▪ *امام اعظمؒ اور زنا کا جواز*▪
احباب میں سے ایک صاحب نے استفسار کیا : کہ دار الحرب (دار الکفر) میں اگر کوئی مسلمان کسی کافرہ یا مسلمہ عورت سے زنا کرلے تو کیا یہ امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک جائز ھے؟ انہوں نے اس کے متعلق امام سیوطی کی ایک عبارت ارسال فرمائی جس میں سیوطی نے صاف لکہا ھے : کہ امام اعظم نے دار الحرب میں زنا کے جواز کو کہا ہے۔ اور اس عبارت کو لیکر فقہ کے مخالفین اور امام اعظم کے ناقدین بہت شور و شغب مچارھے ہیں۔
💠 *سیوطیؒ کی عبارت* 💠
امام سیوطیؒ نے اپنی کتاب " الاکلیل فی استنباط التنزیل " میں سورہ توبہ کی آیت " ولا یطئون موطئا" کے تحت لکہا ھے: کہ اس آیت سے امام ابوحنیفہؒ نے دار الحرب میں زنا کے جواز پر استدلال کیا ھے۔
★ قوله تعالي: [ ولا يطئون موطئا] التوبة (120) الآية.
استدل بها أبوحنيفة علي جواز الزنا بنساء أهل الحرب في دار الحرب.
٭ المصدر: الإكليل في استنباط التنزيل
٭ المؤلف: جلال الدين السيوطيؒ
٭ الصفحة: 123
٭ الطبع: دار الكتاب العربي، بيروت، لبنان.
▫ *سیوطیؒ کے قول کی حقیقت* ▫
امام اعظم ابوحنیفہؒ کی جانب دار الکفر میں مسلمان کیلیے زنا کے جواز کی نسبت کرنا درست نہیں؛ کیونکہ زنا جیسا شنیع اور گندا عمل کسی بہی ملت و مذہب میں جائز نہیں چہ جایئکہ امام اعظم جیسا مجتہد و فقیہ اسکے جواز کا حکم صادر فرمائے۔
🔰 امام شربيني نے كها كه زنا كسي بهي ملت و مذهب ميں جائز نهيں ـ
※ واتفق اهل الملل علي تحريمه،وهو من افحش الكبائر، ولم يحل في ملة قط، ولهذا كان حده اشد الحدود؛ لانه جناية علي الاعراض والانساب.
٭ المصدر: الإقناع في حل الفاظ أبي شجاع
٭ المؤلف: شمس الدين الشربيني
٭ الصفحة: 437
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
🌷 جب زنا کسی ملت میں جائز ہی نہیں تو امام سیوطی کا مذکورہ قول فقط سہو اور خطاء ھے؛ کیونکہ احناف کی کتب میں کہیں بہی یہ بات نہیں ملتی, نیز امام جلال الدین سیوطی مسلکا شافعی ہیں اور شافعی حضرات سے بہتر احناف کے علماء اپنے امام کے مسلک سے بخوبی واقف ہیں ( کہ زنا کا جواز جو منسوب بطرف امام اعظم ہے وہ درست نہیں)
🔹 *احناف کا مسلک* 🔹
اگر ہم احناف کی کتب میں دار الحرب میں زنا کے متعلق مسئلہ دیکہیں تو وہاں یہ مذکور ھے کہ اگر کوئی مسلم دار الحرب میں کسی خاتون سے زنا کا ارتکاب کرے تو اس پر حد یعنی کنوارے پر سو کوڑے اور شادی شدہ کو رجم (سنگسار) کی سزا نہ ہوگی؛ کیونکہ دار الکفر میں مسلمان امیر المومنین کو اتھارٹی و پاور حاصل نہیں۔خواہ وہ شخص واپس آکر اقرار بہی کرلے کہ مجھ سے زنا کا صدور ہوا ہے؛ کیونکہ جب ابتداء اس سے حد ساقط ہوگئ تو اب انتہاء یہ حد دوبارہ لوٹ کر نہ آئگی ۔نیز اگر مسلم لشکر کافروں کی سرحد پر مقابلہ آرا ہو پڑاؤ ڈالے ہوئے ہو اور کوئی مسلم دار الحرب کی سرحد سے پہلے یعنی اسلامی چھاؤنی میں اس گناہ کا ارتکاب کر بیٹھے اور لشکر کی کمان خلیفہ یا امیر المومنین کے ہاتھ میں نہ ہو تو فی الوقت اسکو سزا نہ ہوگی کیونکہ اس سزا دینے کا اختیار غیر خلیفہ و غیر امیر المومنین کو نہیں ھے ۔ لیکن اگر لشکر کی سربراہی خود امیر المومنین یا مسلمانوں کا خلیفہ کر رہا ہو اور اسلامی چھاؤنی میں کوئی سپاہی یہ غلط اقدام کرلے تو اسکو سزا دی جایئگی کیونکہ امیر المومنین اور خلیفہ کو سزا دینے کا حق ھے۔
* نام کتاب : البناية شرح الهداية
* نام مؤلف: بدر الدين العينيؒ
* جلد: 6
* صفحة: 313
* طبع: دار الكتب الاسلامية بيروت،لبنان.
💎 *مزيد تفصيل فتح القدير ميں ملاحظه هو*
٭ المصدر: فتح القدير
٭ المؤلف: ابن الهمام الحنفيؒ
٭ المجلد: 5
٭ الصفحة: 254
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
▪ *احناف کا استدلال* ▪
احناف نے جو موقف اختیار کیا ھے کہ دار الکفر میں زانی پر حد( شرعی سزا) نافذ نہیں کی جایئگی اسکی دلیل ایک روایت ھے:
قال عليه السلام: 《لا تقام الحدود في دار الحرب.
ترجمہ: آقائے کریم کا ارشاد ہے: کہ دار الحرب میں حد کا نفاذ نہ ہوگا۔
÷ نام کتاب: نصب الرایہ
÷ نام محدث: زیلعی
÷ جلد: 3
÷ صفحہ: 343
÷ حدیث نمبر: 5573
÷ الطبع: دار القبلة للثقافة الإسلامية، جدة، السعودية.
➕ *طریقہ استدلال* ➕
سب کو معلوم ھے کہ دار الکفر میں مسلمانوں کے خلیفہ کو پاور و اختیارات حاصل نہیں ہیں تو جب ایسا ہے تو وہ کفار کے ملک میں کسی حکم شرعی کے نفاذ پر بہی طاقت نہیں رکہتا ھے تو پھر حدیث کیوں ذکر کی گئ ؟ تو اسکا جواب یہی ھے کہ حدیث کا ذکر اسلیے ھے کہ اس زانی پر حد واجب نہ ہوگی نہ وہاں اور نہ یہاں دار الاسلام واپس آکر ۔
🔹 *دوسری حدیث*
قال ابو یوسف :حدثنا بعض أشياخنا عن مكحول عن زيد بن ثابت رضي الله عنه قال: لا تقام الحدود في دار الحرب مخافة أن يلحق أهلها بالعدو.
ترجمہ) حضرت امام ابو یوسف نے اپنے کچھ اساتذہ کے حوالے سے حضرت مکحول سے انہوں نے حضرت زید بن ثابت سے روایت کیا: دار الحرب میں شرعی سزا کا نفاذ نہ ہوگا ؛ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجرم ( مارے خوف کے) دشمنوں سے جا ملے۔ (حوالہ بالا)
🔰 *سند پر کلام*
اس روایت کی سند پر امام شافعی نے کلام فرمایا: کہ سند کے درمیان سے چند راوی محذوف ہیں یہ کون ہیں؟ نیز مکحول جو ہیں وہ زید بن ثابت سے کس طرح روایت کرسکتے ہیں جبکہ انہوں نے زید کو دیکہا تک نہیں!!!
💡 قال الشافعي: ومن هذا الشيخ؟ ومكحول لم ير زيد بن ثابت.
( حوالہ بالا)
☪ *اعتراض کا جواب*
مؔحقق «ابو الوفاء افغانی» نے اسکا جواب دیا ھے: کہ امام ابویوسف نے جو اپنے شیوخ و اصحاب کا تذکرہ نہیں کیا ھے وہ بطور اختصار کیا ہے ایسا نہیں ھے کہ ان کو وہ روات معلوم نہ ہوں؛ بلکہ وہ اپنے اوپر کے راویوں کو بخوبی جانتے ہیں ۔نیز حضرت مکحول کا حضرت زید کو نہ دیکہنا بھی قادح نہیں ھے ؛ کیونکہ اس سے زیادہ سے زیادہ یہ لازم آتا ھے کہ سند میں انقطاع ہوگیا ھے یا سند مرسل ہوگئ ھے حالانکہ احناف کے یہاں ثقہ لوگوں کی مرسل روایت مقبول ہوتی ھے اور مکحول ثقہ ہیں امام ہیں ۔
قلت: روى أبو يوسف عمن روى عن ثور ومكحول كمحمد بن اسحاق وسفيان وعيسى والكلبي وأبي حنيفة وأضرابهم، ومن عادته أن يبهم أسماء شيوخه اختصاراً منه، وهو أعلم بشيوخه ، ولا بأس بعدم رؤية مكحول زيداً لأنه ثقة إمام؛ لأنه يرى الاحتجاج بالمرسل. والمنقطع، وإن لم يره الشافعي رحمه الله، فمذهبه فيه لا يكون قدوة له.
• المصدر: الرد علي سير الأوزاعي
• المؤلف: الامام أبويوسفؒ
• المحقق: أبو الوفا الأفغاني
• الصفحة: 82
• الطبع: لجنة إحياء المعارف النعمانية، حيدر آباد، الهند.
⚠ *خلاصہ کلام*
امام اعظم ابوحنیفہؒ کا یہ مسلک بالکل نہیں کہ دار الحرب میں زنا جائز ھے؛ لہذا امام سیوطیؒ کا قول محض سہو اور خطا ہی مانا جایئگا۔
وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
۲۳ فروری ء ۲۰۲۰
احباب میں سے ایک صاحب نے استفسار کیا : کہ دار الحرب (دار الکفر) میں اگر کوئی مسلمان کسی کافرہ یا مسلمہ عورت سے زنا کرلے تو کیا یہ امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک جائز ھے؟ انہوں نے اس کے متعلق امام سیوطی کی ایک عبارت ارسال فرمائی جس میں سیوطی نے صاف لکہا ھے : کہ امام اعظم نے دار الحرب میں زنا کے جواز کو کہا ہے۔ اور اس عبارت کو لیکر فقہ کے مخالفین اور امام اعظم کے ناقدین بہت شور و شغب مچارھے ہیں۔
💠 *سیوطیؒ کی عبارت* 💠
امام سیوطیؒ نے اپنی کتاب " الاکلیل فی استنباط التنزیل " میں سورہ توبہ کی آیت " ولا یطئون موطئا" کے تحت لکہا ھے: کہ اس آیت سے امام ابوحنیفہؒ نے دار الحرب میں زنا کے جواز پر استدلال کیا ھے۔
★ قوله تعالي: [ ولا يطئون موطئا] التوبة (120) الآية.
استدل بها أبوحنيفة علي جواز الزنا بنساء أهل الحرب في دار الحرب.
٭ المصدر: الإكليل في استنباط التنزيل
٭ المؤلف: جلال الدين السيوطيؒ
٭ الصفحة: 123
٭ الطبع: دار الكتاب العربي، بيروت، لبنان.
▫ *سیوطیؒ کے قول کی حقیقت* ▫
امام اعظم ابوحنیفہؒ کی جانب دار الکفر میں مسلمان کیلیے زنا کے جواز کی نسبت کرنا درست نہیں؛ کیونکہ زنا جیسا شنیع اور گندا عمل کسی بہی ملت و مذہب میں جائز نہیں چہ جایئکہ امام اعظم جیسا مجتہد و فقیہ اسکے جواز کا حکم صادر فرمائے۔
🔰 امام شربيني نے كها كه زنا كسي بهي ملت و مذهب ميں جائز نهيں ـ
※ واتفق اهل الملل علي تحريمه،وهو من افحش الكبائر، ولم يحل في ملة قط، ولهذا كان حده اشد الحدود؛ لانه جناية علي الاعراض والانساب.
٭ المصدر: الإقناع في حل الفاظ أبي شجاع
٭ المؤلف: شمس الدين الشربيني
٭ الصفحة: 437
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
🌷 جب زنا کسی ملت میں جائز ہی نہیں تو امام سیوطی کا مذکورہ قول فقط سہو اور خطاء ھے؛ کیونکہ احناف کی کتب میں کہیں بہی یہ بات نہیں ملتی, نیز امام جلال الدین سیوطی مسلکا شافعی ہیں اور شافعی حضرات سے بہتر احناف کے علماء اپنے امام کے مسلک سے بخوبی واقف ہیں ( کہ زنا کا جواز جو منسوب بطرف امام اعظم ہے وہ درست نہیں)
🔹 *احناف کا مسلک* 🔹
اگر ہم احناف کی کتب میں دار الحرب میں زنا کے متعلق مسئلہ دیکہیں تو وہاں یہ مذکور ھے کہ اگر کوئی مسلم دار الحرب میں کسی خاتون سے زنا کا ارتکاب کرے تو اس پر حد یعنی کنوارے پر سو کوڑے اور شادی شدہ کو رجم (سنگسار) کی سزا نہ ہوگی؛ کیونکہ دار الکفر میں مسلمان امیر المومنین کو اتھارٹی و پاور حاصل نہیں۔خواہ وہ شخص واپس آکر اقرار بہی کرلے کہ مجھ سے زنا کا صدور ہوا ہے؛ کیونکہ جب ابتداء اس سے حد ساقط ہوگئ تو اب انتہاء یہ حد دوبارہ لوٹ کر نہ آئگی ۔نیز اگر مسلم لشکر کافروں کی سرحد پر مقابلہ آرا ہو پڑاؤ ڈالے ہوئے ہو اور کوئی مسلم دار الحرب کی سرحد سے پہلے یعنی اسلامی چھاؤنی میں اس گناہ کا ارتکاب کر بیٹھے اور لشکر کی کمان خلیفہ یا امیر المومنین کے ہاتھ میں نہ ہو تو فی الوقت اسکو سزا نہ ہوگی کیونکہ اس سزا دینے کا اختیار غیر خلیفہ و غیر امیر المومنین کو نہیں ھے ۔ لیکن اگر لشکر کی سربراہی خود امیر المومنین یا مسلمانوں کا خلیفہ کر رہا ہو اور اسلامی چھاؤنی میں کوئی سپاہی یہ غلط اقدام کرلے تو اسکو سزا دی جایئگی کیونکہ امیر المومنین اور خلیفہ کو سزا دینے کا حق ھے۔
* نام کتاب : البناية شرح الهداية
* نام مؤلف: بدر الدين العينيؒ
* جلد: 6
* صفحة: 313
* طبع: دار الكتب الاسلامية بيروت،لبنان.
💎 *مزيد تفصيل فتح القدير ميں ملاحظه هو*
٭ المصدر: فتح القدير
٭ المؤلف: ابن الهمام الحنفيؒ
٭ المجلد: 5
٭ الصفحة: 254
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
▪ *احناف کا استدلال* ▪
احناف نے جو موقف اختیار کیا ھے کہ دار الکفر میں زانی پر حد( شرعی سزا) نافذ نہیں کی جایئگی اسکی دلیل ایک روایت ھے:
قال عليه السلام: 《لا تقام الحدود في دار الحرب.
ترجمہ: آقائے کریم کا ارشاد ہے: کہ دار الحرب میں حد کا نفاذ نہ ہوگا۔
÷ نام کتاب: نصب الرایہ
÷ نام محدث: زیلعی
÷ جلد: 3
÷ صفحہ: 343
÷ حدیث نمبر: 5573
÷ الطبع: دار القبلة للثقافة الإسلامية، جدة، السعودية.
➕ *طریقہ استدلال* ➕
سب کو معلوم ھے کہ دار الکفر میں مسلمانوں کے خلیفہ کو پاور و اختیارات حاصل نہیں ہیں تو جب ایسا ہے تو وہ کفار کے ملک میں کسی حکم شرعی کے نفاذ پر بہی طاقت نہیں رکہتا ھے تو پھر حدیث کیوں ذکر کی گئ ؟ تو اسکا جواب یہی ھے کہ حدیث کا ذکر اسلیے ھے کہ اس زانی پر حد واجب نہ ہوگی نہ وہاں اور نہ یہاں دار الاسلام واپس آکر ۔
🔹 *دوسری حدیث*
قال ابو یوسف :حدثنا بعض أشياخنا عن مكحول عن زيد بن ثابت رضي الله عنه قال: لا تقام الحدود في دار الحرب مخافة أن يلحق أهلها بالعدو.
ترجمہ) حضرت امام ابو یوسف نے اپنے کچھ اساتذہ کے حوالے سے حضرت مکحول سے انہوں نے حضرت زید بن ثابت سے روایت کیا: دار الحرب میں شرعی سزا کا نفاذ نہ ہوگا ؛ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجرم ( مارے خوف کے) دشمنوں سے جا ملے۔ (حوالہ بالا)
🔰 *سند پر کلام*
اس روایت کی سند پر امام شافعی نے کلام فرمایا: کہ سند کے درمیان سے چند راوی محذوف ہیں یہ کون ہیں؟ نیز مکحول جو ہیں وہ زید بن ثابت سے کس طرح روایت کرسکتے ہیں جبکہ انہوں نے زید کو دیکہا تک نہیں!!!
💡 قال الشافعي: ومن هذا الشيخ؟ ومكحول لم ير زيد بن ثابت.
( حوالہ بالا)
☪ *اعتراض کا جواب*
مؔحقق «ابو الوفاء افغانی» نے اسکا جواب دیا ھے: کہ امام ابویوسف نے جو اپنے شیوخ و اصحاب کا تذکرہ نہیں کیا ھے وہ بطور اختصار کیا ہے ایسا نہیں ھے کہ ان کو وہ روات معلوم نہ ہوں؛ بلکہ وہ اپنے اوپر کے راویوں کو بخوبی جانتے ہیں ۔نیز حضرت مکحول کا حضرت زید کو نہ دیکہنا بھی قادح نہیں ھے ؛ کیونکہ اس سے زیادہ سے زیادہ یہ لازم آتا ھے کہ سند میں انقطاع ہوگیا ھے یا سند مرسل ہوگئ ھے حالانکہ احناف کے یہاں ثقہ لوگوں کی مرسل روایت مقبول ہوتی ھے اور مکحول ثقہ ہیں امام ہیں ۔
قلت: روى أبو يوسف عمن روى عن ثور ومكحول كمحمد بن اسحاق وسفيان وعيسى والكلبي وأبي حنيفة وأضرابهم، ومن عادته أن يبهم أسماء شيوخه اختصاراً منه، وهو أعلم بشيوخه ، ولا بأس بعدم رؤية مكحول زيداً لأنه ثقة إمام؛ لأنه يرى الاحتجاج بالمرسل. والمنقطع، وإن لم يره الشافعي رحمه الله، فمذهبه فيه لا يكون قدوة له.
• المصدر: الرد علي سير الأوزاعي
• المؤلف: الامام أبويوسفؒ
• المحقق: أبو الوفا الأفغاني
• الصفحة: 82
• الطبع: لجنة إحياء المعارف النعمانية، حيدر آباد، الهند.
⚠ *خلاصہ کلام*
امام اعظم ابوحنیفہؒ کا یہ مسلک بالکل نہیں کہ دار الحرب میں زنا جائز ھے؛ لہذا امام سیوطیؒ کا قول محض سہو اور خطا ہی مانا جایئگا۔
وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
۲۳ فروری ء ۲۰۲۰