Sunday, February 23, 2020

امام اعظم اور زنا کا جواز

▪ *امام اعظمؒ اور زنا کا جواز*▪

احباب میں سے ایک صاحب نے استفسار کیا : کہ دار الحرب (دار الکفر) میں اگر کوئی مسلمان کسی کافرہ یا مسلمہ عورت سے زنا کرلے تو کیا یہ امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک جائز ھے؟ انہوں نے اس کے متعلق امام سیوطی کی ایک عبارت ارسال فرمائی جس میں سیوطی نے صاف لکہا ھے : کہ امام اعظم نے دار الحرب میں زنا کے جواز کو کہا ہے۔ اور اس عبارت کو لیکر فقہ کے مخالفین اور امام اعظم کے ناقدین بہت شور و شغب مچارھے ہیں۔

💠 *سیوطیؒ کی عبارت* 💠

امام سیوطیؒ نے اپنی کتاب " الاکلیل فی استنباط التنزیل " میں سورہ توبہ کی آیت " ولا یطئون موطئا" کے تحت لکہا ھے: کہ اس آیت سے امام ابوحنیفہؒ نے دار الحرب میں زنا کے جواز پر استدلال کیا ھے۔

★ قوله تعالي: [ ولا يطئون موطئا] التوبة (120) الآية.
استدل بها أبوحنيفة علي جواز الزنا بنساء أهل الحرب في دار الحرب.

٭ المصدر: الإكليل في استنباط التنزيل
٭ المؤلف: جلال الدين السيوطيؒ
٭ الصفحة: 123
٭ الطبع: دار الكتاب العربي، بيروت، لبنان.

▫ *سیوطیؒ کے قول کی حقیقت* ▫

 امام اعظم ابوحنیفہؒ کی جانب دار الکفر میں مسلمان کیلیے زنا کے جواز کی نسبت کرنا درست نہیں؛ کیونکہ زنا جیسا شنیع اور گندا عمل کسی بہی ملت و مذہب میں جائز نہیں چہ جایئکہ امام اعظم جیسا مجتہد و فقیہ اسکے جواز کا حکم صادر فرمائے۔


🔰 امام شربيني نے كها كه زنا كسي بهي ملت و مذهب ميں جائز نهيں ـ

※ واتفق اهل الملل علي تحريمه،وهو من افحش الكبائر، ولم يحل في ملة قط، ولهذا كان حده اشد الحدود؛ لانه جناية علي الاعراض والانساب.

٭ المصدر: الإقناع في حل الفاظ أبي شجاع
٭ المؤلف: شمس الدين الشربيني
٭ الصفحة: 437
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

🌷 جب زنا کسی ملت میں جائز ہی نہیں تو امام سیوطی کا مذکورہ قول فقط سہو اور خطاء ھے؛ کیونکہ احناف کی کتب میں کہیں بہی یہ بات نہیں ملتی, نیز امام جلال الدین سیوطی مسلکا شافعی ہیں اور شافعی حضرات سے بہتر احناف کے علماء اپنے امام کے مسلک سے بخوبی واقف ہیں ( کہ زنا کا جواز جو منسوب بطرف امام اعظم ہے وہ درست نہیں)

🔹 *احناف کا مسلک* 🔹

اگر ہم احناف کی کتب میں دار الحرب میں زنا کے متعلق مسئلہ دیکہیں تو وہاں یہ مذکور ھے کہ اگر کوئی مسلم دار الحرب میں کسی خاتون سے زنا کا ارتکاب کرے تو اس پر حد یعنی کنوارے پر سو کوڑے اور شادی شدہ کو رجم (سنگسار) کی سزا نہ ہوگی؛ کیونکہ دار الکفر میں مسلمان امیر المومنین کو اتھارٹی و پاور حاصل نہیں۔خواہ وہ شخص واپس آکر اقرار بہی کرلے کہ مجھ سے زنا کا صدور ہوا ہے؛ کیونکہ جب ابتداء اس سے حد ساقط ہوگئ تو اب انتہاء یہ حد دوبارہ لوٹ کر نہ آئگی ۔نیز اگر مسلم لشکر کافروں کی سرحد پر مقابلہ آرا ہو پڑاؤ ڈالے ہوئے ہو اور کوئی مسلم دار الحرب کی سرحد سے پہلے یعنی اسلامی چھاؤنی میں اس گناہ کا ارتکاب کر بیٹھے اور لشکر کی کمان خلیفہ یا امیر المومنین کے ہاتھ میں نہ ہو تو فی الوقت اسکو سزا نہ ہوگی کیونکہ اس سزا دینے کا اختیار غیر خلیفہ و غیر امیر المومنین کو نہیں ھے ۔ لیکن اگر لشکر کی سربراہی خود امیر المومنین یا مسلمانوں کا خلیفہ کر رہا ہو اور اسلامی چھاؤنی میں کوئی سپاہی یہ غلط اقدام کرلے تو اسکو سزا دی جایئگی کیونکہ امیر المومنین اور خلیفہ کو سزا دینے کا حق ھے۔


* نام کتاب : البناية شرح الهداية
*  نام مؤلف: بدر الدين العينيؒ
* جلد: 6
* صفحة: 313
* طبع: دار الكتب الاسلامية بيروت،لبنان.

💎 *مزيد تفصيل فتح القدير ميں ملاحظه هو*

٭ المصدر: فتح القدير
٭ المؤلف: ابن الهمام الحنفيؒ
٭ المجلد: 5
٭ الصفحة: 254
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

▪ *احناف کا استدلال* ▪

احناف نے جو موقف اختیار کیا ھے کہ دار الکفر میں زانی پر حد( شرعی سزا) نافذ نہیں کی جایئگی اسکی دلیل ایک روایت ھے:

 قال عليه السلام: ‌《لا تقام الحدود في دار الحرب.

ترجمہ: آقائے کریم کا ارشاد ہے: کہ دار الحرب میں حد کا نفاذ نہ ہوگا۔

÷  نام کتاب: نصب الرایہ
÷ نام محدث: زیلعی
÷ جلد: 3
÷ صفحہ: 343
÷ حدیث نمبر: 5573
÷ الطبع:  دار القبلة للثقافة الإسلامية، جدة، السعودية.

➕ *طریقہ استدلال* ➕

سب کو معلوم ھے کہ دار الکفر میں مسلمانوں کے خلیفہ کو پاور و اختیارات حاصل نہیں ہیں تو جب ایسا ہے تو وہ کفار کے ملک میں کسی حکم شرعی کے نفاذ پر بہی طاقت نہیں رکہتا ھے تو پھر حدیث  کیوں ذکر کی گئ ؟ تو اسکا جواب یہی ھے کہ حدیث کا ذکر اسلیے ھے کہ اس زانی پر حد واجب نہ ہوگی نہ وہاں اور نہ یہاں دار الاسلام واپس آکر ۔


🔹 *دوسری حدیث*

قال ابو یوسف :حدثنا بعض أشياخنا عن مكحول عن زيد بن ثابت رضي الله عنه قال: لا تقام الحدود في دار الحرب مخافة أن يلحق أهلها بالعدو.

ترجمہ) حضرت امام ابو یوسف نے اپنے کچھ اساتذہ کے حوالے سے حضرت مکحول سے انہوں نے حضرت زید بن ثابت سے روایت کیا: دار الحرب میں شرعی سزا کا نفاذ نہ ہوگا ؛ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجرم ( مارے خوف کے) دشمنوں سے جا ملے۔ (حوالہ بالا)


🔰  *سند پر کلام*

 اس روایت کی سند پر امام شافعی نے کلام فرمایا: کہ سند کے درمیان سے چند راوی محذوف ہیں یہ کون ہیں؟ نیز مکحول جو ہیں وہ زید بن ثابت سے کس طرح روایت کرسکتے ہیں جبکہ انہوں نے زید کو دیکہا تک نہیں!!!

💡 قال الشافعي: ومن هذا الشيخ؟ ومكحول لم ير زيد بن ثابت.

( حوالہ بالا)

☪   *اعتراض کا جواب*

مؔحقق «ابو الوفاء افغانی» نے اسکا جواب دیا ھے: کہ امام ابویوسف نے جو اپنے شیوخ و اصحاب کا تذکرہ نہیں کیا ھے وہ بطور اختصار کیا ہے ایسا نہیں ھے کہ ان کو وہ روات معلوم نہ ہوں؛ بلکہ وہ اپنے اوپر کے راویوں کو بخوبی جانتے ہیں ۔نیز حضرت مکحول کا حضرت زید کو نہ دیکہنا بھی قادح نہیں ھے ؛ کیونکہ اس سے زیادہ سے زیادہ یہ لازم آتا ھے کہ سند میں انقطاع ہوگیا ھے یا سند مرسل ہوگئ ھے حالانکہ احناف کے یہاں ثقہ لوگوں کی مرسل روایت مقبول ہوتی ھے اور مکحول ثقہ ہیں امام ہیں ۔

قلت: روى أبو يوسف عمن روى عن ثور ومكحول كمحمد بن اسحاق وسفيان وعيسى والكلبي وأبي حنيفة وأضرابهم، ومن عادته أن يبهم أسماء شيوخه اختصاراً منه، وهو أعلم بشيوخه ، ولا بأس بعدم رؤية مكحول زيداً لأنه ثقة إمام؛ لأنه يرى الاحتجاج بالمرسل. والمنقطع، وإن لم يره الشافعي رحمه الله، فمذهبه فيه لا يكون قدوة له.

• المصدر: الرد علي سير الأوزاعي
• المؤلف: الامام أبويوسفؒ
• المحقق: أبو الوفا الأفغاني
• الصفحة: 82
• الطبع: لجنة إحياء المعارف النعمانية، حيدر آباد، الهند.

⚠ *خلاصہ کلام*

 امام اعظم ابوحنیفہؒ کا یہ مسلک بالکل نہیں کہ دار الحرب میں زنا جائز ھے؛ لہذا امام سیوطیؒ کا قول محض سہو اور خطا ہی مانا جایئگا۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
۲۳ فروری ؁ء ۲۰۲۰

Wednesday, February 19, 2020

جب زلیخا بت سے شرما گئی

▪ *جب زلیخا بت سے شرما گئ* ▪

یہ بات کہی جاتی ھے کہ جب زلیخا نے حضرت یوسفؑ سے اپنا مطلب پورا کرنا چاہا تو وہاں ایک بت رکہا ہوا تہا تو اس نے اس بت کو ڈھک دیا, حضرت یوسفؑ نے کہا: یہ کیوں کیا؟ زلیخا نے کہا: یہ میرا معبود ہے میں اسکے سامنے گناہ کی جرأت نہیں کرسکتی, تو حضرت یوسفؑ نے فرمایا : کہ میرا معبود اس سے زیادہ حیاء کا مستحق ہے اسکی نظر سے کچھ چھپا نہیں ہوتا۔

اس کی کیا حقیقت ھے ؟

••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*

جب زلیخا حضرت یوسفؑ کیساتھ گناہ کا ارادہ کرچکی تہی اور حضرت یوسفؑ کو غیر اختیاری میلان ہوا جو کہ محض خیال تہا ارادہ و عزم ہرگز نہ تہا تو اللہ تعالی نے ان کے سامنے  اپنی حجت و برہان کردی جسکی وجہ سے وہ غیر اختیاری میلان  بہی ختم ہوگیا اور سیدنا یوسف اپنا پیچھا چھڑا کر وہاں سے بھاگے ۔

اس برہان رب کی قرآن نے تفصیل بیان نہیں کی کہ وہ کیا چیز تہی؛ اسی بنا پر اس کی تشریح میں مفسرین کے متعدد اقوال ہیں جن کے لیے " تفسیر طبری, تفسیر قرطبی,تفسیر ابن کثیر , تفسیر در منثور، تفسیر بغوی, تفسیر ابن جوزی, فتح القدیر للشوکانی, روح المعانی,تفسیر فتح البیان للقنوجی وغیرہ میں سورہ یوسف آیت:24 کی تفسیر  دیکہی جاسکتی ھے۔ انہیں متعدد اقوال میں سے ایک قول یہ بھی ھے : کہ زلیخا نے کپڑے سے وہاں موجود بت کو ڈھک دیا کہنے لگی مجہے اپنے معبود سے شرم آتی ھے۔

🔘 فَرُوِيَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ زَلِيخَاءَ قَامَتْ إِلَى صَنَمٍ مُكَلَّلٍ بِالدُّرِّ وَالْيَاقُوتِ فِي زَاوِيَةِ الْبَيْتِ فَسَتَرَتْهُ بِثَوْبٍ، فَقَالَ: مَا تَصْنَعِينَ؟ قَالَتْ: أَسْتَحِي مِنْ إِلَهِي هَذَا أَنْ يَرَانِي فِي هَذِهِ الصُّورَةِ، فَقَالَ يُوسُفُ: أَنَا أَوْلَى أَنْ أَسْتَحِيَ مِنَ اللَّهِ.

٭ المصدر: تفسير القرطبي
٭ المجلد: 11
٭ الصفحة: 316
٭ الطبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.

💠 *اس قول کا ماخذ* 💠

یہ قول ابو نعیم اؔصفہانیؒ نے اپنی کتاب " حلیۃ الاولیاء " میں ذکر کیا ھے:

💡حدثنا محمد بن أحمد بن حماد بن سفيان، حدثنا محمد بن عمران الهمداني، حدثنا عبد الرحمن بن منصور الحارثي، حدثنا أحمد بن عيسى العلوي حدثني أبي، عن أبيه. قال أحمد بن عيسى: وحدثني ابن أبي فديك، عن عبد الله ابن محمد بن عمر بن علي، قال: كنت جالسا عند خالي محمد بن على وعنده يحيى ابن سعيد وربيعة الرأي، إذ جاءه الحاجب فقال: هؤلاء قوم من أهل العراق، فلخل أبو إسحاق السبيعي وجابر الجعفي وعبد الله بن عطاء والحكم بن عيينة فتحدثوا فأقبل محمد على جابر، فقال: ما يروى فقهاء أهل العراق في قوله عز وجل: " ولقد همت به وهم بها لولا أن رأى برهان ربه ". ما البرهان؟ قال: رأى يعقوب عليه السلام عاضا على إبهامه، فقال: لا، حدثني أبي، عن جدي، عن علي بن أبي طالب رضي الله تعالى عنه: أنه هم أن يحل التكة، فقامت إلى صنم مكلل بالدر والياقوت في ناحية البيت فسترته بثوب أبيض بينها وبينه، فقال: أي شيء تصنعين. فقالت: استحى من إلهي أن يراني على هذه الصورة، فقال يوسف عليه السلام: تستحين من صنم لا يأكل ولا يشرب، ولا استحى أنا من إلهي الذي هو قائم على كل نفس بما كسبت، ثم قال: والله لا تنالينها مني أبدا، فهو البرهان الذي رأى.

٭ المصدر: حلية الأولياء
٭ المحدث: أبونعيم اصفهاني
٭ المجلد: 3
٭ الصفحة: 181
٭ الطبع: مكتبة الخانجي، قاهرة، مصر.

🔰 *روایت کی سند* 🔰

اس روایت کی سند میں ایک راوی " احمد بن عیسی الہاشمی العلوی " ہیں جو متہم ہیں جیساکہ امام ذھبی وغیرہ نے امام دار قطنی کے حوالے سے میزان الاعتدال میں صراحت کی ھے؛  لہذا یہ روایت اس درجے کی نہیں ھے کہ اس قول کو حتمی اور یقینی مانا جاسکے ۔

▫ أحمد بن عيسي الهاشمي عن أبي فديك وغيره، قال الدار قطني: كذاب.

٭ المصدر: ميزان الإعتدال
٭ المحدث: الامام الذهبيؒ
٭ المجلد: 1
٭ الصفحة: 126
٭ الطبع: دار المعرفة، بيروت، لبنان.


🔹 حافظ ابو الفیض نے بھی اس راوی کے متعلق امام دار قطنی و امام ذھبی اور حافظ زین عراقی کے حوالے سے یہی بات کہی ھے : کہ احمد بن عیسی مجروح راوی ہیں۔

💎 قال زين العراقي: وأحمد هذا قال الدار قطني: كذاب، وفي الميزان ... احمد كذاب.

٭ المصدر: المداوي لعلل الجامع الصغير
٭ المحدث: ابو الفيض الغماري الحسنيؒ
٭ المجلد: 2
٭ الصفحة: 171
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
۱۹ فروری؁ء۲۰۲۰

Sunday, February 9, 2020

کنکریوں نے کلمہ پڑھا

▪ *کنکریوں نے کلمہ پڑھا* ▪

  کیا کبہی ہمارے نبی کے دست مبارک میں کنکریوں نے کلمہ پڑھا ؟کیا کبہی آپ کے دست مبارک میں کنکریوں نے رسالت کی گواہی دی ؟


••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*

آپ علیہ السلام کے بیشمار معجزات اور دلائل نبوت کتب حدیث میں موجود ہیں؛ لیکن سوال میں جو بات معلوم کی گئ ھے کہ آپ کے دست مبارک میں کنکریوں نے کلمہ پڑھا یا رسالت کی گواہی دی اس طرح کی روایت مستند نہیں ھے؛ البتہ بہت زیادہ کمزور روایت میں یہ تذکرہ ضرور ملتا ھے کہ آپ کے دست مبارک میں سنگریزوں نے تسبیح و تقدیس کی ھے:

💠أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ، أَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدٍ الصَّفَّارُ، حَدَّثَنَا الْكُدَيْمِيُّ، حَدَّثَنَا قُرَيْشُ بْنُ أَنَسٍ، وَأَنْبَأَنَا صَالِحُ بْنُ أَبِي الْأَخْضَرِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ رَجُلٍ، يُقَالُ لَهُ سُوَيْدُ بْنُ يَزِيدَ السُّلَمِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ، يَقُولُ: لَا أَذْكُرُ عُثْمَانَ إِلَّا بِخَيْرٍ بَعْدَ شَيْءٍ رَأَيْتُهُ، كُنْتُ رَجُلًا أَتَتَبَّعُ خَلَوَاتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَأَيْتُهُ يَوْمًا جَالِسًا وَحْدَهُ، فَاغْتَنَمْتُ خَلْوَتَهُ فَجِئْتُ حَتَّى جَلَسْتُ إِلَيْهِ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ فَسَلَّمَ ثُمَّ جَلَسَ عَنْ يَمِينِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ جَاءَ عُمَرُ فَسَلَّمَ فَجَلَسَ عَنْ يَمِينِ أَبِي بَكْرٍ، ثُمَّ جَاءَ عُثْمَانُ فَسَلَّمَ ثُمَّ جَلَسَ عَنْ يَمِينِ عُمَرَ، وَبَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعُ حَصَيَاتٍ، أَوْ قَالَ: تِسْعُ حَصَيَاتٍ، فَأَخَذَهُنَّ فَوَضَعَهُنَّ فِي كَفِّهِ فَسَبَّحْنَ حَتَّى سَمِعْتَ لَهُنَّ حَنِينًا كَحَنِينِ النَّحْلِ ثُمَّ وَضَعَهُنَّ فَخَرَسْنَ ثُمَّ أَخَذَهُنَّ فَوَضَعَهُنَّ فِي يَدِ أَبِي بَكْرٍ فَسَبَّحْنَ حَتَّى سَمِعْتُ لَهُنَّ حَنِينًا كَحَنِينِ النَّحْلِ، ثُمَّ وَضَعَهُنَّ فَخَرَسْنَ، ثُمَّ تَنَاوَلَهُنَّ فَوَضَعَهُنَّ فِي يَدِ عُمَرَ فَسَبَّحْنَ حَتَّى سَمِعْتُ لَهُنَّ حَنِينًا كَحَنِينِ النَّحْلِ، ثُمَّ وَضَعَهُنَّ فَخَرَسْنَ، ثُمَّ تَنَاوَلَهُنَّ فَوَضَعَهُنَّ فِي يَدِ عُثْمَانَ فَسَبَّحْنَ حَتَّى سَمِعْتُ لَهُنَّ حَنِينًا كَحَنِينِ النَّحْلِ، ثُمَّ وَضَعَهُنَّ فَخَرَسْنَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَذِهِ خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ» .


* نام کتاب: دلائل النبوة
* المحدث: ابوبكر البيهقيؒ
* المجلد: 6
* الصفحة: 64
* الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

🔰  *سند پر کلام*

 اس روایت کی سند اس قابل نہیں کہ اسکو نشر کیا جائے ؛ کیونکہ اسکی سند میں ایک راوی *محمد بن یونس الکدیمی* ہیں جن پر کذب اور وضع حدیث کا الزام ھے۔

▪ ومحمد بن یونس ھو الکدیمی, وقد ذکرنا انہ کان کذابا, وقال ابن حبان: انہ کان یضع الحدیث علی الثقات.

• المصدر: موضوعات
• المحدث:  ابن الجوزيةؒ
• المجلد: 3
• الصفحة: 204
• الطبع: المكتبة السلفية، المدينة المنورة.

والله تعالي أعلم
✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*
۹ فروری: ؁ء۲۰۲۰

Saturday, February 8, 2020

حضرت عمر کی مونچھیں

▪ *حضرت عمرؓ کی مونچھیں*▪

یہ سنا گیا ھے کہ حضرت عمر فاروقؓ بڑی مونچھیں رکہا کرتے تھے اسکا مطلب کیا ھے؟

••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*

مونچھوں میں مسنون یہ ھے کہ ان کو اس طرح کاٹا جائے کہ ہونٹوں کے اوپر کی سرخی نظر آنے لگے حضرت امام ابوحنیفہ، حضرات صاحبین اور حضرت امام احمد رحمہم اللہ کا مذہب یہ ہے کہ مونچھوں کو بالکل جڑ سے قصر کرنا مستحب ہے یعنی قینچی سے مونچھوں کو اس طرح کترا جائے کہ مونڈنے کی طرح ہوجائے۔

( مستفاد : کتاب النوازل,جلد:15, صفحہ:573, طبع: مرکزِ نشر و تحقیق لال باغ مرادآباد)

💠  *حضرت عمرؓ کے متعلق*💠

 حضرت عمرؓ بہی مسنون مونچھیں ہی رکہا کرتے ؛ تاہم ان کے متعلق اتنا ذکر ملتا ھے کہ حضرت فاروق اعظمؓ (سبالتین) یعنی مونچھوں کے دونوں کناروں کو کاٹتے نہ تھے دونوں کنارے نیچے کو ہوا کرتے تھے؛ آج کل کے چند ان لوگوں کی طرح نہیں جو مونچھوں کو تاؤ اور اوپر کو بَل دیکر رکہتے ہیں۔

🔘  وأخرج ابن عساکر عن أبي رجاءالعطاردي قال: کان عمر رجلاً طویلاً جسیما أضلع شدید الضلع أبیض شدیدالحمرة في عارضیه خفة سبلته کبیرة وفي أطرافھا صھبة.

( ترجمہ) ابن عساکر ابو رجاء عطاردی سے نقل کرتے ہیں کہ سیدنا عمر فاروق قد میں لانبے تہے, صحت میں تندرست تہے, بہت طاقتور تہے, رنگ گورا سرخی مائل تہا, ڈاڑھی گھنی نہ تہی, مونچھوں کے کنارے بڑے تہے,اور ان میں سنہرا پن تہا۔

٭ المصدر: تاريخ الخلفاء
٭ المؤلف: السیوطيؒ
٭ الصفحة: 237
٭ الطبع: دار الأوقاف والشؤون الإسلامية، قطر.


🔰 *فائده* 🔰


 واضح رہے کہ حضرت عمرؓ کا یہ عمل جمیع صحابہؓ کا عمل نہ تھا اسی وجہ سے ان کی یہ خصوصیت بیان کی جاتی ہے ؛اس لیے بال کے اس حصے کو بھی تراش لینا بہتر ہے باقی اگر کوئی اس کو ترک کردے تو گنجائش ہے کہ حضرت عمرؓ کے عمل  سے ثابت ہے۔

📘 وقال فی العرف الشذی: وأما الحد من الطرفین فلم تثبت،وتوخذ بقدر مالا توذی عند الأکل والشرب،ولعل عمل السلف أنهم کانوا یقصرون السبالتین أیضاً،فان فی تذکرة الفاروق الأعظم ذکر أنه کان یترک السبالتین واهتمام ذکر ترکه السبالتین یدل علی أن غیرہ لا یترکهما․

٭ المصدر: العرف الشذي
٭ المحدث: السيد انور شاه الكشميريؒ
٭ المجلد: 4
٭ الصفحة: 161
٭ الطبع: دار إحياء التراث العربي، بيروت، لبنان.

والّلٰه تعالي أعلم
✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*

۸ فروری: ؁۲۰۲۰ء

Friday, February 7, 2020

حضرت ابراہیم کیساتھ جنت میں رفاقت

▪ *حضرت ابراہیمؑ کیساتھ جنت میں رفاقت* ▪

 ایک بات بیان کی جارہی ھے کہ جو شخص اپنی بیوی پر خرچ میں فراخی اور وسعت کریگا ﷲ تعالی اسکو جنت میں حضرت ابراہیمؑ کی رفاقت نصیب فرمایئگا۔

کیا یہ بات درست ھے؟

••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق*

  مذکورہ بات " پردہ اور حقوق زوجین یعنی تحفۃ النساء" نامی کتاب میں مذکور ھے۔اور یہ بات مذکورہ کتاب میں  حدیث( متفق علیہ)  کی حیثیت سے بیان کی گئ ھے اسکو بخاری یا مسلم کی روایت بتانا مؤلف کا سہو ھے؛ کیونکہ ہماری ناقص معلومات کے مطابق بخاری و مسلم میں تو کیا دیگر کسی حدیث کی کتاب میں بہی یہ فضیلت تلاش و جستجو کے بعد نہ مل سکی؛ لہذا اس بات کو آگے نہ بڑھایا جائے اور اتنی بڑی فضیلت بہی نہ تسلیم کی جائے۔

• نام کتاب: تحفۃ النساء
• مؤلف: مولانا محمد کمال الدین
دہلی۔
• صفحہ:69
• طبع: دار الاشاعت کراچی۔

واللہ تعالی اعلم
✍🏻۔۔۔ کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
٧ فروری :؁ء ٢٠٢٠

Thursday, February 6, 2020

موسی ذرا سنبہل کر

▪ *موسیؑ ذرا سنبھل کر* ▪
ایک بات حضرت موسیٰ ؑ کے حوالے سے کہی جاتی ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ  جلیل القدر پیغمبر تھے جن کو اللہ سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل تھا۔ایک مرتبہ وہ اللہ تعالیٰ سے کلام کرنے کوہ طور پہاڑ(مصر) پر پہنچے تو کوہ طور سے اللہ نے غیب کی آواز میں انہیں مخاطب کیا۔ موسیٰ ؑتم پہلے کوہ طور پر آتے تھے تو تمہاری ماں تمہاری سلامتی کی دعا کیا کرتی تھیں اب ذرا سنبھل کر رہو اب تمہاری خیر کی دعا کرنے والے لب خاموش ہو گئے ہیں۔

اس کی کیا حقیقت ھے؟!!!


••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*

 یہ بات تو سچ ھے کہ ماں کا مقام و مرتبہ بہت بلند ھے احادیث میں بھی ماں کیساتھ نیک برتاؤ کی تاکید وارد ہوئی ھے؛ لیکن سوال میں معلوم کردہ واقعہ جو سیدنا موسیؑ کی جانب منسوب ھے وہ ہمکو تلاش کے باوجود بہی نہ مل سکا؛ تاہم «امام صفوری شافعی» نے ایک بات بلا سند و حوالہ اپنی کتاب " نزہۃ المجالس " میں ذکر کی ھے: جب حضرت موسیؑ کی والدہ وفات پا چکیں تو اللہ نے حضرت موسیؑ سے فرمایا: موسی! وہ آنکھ جسکے ذریعہ ہم تمکو دکہایا کرتے تہے اب بجھ چکی ھے( یعنی اب تمہاری والدہ کا سایہ سر سے اٹھ گیا ھے جسکی دعاؤں کے حصار میں تم رہا کرتے تھے) لیکن چونکہ یہ بات بلا کسی سند و حوالہ مذکور ھے ؛ لہذا اسکو حضرت موسیؑ کی جانب منسوب نہ کیا جائے۔

🌷 *نزهة المجالس* 🌷

لما ماتت امه، أوحي الله تعالي إليه: يا موسي! العين التي كنا نراك بها، طفئت.

٭ المصدر: نزهة المجالس
٭ المؤلف: عبد الرحمن الصفوريؒ
٭ المجلد: 1
٭ الصفحة: 263
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.


🔰 *فائده* 🔰

اگر کسی کی والدہ فوت ہوجایئں تو اسکو از راہ نصیحت  اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اب زندگی میں سنبھل کر چلنا کہ تمہارے لئے ماں کی دعاؤں کا سائبان باقی نہیں رہا۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻 ...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
6 فروری: ؁ء2020

Monday, February 3, 2020

نئے شہر کی پیاز

▪ *نئے شہر کی پیاز* ▪

ایک روایت خوب نشر ہورہی ھے: کہ نبی کریمؐ نے فرمایا : جب تم کسی شہر میں پہنچو تو سب سے پہلے وہاں کی پیاز کھالو؛ تو اس شہر کی بیماریاں تم سے دور رہیں گی۔

اسکی کیا حقیقت ھے؟!!!

••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*

یہ بات کتب اہل السنت والجماعت میں مذکور نہیں ھے؛ البتہ شیعی کتاب" تہذیب آل محمد" میں بلا سند و حوالہ مذکور ھے؛ لہذا اسکی نسبت نبی کریمؐ کی جانب ہرگز نہ کی جائے۔


• نام کتاب: تهذيب آل محمد
• نام مؤلف: باقر مؔجلسي
• نام مترجم: عابد عؔسكري
• صفحة: 106
• طبع: ادارة منهاج الصالحين، ؔجناح ٹاؤن، ٹھوکر نیاز بیگ، لاھور، پاکستان.


🔘 اسی سے ملتی جلتی ایک اور روایت چند کتب (الاسرار المرفوعہ, کشف الخفاء وغیرہ) میں مذکور ھے: کہ آقائے کریمؐ نے سیدنا علیؓ کو سفر کے متعلق ایک بات بتائی: کہ اے علی! جب تم سفر کا توشہ لو تو پیاز ضرور لینا؛ لیکن یہ روایت بہی ناقابل اعتبار ھے محدثین کے نزدیک من گھڑت ھے۔

🔰 يا علي! إذا تزودت، فلا تنس البصل. قال السخاوي: هو كذب.

٭ المصدر: تحذير المسلمين الخ
٭ المحدث: محمد بن البشير ظافر الازهري
٭ الصفحة: 167
٭ الرقم: 450
٭ الطبع: دار ابن كثير، دمشق.


🌷 *المقاصد الحسنة* 🌷

«يا علي إذا تزودت، فلا تنس البصل» كذب بحت، ونحوه ما أورده الديلمي في فردوسه بلا سند،عن عبد الله بن الحارث الانصاري أخي جويرة مرفوعا:  عليكم بالبصل فانه يطيب النطفة ويصلح الولد.

٭ المصدر: المقاصد الحسنة
٭ المحدث: السخاويؒ
٭ الصفحة: 738
٭ الرقم: 1336
٭ الطبع: دار الكتاب العربي، بيروت، لبنان.


وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

۳ فروری: ؁ء۲۰۲۰

حضرت ابوبکر کو خصوصی دیدار

• *حضرت ابوبکرؓ کو خصوصی دیدار* •

 ایک روایت مشہور ھے: قیامت کے دن اللہ تبارک و تعالی حضرت صدیق اکبرؓ کو اپنا خصوصی دیدار کرائینگے.

کیا یہ روایت درست ہے؟!!!

 ••• *باسمہ تعالی* ••
*الجواب وبہ التوفیق:*

  یہ روایت مستند نہیں ھے؛ محدثین نے اسکو من گھڑت کہا ھے؛ لہذا اس کی نسبت نبی کریمؐ کی جانب نہ کی جائے۔

▪ *مستدرک حاکم*▪

عن جابر قال:  -  كنَّا عند النَّبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم إذ جاءه وفدُ عبدِ القيسِ ، فتكلَّم بعضُهم ولغا في الكلامِ ، فالْتفت النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم إلى أبي بكرٍ فقال : يا أبا بكرٍ سمِعتَ ما قالوا ؟ قال : نعم يا رسولَ اللهِ ، وفهمتُه ، قال : فأجِبْهم يا أبا بكرٍ فأجابهم أبو بكرٍ بجوابٍ ، فقال له النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : يا أبا بكرٍ أعطاك اللهُ الرِّضوانَ الأكبرَ ، فقال بعضُ القومِ : ما الرِّضوانُ الأكبرُ ؟ فقال : يتجلَّى اللهُ عزَّ وجلَّ لعبادِه المؤمنين عامَّةً ، ويتجلَّى لأبي بكرٍ خاصَّةً.



🌷 اس روایت کو امام ذھبیؒ نے من گھڑت کہا ھے:

٭ المصدر: مستدرك حاكم
٭ المجلد: 3
٭ الصفحة: 88
٭ الرقم: 4525
٭ الطبع: دار الحرمين للطباعة والنشر، قاهرة، مصر.
   


▫ *الفوائد المجموعۃ* ▫

اس روایت کو امام شوکانی نے بہی من گھڑت شمار کیا ھے:

• نام کتاب: الفوائد المجموعة
• المؤلف : الامام الشوكانيؒ
• الصفحة: 330
• الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

🔘 *موضوعات ابن جوزی*🔘

  علامہ ابن الجوزیہؒ نے بہی اس روایت کے متعدد طرق نقل فرمانے کے بعد لکہا ھے: کہ یہ روایت تمام تر طرق کے لحاظ سے بہی درست نہیں ھے۔

 * نام کتاب: الموضوعات
* نام محدث: ابن الجوزيةؒ
* المجلد: 1
* الصفحة: 303
* الدرجة: لايصح
* الطبع: المكتبة السلفية، المدينة المنورة.


🔰 *اللآلي المصنوعة*🔰

امام سیوطیؒ نے بھی اس روایت کو من گھڑت کہا ھے:

÷ المصدر : اللآلي المصنوعة
÷ المحدث:  السيوطيؒ
÷ المجلد: 1
÷ الصفحة: 286
÷ الطبع: دار المعرفة، بيروت، لبنان.


والله تعالي أعلم
✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*

۳فروری: ؁۲۰۲۰ء