Saturday, December 7, 2019

چار چیزیں ہوتیں اور چار نہ ہوتیں

*•چار چیزیں ہوتیں اور چار نہ ہوتیں•*

عبقری رسالے مئی 2010 میں ایک بات لکہی دیکہی کہ ایک دفعہ حضرت موسیؑ نے مالک کائنات سے عرض کی کہ اے للہ! کیا ہی اچھا ہوتا کہ چار چیزیں ہوتیں او ر چار نہ ہوتیں۔ ٭زندگی ہوتی اور موت نہ ہوتی۔ ٭تندرستی ہوتی اور بیماری نہ ہوتی۔ ٭جوانی ہوتی اور بڑھاپا نہ ہوتا۔ ٭دولت ہوتی اور غربت نہ ہوتی۔ تو اللہ رب العزت کی طرف سے جواب آیا کہ
; اے موسیٰ ٭زندگی ہوتی اور موت نہ ہوتی تو میرا دیدار کون کرتا۔ ٭تندرستی ہوتی اور بیماری نہ ہوتی تو مجھے یاد کون کرتا۔ ٭جوانی ہوتی اور بڑھاپا نہ ہوتاتو میری عبادت کون کرتا۔ ٭دولت ہوتی اور غربت نہ ہوتی تو میرا شکر کون کرتا یہ سن کر حضرت موسیؑ نے نہایت عاجزی سے سر جھکا یا کہ اللہ تعالیٰ کا ہر کام حکمت  و دانائی سے سر شار ہے۔

کیا یہ مستند ھے؟

*•••باسمہ تعالی•••*
*الجواب وبہ التوفیق:*

مذکورہ بات ہمکو تلاشِ بسیار کے بعد بہی مستند کتب میں مل نہ سکی ؛ البتہ فارسی کی مشہور کتاب" گلزار دبستاں" میں محض ایک حکایت کے عنوان سے مذکور ھے,

*••گلزار دبستاں کی عبارت••*

(حکایت سی و نہم )

حضرت موسیؑ مناجات کرد کہ الہی چہ خوش بودے اگر چہار چیز بودے و چہار چیز نبودے , 1) زندگانی بودے و مرگ نبودے
2) بہشت بودے و دوزخ نبودے, 3)توانگری بودے و درویشی نبودے,4) تندرستی بودے و بیماری نبودے, ندا آمد: کہ اے موسی! اگر زندگانی بودے و مرگ نبودے بلقائے ما کہ مشرف شدے, اگر بہشت بودے و دوزخ نبودے , از عذابِ ما کہ ترسیدے, اگر توانگری بودے و درویشی نبودے شکرِ نعمت ما کہ گفتے و اگر تندرستی بودے و بیماری نبودے مارا کہ یاد کردے۔


• نام کتاب: گؔلزار دبستاں
• حصہ: دوم
• صفحہ: 30
• حکایت نمبر:39
• طبع: مکتبہ بلال دیوبند۔


__*حکایات کا حکم*__

حکایات کے متعلق شؔیخ الحدیث مولانا "یونس صاحب جونپوریؒ" نے " نواد الحدیث " میں لکہا ھے: کہ حکایات و مواعظ کے باب میں تشدد مناسب نہیں بلکہ حکایات کی اگر سند مل جائے تو بہت خوب ورنہ چشم پوشی کیجائے ۔اسکی سند کی تفتیش میں پڑنا غلو ھے بشرطیکہ وہ حکایت یا موعظت کسی امر شرعی یا قرآن و سنت کے مخالف نہ ہو اور نہ اس سے کسی حکم شرعی کا اثبات ہورہا ہو۔ لہذا اس حکایت کو محض حکایت کے عنوان سے بیان کیا جاسکتا ھے.

📘 وأما أخبار الصالحين وحكايات الزهاد والمتعبدين ومواعظ البلغاء، وحكم الادباء، فالاسانيد زينة لها، وليست شرطا في تاديتها.

. نام كتاب:  نوادر الحديث
. نام مؤلف: الشيخ يونس الجونفوريؒ
. صفحه: 41
. طبع:  ادارہ افادات اشرفیہ, دو بگہ, ہردوئی روڈ, لکھنؤ, یوپی الہند۔

🔰 تاہم عبقری رسالے کے متعلق اتنا عرض ھے :

اس رسالے کے مندرجات عموماً تین طرح کے ہوتے ہیں:

1- وظائف۔ 2- مجربات۔ 3- دینی مسائل اور راہ نمائی وغیرہ۔

(1⃣) وظائف سےمتعلق یہ حکم ہے کہ جو وظائف درجِ ذیل شرائط کے ساتھ ہوں وہ جائز ہیں:
(۱)  ان کا معنی  ومفہوم معلوم ہو،  (۲) ان میں  کوئی شرکیہ کلمہ نہ ہو، (۳)  ان کے مؤثر بالذات ہونے   کا اعتقاد نہ ہو ۔

       لہذا ایسے وظائف جو آیاتِ  قرآنیہ ، ادعیہ ماثورہ یا کلماتِ صحیحہ پر مشتمل ہوں  تو لوگوں کے فائدے کے لیے جائز کاموں کے لیےان کو لکھنا،  استعمال کرنا اور ان سے علاج کرنا شرعاً درست ہے؛ کیوں کہ اس کی حقیقت ایک جائز تدبیر سے زیادہ کچھ نہیں اور جن وظائف  میں کلماتِ  شرکیہ یا  کلماتِ مجہولہ یا نامعلوم قسم کے منترہوں یا الفاظ معلوم اور صحیح ہوں لیکن انہیں مؤثر حقیقی  سمجھا جائے تو ان کا استعمال  شرعاً جائز نہیں ہے۔

(2⃣) مجربات میں اگر کوئی خلافِ شرع بات نہ ہو  تو مجربات کے طور پر ان کے استعمال کی گنجائش ہے، کیوں کہ ان کا تعلق دینی امور سے نہیں ہے، بلکہ  تجربات سے ہے۔ البتہ اگر ان کا تعلق طب/میڈیکل سے ہو تو اس کے ماہرین سے رائے لیے بغیر ان پر عمل بھی مناسب نہیں ہے، ہر عمل ہر ایک کے لیے مفید نہیں ہوتا، مزاجوں اور علاقوں اور موسم کے اعتبار سے علاج میں بھی فرق آتاہے۔

(3⃣) دینی اور شرعی بات  کا مستند ہونا ضروری ہوتا ہے،  اس لیے اس میں مستند علماءِ کرام سے پوچھ پوچھ کر اور مستند کتب میں دیکھ کر ہی عمل اور نقل کیا جائے، مذکورہ رسالہ میں بسا اوقات دینی باتیں غیر مستند نقل کی جاتی ہیں، اس لیے ان کی دینی باتیں پڑھنے  اور نقل کرنے سے احتیاط کریں اور اگر کبھی ایسی کوئی بات سامنے آجائے تو مستند علماء سے تصدیق کرکے عمل کریں۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

7 دسمبر ؁2019

No comments:

Post a Comment