• *مسجد میں دنیوی باتیں*•
ایک مسجد میں ایک اشتہار چسپاں دیکہا: کہ مسجد میں دنیوی باتیں کرنا منع ہیں؛ کیونکہ مسجد میں دنیوی بات کرنا نیکیوں کو ایسے کہاتا ھے حیسے آگ لکڑی کو کہاجاتی ھے نیز اسی اشتہار میں ایک حدیث یہ بہی درج تہی: کہ جب کوئی مسجد میں بات کرتا ھے تو فرشتے اس سے کہتے ہیں: اے اللہ کے ولی خاموش ہوجا! پھر بہی نہ رکے تو کہتے ہیں: اے خدا کے مبغوض بندے خاموش ہوجا! اگر تب بہی نہیں رکتا تو کہتے ہیں: خاموش ہوجا! تجھ پر اللہ کی لعنت ہو! مزید یہ کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق نے مسجد نبوی میں دو لوگوں کو باتیں کرتے دیکہا تو ان سے معلوم کیا تم کہاں کے ہو؟ انہوں نے کہا: طائف سے, حضرت نے فرمایا: اگر تم مدینہ منورہ سے ہوتے تو تمہاری پٹائی لگاتا ۔
معلوم یہ کرنا ھے: کہ مسجد میں دنیوی گفتگو کی وجہ سے فرشتے لعنت کی دعا کرتے ہیں کیا یہ روایت درست ھے؟!!
•• *باسمہ تعالی* ••
*الجواب وبہ التوفیق:*
اس سوال میں تین باتیں ہیں ہم بالترتیب ان کو بیان کرینگے:
1) مسجد میں دنیوی گفتگو نیکیوں کو ایسے کہاتی ھے جس طرح آگ لکڑیوں کو کہاجاتی ھے۔ اس روایت کو علامہ عراقی و ملا علی قاری وغیرہ نے بے اصل بتایا ھے :
★ «الْكَلَامُ فِي الْمَسْجِدِ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ» لم اقف علی اصل۔
÷ نام کتاب: المغنی عن حمل الاسفار
÷ مؤلف: العراقیؒ
÷ الصفحة: 107
÷ الرقم: 410
÷ الدرجة : لا اصل لہ
÷ الطبع: مكتبة طبرية، رياض.
▫ اسی طرح ملا علی قاریؒ نے بہی اس روایت کے متعلق کہا: یہ روایت ملتی نہیں ھے۔
* نام کتاب: المصنوع
* نام محدث: ملا علي القاريؒ
* صفحة : 92
* نمبر: 109
* طبع : مكتبة المطبوعات الاسلامية، حلب، الشام.
2) دوسری بات:
دنیوی گفتگو کرنیوالے پر فرشتے لعنت بہیجتے ہیں یہ روایت مرفوعا " ابن الحاج مالکی". نے -المدخل- میں بلا کسی سند ذکر کی ھے ؛ نیز دیگر کتب بہی اس روایت کے ذکر سے ساکت ہیں؛ لہذا اس روایت کو بیان کرنے و نشرنے میں توقف کیا جائے۔
🔰 *المدخل کی عبارت*
وروي عنه ايضا عليه الصلاة والسلام: انه قال: إذَا أَتَى الرَّجُلُ الْمَسْجِدَ فَأَكْثَرَ مِنْ الْكَلَامِ تَقُولُ لَهُ الْمَلَائِكَةُ : اُسْكُتْ يَا وَلِيَّ اللَّهِ ، فَإِنْ زَادَ تَقُولُ : اُسْكُتْ يَا بَغِيضَ اللَّهِ ، فَإِنْ زَادَ تَقُولُ : اُسْكُتْ عَلَيْكَ لَعْنَةُ اللَّهِ }.
٭ المصدر: المدخل
٭ المؤلف: ابن الحاج المالكيؒ
٭ المجلد: 2
٭ الصفحة: 227
٭ الطبع: مكتبة دار التراث، قاهرة،مصر.
3) تیسری بات:
مسجد میں گفتگو کرنیوالوں کو حضرت عمر فاروقؓ نے ڈانٹا اور سرزنش کرنے کی بات کہی اسکا ذکر بخاری شریف میں ھے:
عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ : " كُنْتُ قَائِمًا فِي المَسْجِدِ فَحَصَبَنِي رَجُلٌ ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ ، فَقَالَ: اذْهَبْ فَأْتِنِي بِهَذَيْنِ ، فَجِئْتُهُ بِهِمَا، قَالَ: مَنْ أَنْتُمَا - أَوْ مِنْ أَيْنَ أَنْتُمَا؟ - قَالاَ: مِنْ أَهْلِ الطَّائِفِ ، قَالَ: لَوْ كُنْتُمَا مِنْ أَهْلِ البَلَدِ لَأَوْجَعْتُكُمَا، تَرْفَعَانِ أَصْوَاتَكُمَا فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " .
% نام کتاب: بخاری
% جلد: 1
% صفحہ: 138
% نمبر حدیث: 470
% طبع: الطاف اینڈ سنز کراچی پاکستان۔
⚠ _الحاصل_
مسجد، ایک پاکیزہ و مقدس مقام ہے، مسجد عبادت کے لئے بنائی جاتی ہے۔ مسجد میں دنیاوی و سیاسی باتیں کرنا اس کی حرمت و تقدس کے منافی ہے
اور اسی طرح کی لایعنی فضولیات باتوں پر حضرت عمر فاروقؓ کی ڈانٹ والا واقعہ ھے۔
لیکن اگر کوئی مسجد میں نماز وغیرہ عبادت کے لئے آئے اور پھر کسی سے مباح گفتگو کی ضرورت پیش آجائے تو ایسے طریقے پر بات کرلینے میں حرج نہیں جس سے دوسروں کی عبادت میں خلل نہ ہو۔ مسجد میں مباح اور غیر لا یعنی گفتگو کرنے کی گنجائش حدیث مبارکہ سے ملتی ھے:
※ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ قَالَ : قُلْتُ لِجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ أَكُنْتَ تُجَالِسُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : نَعَمْ . كَثِيرًا كَانَ لَا يَقُومُ مِنْ مُصَلَّاهُ الَّذِي يُصَلِّي فِيهِ الصُّبْحَ أَوْ الْغَدَاةَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَإِذَا طَلَعَتْ الشَّمْسُ قَامَ وَكَانُوا يَتَحَدَّثُونَ فَيَأْخُذُونَ فِي أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ فَيَضْحَكُونَ وَيَتَبَسَّمُ .
اس روایت میں نبی کریمؑ اور صحابہؓ کی مسجد میں گفتگو اور خوش طبع بات کا ذکر ھے نیز مسکراہٹ و تبسم کا بہی ذکر ھے۔
÷ نام کتاب: صحیح مسلم
÷ جلد: 2
÷ صفحة : 538
÷ حدیث نمبر: 1524
÷ طبع: مكتبة البشري، كراچي.
▪ لیکن بالقصد دنیاوی گفتگو کے لئے مسجد میں بیٹھنا، جائز نہیں۔ اور مسجد میں فحش اور منکر بات تو کسی حال میں جائز نہیں؛ اسکی بابت بہی روایت میں وعید وارد ھے:
🔘 عن عبدﷲ بن عمرؓ{ : سیکون في آخر الزمان قوم یکون حدیثھم فی مساجدھم ليس لله بهم من حاجة } .
( ترجمہ) آخر زمانے میں ایسے لوگ ہونگے جو مساجد میں گفتگو کیا کرینگے اور ﷲ کو ان کی کوئی ضرورت نہ ہوگی۔
٪ نام کتاب: صحیح ابن حبان
٪ جلد: 15
٪ صفحہ: 163
٪ حدیث نمبر: 6761
٪ طبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.
☪ *مستدرک حاکم میں*
یہی وعید جو بے جا اور لا یعنی گفتگو کے سلسلے میں وارد ھے اسکو مستدرک میں بہی حاکم نے بسند صحیح ذکر کی ھے:
۩ عن أنس بن مالك رضي الله تعالى عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : يأتي على الناس زمان يتحلقون في مساجدهم وليس همتهم إلا الدنيا ، ليس لله فيهم حاجة فلا تجالسوهم ،
هذا حديث صحيح ولم يخرجاه .
• المصدر : مستدرک حاکم
• المجلد: 4
• الصفحة: 468
• الرقم : 7997
• الطبع: دار الحرمين للطباعة والنشر، قاهرة، مصر.
گزشتہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کی لعنت اور نیکیوں کے ختم ہونیکی جو روایت ھے وہ مستند نہیں ؛ لیکن مساجد میں گفتگو تین طرح کی ہوسکتی ھے: خالص دینی جسکے جواز میں شبہ نہیں ۔خالص دنیوی ( فضول) جسکے عدم جواز میں شبہ نہیں دنیوی گفتگو جو مباحات کے درجہ میں ھے اسکا جواز روایات کی روشنی میں سامنے آچکا ھے۔
وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
24دسمبر: ء 2019
ایک مسجد میں ایک اشتہار چسپاں دیکہا: کہ مسجد میں دنیوی باتیں کرنا منع ہیں؛ کیونکہ مسجد میں دنیوی بات کرنا نیکیوں کو ایسے کہاتا ھے حیسے آگ لکڑی کو کہاجاتی ھے نیز اسی اشتہار میں ایک حدیث یہ بہی درج تہی: کہ جب کوئی مسجد میں بات کرتا ھے تو فرشتے اس سے کہتے ہیں: اے اللہ کے ولی خاموش ہوجا! پھر بہی نہ رکے تو کہتے ہیں: اے خدا کے مبغوض بندے خاموش ہوجا! اگر تب بہی نہیں رکتا تو کہتے ہیں: خاموش ہوجا! تجھ پر اللہ کی لعنت ہو! مزید یہ کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق نے مسجد نبوی میں دو لوگوں کو باتیں کرتے دیکہا تو ان سے معلوم کیا تم کہاں کے ہو؟ انہوں نے کہا: طائف سے, حضرت نے فرمایا: اگر تم مدینہ منورہ سے ہوتے تو تمہاری پٹائی لگاتا ۔
معلوم یہ کرنا ھے: کہ مسجد میں دنیوی گفتگو کی وجہ سے فرشتے لعنت کی دعا کرتے ہیں کیا یہ روایت درست ھے؟!!
•• *باسمہ تعالی* ••
*الجواب وبہ التوفیق:*
اس سوال میں تین باتیں ہیں ہم بالترتیب ان کو بیان کرینگے:
1) مسجد میں دنیوی گفتگو نیکیوں کو ایسے کہاتی ھے جس طرح آگ لکڑیوں کو کہاجاتی ھے۔ اس روایت کو علامہ عراقی و ملا علی قاری وغیرہ نے بے اصل بتایا ھے :
★ «الْكَلَامُ فِي الْمَسْجِدِ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ» لم اقف علی اصل۔
÷ نام کتاب: المغنی عن حمل الاسفار
÷ مؤلف: العراقیؒ
÷ الصفحة: 107
÷ الرقم: 410
÷ الدرجة : لا اصل لہ
÷ الطبع: مكتبة طبرية، رياض.
▫ اسی طرح ملا علی قاریؒ نے بہی اس روایت کے متعلق کہا: یہ روایت ملتی نہیں ھے۔
* نام کتاب: المصنوع
* نام محدث: ملا علي القاريؒ
* صفحة : 92
* نمبر: 109
* طبع : مكتبة المطبوعات الاسلامية، حلب، الشام.
2) دوسری بات:
دنیوی گفتگو کرنیوالے پر فرشتے لعنت بہیجتے ہیں یہ روایت مرفوعا " ابن الحاج مالکی". نے -المدخل- میں بلا کسی سند ذکر کی ھے ؛ نیز دیگر کتب بہی اس روایت کے ذکر سے ساکت ہیں؛ لہذا اس روایت کو بیان کرنے و نشرنے میں توقف کیا جائے۔
🔰 *المدخل کی عبارت*
وروي عنه ايضا عليه الصلاة والسلام: انه قال: إذَا أَتَى الرَّجُلُ الْمَسْجِدَ فَأَكْثَرَ مِنْ الْكَلَامِ تَقُولُ لَهُ الْمَلَائِكَةُ : اُسْكُتْ يَا وَلِيَّ اللَّهِ ، فَإِنْ زَادَ تَقُولُ : اُسْكُتْ يَا بَغِيضَ اللَّهِ ، فَإِنْ زَادَ تَقُولُ : اُسْكُتْ عَلَيْكَ لَعْنَةُ اللَّهِ }.
٭ المصدر: المدخل
٭ المؤلف: ابن الحاج المالكيؒ
٭ المجلد: 2
٭ الصفحة: 227
٭ الطبع: مكتبة دار التراث، قاهرة،مصر.
3) تیسری بات:
مسجد میں گفتگو کرنیوالوں کو حضرت عمر فاروقؓ نے ڈانٹا اور سرزنش کرنے کی بات کہی اسکا ذکر بخاری شریف میں ھے:
عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ : " كُنْتُ قَائِمًا فِي المَسْجِدِ فَحَصَبَنِي رَجُلٌ ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ ، فَقَالَ: اذْهَبْ فَأْتِنِي بِهَذَيْنِ ، فَجِئْتُهُ بِهِمَا، قَالَ: مَنْ أَنْتُمَا - أَوْ مِنْ أَيْنَ أَنْتُمَا؟ - قَالاَ: مِنْ أَهْلِ الطَّائِفِ ، قَالَ: لَوْ كُنْتُمَا مِنْ أَهْلِ البَلَدِ لَأَوْجَعْتُكُمَا، تَرْفَعَانِ أَصْوَاتَكُمَا فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " .
% نام کتاب: بخاری
% جلد: 1
% صفحہ: 138
% نمبر حدیث: 470
% طبع: الطاف اینڈ سنز کراچی پاکستان۔
⚠ _الحاصل_
مسجد، ایک پاکیزہ و مقدس مقام ہے، مسجد عبادت کے لئے بنائی جاتی ہے۔ مسجد میں دنیاوی و سیاسی باتیں کرنا اس کی حرمت و تقدس کے منافی ہے
اور اسی طرح کی لایعنی فضولیات باتوں پر حضرت عمر فاروقؓ کی ڈانٹ والا واقعہ ھے۔
لیکن اگر کوئی مسجد میں نماز وغیرہ عبادت کے لئے آئے اور پھر کسی سے مباح گفتگو کی ضرورت پیش آجائے تو ایسے طریقے پر بات کرلینے میں حرج نہیں جس سے دوسروں کی عبادت میں خلل نہ ہو۔ مسجد میں مباح اور غیر لا یعنی گفتگو کرنے کی گنجائش حدیث مبارکہ سے ملتی ھے:
※ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ قَالَ : قُلْتُ لِجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ أَكُنْتَ تُجَالِسُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : نَعَمْ . كَثِيرًا كَانَ لَا يَقُومُ مِنْ مُصَلَّاهُ الَّذِي يُصَلِّي فِيهِ الصُّبْحَ أَوْ الْغَدَاةَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَإِذَا طَلَعَتْ الشَّمْسُ قَامَ وَكَانُوا يَتَحَدَّثُونَ فَيَأْخُذُونَ فِي أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ فَيَضْحَكُونَ وَيَتَبَسَّمُ .
اس روایت میں نبی کریمؑ اور صحابہؓ کی مسجد میں گفتگو اور خوش طبع بات کا ذکر ھے نیز مسکراہٹ و تبسم کا بہی ذکر ھے۔
÷ نام کتاب: صحیح مسلم
÷ جلد: 2
÷ صفحة : 538
÷ حدیث نمبر: 1524
÷ طبع: مكتبة البشري، كراچي.
▪ لیکن بالقصد دنیاوی گفتگو کے لئے مسجد میں بیٹھنا، جائز نہیں۔ اور مسجد میں فحش اور منکر بات تو کسی حال میں جائز نہیں؛ اسکی بابت بہی روایت میں وعید وارد ھے:
🔘 عن عبدﷲ بن عمرؓ{ : سیکون في آخر الزمان قوم یکون حدیثھم فی مساجدھم ليس لله بهم من حاجة } .
( ترجمہ) آخر زمانے میں ایسے لوگ ہونگے جو مساجد میں گفتگو کیا کرینگے اور ﷲ کو ان کی کوئی ضرورت نہ ہوگی۔
٪ نام کتاب: صحیح ابن حبان
٪ جلد: 15
٪ صفحہ: 163
٪ حدیث نمبر: 6761
٪ طبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.
☪ *مستدرک حاکم میں*
یہی وعید جو بے جا اور لا یعنی گفتگو کے سلسلے میں وارد ھے اسکو مستدرک میں بہی حاکم نے بسند صحیح ذکر کی ھے:
۩ عن أنس بن مالك رضي الله تعالى عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : يأتي على الناس زمان يتحلقون في مساجدهم وليس همتهم إلا الدنيا ، ليس لله فيهم حاجة فلا تجالسوهم ،
هذا حديث صحيح ولم يخرجاه .
• المصدر : مستدرک حاکم
• المجلد: 4
• الصفحة: 468
• الرقم : 7997
• الطبع: دار الحرمين للطباعة والنشر، قاهرة، مصر.
گزشتہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کی لعنت اور نیکیوں کے ختم ہونیکی جو روایت ھے وہ مستند نہیں ؛ لیکن مساجد میں گفتگو تین طرح کی ہوسکتی ھے: خالص دینی جسکے جواز میں شبہ نہیں ۔خالص دنیوی ( فضول) جسکے عدم جواز میں شبہ نہیں دنیوی گفتگو جو مباحات کے درجہ میں ھے اسکا جواز روایات کی روشنی میں سامنے آچکا ھے۔
وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
24دسمبر: ء 2019
No comments:
Post a Comment