Tuesday, January 14, 2020

حضرت ام شریک کی کرامت

•• *حضرت ام شریکؓ کی کرامت* ••


حضرت ابن عباسؓ سے مروی ھے: کہ ام شریک کے دل میں اسلام گھر کر گیا اور وہ اس وقت مکہ مکرمہ میں سکونت پذیر تہیں اولا تو وہ قریشی خاتون ہیں ؛ لیکن بعد میں ان کا نکاح ابو العکر دوسی سے ہوگیا الغرض! قبول اسلام کے بعد وہ قریش کی خواتین میں در پردہ تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دینے لگیں تاآنکہ انکا یہ راز فاش ہوگیا تو کفار مکہ نے انکو پکڑ لیا  اور کہا: اگر ہمکو تمہاری قوم و خاندان کا پاس و لحاظ نہ ہوتا تو ہم تمہارے ساتھ وہ سب کرتے جو قبول اسلام کی پاداش میں دیگروں کے ساتھ کیا جاتا ھے ؛ لیکن بس تمکو رعایت دی جاتی ھے اور تمہیں ہم تمہاری قوم کے حوالہ کردینگے۔
ام شریک فرماتی ہیں: ان لوگوں نے مجہے مکہ سے باہر کردیا اور ایک برہنہ پشت اونٹ پر سوار کیا اور تین دن تک مجہے نہ کہانا دیا نہ پانی, تین دن مسلسل اسی طرح فاقے کیساتھ گزر گئے چنانچہ وہ لوگ دوران سفر جہاں پڑاؤ ڈالتے تو خود ہی کہاتے پیتے اور مجہے کچھ نہ دیتے اور سفر یونہی ہوتا رہا, یہی حالت جاری تہی کہ مجہے ٹھنڈک کا احساس ہوا تو پایا کہ ایک ڈول ھے جو مجہے پانی پلاتا ھے
میں نے پانی پیا اور کچھ پانی بدن و کپڑوں پر چھڑک لیا ۔وہ لوگ جب آرام سے بیدار ہوئے تو انہوں نے میرے اوپر پانی کے اثرات دیکھے اور میری حالت ظاہری میں بہی تبدیلی پائی,
تو وہ کہنے لگے: کہ تم نے رسیوں سے ہاتھ پاؤں چھڑا کر ہمارے پانی کے برتن کھول پانی پیا ھے؟ میں نے کہا: نہیں! بخدا میں نے ایسا نہیں کیا ھے؛ بلکہ جو واقعہ پیش آیا کہ ایک غیبی ڈول سے ان کو پانی پلایا گیا وہ سب ماجرا کہہ سنایا, تو وہ لوگ کہنے لگے اگر تو سچ بول رہی ھے تو تیرا مذہب ہی سچ اور برحق ھے, پھر انہوں نے اپنے پانی کے مشکیزے اور برتن چیک کیے تو وہ پانی جوں کا توں تہا اس میں کچھ کم نہ ہوا تہا تو ان کو ام شریک کی تصدیق کرنی پڑی اور سب اس واقعہ سے متاثر ہوکر مشرف باسلام ہوگئے۔

اس واقعہ کا حوالہ مطلوب ھے!!


•• *باسمہ تعالی*••
*الجواب وبہ التوفیق:*

 یہ واقعہ چند کتب میں مذکور ھے:

💠 *صُفوة الصَّفوة ميں*

 امام ابن الجوزیؒ نے اس واقعے کو " صفوۃ الصفوۃ " میں ذکر کیا ھے:

★  عن ابن عباس قال: ووقع في قلب أم شريك الإسلام وهي بمكة وهي إحدى نساء قريش ثم إحدى بني عامر بن لؤي وكانت تحت أبي العكر الدوسي فأسلمت ثم جعلت تدخل على نساء قريش سرا فتدعوهن وترغبهن في الإسلام حتى ظهر أمرها لأهل مكة فأخذوها وقالوا لها: لولا قومك لفعلنا بك وفعلنا ولكنا سنردك إليهم.

قالت: فحملوني على بعير ليس تحتي شيء موطأ ولا غيره ثم تركوني ثلاثا لا يطعموني ولا يسقوني. قالت: فما أتت علي ثلاث حتى ما في الأرض شيء أسمعه فنزلوا منزلا وكانوا إذا نزلوا أوثقوني في الشمس واستظلوا وحبسوا عني الطعام والشراب حتى يرتحلوا فبينما أنا كذلك إذ أنا بأثر شيء على برد منه ثم رفع ثم عاد فتناولته فإذا هو دلو ماء فشربت منه قليلا ثم نزع مني ثم عاد فتناولته فشربت منه قليلا ثم رفع ثم عاد أيضا ثم رفع فصنع ذلك مرارا حتى رويت ثم أفضت سائره على جسدي وثيابي. فلما استيقظوا فإذا هم بأثر الماء ورأوني حسنة الهيئة فقالوا لي: انحللت فأخذت سقاءنا فشربت منه. فقلت: لا والله ما فعلت ذلك كان من الأمر كذا وكذا فقالوا: لئن كنت صادقة فدينك خير من ديننا فنظروا إلى الأسقية فوجدوها كما تركوها وأسلموا بعد ذلك.

÷ نام کتاب : صؔفوة الصفوة
÷ نام مؤلف: ابن الجوزيؒ
÷ صفحة: 302
÷ طبع: دار الكتاب العربي، بيروت، لبنان.

 🔹 *الإصابة ميں*🔹

 اس واقعہ کو علامہ ابن حجر عسقلانیؒ نے ابونعیمؒ کے حوالے سے "الإصابة في تمييز الصحابةؓ" میں ذکر کیا ھے: جسکی سند اس طرح ھے:

۩ أخرج أبونعيم من طريق محمد بن مروان السدي - أحد المتروكين ـ وأبوموسي من طريق إبراهيم بن يونس عن زياد عن بعض أصحابه عن ابن الكلبي عن أبي صالح عن ابن عباس قال:

اسکی سند میں ایک راوی " محمد بن مروان سدی" کو ابن حجرؒ نے متروک کہا ھے۔

•المصدر: الإصابة في تمييز الصحابةؓ
• المحدث: ابن حجر العسقلانيؒ
• المجلد: 8
• الصفحة: 416
• الرقم: 12103
• الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.


🔰 *معرفة الصحابة ميں*🔰

 امام ابونعیم اصفہانیؒ نے بہی اسکو "معرفة الصحابةؓ " میں ذکر کیا ھے اور اسکی سند وہی ھے جو ابن حجر نے ذکر کی ھے:

% نام کتاب: معرفة الصحابة
% نام مؤلف: أبونعيم الاصبهانيؒ
% صفحة: 3518
% رقم: 4112
% طبع: دار الوطن للنشر، رياض،


⚠ *محمد بن مروان پر کلام*

 جیساکہ ابن حجرؒ کے حوالہ سے ہم ذکر کر چکے کہ " محمد بن مروان سدی" متروک راوی ہیں اور ان پر جرح کی گئ ھے , ابن عدیؒ نے "الکامل" میں ان کے متعلق جرح ذکر کی ھے:

۞ حدثنا ابن حماد، ثنا عباس، ثنا يحيٰ، قال: السدي الصغير صاحب الكلبي محمد بن مروان مولي الخطابيين ليس بثقة.
حدثنا الجنيدي، حدثنا البخاري، حدثنا: محمد بن مروان الكوفي،سكتوا عنه.
سمعت ابن حماد يقول: قال السعدي: محمد بن مروان السُّدي ذاهب.
قال النسائي: محمد بن مروان الكوفي،روي عن الكلبي متروك الحديث.


٭ المصدر: الكامل في ضعفاء الرجال
٭ المؤلف:  ابن عديؒ
٭ المجلد: 6
٭ الصفحة: 263
٭ الرقم: 1742
٭ الطبع: دار الفكر، بيروت، لبنان.

🔘 *تقریب التہذیب میں*

امام  ابن حجر عسقلانیؒ نے " محمد بن مروان سدی صغیر" کو متروک اور متہم بالکذب لکہا ھے:

محمد بن مروان بن عبد الله بن إسماعيل السُدِّي ـ بضم المهملة والتشديد ـ وهو الاصغر، كوفي، متهم بالكذب، من الثامنة.

》المصدر: تقريب التهذيب
》المحدث: ابن حجر العسقلانيؒ
》الصفحة: 563
》الرقم: 6284
》الطبع: بيت الأفكار الدولية، الأردن،

▪ *ابن الکلبی کے متعلق*▪

 " محمد ابن سائب کلبی " کے متعلق بہی - ابن حجرؒ - نے تقریب التہذیب میں لکہا ھے: کہ یہ بہی کذب کے الزام میں متہم ہیں نیز رافضیت کا الزام بہی ان پر لگا ھے:

💡 محمد بن السائب بن بشر الكلبي ابو النضر الكوفي، النسابة المفسر: متهم بالكذب، ورمي بالرفض،من السادسة، مات سنة ست وأربعين.

٭ المصدر: تقريب التهذيب
٭ المحدث: ابن حجرؒ
٭ الصفحة: 535
٭ الرقم: 5901
الطبع:  بيت الأفكار الدولية، الأردن.

💠 *ابن عدی کا قول*

 ابن الکلبی کے متعلق "ابن عدیؒ " کہتے ہیں : کہ ان کو نسائیؒ نے متروک الحدیث کہا ھے, اور سفیان ثوریؒ نے کہا کہ ابن کلبی ابو صالح سے جو روایت بیان کرے وہ کذب ہوتی ہیں؛ لیکن ابن عدی نے خلاصہ یہ لکہا ھے: ابن الکلبی بالخصوص جب ابو صالح عن ابن عباسؓ روایت بیان کرتے ہیں تو اس میں منکر روایات بکثرت ہوتی ہیں؛ چونکہ ابن الکلبی ضعفاء روات میں مشہور ہیں تو ان کی روایت لکھ دی جاتی ہیں۔

÷ نام کتاب : مختصر الؔکامل فی الضعفاء
÷  المحدث: تقي الدين المقريزيؒ
÷ الصفحة: 651/ 653
÷ الرقم: 1626
÷ الطبع: مكتبة السنة، قاهرة، مصر.

⭕ *خلاصہ کلام*⭕

 مذکورہ واقعہ بلحاظ سند اگر چہ ضعیف جدا یعنی بہت زیادہ ضعیف ھے ؛ لیکن در اصل یہ واقعہ و روایت کسی حکم شرعی کے اثبات کیلیے نہیں ھے  فقط ایک صحابیؓ کی کرامت کا واقعہ ھے جسکے بیان کیلیے اسناد کا قوی ہونا شرط نہیں ھے؛ بلکہ خطیب بغدادی کے حوالے سے " شیخ یونس جونپوریؒ " لکہتے ہیں: اور صالحین کے واقعات, اور زاہدین و عابدین کی حکایتیں, اور بلغاء و ادباء کی حکمت و نصیحت کی باتیں تو ان میں اسناد فقط زینت ہیں انکے بیان کرنے میں اسناد کی ضرورت نہیں۔

⚄ وأما أخبار الصالحين، وحكايات الزهاد والمتعبدين، ومواعظ البلغاء وحكم الادباء، فالأسانيد زينة لها، وليست شرطا لتأديتها.

٭ نام كتاب: نوادر الحديث
٭ نام مصنف: الشيخ يونس الجونفوريؒ
٭ صفحة: 41
٭ طبع: إدارة إفاداتِ أشرفية، دو بگہ، هردوئي روڈ، لکہنؤ، انڈیا.


🌷 *فائدہ* 🌷

 بعض لوگ اسناد کے باب میں اتنا غلو کرتے ہیں کہ حکایاتِ اولیاء میں بہی اس طرح لازم کردیتے ہیں جس طرح حدیث میں لازم سمجہی جاتی ھے اگر کسی نے تاریخ کی کتاب سے کوئی عبرت کا واقعہ سنایا یا زاہدوں کے واقعات کا تذکرہ کیا گیا تو وہ سند کا مطالبہ کرتے ہیں اور سند مقبول نہیں ملی تو اس واقعہ کا انکار کردیتے ہیں؛ بلکہ ناقل یا کتاب کی تنقید بھی کرتے ہیں اسے غلو اور بیجا تشدد ہی کہا جاسکتا ھے۔

• نام کتاب: موضوع حدیث سے بچئے
• نام مؤلف: سعید احمد مجادری
• صفحة : 174
• طبع: إدارة الصديق، ڈابہیل، گجرات، انڈیا.


والله تعالي اعلم
✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*

14 جنوری: 2020؁ء

No comments:

Post a Comment