Saturday, March 28, 2020

طاعون کے وقت ذکر رسول

▪️ *طاعون کے وقت ذکر رسولؐ* ▪️

آج کل ہر طرف " کرونا وائرس " نامی طاعون اور وباء پھیلی ہوئی ھے لوگ اسکے علاج کے لیے دینی و دنیوی علاج خوب بیان کر رھے ہیں اسی کے متعلق ایک پوسٹ منسوب بطرف _عارف باللہ حضرت حکیم اختر صاحب نور ﷲ مرقدہ_  نشر ہورہی ھے جس میں لکہا ھے : حکیم الامت مجدد ملت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ نے سرور عالم کی محبت میں ایک کتاب لکھی جسکا نام " نشر الطیب فی ذکر الحبیبؐ " ہے, یہ کتاب عشقِ رسول میں ڈوبی ہوئی ھے جس سے معلوم ہوا کہ اسکا مصنف کتنا بڑا عاشقِ رسول ہے, جب حضرت تھانوی حضور کے فضائل پر اس کتاب کو لکھ رھے تہے تو اس زمانے میں قصبہ " تھاتہ بھون " میں طاعون پھیلا ہوا تہا تو جس دن کتاب لکھتے قصبے میں کوئی موت نہیں ہوتی تھی اور جس دن ناغہ ھوجاتا تہا اسی دن کئی اموات ہوجاتی تہیں, جب حضرت تہانوی کو مسلسل یہ روایت( خبر) پہونچی تو آپ روزانہ لکہنے لگے۔اور جب روزانہ سرورِ عالم کے فضائل اور آپ کی شان کو لکہنے لگے تو وہاں طاعون ختم ہوگیا ؛ لہذا درود شریف کی کثرت بلاؤں کو ٹالنے کا اکسیر نسخہ ھے اور ایک درود شریف پر دس درجے بلند ہوتے ہیں اور دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور دس گناہ معاف ہوتے ہیں اور حضور پاک سے محبت کا حق بھی ادا ہوتا ھے۔

اس مضمون کی تحقیق مطلوب ھے کہ واقعی ایسا ہوا تہا؟

••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*

 جی یہ تحریر درست ھے اور حضرت عارف باللہ حکیم اختر صاحب نورﷲ مرقدہ نے اسکا ذکر اپنے سلسلہ مواعظ " آدابِ عشقِ رسول " میں فرمایا ھے۔

÷ نام کتاب: آدابِ عشقِ رسولؐ
÷ نام مؤلف: الشيخ حكيم اخترؒ
÷ صفحة: 11
÷ طبع: كتب خانه مظهري، گلشنِ اقبال كراچي، پاكستان.

🌼 *حضرت تھانوی کے الفاظ*🌼

طاعون کاایک متبرک علاج منجملہ اور علاجوں کے ذکر نبی کریم ﷺبھی ہے اور یہ علاج تجربہ میں آیا ہے۔یعنی میں نے ایک کتاب نشرالطیب لکھی ہے حضور ﷺکے حالات میں اسکے لکھنے کے زمانہ میں خود اس قصبہ میں تھا جس میں طاعون تھا تو میں نے یہ تجربہ کیا۔جس روز اس کا کچھ حصہ لکھا جاتا تھا تو اس روز کوئی حادثہ نہیں سنا جاتا تھا۔اور جس روز ناغہ ہوجاتا تھا۔اس روز دو چار اموات سننے میں آتی تھیں ؛ ابتداء میں تو میں نے اسکو اتفاق پر محمول کیا ؛ لیکن جب کئی مرتبہ ایسا ہوا تو مجھے خیال ہوا کہ یہ حضور کے ذکر مبارک کی برکت ھے آخر میں نے یہ التزام کیا کہ روزانہ اسکا کچھ حصہ ضرور لکھ لیتا تہا۔

• نام کتاب: خطبات حکیم الامت( میلاد النبیؑ)
• نام خطیب: حضرت حکیم الامتؒ
• جلد: 5
• صفحہ: 112
• طبع: ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ, چوک فوارہ, ملتان , پاکستان۔

🌻 *نشر الطیب کی عبارت* 🌻

آج کل فتن ظاہری جیسے طاعون زلزلہ, اور گرانی و تشویشات مختلفہ کے حوادث سے عام لوگ اور فتن باطنی جیسے شیوع بدعات و الحاد , کثرت فسق و فجور سے خاص لوگ پریشان خاطر اور مشوش رہتے ہیں ایسے اوقات میں علماء امت ہمیشہ جناب رسول کی تلاوت و تالیف روایات اور نظم مدائح و معجزات اور تکثیر صلات و سلام سے توسل کرتے رہتے ہیں ؛ چنانچہ بخاری شریف کے ختم کا معمول اور حصن حصین کی تالیف اور قصیدہ بردہ تصنیف کی وجہ مشہور و معروف ھے میرے قلب پر بہی یہ بات وارد ہوئی کہ اس رسالہ میں رسولﷲ کے حالات و روایات بھی  ہونگے,جابجا اسمیں درود شریف بہی لکھا ہوگا پڑھنے سننے والے بھی اسکی کثرت کرینگے ؛ کیا عجب ھے کہ حق تعالی ان تشویشات سے نجات دیں!.
پھر ذیل میں حاشیہ ھے اس میں صراحت ھے:
چنانچہ ابتداء رسالہ سے اس وقت تک کہ ربیع الثانی سنہ 1329 ھ ہے بفضلہ تعالی یہ قصبہ ہر بلا سے محفوظ ہے ( کیونکہ یہ رسالہ اب تک شائع نہیں ہوا) بالخصوص امسال تمام بلاد و امصار و قری میں طاعون کا اشتداد و امتداد رہا اکثر جگہ رمضان کے بعد سے شروع ھوا ھے اور اس وقت تک ساتواں مہینہ ھے امن نہیں ہوا ؛ مگر بفضلہ تعالی یہاں خود کچھ بھی اثر نہ ہوا, میرا یقین پہلے سے تہا کہ یہاں طاعون نہیں ہوگا ؛ مگر اب بعد مشاہدے کے ظاہر کرتا ہوں کہ وہ خیال (میرا کہ اسکی برکت ہوگی) صحیح ہوا, سو میں یہ بھی امید کرتا ہوں اگر یہ رسالہ شائع ہوا  تو جہاں جہاں اسکا بطریق سنت مشغلہ ہوگا ان شاءﷲ ہر قسم کا امن و سکون میسر ہوگا, آگے ہر شخص کا اعتقاد ھے انا عند ظن عبدی بی حدیث قدسی میں ارشاد ہے۔

* نام کتاب : نشر الطیب
* نام مؤلف : حضرت تھانویؒ
* صفحہ: 7
طبع: مشتاق بُک کارنر, الکریم مارکیٹ,* اردو بازار لاھور پاکستان۔


🌷 *درود کی برکت سے دفع طاعون* 🌷

حضرت ابن ابی حجلہ حضرت ابن خطیب یبروذ سے نقل فرماتے ہیں: کہ ایک صالح مرد نے ان کو بتایا: کہ نبی کریم پر کثرت سے درود پڑھنا طاعون (پلیگ) کو دور کرتا ھے, اور ابن ابی حجلہ نے کہا: کہ یہ بات بہت مقبول اور رائج ھے, اور وہ خود اٹھتے بیٹھتے درود " اللهم صل علي محمد وعلي آل محمد صلاة تعصمنا بها من الاهوال والآفات، و تطهرنا بها من جميعالسيآت. " پڑھا کرتے تھے,

٭ نام كتاب: القول البديع
٭ نام محدث: السخاويؒ
٭ صفحة: 416
٭ طبع: مؤسسة الريان، السعودية.

💐 *ترمذی میں اشارہ* 💐

 عن ابی بن کعب:  كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ إذا ذهب ثُلُثَا الليلِ قام فقال يا أيُّها الناسُ اذكُروا اللهَ اذكروا اللهَ جاءتِ الراجفةُ تَتْبَعُها الرادِفَةُ جاء الموتُ بما فيه جاء الموتُ بما فيه قال أُبَيٌّ قلْتُ يا رسولَ اللهِ إِنَّي أُكْثِرُ الصلاةَ عليْكَ فكم أجعَلُ لكَ من صلاتِي فقال ما شِئْتَ قال قلتُ الربعَ قال ما شئْتَ فإِنْ زدتَّ فهو خيرٌ لكَ قلتُ النصفَ قال ما شئتَ فإِنْ زدتَّ فهو خيرٌ لكَ قال قلْتُ فالثلثينِ قال ما شئْتَ فإِنْ زدتَّ فهو خيرٌ لكَ قلتُ أجعلُ لكَ صلاتي كلَّها قال : *إذًا تُكْفَى همَّكَ ويغفرْ لكَ ذنبُكَ*.


خلاصہ: درود کی برکت سے غموم( آفتیں) ختم ہونگے اور مغفرت ہوگی۔

× الراوي: أبي بن كعبؓ
× المحدث: الترمذيؒ
× المصدر:  سنن الترمذي
× المجلد : 4
× الصفحة : 245
× الرقم:  2457
×خلاصة:  حسن صحيح
× طبع : دار الغرب الاسلامی,بیروت.

🥀 *بذل الماعون کی عبارت*🥀

بذل الماعون میں امام ابن حجر عسقلانی نے بہی ابن ابی حجلہ کی بات  ذکر کی ھے: کہ درود کی کثرت دفع طواعین میں اکسیر ہے اور انہوں نے حضرت ابی ابن کعب کی روایت سے استدلال فرمایا ھے:


 - أنَّ رجلًا قال للنبيِّ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ أجعَلُ لكَ نِصفَ صلاتي … الحديثَ وفي آخرِهِ أجعلُ لَكَ صلاتي كلَّها قالَ إذًا تُكفى همَّكَ ويغفَرَ ذنبُكَ.

+ الراوي: أبي بن كعبؓ
+ المحدث: ابن حجر العسقلانيؒ
+ المصدر:  بذل الماعون
+ الصفحة : 333
+ خلاصة:  إسناده قوي
+ طبع: دار العاصمة، رياض.

🌹 ••• *خلاصۂ کلام* •••🌹

سوال میں معلوم کردہ پوسٹ بالکل درست ھے, نیز وباؤں کے وقت حضور اکرمؐ پر درود کثرت سے پڑھنا مؤثر ہے۔

وﷲ تعالی اعلم.
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*
28 مارچ / 2020

Tuesday, March 17, 2020

شداد کی جنت

▪ *شداد کی جنت* ▪

کہا جاتا ھے : کہ شداد نے زمین پر ایک جنت بنوائی تہی؛ لیکن جب وہ اس جنت کا دورہ کرنے گیا تو بقضائے الہی اسکو موت آگئ اور وہ اپنی جنت میں داخل بھی نہ ہوسکا۔اور اسکے متعلق ایک کہاوت شعری بہی مشہور ھے:
؎ روح شداد کی جب نکالی گئ, سیر باغِ ارم کی وہ کر نہ سکا, ہاتھ ملتا گیا اور یہ کہتا گیا, ایسی جنت کا کوئی بھروسہ نہیں۔

اسکی کیا حقیقت ھے؟

÷÷÷ *باسمہ تعالی* ÷÷÷
*الجواب وبہ التوفیق:*

"شداد" کی جنت کے متعلق جو مشہور ھے وہ چند تفاسیر کی کتب سے لوگوں میں زباں زد ہوا ھے؛ جبکہ حقیقت حال یہ ھے کہ شداد نے ایسی کوئی جنت نہیں بنوائی تہی۔

🔹 *تفسیر قرطبی میں* 🔹

امام قرطبی نے غیر یقینی طریقہ سے شداد کی جنت کا ذکر کیا ھے:

وَرُوِيَ أَنَّهُ كَانَ لِعَادٍ ابْنَانِ: شَدَّادٌ وَشَدِيدٌ، فَمَلَكَا وَقَهَرَا، ثُمَّ مَاتَ شَدِيدٌ، وَخَلَصَ الْأَمْرُ لِشَدَّادٍ فَمَلَكَ الدُّنْيَا، وَدَانَتْ لَهُ مُلُوكُهَا، فَسَمِعَ بِذِكْرِ الْجَنَّةِ، فَقَالَ: أَبْنِي مِثْلَهَا. فَبَنَى إِرَمَ في بعض صحاري عدن، في ثلاثمائة سَنَةٍ، وَكَانَ عُمُرُهُ تِسْعَمِائَةِ سَنَةٍ. وَهِيَ مَدِينَةٌ عَظِيمَةٌ، قُصُورُهَا مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، وَأَسَاطِينُهَا مِنَ الزَّبَرْجَدِ وَالْيَاقُوتِ، وَفِيهَا أَصْنَافُ الْأَشْجَارِ وَالْأَنْهَارِ الْمُطَّرِدَةِ.
 وَلَمَّا تَمَّ بِنَاؤُهَا سَارَ إِلَيْهَا بِأَهْلِ مَمْلَكَتِهِ، فَلَمَّا كَانَ مِنْهَا عَلَى مَسِيرَةِ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، بَعَثَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ صَيْحَةً مِنَ السَّمَاءِ فَهَلَكُوا.

(ترجمہ:)

ایک روایت بیان کی جاتی ھے: کہ عاد کے دو بیٹے تہے شداد اور شدید, دونوں بادشاہ ہوئے اور بڑے جابر بادشاہ ہوئے پھر شدید مرگیا, اور شداد کو حکومت مل گئ, وہ پوری دنیا کا بادشاہ بنا, تمام چھوٹے بادشاہ اسکے باجگزار اور ماتحت ہوگئے, اس نے جنت کا ذکر سنا تو کہنے لگا: اسکے مثل میں بہی بنواؤںگا, چنانچہ عدن کے صحراؤں میں تین سو سال کی مدت میں ارم نامی جنت بنوائی گئ اور شداد نے 900 سال عمر پائی, اور جنت کی کیفیت یہ تہی کہ وہ ایک بڑا شہر تہا اسکے محلات سونے چاندی کے تہے, اسکے ستون زبرجد اور یاقوت کے تھے, اس میں مختلف اقسام کے درخت اور بہتی نہریں تہیں, جب وہ جنت نما شہر بن کر تیار ہوگیا, تو شداد عمائدین مملکت کیساتھ اسکے دورے پر نکلا, ابہی باغ ارم پہونچنے میں ایک دن و رات کی مسافت باقی تہی کہ ﷲ تعالی نے ان پر ایک آسمانی چیخ بہیجی جس سے وہ سب ہلاک ہوگئے۔

* نام کتاب: تفسیر قرطبی
* جلد: 22
* صفحة: 268
* طبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.

🗯️ *تفسیر ابن کثیر میں* 🗯️

تفسیر ابن کثیر میں «علامہ ابن کثیر» نے اس کا رد فرمایا ھے: کہ یہ سب بے اصل باتیں ہیں:

 ۩وَإِنَّمَا نَبَّهْتُ عَلَى ذَلِكَ لِئَلَّا يُغْتَرَّ بِكَثِيرٍ مِمَّا ذَكَرَهُ جَمَاعَةٌ مِنَ الْمُفَسِّرِينَ عِنْدَ هَذِهِ الْآيَةِ، مِنْ ذِكْرِ مَدِينَةٍ يُقَالُ لَهَا: ﴿إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ﴾ مَبْنِيَّةٍ بِلَبِنِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، قُصُورُهَا وَدَوْرُهَا وَبَسَاتِينُهَا، وَإِنَّ حَصْبَاءَهَا لَآلِئٌ وَجَوَاهِرُ، وَتُرَابُهَا بَنَادِقُ الْمِسْكِ، وَأَنْهَارُهَا سَارِحَةٌ، وَثِمَارُهَا سَاقِطَةٌ، وَدُورُهَا لَا أَنِيسَ بِهَا، وَسُورُهَا وَأَبْوَابُهَا تَصْفَرُّ، لَيْسَ بِهَا دَاعٍ وَلَا مُجِيبٍ. وَأَنَّهَا تَنْتَقِلُ فَتَارَةٌ تَكُونُ بِأَرْضِ الشَّامِ، وَتَارَةٌ بِالْيَمَنِ، وَتَارَةٌ بِالْعِرَاقِ، وَتَارَةٌ بِغَيْرِ ذَلِكَ مِنَ الْبِلَادِ -فَإِنَّ هَذَا كُلَّهُ مِنْ خُرَافَاتِ الْإِسْرَائِيلِيِّينَ، مِنْ وَضْعِ بَعْضِ زَنَادِقَتِهِمْ، لِيَخْتَبِرُوا بِذَلِكَ عُقُولَ الْجَهَلَةِ مِنَ النَّاسِ أَنْ تُصَدِّقَهُمْ فِي جَمِيعِ ذَلِكَ.

( ترجمہ )

میں نے یہاں یہ بات اس لیے بیان کی ہے؛ تاکہ جن مفسرین نے یہاں جنت ارم کی بات کی ھے اس سے کسی کو دھوکہ نہ ہو
کہ یہ ایک شہر کا نام ہے جس کی ایک اینٹ سونے کی ہے دوسری چاندی کی اس کے مکانات، باغات وغیرہ سب چاندی سونے کے ہیں کنکر لولو اور جواہر ہیں، مٹی مشک ہے نہریں بہہ رہی ہیں، پھل تیار ہیں، کوئی رہنے سہنے والا نہیں ہے، در و دیوار خالی ہیں، کوئی ہاں ہوں کرنے والا بھی نہیں، یہ شہر جگہ بدلتا رہتا ہے کبھی شام میں، کبھی یمن میں، کبھی عراق میں، کبھی کہیں، کبھی کہیں، وغیرہ یہ سب خرافات بنو اسرائیل کی ہیں ان کے بددینوں نے یہ خود ساختہ روایت تیار کی ہے تاکہ جاہل لوگ ان کی تصدیق کریں باتیں بنائیں۔

• نام كتاب: تفسير ابن كثير
• مفسر: ابن كثيرؒ
• جلد: 14
• صفحة: 344
• طبع: مؤسسة قرطبة، جيزة، مصر.

___ *خلاصۂ کلام* ___

شؔداد کی جنت کے متعلق جو باتیں مشہور ہیں ان کا ثبوت نہیں ھے؛ لہذا ان کے بیان و نشر سے اجتناب کیا جائے۔

وﷲ تعالی اعلم
✍...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

17 مارچ، ؁ء 2020

Wednesday, March 11, 2020

فضائل اعمال میں حضور کا ایک عورت کو چھونے کا واقعہ

••• *فضائلِ اعمال میں حضورؐ کا ایک غیر محرم عورت کو چھونے کا واقعہ* •••

ایک واقعہ شؔیخ زکریا کاندھلویؒ نے فضائل اعمال میں درود شریف کے فضائل کے تحت ذکر فرمایا ہے, جس پر غیر مقلدین, اور بریلوی حضرات کو اعتراض ھے واقعہ یہ ہے: حافظ ابو نعیم حضرت سفیان ثوری سے نقل کرتے ہیں کہ میں ایک دفعہ باہر جارہا تہا میں نے ایک جوان کو دیکہا کہ جب وہ قدم اٹھاتا ھے یا رکہتا ھے تو یوں کہتا ھے " اللہم صل علی محمد وعلی آل محمد " میں نے اس سے پوچھا کیا کسی علمی دلیل سے تیرا یہ عمل ھے؟( یا محض اپنی رائے سے) اس نے پوچھا تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں سفیان ثوری, اس نے کہا: کیا عراق والے سفیان ثوری ؟ میں نے کہا: ہاں! کہنے لگا : تجہے ﷲ کی معرفت حاصل ہے؟ میں نے کہا : ہاں ھے! اس نے پوچھا : کس طرح معرفت حاصل ھے؟ میں نے کہا: رات سے دن نکالتا ھے دن سے رات نکالتا ھے , ماں کے پیٹ میں بچے کی صورت پیدا کرتا ھے, اس نے کہا:  کہ کچھ نہیں پہچانا میں نے کہا: پھر تو کس طرح پہچانتا ھے؟ اس نے کہا: کسی کام کا پختہ ارادہ کرتا ہوں اس کو فسخ کرنا پڑتا ھے اور کسی کام کے کرنے کی ٹھان لیتا ہوں ؛ مگر نہیں کرسکتا ؛ اس سے میں نے پہچان لیا کہ کوئی دوسری ہستی ہے جو میرے کاموں کو انجام دیتا ھے , میں نے پوچھا : یہ تیرا درود کیا چیز ھے؟ اس نے کہا: میں اپنی ماں کیساتھ حج کو گیا تہا میری ماں وہیں رہ گئی( یعنی مرگئ) اس کا منہ کالا ہوگیا اور اسکا پیٹ پھول گیا جس سے مجہے یہ اندازہ ہوا کہ کوئی بہت بڑا سخت گناہ ہوا ہے اس سے, میں نے ﷲ جل شانہ کی طرف دعا کیلیے ہاتھ اٹھائے تو میں نے دیکہا کہ " تہامہ" (حجاز) سے ایک بڑا ابر آیا, اس سے ایک آدمی ظاہر ہوا اس نے اپنا مبارک ہاتھ میری ماں کے منہ پر پھیرا جس سے وہ بالکل روشن ہوگیا, اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا تو ورم بالکل جاتا رہا میں نے ان سے عرض کیا: کہ آپ کون ہیں؟ کہ میری اور میری ماں کی مصیبت کو دور کیا! انہوں نے فرمایا: میں تیرا نبی محمد (ﷺ)  ہوں, میں نے عرض کیا: مجھے کوئی وصیت کیجئے تو حضور (ﷺ) نے فرمایا: کہ جب کوئی قدم رکھا کرے یا اٹھایا کرے تو " اللہم صل علی محمد و علی آل محمد " پڑھا کر۔

 ( نزہت المجالس)

اس واقعے کا ثبوت اور اس پر وارد ہونیوالے اعتراض کا جواب مطلوب ھے!!!

••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*

 یہ واقعہ حضرت شؔیخؒ نے ۩فضائل اعمال۩ میں ؞فضائلِ درود؞ کے تحت ذکر کیا ھے اور ساتھ ہی ساتھ " نزہت المجالس " کا حوالہ بہی لکہا ھے :

• نام کتاب : فضائلِ أعمال
• نام مؤلف: الشيخ زكريا الكاندهلويؒ
• جلد: 1
• صفحة: 754
• واقعه نمبر: 46
• طبع: ادارۂ دينيات، نزد: مهاراشٹر كالج، ممبئ سينٹرل، ممبئ.

🔘 نیز یہ اعتراض حضرت شؔیخ یا فضائل اعمال کتاب پر کرنا بالکل بیجا اور غیر محل ہے؛ کیونکہ حضرت شیؔخ نے اس واقعہ کو از خود نہیں لکہا ھے؛ بلکہ ٭نزہة المجالس٭ کا حوالہ دیا ھے؛ لہذا یہ اعتراض نزہت المجالس کے مصنف "امام عبد الرحمن صفوری شافعی" پر کرنا چاہئے اور ان پر ہی کیوں ؛ بلکہ ٭حلية الاؤلیاء٭ کے مصنف «حؔافظ ابونعیم اصفہانی» پر بہی کیا جانا چاہئے مزید «ابن بشکوال» پر بہی کرنا چاہئے اور ان کے ساتھ ساتھ «عؔلامہ سخاوی» پر بہی کرنا چاہئے  کیونکہ ؞شیخ زکریا؞ سے پہلے ان حضرات نے یہ واقعہ اپنی کتب میں بیان کیا ھے ؛ لہذا فقط حضرت شیخ یا ان کی تالیف کو مطعون کرنا محض بغض و عناد اور ذاتی عداوت ہے۔

☪ *القول البديع ميں*☪

وروى أبو نعيم وابن بشكوال عن سفيان الثوري أيضا قال : بينما أنا حاج إذ دخل علي شاب لا يرفع قدما ولا يضع أخرى إلا وهو يقول : اللهم صل على محمد وعلى آل محمد فقلت له : أبعلم تقول هذا ؟ قال : نعم ، ثم قال : من أنت ؟ قلت : سفيان الثوري ، قال : العراقي ؟ قلت : نعم ، قال : هل عرفت الله ؟ قلت : نعم ، قال : بم عرفته ؟ قلت : بأنه يولج الليل في النهار ويولج النهار في الليل ويصور الولد في الرحم ، قال : يا سفيان ما عرفت الله حق معرفته ، قلت : كيف تعرفه أنت ؟ قال : بفسخ العزائم والهمم ونقض العزيمة ، هممت همتي وعزمت ، فنقض عزمي ، فعرفت أن لي ربا يدبرني ، قال : قلت : فما صلاتك على النبي صلى الله عليه وسلم ؟ قال : كنت حاجا ومعي والدتي ، فسئلتني أن أدخلها البيت ، ففعلت فوقعت وتورم بطنها واسود وجهها ، قال : فجلست عندها وأنا حزين ، فرفعت يدي نحو السماء ، فقلت : يا رب هكذا تفعل من دخل بيتك ، فإذا بغمامة قد ارتفعت من قبل تهامة وإذا رجل عليه ثياب بيض فدخل البيت وأمر يده على وجهها فابيض ، وأمر يده على بطنها فابيض فسكن المرض ثم مضى ليخرج فتعلقت بثوبه فقلت : من أنت الذي فرجت عني ؟ قال : أنا نبيك محمد صلى الله عليه وسلم ، قلت : يا رسول الله!فأوصني ، قال : لا ترفع قدما ولا تضع أخرى إلا وأنت تصلي على محمد وعلى آل محمد صلى الله عليه وسلم .

٭ نام كتاب: القول البديع
٭ نام محدث:السخاويؒ
٭ صفحة: 446
٭ طبع: مؤسسة الريان، السعودية


💎 *القربة الي رب العلمين ميں*

وبإسناده عن أحمد بن جودي حدثنا ابوبكر محمدبن الحسن المنقري المعروف بالنقاش، حدثنا محمد بن شاذان المطوعي بنيسابور، حدثنا جعفر بن محمد، حدثنا شاكر، حدثنا أبونعيم حدثنا سفيان الثوري قال: الخ

٭ المصدر: القربة الي رب العلمين
٭ المؤلف: ابن بشكوالؒ
٭ الصفحة: 95
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

🔰 *نزهة المجالس ميں*🔰

٭ نام كتاب: نزهة المجالس
٭ نام مؤلف: الصفوري الشافعيؒ
٭ الصفحة: 175
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

🔹 *روایت کا درجہ* 🔹

اؔبن بشکوالؒ کی ذکر کردہ سند میں ایک راوی -احمد بن جوری- ہیں جو روایت حدیث میں کافی کمزور ہیں :

احمد بن محمد بن جوري العكبري عن خيثمة بحديث موضوع، قال الخطيب: في حديثه مناكير، حدثنا عنه أبونعيم الحافظ ... وكان الغالب علي رواياته الغرائب والمناكير.

٭ المصدر: لسان الميزان
٭ المحدث: ابن حجر العسقلانيؒ
٭ المجلد: 1
٭ الصفحة: 593
٭ الرقم: 738
٭ الطبع: دار البشائر الاسلامية، بيروت، لبنان.

▫ یہی بات مذکورہ راوی کے متعلق «حافظ ذھبی» نے بہی کہی ہے:

* نام کتاب: ميزان الاعتدال
* نام محدث: الحافظ الذهبيؒ
* جلد: 1
* الصفحة: 278
* الرقم: 536
* الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

⚠ *فائدہ*

 جب یہ روایت انتہائی ضعیف ھے تو شؔیخ نے اپنی کتاب فضائل اعمال میں ذکر کیوں کی ہے؟
(جواب) یہ اس لیے کہ ہم نے بڑے بڑے ائمہ جرح و تعدیل اور نقاد حدیث کو دیکہا کہ جب وہ رجال کی تحقیق کرنے کے موڈ میں ہوتے ہیں تو ان کا انداز تحقیق اور لب و لہجہ اور ہوتا ھے اور جب اخلاق و آداب فضائل یا ترغیب و ترہیب کے موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں تو اتنا نرم پہلو اختیار کرتے ہیں کہ موضوع روایت تک کو بطور استدلال پیش کرڈالتے ہیں اور معلوم نہیں ہوتا کہ یہ وہی ابن جوزی , منذری, نووی, ذھبی, ابن حجر , ابن تیمیہ, اور ابن قیم ہیں جن پر فن نقد و روایت بجا طور پر ناز ھے اور مجموعی طور پر ان اساطین علم حدیث کا طرز عمل صاف غمازی کرتا ھے کہ ترغیب و ترہیب وغیرہ کے باب میں چشم پوشی زیادہ ہے جسکو آج کے مدعیان علم و تحقیق نہ جانے کس مصلحت سے نظر انداز کر رہے ہیں۔؟

% نام کتاب: فضائل اعمال پر اعتراض ايك اصولي جائزه
% نام مؤلف: مولانا عبد الله معروفي مد ظلہ
% صفحة: 46
% طبع: ديوبندـ

📚 *آمدم بر سر مطلب*📚

کیا واقعتا ہمارے نبی کریمؑ نے واقعہ میں مذکور شخص کی والدہ (جو کہ حضورؑ کے حق میں غیر محرم تہیں) کو چھوا تہا؟

( جواب)

اگر واقعے کی عبارت میں غور کیا جائے تومعلوم ہوگا کہ اس میں لفظ " مس یا مسح" یعنی ٹچ کرنا یا چھونا بالکل مذکور نہیں؛ بلکہ لفظ " امرار " مذکور ھے جو "مرَّ " مشہور عربی ثلاثی مجرد کے فعل سے بنا ھے جسکے معنی ایک یہ بہی ہیں: *پار ہونا , پھلانگنا* اور ثلاثی مزید فیہ بے ہمزہ وصل کا پہلا باب ھے اور اسکا ترجمہ ہے: *گزارنا* یعنی جگہ کو ٹچ یا چھوئے بغیر *پار کرجانا , گزروادینا*

دیکھئے! (القاموس الجدید (عربی سے اردو) صفحہ: 655. طبع: کتب خانہ حسینیہ, دیوبند)

▪ لہذا اب واقعہ میں حضورؑ کے ہاتھ پھیرنے کا مطلب ہوا کہ آپ نے عورت کو ٹچ کیے اور چھوئے بغیر ہی اوپر اوپر سے اپنا دست مبارک پھیرادیا اسکے جسم و کپڑے کو ذرا ہاتھ نہ لگایا یہی جواب وکیل احناف  مولانا مفتی رب نواز مدظلہ العالی نے _فضائل اعمال کا عادلانہ دفاع_ نامی کتاب میں دیا ھے:

÷ نام کتاب: فضائل اعمال کا عادلانہ دفاع
÷ نام مؤلف: مفتی رب نواز
÷ صفحہ:177
÷ طبع: جامعہ حنفیہ, امداد ٹاؤن, شیخوپورہ روڈ , فیصل آباد, پاکستان۔


_*خلاصۂ کلام*_

 مذکورہ روایت کو ہم بحیثیت سند کمزور ضرور کہہ سکتے ہیں؛ لیکن حضور پاکؑ کا کسی غیر محرم کو چھونا ہاتھ لگانا روایت میں مذکور ہی نہیں ؛ لہذا فریقِ مخالف کا اعتراض کوئی معنی نہیں رکہتا ھے, اور جو حضرات اعتراض کا تکلف کر بیٹھے ہیں وہ یا تو کم علمی و جہالت ھے یا فقط حضرت شیخؒ سے بغض و عناد ۔


وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
11مارچ ؁ء 2020

Saturday, March 7, 2020

ملازم سے برتن ٹوٹنا

▫ *ملازم سے برتن ٹوٹنا* ▫

اس حدیث کی تحقیق درکار ہے: کہ نبی پاکؑ کا فرمان ھے: برتنوں کے ٹوٹنے پر ملازموں و خادموں کو مت مارو! کیونکہ لوگوں کی طرح برتنوں کا بھی ایک وقت مقرر ہے۔


••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*

 سوال میں معلوم کردہ روایت  مسند الفردوس للدیلمی, کنزل العمال للہندی, اور شیعی کتاب  " نہج الفصاحہ" میں بہی مذکور ہے؛ لیکن یہ روایت سندی حیثیت سے قابل بیان نہیں ھے؛ البتہ اسکا معنی و مفہوم بالکل درست ھے یعنی اگر کسی ملازم سے برتن ٹوٹ جائے یا نقصان ہوجائے تو اسکو مارا نہ جائے کیونکہ ہر شیئ کی ایک میعاد خدا کی جانب سے مقرر ھے بس یہ سوچ لیا جائے کہ اس چیز کی عمر اتنی ہی تھی اور اسکا ختم ہونا ملازم کے ہاتہوں مقدر تہا۔اس بات کی نسبت نبی کریم کی جانب کیے بغیر بیان کیا جاسکتا ھے۔

🌷 *نہج الفصاحہ میں* 🌷

 لا تضربوا إماءَكم على كسرِ إنائِكم ، فإنَّ لها آجالًا كآجالِ الناسِ.

• نام كتاب:  نهج الفصاحة
• نام مترجم : ابوالقاسم پاينده
• صفحة: 671
• نمبر: 2463
• طبع: مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی، قم، ايران

☪ *روایت پر کلام*☪

اس روایت کی سند میں ایک راوی ہیں " سعید بن هبيرة المروزي" ان کو امام شمس الدین ذھبیؒ نے متہم قرار دیا ھے:

🔘 سعيد بن هبيرة المروزي. قال ابن حبان: يروي الموضوعات عن الثقات.

* نام کتاب: ميزان الاعتدال
*نام محدث: الذهبيؒ
* المجلد: 3
* الصفحة: 236
* الرقم: 3292
* الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

واللہ تعالی اعلم
✍🏻... کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

۷ مارچ ؁ء ۲۰۲۰