہ کثرت رونما ہورہے ہیں ۔
اگر کسی عورت کو واقعی معاشی تنگی کا سامنا ہونے کی بناپر ملازمت ناگزیر ہوجائے تو بہ وقت ضرورت ملازمت اختیار کرنے کی صورت میں اسے اللہ اور اس کے رسول پر کامل ایمان اور اسلام کے احکام پر پختہ یقین رکھنے والی مسلم خاتون کی طرح اسلام کے حکم حجاب کو بھی تسلیم کرتے ہوئے، حجاب کی شرعی ہدایات پر کاربند اور عمل پیراہونے میں فخر محسوس کرنا چاہیے ؛کیوں کہ یہ اسلام کا خصوصی حکم اور اس کا شعار ہے؛ لہٰذا عورت خود اپنے حالات میں غورکرلے کہ اس کو ملازمت کی ضرورت کس درجہ کی ہے اور ملازمت اختیار کرنے میں کیا کیا امور ناجائز وگناہ کے اسے اختیار کرنے پڑیں گے؛ جن سے ایک مسلم خاتون کی حیثیت سے اپنے آپ کو بچانے کی فکر کرنا، اس کے ذمہ لازم وضروری ہے، حاصل یہ ہے کہ مجبور کن حالات میں بھی خلافِ شرع امور سے اجتناب کی راہ اختیار کرنا ، عورت کی خود اپنی ذمہ داری ہے۔

فقط واللہ تعالی اعلم۔

( *چند اہم عصری مسائل. صفحہ:313.,طبع: مکتبہ دار العلوم دیوبند*)

✍🏻...کتبہ : *محمد عدنان وقار صدیقی*

📲00-91 8273222278


Monday, April 8, 2019

عکاشہ کا نبی سے بدلہ, ukasha rz ka nabi se badla

▪ *حضرت عکاشہ کا نبی سے بدلہ*▪

 السلام علیکم ورحمتﷲ!
  ایک واقعہ کثرت سے فیس بک, واٹس ایپ پر نشر ہورہا ھے :

 کہ نبى کریم صلى الله عليه وسلم کی وفات کا وقت جب آیا اس وقت آپ صلى الله عليه وسلم کو شدید بخار تھا
آپ نے حضرتِ بلال رضی الله تعالى عنه کو حکم دیا کہ مدینه میں اعلان کردو کہ جس کسی کا حق مجھ پر ہو وہ مسجدِ نبوی میں آکر اپنا حق لے لے_
مدینہ کے لوگوں نے یہ اعلان سُنا تو آنکھوں میں آنسو آگئے اور مدینہ میں کہرام مچ گیا، سارے لوگ مسجدِ نبوی میں جمع ہوگئے صحابه کرام رضوان الله کی آنکھوں میں آنسوں تھے دل بے چین وبے قرار تھا_
پھر نبى کریم صلى الله عليه وسلم تشریف لائے آپ کو اس قدر تیز بخار تھا کہ آپ کا چہره مبارک سرخ ہوا جارہا تھا_
نبى کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا اے میرے ساتھیو! تمھارا اگر کوئی حق مجھ پر باقی ہو تو وہ مجھ سے آج ہی لے لو میں نہیں چاہتا کہ میں اپنے رب سے قیامت میں اس حال میں ملوں کہ کسی شخص کا حق مجھ پر باقی ہو یہ سن کر صحابه کرام رضوان الله کا دل تڑپ اُٹھا مسجدِ نبوی میں آنسوؤں کا ایک سیلاب بہہ پڑا، صحابه رو رہے تھے لیکن زبان خاموش تھی کہ اب ہمارے آقا ہمارا ساتھ چھوڑ کر جارہے ہیں_
اپنے اصحاب کی یہ حالت دیکھ کر فرمایا کہ "اے لوگوں ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے"میں جس مقصد کے تحت اس دنیا میں آیا تھا وہ پورا ہوگیا ہم لوگ کل قیامت میں ملیں گے۔ایک صحابی کھڑے ہوئے روایتوں میں ان کا نام عُکاشہ آتا ہے عرض کیا یا رسول الله میرا حق آپ پر باقی ہے آپ جب جنگِ اُحد کے لئے تشریف لے جارہے تھے تو آپ کا کوڑا میری پیٹھ پر لگ گیا تھا میں اسکا بدلہ چاہتا ہوں_یہ سن کر حضرت عمر رضی الله تعالى عنه کھڑے ہوگئے اور کہا کیا تم نبى کریم صلى الله عليه وسلم سے بدلہ لوگے؟ کیا تم دیکھتے نہیں کہ آپ صلى الله عليه وسلم بیمار ہیں_اگر بدلہ لینا ہی چاہتے ہو تو مجھے کوڑا مار لو لیکن نبى کریم صلى الله عليه وسلم سے بدله نہ لو,یہ سن کر آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا "اے عمر اسے بدله لینے دو اسکا حق ہے اگر میں نے اسکا حق ادا نہ کیا تو الله کی بارگاہ میں کیا منہ دکھاؤنگا اسلئے مجھے اسکا حق ادا کرنے دو_آپ نے کوڑا منگوایا اور حضرت عُکاشہ کو دیا اور کہا کہ تم مجھے کوڑا مار کر اپنا بدله لے لو_حضرات صحابہ كرام رضوان الله یہ منظر دیکھ کر بے تحاشہ رو رہے تھے حضرت عُکاشہ نے کہا کہ اے الله کے رسول ! میری ننگی پیٹھ پر آپکا کوڑا لگا تھا یہ سن کر نبى کریم صلى الله عليه وسلم نے اپنا کُرتہ مبارک اُتار دیا اور کہا لو تم میری پیٹھ پر کوڑا مار لو، حضرتِ عُکاشہ نے جب اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کی پیٹھ مبارک کو دیکھا تو کوڑا چھوڑ کر جلدی سے آپ صلى الله عليه وسلم کی پیٹھ مبارک کو چُوم لیا اور کہا یا رسول الله
"فَداکَ أبِی واُمی"
میری کیا مجال کہ میں آپ کو کوڑا ماروں میں تو یہ چاہتا تھا کہ آپکی مبارک پیٹھ پر لگی مہر نبوّت کو چوم کر جنّت کا حقدار بن جاؤں_
یہ سن کر آپ صلى الله عليه وسلم مسکرائے اور فرمایا تم نے جنّت واجب کرلی_

(الرحیق المختوم صفحہ : 628)

اس واقعہ کی کیا حقیقت ھے از راہ کرم جواب سے نوازیں!


••• *باسمه تعالی*•••
*الجواب وبه التوفیق:*

   یہ واقعہ متعدد کتب میں مذکور ھے ؛ لیکن ہم صرف دو کتابوں کے حوالے سے اسکی تحقیق کرینگے:

1⃣ یہ واقعہ " مجمع الزوائد" میں ایک طویل روایت کا حصہ ھے؛ لیکن اس کی سند اس قابل نہیں ھے کہ اس کو عوام یا خواص میں بیان کیا جاسکے؛ کیونکہ اسکی سند میں ایک راوی" عبد المنعم بن ادریس "  پر وضع حدیث یعنی حدیث گھڑنے اور جھوٹ بولنے کا الزام ھے ۔ عبارت کی طوالت کے پیش نظر ہم مجمع الزوائد کی روایت کے ذکر سے عمدا اعراض کر رھے ہیں؛ تاہم عبارت کا مکمل حوالہ درج ھے:

المصدر:  مجمع الزوائد
المجلد: 8
الصفحة: 429
الرقم: 14253
درجة الرواية: فيه عبد المنعم بن إدريس، وهو كذاب، وضاع.
الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت،لبنان


2⃣ علامہ ”ابن الجوزی“ نے بہی اپنی شہرۂ آفاق  كتاب — موضوعات ابن الجوزي— میں اسکو ذکر فرمانے کے بعد اس کو من گھڑت قراردیا ھے :

المصدر: موضوعات ابن الجوزی
المجلد: 1
الصفحة: 295
خلاصة: موضوع
الناشر: المکتبة السلفیة, المدینة المنورة.

🛑 ( *نوٹ*)  :

 اس طرح کا ایک واقعہ کتب حدیث میں معتبر سند کے ساتھ مذکور ھے؛ لیکن اس میں وفات کے وقت کی بات مذکور نہیں ھے اور نہ ہی وہ واقعہ حضرت عُکّاشہ کی طرف منسوب ھے ؛ بلکہ وہ واقعہ حضرت *اُسید بن حُضیر* کا ھے کہ وہ ایک مرتبہ کچھ ہنسی مذاق کی بات کر رھے تھے اور اپنے کچھ احباب کو ہنسا رھے تھے،  چناچہ نبی پاک علیہ السلام نے ان کے جسم پر چھوٹی سی لکڑی چبھودی , تو حضرت اسید نے عرض کیا: کہ اے رسول خدا! مجھے تو بدلہ لینا ھے, حضور نے فرمایا : لے لو! تو حضرت اسید نے کہا: کہ جہاں آپ نے لکڑی چبھوئ ھے اس جگہ میرے جسم پر کپڑا نہ تہا اور آپ کے جسم اطہر پر کپڑا ھے تو حضور نے اپنا کرتہ اوپر کرلیا .. تو حضرت اسید نے آپ کو باہوں میں نرمی سے جکڑ لیا اور آپ کے پہلو کابوسہ لینا شروع کردیا اور یوں کہتے رھے میرا ارادہ بدلہ کا نہیں تہا ؛ بلکہ یہ تہا۔

 یہ واقعہ امام ابوداود نے سنن ابوداود میں ذکر فرمایا ھے:

🔰حدثنا عمرو بن عون أخبرنا خالد عن حصين عن عبد الرحمن بن أبي ليلى عن أسيد بن حضير رجل من الأنصار قال بينما هو يحدث القوم وكان فيه مزاح بينا يضحكهم فطعنه النبي صلى الله عليه وسلم في خاصرته بعود فقال أصبرني فقال اصطبر قال إن عليك قميصا وليس علي قميص فرفع النبي صلى الله عليه وسلم عن قميصه فاحتضنه وجعل يقبل كشحه قال إنما أردت هذا يا رسول الله.

المصدر:  سنن ابي داود
المجلد: 2
الصفحة: 368
الرقم: 5224
الناشر:  مكتبه رحمانية، لاهور،

❇سوال میں- الرحیق المختوم- کی جانب جو اس واقعہ کی نسبت کی گئی ھے وہ غلط ھے؛ کیونکہ الرحیق المختوم میں فقط اتنا مذکور ھے : *"کہ پھر آپ نے اپنے آپ کو قصاص کے لیے پیش کیا اور فرمایا: کہ میں نے کسی کی پیٹھ پر کوڑا مارا ہو تو یہ میری پیٹھ حاضر ھے, وہ بدلہ لے لے , میں نے کسی کی بے آبروئی کی ہو تو یہ میری آبرو حاضر ھے وہ بدلہ لے لے*".

 کتاب:  الرحیق المختوم(اردو)
 مؤلف: صفی الرحمان مبارکپوری
صفحہ: 625
طبع: مکتبہ سلفیہ شیش محل روڈ لاھور , پاکستان۔


<< *خلاصۂ کلام*>>

  اس واقعہ کو حضور کی وفات کے موقعہ اور حضرت عکاشہ کی جانب منسوب کرکے نہ بیان کیا جائے ؛ بلکہ یہ واقعہ ابوداود کے حوالے سے جتنا ہم نے بیان کیا ھے اتنا ہی حضرت اسید بن حضیر سے منسوب کرکے بیان کیا جاسکتا ھے۔

واللہ تعالی اعلم
✍🏻 ...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*
8 اپریل/2019ء

فاطمہ کی قمیص

*حضرت فاطمہ کی شادی کی قمیص*
 
ایک واقعہ کثرت سے مشہور کیا جارہا ھے کہ نبی کریم نے اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ کی جب شادی کا ارادہ فرمایا تو ان کے لیے ایک نئی قمیص بنوائی, کیونکہ حضرت فاطمہ کی پہلی قمیص انتہائی خستہ اور پرانی تھی,
ابھی آپ کی شادی نہیں ہوئی تھی کہ ایک دن ایک سوالی دروازے پر آگیا اور کہنے لگا :
" اطلب من بیت النبوہ قمیصا خلقا" ( میری بیٹی کے پاس پہننے کے لیے قمیص نہیں ھے میں آج نبوت کے گھرانے سے ایک پرانی قمیص کا سوال کرتا ہوں ) حضرت فاطمہ نے سوچا کیوں نہ میں اپنی پرانی قمیص اس سائل کو دیدوں .آپ نے ابھی وہ پرانی قمیص اسکو دینے کے لیے اٹھائی ہی تھی کہ ﷲ تعالی کا فرمان یاد آگیا " اس وقت تک تم نیکی کو نہیں پہونچ سکوگے جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز ﷲ تعالی کے راستے میں خرچ نہ کرو"  (آل عمران :92)
آپ نے فور ا اپنی نئی قمیص اٹھائی اور اس سائل کو ﷲ کی رضاکے لیے دیدی. جب آپ کی شادی کا دن قریب آیا تو حضرت جبریل آپ کے لیے جنت سے سبز ریشم کی قمیص لائے جس کی مثال دنیا میں نہیں تھی . حضرت فاطمہ کی یہ قمیص جب دوسری عورتوں نے دیکھی تو وہ حیران رہ گیئں اور پوچھنے لگیں: یہ قمیص کہاں سے آئی ھے ؟
جب انہیں پتہ چلا کہ یہ قمیص حضرت جبریل جنت سے لائے ہیں تو ان کی حیرانی کی انتہاء نہ رہی ۔
  بعض روایات میں یہ بات آتی ھے : کہ یہود کی عورتیں آپ کی قمیص دیکھ کر مسلمان ہوگیئں اور اس  کے بعد یہ واقعہ سن کر ان کے خاوند بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے ۔

( نزہت المجالس و منتخب النفائس, جلد:2 صفحہ: 175)

••• *باسمه تعالی*•••
*الجواب وبه التوفیق:*

    یہ واقعہ " علامہ صفوری شافعی" کی کتاب "نزہت المجالس" جلد:2 میں مذکور ھے ؛ لیکن اسکی کوئی سند یا حوالہ وہاں مذکور نہیں.

💠 *نزھة المجالس کی عبارت*

وذكره ابن الجوزي أن النبي صلى الله عليه وسلم صبغ لفاطمة قميصاً جديدا ليلة عرسها وزفافها، وكان لها قميص مرقع، وإذا سائل علي الباب يقول:  اطلب من بيت النبوة قميصا خلقا،فأرادت أن تدفع إليه القميص المرقع فتذكرت قوله تعالى لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون فدفعت إليه الجديد فلما قرب الزفاف نزل جبريل وقال يا محمد إن الله يقرئك السلام وأمرني أن أسلم على فاطمة وقد أرسل لها معي هدية من ثياب الجنة من السندس الأخضر فلما بلغها السلام وألبسها القميص الذي جاء به لفها رسول الله صلى الله عليه وسلم بالعباءة ولفها جبريل عليه السلام بأجنحته حتى لا يأخذ نور القميص بالأبصار فلما جلست بين الكافرات ومع كل واحدة شمعة ومع فاطمة سراج رفع جبريل عليه السلام جناحه لو رفع العبادة وإذا بالأنوار قد أطبقت المشرق والمغرب فلما وقع النور على أبصار الكافرات خرج الكفر من قلوبهن وأظهرن الشهادتين.


( *نزهة المجالس، جلد: 2، صفحة: 185*)

🌀  نیز اس کتاب اور اس کے مؤلف کے متعلق جو تحقیق علماء کی ہیں وہ درج ذیل ہیں :

■ *امام صفوری کا تعارف:*
شیخ صفوری ایک مؤرخ اور ادیب تھے.
- نام: عبدالرحمن بن عبدالسلام الصفوري.
- تاريخ الوفاة: 894ھ.

*◇ ترجمة المصنف الصفوري (المتوفی 894هـ =1489م)*
عبدالرحمن بن عبدالسلام بن عبدالرحمن بن عثمان الصفوري الشافعي: مؤرخ أديب من أهل مكة، نسبته إلى صفورية في الأردن.

*• من كتبه:*
- (المحاسن المجتمعة في الخلفاء الأربعة - خ) في الظاهرية (229 ورقة)
- (نزهة المجالس، ومنتخب النفائس - ط)
- كتاب (الصيام - خ) في الأزهرية.
- (صلاح الأرواح والطريق إلى دار الفلاح - خ) فقه، في البصرة (العباسية).

■ *کتاب نزہت المجالس کی حیثیت:*
یہ کتاب ہر موضوع پر مشتمل مواد سے بھری پڑی ہے اور اس کتاب میں ہر طرح کی صحیح اور غلط روایات کی بہت بڑی تعداد موجود ہے، ابتداء سے ہی علمائے کرام نے اس کتاب پر اعتماد نہیں کیا.
بلکہ اس کتاب میں ذکر کردہ موضوع روایات کی بنیاد پر شیخ شہاب الدین الحمصی نے جامع اموی سے ان کی درس کی کرسی ہٹانے کا حکم دیا تھا.
*وبسبب كتابه هذا حكم عليه الشهاب الحمصي برفع كرسيه من الجامع الأموي يوم 15 جمادى الأولى 899هـ كما حكى في كتابه "حوادث الزمان". وذلك بسبب ما حشره فيه من الحديث الموضوع.*

- مشاهير كتب الرقائق. يكاد يكون خلاصة لكل ما ورد فيها من حكايا الصالحين، ونوادر أخبارهم. ألفه الصفوري كما يبدو في مدة طويلة، بعد تأليف كتابه "صلاح الأرواح". ورتبه على أركان الإسلام وشعب الإيمان، وختمه بخصائص النبي صلی اللہ علیه وسلم سيما في المولد والمعراج، ثم مناقب أمهات المؤمنين، والعشرة المبشرين، وحشده بما انتخبه من نفائس الكتب والتفاسير المشهورة.
طبع الكتاب لأول مرة بالمطبعة الأزهرية بمصر في جزئين (سنة:1346هـ) بعناية إبراهيم الفيومي.

■ *اس کتاب پر علمائےکرام کے تبصرے:*

*١. یہ کتاب ہر طرح کی موضوعات سے بھری ہوئی ہے.*

○ والكتاب المذكور المسمى "نزهة المجالس" فيه موضوعات وأشياء لا أصل لها، وقد نبه على هذا السيوطي في فتاواه وخرج بعض تلك المرويات، والواجب الحذر من هذا الكتاب.

*٢. اس کتاب کے مصنف شافعی تھے، لیکن حضرات شوافع نے اس کتاب کو باطل لکھا ہے.*

○ الكتاب متكلم فيه حتى من السادة الشافعية أنفسهم وكنت قد طالعت بعض كلام الشافعية ممن وقف على الكتاب ونبه على بطلان ما فيه وعلى عدم الاعتماد على صاحبه لكونه حشى كتابه بالبواطل.

*٣. اس کتاب میں ہر طرح کی چیزیں اور اسرائیلیات موجود ہیں جن پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے.*

● *السؤال:*
كتاب نزهة المجالس للصفوري ھل ھو كتاب معتمد أستطيع أن أتبع منهجه أو أنه من الكتب الممنوعة حسب ما قيل لي؟ من فضلکم أفيدوني؟...وجزاكم الله خيراً.
● *الجواب:*
فإن هذا الكتاب مليء بالقصص الإسرائيلية والأحاديث التي لا تثبت، ولهذا فإنه لا يمكن أن يعتمد عليه ولا أن يتبع منهجه، بل الواجب الاستغناء عنه بالقرآن وكتب التفسير المعتمدة وكتب الحديث، ومؤلفات العلماء المحققين في المواعظ والرقائق والأخلاق.

<< *خلاصۂ کلام*>>

 اس واقعہ کو نشر کرنا یا اسکا عوامی جلسوں میں بیان کرنا ٹھیک نہیں, اس سے پرہیز کرنا چاہئے!!

واللہ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*
8 اپریل 2019ء

Friday, April 5, 2019

حضرت علی کی فراست

*حضرت علی کی فراست*

  ایک واقعہ آج کل بہت مشہور ہورہا ھے کہ
ایک ہلکی داڑھی والاشخص حضرت عمر بن الخطابؓ اورحضرت علیؓ کے پاس بیٹھا تھا اس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں اور زبان ذکر و تسبیح میں مشغول تھی۔ حضرت عمرؓ نے اس سے پوچھا کہ آپ نے صبح کس حال میں کی؟ اس آدمی نے عجیب انداز سے جواب دیا کہ میں نے اس حال میں صبح کی کہ فتنہ کو پسند کرتا ہوں اور حق بات سے کراہت کرتا ہوں۔اور بغیر وضو کے نماز پڑھتا ہوں اور میرے لیے زمین پر وہ چیز ہےجو آسمان پر اللہ کے لیے نہیں ہے! (یہ سن کر) حضرت عمرؓ طیش میں آگئے اور اللہ کے دین کی خاطر انتقام لینے پر آمادہ ہو گئے اور اس آدمی کو پکڑ کر سخت سزا دینے لگے توحضرت علیؓ نے ہنستے ہوئے کہا: اے امیر المومنین! یہ شخص  جو یہ کہتاہے کہ وہ فتنہ کو پسند کرتاہے اس سے اس کی مراد مال و اولاد ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں مال و اولاد کو فتنہ کہا گیا ہے: ’’اِنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَ اَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃ’‘‘‘ (الانفال:28)۔

 اورحق کو ناپسند کرتا ہے اس سے مراد موت کی ناپسندیدگی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’وَجَآئتْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذٰلِکَ مَا کُنْتَ مِنْہُ تَحِیْدُ‘‘ (ق:19)

اور بغیر وضو کے نماز پڑھتاہے اس سے مراد نبی کریمؐ پر صلوٰۃ (درود) بھیجنا ہے،

ظاہر ہے کہ صلوٰۃ(درود) کے لیے وضو ضروری نہیں ہے۔

 اور اس نے جو یہ کہا ہے کہ اس کے لیے زمین پر وہ چیز ہے جو آسمان پر اللہ کے لیے نہیں ہے اس سے اس کی مراد بیوی بچے ہیں، ظاہر ہے کہ اللہ کی نہ بیوی ہے اور نہ اولاد، وہ ذات تو یکتا بے نیاز ہے، نہ اس کی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور اس کا کوئی ہمسر نہیں۔ حضرت عمر بن الخطابؓ کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا اورہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور خوشی سے جھومتے ہوئے فرمایا: وہ جگہ بری ہے جہاں ابوالحسنؓ نہ ہو یعنی علی بن ابی طالبؓ۔‘‘

ہمیں واقعہ کی تحقیق مطلوب ھے!!!

••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق*


یہ واقعہ اتنی تفصیل سے کسی مستند کتاب میں مذکور نہیں ھے؛ البتہ بلا کسی حوالے کے عربی زبان میں بہی نشر ہورہا ھے .جس میں ھے کہ حضرت عمر رض نے حضرت حذیفہ بن یمان صحابی رسول سے استفسار کیا

  ÷÷ *عربی عبارت* ÷÷

🔰((دخل حُذيفة بن اليمان على عمر بن الخطاب فسأله: كيف أصبحتَ يا حذيفة؟ فأجاب حذيفة: أصبحت أحبُّ الفتنة, وأكره الحق, وأصلِّي بغير وضوء, ولي في الأرض ما ليس لله في السماء, فغضب عمرُ غضبًا شديدًا, وولَّى وجهه عنه, واتفق أنْ دخل عليُّ بن أبي طالب, فرآه على تلك الحال, فسأله عن السبب, فذكر له ما قاله ابن اليمان, فقال عليٌّ: لقد صدقك فيما قال يا عمر, فقال عمر: وكيف ذلك؟! قال عليٌّ: إنه يحب الفتنة؛ لقوله تعالى: إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ [التغابن: 15]، فهو يحب أمواله وأولاده, ويكره الحق بمعنى الموت؛ لقوله تعالى: وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ [الحجر: 99], ويصلي بغير وضوء, يعني أنه يصلي على محمد صلى الله عليه وسلم, ومعنى أنَّ له في الأرض ما ليس لله في السماء, يعنى أنَّ له زوجة وأولادًا, والله تعالى هو الواحد الأحد, الفرد الصمد, الذي لم يلِد، ولم يُولد, فقال عمر: أحسنتَ يا أبا الحسن، لقد أزلتَ ما في قلبي على حذيفة)).

   لیکن اس مفصل واقعہ کا کوئی حوالہ مذکور نہیں ؛ البتہ اس واقعہ کا کچھ حصہ ہمیں دو کتابوں ☜ "الطرق الحكمية و تفسير ابن عطية" میں ملا ھے لیکن دونوں میں کوئی سند یا حوالہ مذکور نہیں ھے

💠 *ابن القیم کی کتاب کی عبارت*

ان عمر بن الخطاب سأل رجلا: كيف انت؟ فقال: ممن يحب الفتنة، ويكره الحق، ويشهد مالم يره، فامربه الي السجن، فامر علي -كرم الله وجهه- برده، وقال: صدق، قال: كيف صدقته؟ قال: يحب المال والولد، وقد قال الله تعالي: ‌{ إنما أموالكم و أولادكم فتنة } ( التغابن: ¹⁵)
ويكره الموت وهو حق، ويشهد أن محمدا رسول الله ولم يره،فأمر عمر بإطلاقه، قال: { الله أعلم حيث يجعل رسالته}.

كتاب: الطرق الحكمية في السياسة الشرعية
مؤلف: ابن القيم الجوزية
الصفحة: 117
الطبع: دار عالم الفوائد للنشر والتوزيع، جدة

🌀 *تفسير ابن العطية كي عبارت*

وقال عمر لحذيفة - رضي الله عنهما-  كيف أصبحت؟ قال: اصبحت احب الفتنة، واكره الحق، فقال عمر: ماهذا؟ قال: أحب ولدي، واكره الموت.

كتاب: المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز  المعروف بتفسير ابن عطية

الصفحة: 1865
الطبع: دار ابن حزم، مصر

تفسیر ابن عطیہ میں فقط حضرت عمر و حذیفہ کا ذکر ھے حضرت علی کا ذکر نہیں یعنی یہ گفتگو فقط حضرت عمر و حذیفہ کے مابین ہوئی, اور واقعہ انتہائی مختصر ھے مفصل نہیں۔



<< *خلاصہ کلام* >>

 یہ واقعہ کسی مستند حوالے سے کتب میں مذکور نہیں ھے؛ لہذا اس کی نسبت حضرات صحابہ کی جانب کرنے میں محتاط رہنا چاہئے, محض ایک پہیلی و چیستاں کی حیثیت سے صحابہ کی جانب نسبت کیے بغیر باہم اس طرح کے سوالات ذہانت و فہم کی جانچ کی خاطر کیے جاسکتے ہیں۔

والله تعالى أعلم
✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار صديقي*
05/04/2019